آغاحشر کاشمیری ؛ ایک منفرد ڈرامہ نگار
عزہ معین سنبھلی
ریسرچ اسکالر ۔دہلی یونیورسٹی
حشر میں انصاف ہوگا بس یہی سنتے رہو
کچھ یہاں ہوتا رہا ہے کچھ وہاں ہو جائے گا
شعر کے خالق آغاحشر کاشمیری بلا شبہ منفردڈرامہ نگار اور عظیم شخصیت کے مالک ہیں ۔۳اپریل ۱۸۷۹ ء کو بنارس میں آغا غنی شاہ کے گھر پیدا ہوئے آغا حشر کاشمیری کی ہمہ جہت شخصیت نہ صرف انھیں ایک مایہ ناز ڈرامہ نگارکے طور پر واقف کراتی ہے بلکہ آغا حشر شاعری میں بھی ید طولی رکھتے تھے ۔
جس کے سبب ان کے ڈراموں میں شاعرانہ مکالموں سے مزید نکھار پیدا ہو گیا ہے ۔ان کی تعلیم و تربیت ان کے والد کے زیر سایہ ہوئی ۔اردو ،فارسی اور ہندی پر ذاتی مطالعہ کے سبب فاضلانہ استعداد رکھتے تھے ۔ان زبانوں کے علاوہ عربی، انگریزی، گجراتی اور بنگلہ زبانوں کی بھی خاصی واقفیت تھی ۔مطالعہ کا بے انتھا شوق رکھتے تھے ۔یہاں تک ذوق تھا کہ منٹو نے اپنی کتاب گنجے فرشتے میں دئے گئے ان کے خاکہ میں لکھا ہے کہ جس کاغذ میں سودا آتا تھا وہ بھی ان کی نگاہ قرت سے گزرے بنا نہیں جا سکتا تھا۔پڑھ ڈالنے کی عادت کے ساتھ ساتھ حافظہ بھی بلا کا حاصل تھا۔ سخن فہموں کے قدر دان تھے لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔لطیفوں اور چٹکلوں میں خشک مباحث اس طرح بیان کردیتے کہ سننے والا بھی متاثر ہو جاتا۔
زندگی کے آخری ایام لاہور میں گزارے ۔ان دنوں اپنے آخری ڈرامہ بھیشم پرتگیا کو فلمانے می مشغول تھے کہ ۲۸ اپریل ۱۹۳۵ کو مالک حقیقی سے جا ملے ۔
جن دنوں حشر نے اپنی ڈرامہ نویسی کی ابتداء کی ان دنوں بنارس میں اس فن کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔یہ آج کی طرح کوئی ادبی اور علمی کام نہیں تھا ۔اس لئے حشر بنارس چھوڑ کر ممبئی چلے گئے۔بمبئی میں کاوس جی کھٹاو کے یہان ملازم ہوگئے وہیں سے باقائدہ طور پر آغا حشر کی ڈرامہ نگاری کا آغاز ہوا ۔ آغاحشر کی ڈرامہ نگاری کی بات کرتے ہوئے یہاں وقار عظیم کاایک قول نقل کرتے ہیں کہ
ڈرامہ نگاری ،ناو ل نگاری سے زیادہ مشکل فن ہے۔
ڈرامہ اردوادب کی وہ صنف ہے جس میں ا نسانی زندگی کی عملی تصویر پیش کی جائے ۔زندگی کے کسی بھی پہلو کو اس میں موضوع بنایا جا وسکتا ہے ۔لیکن اس کی تکمیل کے لئے ادبی اصناف کی طرح محض الفاظ کافی نہیں ہیں بلکہ مجسم عمل کی طالب ہے۔
اردو میں سب سے پہلے واجدعلی شاہ نے اس صنف کی ابتداء کی اس کے بعد امانت لکھنوی نے شہرت حاصل کی ۔مہدی حسن نے شیکسپئر کے ڈراموں کا اردو ترجمہ کیا۔ پنڈت نرائن پرشاد بیتاب بنارسی ،منشی ونایک پرشاد طالب بنارسی وغیرہ آغاحشر سے پہلے ہی اس علاقہ میں بہت سے ڈرامہ لکھ کر منظر عام پر پیش کر چکے تھے ۔ اردو ڈرامہ کی ابتداء سے لے کر حالییہ دور تک بہت سے ڈرامہ نگار اپنے فن کا جوہر دکھاتے رہے ہیں ۔مغرب میں شیکسپئرکو ؑ عظیم ڈرامہ نگار مانا جاتا ہے ۔ لیکن آغا حشر کاشمیری کے ذہنی و طبعی رجحان نے ہندوستان کو دوسرا شیکسپئرعطا کیا ۔کاشمیری نے اپنے تخلیقی شعور کی بدولت ڈرام نگاری کو اعلی کاریگری کے نمونے عطا کئے ۔فنی ارتقاء کی اتنی بہترین مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ ان کی جدت پسند طبیعت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنے دور کی نمائندگی کرتے ہوئے ہم عصروں میں سب سے زیادہ ممتاز ہیں ۔ڈراموں کی ایک طویل فہرست آغا حشر کی مرہون منت ہے۔زندگی کے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی سے انھوں نے اپنے ڈراموں کو انفرادی پہچان قائم کی۔
جس زمانے سے آغاحشر نے ڈرامہ نگاری کی ابتداء کی اس زمانے میں ڈرامہ نگاری ایک معیوب عمل تھا ۔شرفاء اس میں شریک ہونا بھی باعث عار سمجھتے تھے ۔