کالم : بزمِ درویش – دو چہرے :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
دو چہرے

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

میں حسبِ معمول آفس سے گھر آرہا تھا ‘ لاہور کی سڑکوں پر ہمیشہ کی طرح ٹریفک کا سیلاب رواں دواں تھا ‘ اناڑی ڈرائیوروں ‘ ڈپریشن ناکامیوں کے مارے شہریوں نے سڑک کو ہی میدانِ جنگ بنا رکھا تھا ہر کوئی ایک دوسرے کو روندتے کچلتے آگے بڑھنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا ‘

ٹریفک کی اِس بے ترتیبی میں بنیادی کردار موٹر سائیکلوں اور رکشہ ڈرائیوروں کا تھا جو خود کو سڑکوں کا حقیقی مالک سمجھتے ہوئے ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک دوسرے کو ٹھوکریں مارتے ذرہ سی جگہ پا کر اُس میں گھُس کر مہذب لوگوں کے ہائی بلڈ پریشر کا سبب بنے ہوئے تھے‘ انڈر پاس آیا تو ٹریفک کا بہاؤ بہت سست ہوگیا اِسی دوران ذرا سی جگہ پاکر ایک نوجوان رکشہ ڈرائیورنے ہمارے سامنے چھلانگ ماری اُس کی جہالت اور من مرضی دیکھ کر میں اور میرا دوست حیران تھے کہ اِسی دوران رکشے کے پیچھے علماء کانفرنس کے رنگ برنگے فلیکس پر میری نظر پڑی جس پر مذہب ‘ تصوف کے نام نہاد ٹھیکیداردولہوں کی طرح رنگ برنگے کلاؤں پر رنگ برنگے مو تی لگے ہو ئے وطن عزیز کے علما ء کرام ‘ صوفیوں ‘ نعت خوانوں ‘ نقیبوں کی تصویریں جگ مگا رہی تھیں ۔ یتیموں کے آسرے محبوب خدا ﷺ کی غلامی اور اتباع کے دعوے دار ‘ مساجد منبروں گدیوں پر قابض اِن چہروں کے درمیان مجھے ایک نو ے سالہ ایسا درندہ صفت پیر عالم دین بھی نظر آیا کہ میرے بدن سے آتش فشاں پھٹنے لگے ۔ سانسیں تیز ‘ چہرے کا رنگ سرخ ‘ خون کی جگہ غصہ میری رگوں میں دوڑنے لگا۔ حقارت میری آنکھوں سے چھلکنے لگی ‘ آرامدہ پر سکون گاڑی مجھے تکلیف دہ ریہڑہ لگنے لگی ۔ میرا دوست میری اِس غیر یقینی تبدیلی پر حیران ہوگیا کیونکہ فطری طور پر میں ایک نرم گو میٹھا صلح جو انسان کے طور پر جانا جاتا ہوں ۔ وہ بولا سر میں نے آپ کو شاید پہلی اور آخری بار اتنے غصے میں دیکھا ہے جس پر میں بہت حیران ہوں کیا میں اِس غصے کی وجہ جان سکتا ہوں ‘ یار گاڑی تو آگے کرلو یا پھر پیچھے تب ہی میں نارمل ہو سکوں گا۔ اِسی دوران ہم انڈر پاس کراس کر کے کشادہ سڑک پر آگئے تھے ‘ دوست نے گاڑی سائیڈ پر لگا کر مجھے ٹھنڈا پانی پیش کیا جسے میں نے جلدی جلدی تندور کی طرح دہکتے جسم میں اتارا تاکہ میری طبیعت نارمل ہو سکے ‘ میں نے دو چار گہرے لمبے سانس لیے رکشہ نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا ، میں نے اشارہ کیا تو گاڑی پھر فاصلوں کو ناپنے لگی ۔ میرا دوست حیران پریشان نظروں سے بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا اُس نے میرا یہ رنگ پہلی بار دیکھا تھا وہ چاہ رہا تھا کہ میں نارمل ہوجاؤں میں جلدی ہی نارمل ہوگیا اُس کی طرف شفیق نظروں سے دیکھا اور بو لا یار میں ہر سانس کے ساتھ خالقِ کائنات کا شکر ادا کر تا ہوں کہ رب کریم نے مجھے اپنے کرمِ خاص سے صلح جو نرم پیار محبت انسانوں سے محبت کر نے والی فطرت عطا کی پھر ظلم جبر لو ٹ مار حسد بغض نفرت کے زہریلے ما دوں سے بھی پا ک رکھا ۔ تصوف کا طالبِ علم بننے اور اولیا ء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ اور پھر چند نیک بزرگوں کی جو تیاں اٹھا نے کے صدقے رب کریم نے انسانوں کے درد کو محسوس کر نے پھر اُسے مٹا نے کی کو شش کر نے کا حو صلہ مزاج اورفطرت دی اِس لیے جب بھی کوئی ضرورت مند اپنے درد دکھ تکلیف مسئلے کے حل یا مداوے کے لیے مُجھ فقیر تک آتا ہے تو وہ معصوم بکرے کی طرح گردن جھکائے کھڑا ہو تا کہ جناب میں آپ کی توجہ کا طالب ہوں آپ کے پاس آیاہوں ‘ آپ میری مدد کریں ‘ میری تکلیف درد دکھ غم پریشانی دور کریں اِس کے بدلے میں آپ میرے وسائل روپیہ پیسہ اختیارات جسم و جان جو چاہیں لے لیں لیکن میری پریشانی دور فرمائیں ۔ پریشانی تکلیف غم کا علاج تو صرف اور صرف کائنات کے اکلوتے وارث کے پاس ہی ہے لیکن تصوف کاادنیٰ طالب علم ہو نے کے ناطے لوگ مُجھ خاکسارتک بھی آجاتے ہیں کہ یہ خدا کا نیک بندہ ہے ( جبکہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے میں بخوبی آگاہ ہوں ) یہ دعا کرے گا تو خدا تعالیٰ اِس کی دعاؤں کے صدقے میں ہما ری پریشانیاں حل کر دے گا غربت مسائل کی چتا پر جھلستے ہرپاکستانی غریب عوام ہما رے جیسے ڈھونگی نام نہاد بزرگوں پیروں اور علما ء سو کے پاس آتے ہیں اب ہما رے گروپ کے لوگ یہ جانے بغیر کہ جس طرح یہ سائل بن کر ہما ری چوکھٹ پر کھڑے ہیں گردشِ ایام ہمیں بھی اِسی ذلت سے دوچار کر سکتی ہے ہم بھی کسی لا علاج بیما ری یا پریشانی میں ہوا کے دوش پر کٹی پتنگ کی طرح اِدھر اُدھر اڑتے پھریں گے لیکن ایسا نہیں ہو تا یہ لوگ خو د کو فرعون حاکم وقت سمجھ کر اِن مجبوروں کی مجبوریاں خریدتے ہیں اِن کے مسائل دولت وسائل سے اپنی تجوریاں سجاتے ہیں اور اگر سائل خوبصورت جوان عورت ہو تو اُس کے حسن سے اپنے نامہ اعمال میں اضافہ اور آخرت بھی خراب کرتے ہیں ۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کل ہما ری اولاد میں سے بھی کسی کے ساتھ یہی حادثہ یا حالات پیش آسکتے ہیں لیکن ہم پانی کے بلبلے اپنی اوقات بھو ل کر اِیسے مجبوروں بے بسوں کی مجبوریاں کیش کرا کر اُسے استعمال کر تے ہیں شدید حیرت مجھے اُس وقت ہو تی ہے جب کوئی اپنی حما قتوں گناہوں سیاہ کاروں کے باوجود شہرت کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکنے لگا ہے ‘ہزاروں لاکھوں لوگ ہا تھ باندھے غلاموں کی طرح سرجھکائے اپنی دولت وسائل پیش کرتے