ولیؔ دکنی کی لفظی کائنات
محمد منہاج الدین
ریسرچ اسکالر،
سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی، ناندیڑ
کسی عہد کی پہچان یا انفرادی طور پر کسی شاعر کی پہچان کے لئے شعری لفظیات اہم رہی ہیں ۔ ولیؔ کا زمانہ شعر وشاعری کا ابتدائی زمانہ کہلاتاہے ۔ ولیؔ نے جو لفظیات استعمال کئے ہیں وہ اردو شاعری کے لئے سند بن گئے ہیں ۔ ولی ؔ اردو کا وہ پہلا شاعر ہے جس میں فارسی کے علاوہ دکنی، ریختہ ، اردو ، ہندی کے الفاظ اس خوبی سے استعمال کئے کہ ان کی سب سے الگ پہچان بن گئی ۔
ولیؔ نے جو لفظیات مخصوص طریقے سے استعمال کئے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ اس عہد کی غزلیں، لفظیات کے سبب اپنی ایک امتیازی شان و شناخت رکھتی ہیں۔ ولیؔ کی لفظیات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ لفظیات فکری اور فنی دونوں سطحوں پر اشعار کومعنی کے نئے امکانات اور تخلیقی تجربے کی تازگی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ ولیؔ کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ ان کی لفظیات اور مضامین دیگر شعرا ء سے مختلف ہے ان کی لفظیات میں قوت ہے جس سے اشعار میں تازگی اور نیا پن پیداہوجاتاہے اور فنی لحاظ سے بھی یہ لفظیات شعر کو بلندی عطا کرنے ، جو شاعر کی ہنر مندی اور قادر الکلامی پر دلالت کرتی ہیں۔ ولی نے جو نئے الفاظ اور مرکب وضع کئے ہیں وہ ایک عرصے تک اردو شاعری میں رائج رہے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
ترے دیکھنے کو اے نرگس نین
چلے چھوڑ آہو دیارِ ختن
۔۔۔
سراپا بدن گل کے پانی ہوا
ترے غم سوں جیوں شبنم اے گل بدن
۔۔۔
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
۔۔۔
گر ہوا ہے طالبِ آزادگی
بندہ مت ہو سجدہ و زناّر کا
۔۔۔
درکار نئیں ہے مسجد سجدے کو عاشقاں کے
محراب تجھ بھنواں کی اے قبلہ گاہ بس ہے
۔۔۔
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
۔۔۔
مجھ دل کے کبوتر کوں پکڑا ہے تری لٹ نے
یہ کام دھرم کاہے ٹک اس کوں چھڑاتی جا
۔۔۔
اس رات اندھاری میں مت بھول پڑوں تس سوں
ٹک پاؤں کے جھانجھے کی آواز سناتی جا
ولیؔ عہد آفرینی شخصیت کانام ہے۔ ولی نے اردو زبان کے شعری سرمائے میں گرانقدر اضافہ کیاہے۔ ابتدائی دور میں دکنی شعرا جیسے فیروز بیدری ، محمد قطب شاہ ، وجہیؔ ، غواصی ؔ اور نصرتی نے زبان و بیان اور زبان کے لغوی سرمائے میں اضافہ کیاہے۔ اس ضمن میں ولیؔ نے زبان کے لغوی سرمائے میں نئے الفاظ نئے روزمرہ اور نئے محاورات کا اضافہ کیا اور فن کے لحاظ سے بھی فارسی شعرو ادب سے استفادہ کیا ۔ شاعری کے معیارات پیمانے اور جو سانچے ان شعرا نے ایجاد کئے تھے اس کا رواج آج بھی جاری ہے۔ ولیؔ نے اردو شاعری کو جو الفاظ و معنی عطا کئے وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اس میں اردو شاعری کی جو صورت گری کی ہے وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر طیب انصاری لکھتے ہیں:
