یوگا : شریعت اسلامی کی نگاہ میں :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمیؔ

یوگا : شریعت اسلامی کی نگاہ میں

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738

جسمانی ورزش کی ہیئت پر مشتمل ’’یوگا‘‘ موجودہ صورت حال میں ایک اہم بحث کا موضوع بن چکا ہے، حکومت ہند کی درخواست اور کوشش کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے ۲۱؍ جون کو باضابطہ ’’عالمی یوگا دیوس‘‘ کے طور پر منظور کرلیا، اب ہر سال ۲۱؍ جون کو دنیا کے ایک سو نوے ممالک میں ’’یوگا ڈے‘‘ منایا جائے گا-

ہندوستان کے ہر صوبوں اور ہر شہروں میں یہ دن منایا جائے گا، صرف یہی نہیں، بلکہ اسکولوں میں یوگا بطور نصاب شامل کرنے کی تجویز منظور کی جارہی ہے، اسی بنا پر بعض مذہبی حلقوں میں یوگا کے متعلق مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں، کبھی یوگا کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو کبھی صرف ایک جسمانی ورزش کی حد تک سمجھنے کی صلاح دی جارہی ہے، ایک مسلمان کے لئے یوگا کرنا شرعی نقطۂ نظر سے درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں اکثر اہل علم کی آراء عدم جواز کی ہے، پہلے ہم اہل علم کی آراء کا تذکرہ کرتے ہیں پھر یوگا کی حقیقت کو پیش نظر رکھ کر شرعی بنیادوں پر اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
یوگا کے سلسلے میں اہل علم کی آراء:
یوگا کے متعلق دارالعلوم دیوبند(قیام: ۱۸۶۶ء) کا فتویٰ ہے:
اس میں ہندوانہ مذہبی طرز کے اعمال اور شرکیہ اقوال کہے جاتے ہیں، کسی مسلمان کے لئے اس کا کرنا جائز نہیں (دارالافتاء دارالعلوم دیوبند شائع ۱۲؍ اگست ۲۰۱۵ء ،فتویٰ نمبر ۶۰۲۵۹)
مسلم پرسنل لا بورڈ(قیام: ۱۹۷۲ء) کے سابق اسسٹنٹ جنرل سکریٹری اور تعمیر ملت حیدرآباد کے سابق صدر جناب عبد الرحیم قریشی صاحب (م ۲۰۱۶ء)کا بیان ہے:
جو لوگ اسلام پر یقین رکھتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہیں، جس نے انہیں زمین پر بھیجا ہے، یوگا کی اصل شکل اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر لاکھڑا کرنے کے مترادف ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یوگا کے آسن ’’اوم‘‘ پڑھ کر شروع کئے جاتے ہیں، تمام آسنوں کے اشلوک ہوتے ہیں سوریہ نمسکار بھی ایک آسن ہے جس میں یوگا کرنے والا شخص ہاتھ جوڑ کر سورج کے سامنے جھک جاتا ہے۔(مسلم پرسنل لا بورڈ کی دستوربچاؤ دین بچاؤ مہم ۲۷؍اگست ۲۰۱۵ء www.asiatimes.ocm)
مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی(ولادت ۱۹۴۳ء) کا بیان ہے:
یوگا کے آسنوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں شری کرشن جی نے شری ارجن کو یوگا کی تعلیم دی تھی، اس کا راست تعلق مذہب سے ہے، یوگا صرف ورزش نہیں ہے یوگا میں سورج کی پہلی کرن کو پرنام کرتے ہیں، مختلف مرحلوں میں اشلوک پڑھے جاتے ہیں جس کی بنا پر بورڈ غیر ہندؤں کو پڑھنے پڑھوانے کو غلط سمجھتا ہے۔(قاسمی،شمس تبریز، مضمون، یوگا، ملی قائدین اور مسلمان، فکر وخبر ،۲؍نومبر ۲۰۱۶ء www.Fikrokhaber.com)
جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا(قیام ۱۹۷۹ء) کے صدر مفتی، مولانا جعفر ملی رحمانی صاحب تحریرفرماتے ہیں:
یوگا جس کو آج کل ریاضت کا نام دیا گیاہے، حقیقت میں سورج کی پرستش ہے، کیوں کہ اس ریاضت کے دوران سنسکرت زبان میں ایسے الفاظ شرکیہ پڑھے جاتے ہیں جن سے سورج کی عبادت اور تعظیم مقصود ہوتی ہے، نیز یہ بدھسٹ قوم کا شعار ہے، ان شعار کو اپنانا گویا ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جب کہ اس طرح کی مشابہت ناجائز ومنع ہے، لہٰذا یوگا بھی ناجائز ومنع ہونا چاہئے۔(رحمانی،جعفر ملی ،محقق ومدلل جدید مسائل،اکل کوا ، جامعہ اشاعت العلوم ، طبع اول ۲۰۱۵ء :۲؍۷۶۶)