ہیں اور یہ بادشاہوں کی طرح ابروئے چشم پر اِنہیں حکم دیتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ شہرت کے اِس عروج پر یہ عاجز ہو جائیں تشکر خدا کے انعام پر آنکھوں پر شکرانے کے آنسو پیشانی سجدے میں شکرگزار دل و دماغ روح نعمت خدا وندی پر اور بھی عبادت گزار ہو جائے لیکن یہ بدقسمت لوگ سیاہ کار غلاظت کے لوتھڑے خدا کے بندے بننے کی بجائے اپنی ذات کے خول میں قید ہو کر انسانوں کو اپنی رعایا غلام کمی کمین سمجھ کر بے دردی سے اُن کی دولت وسائل اور عزتیں تار تار کرتے ہیں ‘ لوٹ مار عیاشیوں کے نشے میںیہ جنسی حیوانوں کا روپ دھار لیتے ہیں ‘ اچھائی برائی ‘مذہبی اقدار ‘ اخلاقی اقدار کو مکمل طور پر فراموش کر کے انسانیت کے ماتھے کے سیاہ نشان بن جاتے ہیں ‘ رکشے کے پیچھے بھی فلیکس پر علماء دین پیروں کے ہجوم کے درمیان بھی ایسی حیوان فطرت دوچہروں والا جنسی درندہ نظر آرہا تھا ۔ جس کو خدا نے دولت شہرت سے خوب نواز رکھا تھا ہزاروں لوگ گردنیں جھکا ئے اُس کے ابروئے چشم کے منتظر رہتے اِس کے دو روپ تھے معاشرے کے لوگوں کے سامنے ملک کا نیک ترین آدمی جس کی زندگی کا مقصد ہی مذہب کی پاسداری کفر کے خلاف اعلان جنگ اسلام کے جھنڈے کو سر بلند کر نے کے لیے جان مال لگا نے کو ہر وقت تیا ر الفاظ کی ایسی جادوگری کر تا کہ لوگ عش عش کر اُٹھتے دلیل منطق کا با دشاہ کو ئی اِس کے الفاظ کی جادوگری طاقت ور منا ظرانہ خطیبانہ صلاحیت کے مخالف کو چند فقروں میں ہی زیر کردیتا ۔  رلانے پر آتاتو سامعین کی آنکھوں سے آنسوؤں کی موسلادھار برسات برسا دیتا‘ جہنم کے واقعات پر لوگوں کو دھاڑیں مارکر رلا دیتا جب بصیرت آگاہی فہم ادراک شعور فلسفے پر بات کرتا تو لوگ جھوم جھوم جاتے ۔ فطرت نے اُسے بہت ساری صلاحیتوں سے خوب نواز رکھا تھا اور یہ اُن صلاحیتوں کے بھر پور استعمال سے بھی خوب واقف تھا ۔ لیکن دنیا کا ہر چالاک عیار انسان یہ بھو ل جاتا ہے کہ قافلہ شب و روز اُس سے جوانی کا رنگ چھین کر اُسے بڑھاپے کی ناتوانی بڑھا پا بد صورتی زوال بھی عطا کر ے گا ۔ لیکن خوش نصیب وہ ہے جن کا بڑھا پا قرب الٰہی سنت رسول ﷺ کی حقیقی اتباع اور اسلام کے حقیقی رنگ میں گزرے جو لوگ ساری زندگی خوفِ خدا کی حقیقی لذت سے آشنا اور شافع دو جہاں ﷺ کی حقیقی سنت کی پیروی میں گزارتے ہیں اُن کا بڑھاپا اور آخری سانسیں بھی حکم الٰہی آقا کریم ﷺ کے رنگ میں نکلتا ہے لیکن جنہوں نے ساری زندگی دو چہروں کے ساتھ زندگی گزاری لوگوں کے سامنے ایک چہرہ جبکہ خلوت میں بدنماسیا ہ کار چہرہ تو ایسے لوگوں کو بھی اللہ تو بہ کا مو قع نہیں دیتا یہ شخص بھی ایسا ہی تھا جس نے ساری زندگی عیا شیوں میں گزاری تو اب آخرت بھی کیسے سنور سکتی تھی اُسے سیاہ چہرے کے ساتھ ہی قبر میں اُترنا تھا ۔

Share
Share
Share