’’ ولی کی عظمت کو سبھی تذکر ہ نوسیوں نے تسلیم کیاہے۔ ولیؔ کی شخصیت انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ ولیؔ ہمارے ادب کا اہم ترین شاعر ہے اس نے جدید اردو کو جنم دیا۔ اس طرح ولیؔ اور شاعری میں مخلوق بھی ہے او رخالق بھی ۔ ولیؔ کی عظمت کا راز یہ بھی ہے کہ وقت وہ ممتاز شاعر ، مصلح زبان اور ہندوستانیت کا علمبرار ہے ولیؔ کا کلام آپ کو زبان کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ ولی ؔ نے اپنی شاعری میں نئی لفظیات داخل کرکے اس میں حسن کے ساتھ ساتھ معیار بھی پیدا کیا۔ ولیؔ سے قبل بھی دکنی شعرا میں شعریت اورحسن کی کوئی کمی نظر نہیں آتی مگر ولیؔ نے غزل کے ظاہر و معنوی حسن کو بڑھایا ۔ اپنی مخصوص لفظیات کے ذریعہ شاعری کو نقش ہائے رنگارنگ بخشا ۔ ولی ؔ کا وصف شاعر ی وصل و فراق کی کیفیت ، حسن و عشق کی نیرنگیاں ، پاکیزہ زبان فنکارانہ صنعت گری ، منفرد انداز بیان اور مخصوص لفظیات ہے‘‘۔
ولی ؔ کی لفظیات کا ذکر تو کیا گیاہے مگر اس نے جو لفظ برتے ہیں یا پھر جو مرکبات ، محاورے اور روز مرہ کا استعمال کیاہے۔ اس کوبھی پیش کرنا ضروری ہے۔ چند نمونہ پیش ہیں ۔ایاغ گل ، دامنِ سحاب ، آبروشعر ، گلِ باغِ وفا، موجِ بے تابی ، گوشہ داماں ، سبزۂ خط ، مجلسِ رنداں ، چشمۂ آب بقاء ، نمک پروردہ ، نمک دان، طناز ، بھتر ، زمردرنگ ، غیر آب ، مجلس شوخ ، ماہ اندھکار ، معدن ، جھپیٹا ، جھانجھر، لٹ ، عزیزاں کم نما، نگاہ گل رخاں ، زلف عنبریں ، اہل پند، خجل ، مطلع انور، سبزۂ و برگ ولالہ ، رگِ یاقوت ، خط پرستاں ، یک بچن ، چہرۂ گلنار ، طور ہٹ ، مخزنِ اسرار ، سجدہ وزنار ، سری جن، شانِ عسل ، آرسی جوگن ، مکھ، بھبھوتی ، مو ، لب‘ لباں ، آنکھیاں ، پختہ مغزاں ، بیاضِ گردنِ مینا، پردۂ دل ، لباسِ زعفران ، شرابِ ارغوانی، لعلِ بدخشاں ، لبلبے خوباں ، آب زلال ، سروقد ، نین مرگوں ، انکھیاں کا دنبالا، شہرِ بنگالا، خیالِ صنم چراغ، گلبدن ، بھواں ، سمرن ، درین ، صیاد، صید ، بلبل ، دلِ سیماب ،، چشمۂ خضر ، عندلیبِ عاشقی ، سایۂ ہال ہما، نرگشِ باغ حیا، دستِ قضا، شوقِ انگیز، سادہ رویاں ، سنبل خیز ، صورت طاوس، دشتِ آتش ، مخمل باف ، رقیبِ سیاہ رو، چشمِ سوزن ، عنانِ اختیار، حصارِ آشنائی، وغیرہ جیسی لفظیات کے استعمال سے ولیؔ کی شاعری معیاری اور ابدی ہوگئی ہے۔
ولیؔ کی غزلیں اپنا خاص رنگ رکھتی ہیں۔ انہوں نے کئی عام لفظیات کا استعمال بھی کیاہے۔ جو اس عہد کی غزلوں کی روایت تھی۔ اور کچھ نئے الفاظ بھی انہوں نے اردو شاعری کودئے ہیں جو ریختہ ، دکنی ، اور ہندی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اردو غزل کی تعمیرو تشکیل میں ولیؔ کی شاعری اور لفظیات کا اہم رول رہاہے۔
ولیؔ نے بہت سے ایسے الفاط و مرکبات جو ان کے پیش رونے استعمال نہیں کئے تھے۔ ان کی غزلوں میں الفاظ و تراکیب کی جو صورتیں استعمال کی گئی ہیں وہ انوکھی اور منفرد ہیں۔ نئی اردو غزل کی تعمیر و تکمیل میں جن شعرا نے اہم رول ادا کیاہے ان میں ولی ؔ کانام سرفہرست ہے۔ ولیؔ کے پاس زیادہ تر وہی الفاظ بروے کارآئے ہیں۔ جو فارسی غزل سے مخصوص ہیں البتہ انہوں نے بہت سے ہندی الفاظ کو کاٹ چھاٹ کر ان کونء معنی اور نئے پہلوؤں کے ساتھ برتاہے ہندی اور ریختہ سے جو تراکیب وضع کی ہیں ان سے اشعار تخلیقی سطح پر شاعر کی انفرادی شناخت کا وسیلہ بھی بن جاتے ہیں۔
