آہ ! مضطر مجاز
سید معظم راز
نوٹ :یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ پڑھی جاے گی کہ حیدرآباد دکن کے ممتاز شاعر‘ماہر اقبالیات او رروزنامہ منصف کے ادبی ایڈیشن کے انچارج جناب مضطر مجاز کاجمعہ (۱۹ اکتوبر ۲۰۱۸)کی شام کو اچانک انتقال ہوگیا ۔ وہ 84برس کے تھے ۔ انہیں انگریزی‘فارسی اور اردو زبانوں پر زبردست عبور حاصل تھا۔ وہ سابق عثمانین تھے ۔
مضطرمجاز ‘ محکمہ امدادباہمی میں سب رجسٹرارکے عہدہ سے کافی برس قبل وظیفہ پر سبکدوش ہوئے تھے ۔ انہوں نے شاعرمشرق علامہ اقبال کے فارسی کلام کااردو میں ترجمہ کیا تھا جو ان کے تخلیقی وادبی سفر میں سنگ میل رکھتا ہے نیز انہوں نے غالب کے فارسی کلام کا بھی ترجمہ کیاہے۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔ ان کی ادبی خدمات چھ دہوں پرمحیط ہے ان کی شعری تصانیف میں’’موسم سنگ‘‘ ایک سخن اور ‘ایک زخم نہاں اور (طلسم مجاز) قابل ذکر ہیں۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں غالب ایوارڈ سے بھی نوازاکیاگیاتھا۔ اللہ ان کی مغفرت فرماے ۔(ج۔ا)
مضطر ؔ وہی تو عالم و فاضل ہیں آجکل
کہتے ہیں جو الف کو بڑی تمکنت سے بے!
مضطر مجاز کا مذکورہ بالا شعر اردو زبان وہ ادب کے تئیں موجودہ زوال پذیر دور میں بطور خاص یونیورسٹی سطح پر دگرگوں ہوتی حالت پر بے ساختہ یاد آتا ہے_
ادبی دنیا میں فی زمانہ انھیں جدید لب و لہجہ کے شاعر کے علاوہ بھی ماہر و مترجم اقبالیات کے حوالے سے جانا جاتا ہے_ وہ اردو کے علاوہ فارسی، ہندی، تلگو اور انگریزی ادب سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں_
ان کا کیا ہوا علامہ اقبال کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ کتابی شکل میں شائع ہوکر بے حد مقبول ہوچکا ہے_
ممتاز مزاح نگار یوسف ناظم صاحب نے لکھا تھا:
"مضطر مجاز ایک اہم شاعر ہیں اور وہ شاید اسی لئے خود کو نظر انداز کرتے رہے ہیں، مشاعروں سے گریز، محفلوں سے اجتناب_ اس بے نیازی کے باوجود ان کی شاعری اور شخصیت میں جو گرفت ہے اس نے انھیں حیدرآباد بلکہ برصغیر کی سرحدیں پار کرنے کی ڈھیل فراہم کی_ وہ الفاظ کے انتخاب، مصرعوں کے دروبست، ان کی سجاوٹ بلکہ یوں کہئے ان کیلئے مرصع کاری کا فن جانتے ہیں_ مضطر مجاز بنیادی طور پر غم و غصے کے شاعر ہیں . . . "
عین ممکن ہے آخری جملہ، یوسف ناظم صاحب نے اپنے فطری تفنن طبع مزاجی کے تحت لکھا ہو_
راقم نے شبِ ہائے گذشتہ مضطر مجاز پر ان کے اولین دو شعری مجموعہ کلام یعنی” موسمِ سنگ” اور” اِک سخن اور. . .” کے سیر حاصل مطالعہ کے بعد ان کی شخصیت و فن پر مضمون پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے_ اس تکمیل شدہ اپنے تفصیلی مضمون کو کہیں اشاعت کی خاطر اٹھائے رکھتے ہوئے مضمون کی مشمولات سے پرے "کلامِ شاعر” کے مزید چند نمونے یہاں درج کرنا مناسب سمجھتا ہے_
سربراہ مملکت کے ایک حالیہ اعلان پر جو عوامی ردعمل رہا، مضطر صاحب نے تین دہائیوں قبل اپنے ایک شعر میں کچھ یوں بیان کیا تھا:
الفاظ اس کے اور معانی کچھ اور تھے
تقریر اس کی سب کو پریشان کر گئ
جس غزل کا شعر ہے اسی غزل کا مطلع و مقطع، آج کے بریکنگ نیوز، نیوز فلیش اور عوامی ردعمل "کلچر” کا بھر پور انداز میں احاطہ کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
سسنر نہیں ہوئ تو خبر یہ کدھر گئ
کس حادثے میں دُخترِ امید مر گئ !
مضطر ؔ کچھ اور نہیں ہے اس سے گلہ مجھے
آنکھ اس کی میرے درد کی تشہیر کر گئ
اردو کتابیں خرید کر نہ پڑھنے کی شکایات تو ہم نے اپنی کم سنی سے سُنی ہیں_ فی زمانہ، کتابوں کو انمول خزانے کی طرح جمع کرنے والوں میں ادبی شخصیات ہوں کہ زبان و ادب کے قدردان قارئین، ان کی رحلت کے فوری بعد جمع شدہ اس بیش بہا ذخیرہ کو کوڑیوں کے مول ردّی فروش کے حوالے کرنے والے وارثین کی تعداد میں روزافزوں اضافہ واقعی لمحہ فکریہ ہے_
مضطر صاحب نے قریب نصف صدی قبل "فٹ پاتھ کی شہزادی” کے عنوان سے ایک بے حد مختصر لیکن پر اثر نظم کہی تھی:
دیکھئے! میر ؔ کے شعروں کی کتاب
آج فٹ پاتھ کی شہزادی بنی بیٹھی ہے
اور چار آنے میں بھی اس کو کوئی
اپنے گھر لانے کو تیار نہیں!!
مضطر صاحب کا شمار مشاعروں و محفلوں کے ایسے شعراء میں ہوتا ہے جنھیں جتنا سنا جائے اسی قدر مزید سننے کی خواہش شدید تر ہوتی جائے، میری بات کا اندازہ آپ کو ان کی ایک درج ذیل مکمل غزل سے ہوگا_ غزل برسوں پرانی ضرور ہے لیکن اس میں موجودہ دور کے سلگتے موضوعات جیسے، ملک و قوم کی بدحالی، رہنما قوم کی ایوانوں سے غیر حاضری، لمحہ آخر میں دھونس دھڑلے اور تعلقات کے سہارے ہر میدان کے مستحق افراد کی فہرست میں الٹ پھیر. . . وغیرہ پر ملاحظہ فرمائیں:
بہ صد فرو تزک و احتشام غائب تھے
پڑا جو رن تو سبھی نیک نام غائب تھے
ہوئ اذاں بھی، صفیی بھی ہوئیں درست مگر
سلام پھیرا تو سب اہلِ شام غائب تھے
سجود تھے تو انھیں بیر تھا جبینوں سے
رکوع تھے تو بصد احترام غائب تھے
تھے رنگ منچ پہ سارے امیر اور وزیر
مگر تماشا تو یہ ہے عوام غائب تھے
کہا گیا کہ ابھی اور انتظار کریں
کھڑاؤں تخت پہ رکھّے تھے رام غائب تھے
نماز پڑھنے کو اٹھے تو وقت ہی نہ رہا
شراب پینے کو بیٹھے تو جام غائب تھے
مشاعرے ہوئے ایسے بھی شہر میں مضطر ؔ
کہ شاعروں ہی کے فہرس سے نام غائب تھے!