سعید الرحمن سنابلی نے یوگا شریعت اسلامیہ کی روشنی کے عنوان پر ایک مضمون قلمبند کیا ہے، جس میں تحریر کرتے ہیں:
سابقہ سطور میں درج کی گئی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ یوگاایک ہندوانہ طریقہ ورزش ہی نہیں؛بلکہ ان کی ایک اہم عبادت بھی ہے، جس میں وہ مختلف مذہبی اشلوکوں اور منتروں کی ادائیگی کے ساتھ سوریہ نمسکار جیسے واضح شرکیہ عمل کو انجام دیا کرتے ہیں، گویا یہ ہندوانہ پہچان پر مبنی ہے اور ان کی تہذیب کا حصہ ہے۔(ماہنامہ الفیصل،اپریل ۲۰۱۶ء شمارہ ۳۵۶ ص: ۲۵)
نوجوان معروف صحافی اور ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے لکھا ہے:
یوگا صرف ورزش نہیں ہے؛بلکہ یہ ہندوتوا کا ایک کلچر ہے، اس میں استعمال ہونیوالے دھارمک الفاظ ہیں، اگر اس سے سوریہ نمسکار اور دوسرے قابل اعتراض کلمات ہٹا بھی دئے جائیں تو بھی ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ یوگا کرے، کیوں کہ بہر صورت یہ ہندو مذہب کی پرستش کا ایک عمل ہے۔(شمس تبریز قاسمی، یوگا سب پر تھوپنے کا کیا مطلب، روزنامہ اخبار کشمیر عظمیٰ ۲؍نومبر ۲۰۱۶ء)
فکروخبر کے ایڈیٹر انصار عزیز ندوی کی رائے ہے:
یوگا صرف ورزش نہیں ہے؛بلکہ ہندومت کا ایک حصہ ہے، اس کو اسکولوں میں زبردستی نصاب میں شامل کرکے پورے ہندوستان کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی سازش ہے۔( یوگا اور سوریہ نمسکار کا فتنہ، انصار عزیز ندوی، فکروخبر ۹؍مارچ ۲۰۱۶ء)

یوگا کی حقیقت:
اس سے پہلے کہ ہم اہل علم کی آراء کا شرعی جائزہ لیں، ضروری معلوم ہوتا ہے یوگا کی حقیقت واضح کی جائے’’یوگا‘‘ سنسکرت لفظ ’’یوج‘‘سے نکلا ہے، جس کے معنی ہم آہنگ ہونے اور ملنے کے ہیں، یوگا کی تقریبا ۱۸۵ ورزش کی ترکیبیں ہیں، یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے، یوگا کرنے والے اصل مشاق ابتداء ودوران اور ختم پر کئی اشلوک ورد کرتے اور گاتے رہتے ہیں(ابوالعزم، یوگا شریعت اسلامی کی نظر میں،دہلی، نیوکریسنٹ پبلیشنگ کمپنی ، نومبر۲۰۱۰ء ،ص:۴۰) یوگا کا مقصد ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پر اسرار رازوں تک پہونچناہے،ہندؤں کی مقدس کتابوں ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں، یوگا کو ہندؤں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھوسنت اپنے مٹھوں میں ہندومذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض روزانہ انجام دیتے ہیں، بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا پر مبنی ہے، جس میں ہندؤں کے ایک بھگوان شری کرشن نے ا رجن کویوگا کی اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو سمجھایا ہے، ارجن نے شری کرشن سے پوچھا تم نے یوگا کے متعلق بتایا، روح کے متعلق بتایا لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے، عقل مضبوط اور ضدی اور پر مقصود ہوتی ہے، اس کو ہوا کی طرح نہیں خارج کیا جاسکتا ہے اس پر کرشن نے جواب دیا، یقیناًعقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہوتی ہے، لیکن اس کی تربیت ابھیاسا(Abhyasa) کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا (Vargaa) سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔( Bks i yengar,light on yoga page:17 For safe in the indian subcontinent only)