ولیؔ نے مفرد الفاظ کے مقابلے تراکیب کا استعمال زیادہ کیاہے۔ جہاں وہ تراکیب لاتے ہیں۔ اگرچہ وہ زیادہ تر تراکیب روایتی الفاظ سے وضع کرتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے اس میں جدت اور تازگی پیدا کردیتے ہیں وہ روایتی الفاظ بالکل نئے معلوم ہونے لگے ہیں ۔ ان کے بہت سے شعر روایتی مضمون پر مبنی ہیں اور ترکیب میں کچھ الفاظ روایتی ہیں لیکن شاعر نے انہیں اس طرح باندھا ہے کہ شعر نئے مزاج سے ہم آہنگ ہوگیاہے فنی لحاظ سے بھی اس کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہوگیاہے۔ ولی کی غزل کی لفظیات کا امتیاز یہ ہے کہ دیگر غزل زبانوں کی کلاسیکی روایت کا ولیؔ کو گہرا شعور تھا۔ ان کی شاعری میں فطری طور پر کلاسکی رنگ درآیا ہے لیکن انہوں نے جہاں کلاسکی لفظیات کا استعمال کیاہے وہاں الفاظ و تراکیب کو ایسے پیراے میں ڈھال دیا ہے کہ ان کا روایتی پن بالکل محسوس نہیں ہوتا۔
ولیؔ نے پیچیدہ تخلیقی تجربوں کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کو اس روانی سے استعمال کیا کہ وہ اردو جیسے لگنے لگے۔ سنسکرت اور دکنی الفاظ کے علاوہ ریختہ کو اس فنکاری اور خوبی سے برتاکہ ایک نئی غزل کا وجود ہوگیا۔ شمالی ہندوستان میں ان کے رنگ غزل کو بے حد سراہاگیا اس کی تخلیق میں شمال والوں نے بھی غزلیں کہی ہیں ۔ولیؔ نے عموما شمالی ہند میں اور خصوصا دلی میں اردو غزل گو ئی کے رواج کو بڑھاوادیا۔ یہ ولیؔ ہی کی کرامت تھی کہ دلی میں غزل گویوں کاایک طبقہ پیدا ہوا۔ جن میں حاتم ؔ ، آبروؔ ، مضمون ؔ ، شاکرؔ ، احسن وغیرہ نے عوام کے مزاج کے مطابق غزل گوئی شروع کردی ۔لیکن انہوں نے غلطی یہ کی کہ شاعری کی بنیاد ابہام پر رکھی ، لیکن ولیؔ کے پاس ابہام گوئی نہیں تھی۔ ان شعرا نے ولی ؔ کی متعدد زمینوں پر غزلیں کہی ہیں۔ ولیؔ عمومانئی زمینیں استعمال کیاکرتے تھے۔ اور ان کے کلام میں ہندی کی گھلاو ٹ اور اس کے ساتھ ساتھ فارسی کی شیرنی اور پختگی صوفیانہ رنگ اور قادر الکلامی بھی تھی۔ ولیؔ کی ایک خاص روش تھی ۔ دراصل یہ روش وہی تھی جس کا اس عہد کا تمد ن آئینہ دار تھا۔ چند شعرپیش ہیں؛
دورِ آتش کیا ہے سرمۂ چشم
داغِ دل دیدۂ سمندر ہے
۔۔۔
تجھ دہن کو دیکھ کر بولا ولیؔ
یہ کلی ہے گلشنِ امید کی
۔۔۔
نین دلوں میں پتلی یو ہے یا کعبہ میں اسود ہے
ہرن کا ہے یونافہ یا کنول بھیتر بھنور دسیاّ
۔۔۔
ولیؔ رکھتاہوں سینے میں ہزاروں گوہر معنی
دکھاؤں اپنے جوہر کو اگر کئی جوہر آوے
غرض ولیؔ کی شاعری نت نئی لفظیات سے مزین ہے ان کے اشعار میں یہ لفظیات علم معانی و بیان کی خوبیاں پیدا کرتی ہیں۔جن کے وسیلے سے شاعری میں رنگ آمیزی اور حسن لطافت کا جادو پیدا ہو جاتاہے۔ ولی کی شاعری لفظی خوبیاں کا حسن آج بھی باقی ہے اور یہ روایت ارتقاء پذیر بھی ہے۔ ولی کے ندرتِ شعر کے متعلق نظام صدیقی لکھتے ہیں:
’’ کلام ولی سے زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہوتاہے۔ شرنگار رس سے مملو ایسے تمام جمالیاتی تجربات میں ولی کے تخلیقی تخیل اور تخلیقی ترسیل کی ہندوی سرسبزی خصوصی طور پر متاثر کرتی ہے۔ اسی صوتی ، لسانی، اسلوبی، معنویتی اور کیفیتی سرسبزی کا کرشمہ ہے کہ اکثر بیشتر جمالیاتی تحیر پیداہوتا ہے اور متواتر شدت سے محسوس ہوتارہتاہے۔ کہ ہمیں جو جمالیاتی نشاط و کیف حاصل ہورہاہے اس سے کہیں زیادہ ولی ؔ کے لاشعور اور اجتماعی لاشعور میں جمالیاتی سرشاری کی کیفیت موجزن ہے ان کے یہاں جمالیاتی تجربہ ، جسم کے جادونگر سے پھوٹتاہے اور ’’ حاضرات خیال یا عالم رویا‘‘ کی روشنی میں نہا کر پھر جسمانی سطح پر غور کرآتاہے اور اس کی بارش کرنے لگتاہے‘‘ ۔