یوگا کو سندھ کی وادیوں میں تیسری صدی عیسوی سے قبل مسوپتا میاکی تہذیب سے بھی جوڑا جاتا ہے، ہندؤں کے مطابق یوگا کی شکل در حقیقت شیودیوتا کی شبیہ ہے، اس کی حقیقت صرف ورزش نہیں ہے، بلکہ انسان کے حواس خمسہ کو اس سے چھین کر کسی او رکے حوالہ کرنا ہے،نلسن نامی ایک عیسائی نے لکھا ہے کہ یوگا ہندومت کا بھیس بدل رہا ہے،نلسن نے لکھا ہے کہ شیودیوتا کے سر پر سانپ ہوتا ہے، در اصل یوگا کونڈلی مارتے ہوئے سانپ کو شکل ہے نلسن نے یوگا کو وحدانیت سے ٹکرانے والا عمل قرار دیا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ یوگا ورزش نہیں ؛ بلکہ سازش ہے، پوری دنیا کو شیولنگ کے سامنے جھکانے کی سازش ہے نسلن نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان میں عیسائیت کے بڑھتے قدم کو دیکھ کر وشوہندوپریشد نے ۱۹۷۹ء میں یہ فیصلہ لیا تھاکہ یورپ میں ہندومت کو داخل کرنے کے لئے یوگا کا سہارا لیا جاسکتا ہے، یوگا کے مفکرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یوگا کی مشق انسان کو مافوق الفطرت طاقت عطا کرسکتی ہے، بھارتی ڈاکٹر جارج الیکزنڈر کا کہنا ہے کہ یوگا کے بغیر کوئی ہندومت اور ہندومت کے بغیر کوئی یوگا نہیں ہے، میگزین ’’ہندومت آج ‘‘کا کہنا ہے کہ یوگا ہندومت کی روح ہے۔( یوگا اور سوریہ نمسکار کا فتنہ، انصار عزیزی ندوی، فکروخبر ۹؍مارچ ۲۰۱۶ء)
یوگا مختلف آسنوں سے عبارت ہے، ہر آسن مختلف طریقے سے انجام دیا جاتا ہے، آسنوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو انتہائی آسان ہیں اور بعض بہت مشکل ہیں، جنہیں بہت پریکٹس کے بعد بھی چند حضرات ہی انجام دے سکتے ہیں، یوگا کرنے کے دوران یوگی حضرات اشلوکوں اور منتروں کا زور زور سے ورد کیا کرتے ہیں، جن میں اکثر اشلوک کفریہ کلمات اور شرکیہ جملوں پر مبنی ہیں، یوگاکا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس عمل کے دوران ننگا جسم ہو خصوصا انسان کا سینہ پیٹھ اور رانیں کھلی ہوئی ہوں،۔( ابوالعزم، یوگا شریعت اسلامی کی روشنی میں ص:۳۹۔۴۴)
ہندوروایات کے مطابق یہ خاص جسمانی اور روحانی ورزش ہے جو ہندوستان میں ہی شروع ہوئی ہے، اس کا عملی اظہار اس خطے کے مذاہب ہندومت بدھ مت اور جین مت میں نظر آتا ہے، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ کی اکثروبیشتر مورتیاں یوگ کی حالت میں نظر آتی ہے، یوگا میں ہندؤں کے مقدس ترین لفظ ’’اوم‘‘ کی گردان اور منتروں کا جاب ہوتا ہے، جو لوگ اسے ذہنی وجسمانی ورزش قرار دیتے ہیں،انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یوگا در حقیقت ہندوازم کا ایک فلسفہ ہے، جس میں آتما (روح) پر ماتما (بھگوان) اور شریر (جسم) کو مراقبے کے ذریعہ ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یوگ کا اصل مفہوم بھی ایک دوسرے سے مربوط کرنا ہے، یوگ کا پہلا طریقہ بھگوان شنکر نے ایجاد کیا تھا،دوسرا پتانجلی نام کے یوگ گرو نے شروع کیا تھا۔(علی عمران شاہین،مضمون ،نریندر مودی کا عالمی دن، مضمون ڈاٹ ان ۲۸؍ جون ۲۰۱۵ء)
کچھ خاص ترکیبیں جن سے یوگا پہچانا جاتا ہے،وہ یہ ہیں: آسنا(جسم کی خاص ساخت اختیار کرنا) دھرنا(کسی خاص چیز پر توجہ مرکوز کرنا) دھیانا (آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا) دھیانا کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ متعین وقت پر کیا جائے، یوگا کے ماہرین بغیر دھیانا کے یوگا نہیں کرتے ،پرانیاما(روح پر گرفت کرنے کی کوشش کرنا) ہندو نظریات کے مطابق اگر ایک شخص اپنی عقل پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا ہے تو وہ خالق وآفاق میں ضم نہیں ہوسکتا، لیکن اگر وہ نفس پر کنٹرول کرنے اور صحیح رخ پر سخت جدوجہد کرے تو اسے پالیتا ہے، پتنگلی Patangali کے مطابق یوگا کے 7 مدارج ہیں:
(۱)یا ماYama (عمومی اخلاقی احکامات)
(۲) نیاما Niyama(ذاتی نفس کی تطہیر اور ڈسپلن) آسنا
(۳)Asna (جسم کی ساخت)
(۴)پرانیماPraniyama(روح پر گرفت)
(۵) پرتیھاراPratyahara (توجہ مرکوز کرنا)
(۶) دھیار اDhayara (مراقبہ)
(۷)سمادھی Samadhi (گہرے غور وفکر اور مراقبہ جس کا مقصد پرماتما(آفاقی روح) میں ضم ہوجانا ۔(ابوالعزم، ص:۴۰ ایضا)

مشاق یوگی دوران یوگا اور اس کے ختم پر کئی اشلوک کا ورد کرتے اور گاتے ہیں، ان میں اہم ترین اشلوک جو سنسکرت میں ہیں ان کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے: میں نہ عقل ہوں نہ سوچ،میں نہ سن سکتا ہوں نہ بول سکتا ہوں نہ سونگھ سکتا ہوں نہ دیکھ سکتا ہوں، میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسمان پر، میں نعمتوں کی نعمت ہوں، میرا کوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتا ہوں، نہ کوئی مقدس کلمات ہیں نہ عبادات، نہ علم ہے نہ معلوم، کسی شئ نے مجھے ڈھالا نہیں ، میرا کوئی جسمانی خروج نہیں، میں نہ غذا ہوں نہ کھانا اور نہ کبھی میں نے کھایا ہے، میں خیالات اور مسرت ہوں اور آخرمیں کرم میں مل جاؤں گا، میں غیر مجسم ہوں، میں احساسات میں رہتا ہوں، لیکن وہ میرا مسکن نہیں۔ان اشلوکوں میں خودی او رخودی کا انکار، تمام عبادات اور مقدس کلمات کا انکار علم اور تعلیم کا انکار شامل ہے، اس میں اپنے آپ کو نعمت وکرم گردانا جاتا ہے اور آفاقی روح میں شامل ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے، یہ تمام باتیں اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں، اور خالق ومخلوق کے فرق کو ختم کرتی ہیں، اس میں حلول، تجسم اور انکار رب جیسے کفریہ کلام شامل ہیں۔قاسمی،مفتی فیاض ،مضمون ،ماہنامہ دارالعلوم ،جولائی ،اگست ۲۰۱۵ء)
یوگا کی حقیقت پر نظر ڈالنے اور اس کے ارکان اور اس میں کئے جانے والے اعمال اور اہل علم کی آراء کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یوگا کے متعلق اہل علم کی آراء حقیقت وصداقت سے ہم آہنگ ہیں، علماء کرام نے یوگا کی حقیقت پر غور وفکر کے بعد ہی یہ رائے قائم کی ہے، آئیے یوگا کی حقیقت اور اہل علم کی آراء کے تناظر میں ہم اسلامی اصول کی روشنی میں یوگا کا شرعی جائزہ لیتے ہیں:
اسلام تندرستی اور صحت مندی کو عظیم نعمت قرار دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نگہداشت کے مختلف زریں اصول متعین کئے ہیں اور ان تمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے کہ جو تندرستی اور صحت مندی کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو، قرآن کریم نے جا بجا طاقت ور قوم بننے کی رہنمائی فرمائی ہے وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃ(انفال:۶۰) اور انفرادی قوت وطاقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک مضبوط مومن کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے( مسلم شریف، باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز، حدیث نمبر:۲۶۶۴) اسی لئے رسول اللہﷺ نے تیراندازی، گھوڑ سواری اور اونٹ سواری جیسے مقابلے میں شرط کو مشروع قرار دیا(ترمذی شریف، باب ما فی فضل الرمی فی سبیل اللہ ،مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی، طبع ثانی ۱۹۷۵ء ،حدیث نمبر:۱۶۳۷)تاکہ لوگ ان کھیلوں میں حصہ لے کر اپنی جسمانی قوت میں اضافہ کرسکیں۔
یوگا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے بدن کی ورزش ہوتی ہے ،جسم کو تازگی حاصل ہوتی ہے،پھرتی اور تندرستی نصیب ہوتی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس سے یہ چند فائدے حاصل ہوتے ہوں، لیکن محض چند جزوی فوائد کی بناپر اس کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا ہے، بلکہ شرعی بنیادوں پر اس کے منفی پہلو کو دیکھنا ضروری ہے، اگر کسی چیز میں چند فوائد ہوں اور اس سے زیادہ اس میں نقصانات ہوں تو اس کو جائز نہیں کہا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں ہمیں قرآن کی اس آیت سے ہدایت ملتی ہے وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا البقرۃ: ۲۱۹) کہ شراب کے گناہ اور نقصانات اس کے نفع سے زیادہ ہیں، شراب میں بھی جزوی نفع ہے، لیکن نفع سے زیادہ اس میں نقصانات ہیں، اس لئے شراب پر پابندی عائد کردی گئی، اسی طرح یوگا میں جسمانی نفع ہے
؛لیکن اس سے کہیں زیادہ عقیدہ وایمان کو بگاڑنے والی چیزیں اس میں موجود ہیں، اس لئے یوگا غیر شرعی عمل قرار پا تا ہے، یہاں یوگا کے سلسلے میں مختلف پہلو سے ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے جس سے یوگا کی قباحت پر روشنی پڑتی ہے۔
* ایک مسلمان کا تشخص اور پہچان عقیدہ توحید ہے، توحید ہی مسلمانوں کا اصل سرمایہ ہے، اگر مسلمانوں کے دلوں سے عقیدہ توحید کو ختم کردیا جائے تو مسلمانوں کے پاس کوئی چیز وجہ امتیاز باقی نہیں رہ جاتی ہے،وہ شخص بہت کچھ ہوسکتاہے؛ لیکن مسلمان نہیں ہوسکتاہے،اس لئے قرآن وحدیث میں عقیدہ توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّہَ وَلا أُشْرِکَ بِہِ ( البقرۃ: ۲۱۹) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں، یوگا عقیدہ توحید سے متصادم ہے ، اس لئے کہ یوگا میں کئے جانے والے اشلوک میں ا نسان کو مافوق الفطرت ثابت کیا گیا ہے اور گویا انسان اللہ کا بندہ ہونے کے دائرہ سے نکل جاتا ہے،بلکہ اس میں حلول وتجسم کے نظریات کو انسان کے لئے ثابت کیا گیا،جب کہ بعض اشلوکوں میں لگتا ہے کہ ا نسان خدائی صف میں جگہ پاگیا ہے، یہ سب عقیدہ توحید کے منافی ہے۔
* اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے اور اس نے زندگی گزارنے کے مکمل طور طریقے دئے ہیں اور ایک مکمل تہذیب اور کلچر دیا ہے اور کسی دوسری تہذیب اور کلچر کو اپنانے اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے ( ابوداؤدشریف، باب فی لبس الشھرۃ، حدیث نمبر:۴۰۳۱) یوگا کرنے سے ہندؤں کی مشابہت لازم آتی ہے، اس لئے کہ یہ ان کی تہذیب کا ایک حصہ ہے، یہ ان کی مذہبی کتابوں میں مذکور ہے، جسے ایک طرح ان کے یہاں عبادت کا درجہ حاصل ہے، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ دنیا کے مشہور مذاہب عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی قائدین کا یوگا کے متعلق واضح موقف یہ ہے کہ یوگا ہندومذہبی تعلیمات کا حصہ ہے، انگلیکین چرچس Anglican Churches اور کیتھولک چرچس Catholic Churches کے رہنماؤں نے کئی مرتبہ دوٹوک انداز میں اپنے پیروکاروں کو یوگا سے منع کیا ہے، حتی کہ ہندؤں سے قربت رکھنے والا سکھ طبقہ بھی اس سے اختلاف رکھتا ہے اور اس کے مذہبی رہنمابھی اپنی برادری کے لوگوں کو یوگا کی پریکٹس سے منع کرتے ہیں( ابوالعزم ص ۸۹ ایضا) یوگاکے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دوبنیادی باتیں راست کفر اور ہندو مذہب سے ملتی ہے، ایک اس کا مقصد گیتا کی تعلیم ہے، دوسرے یوگا پر رشیوں اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے، بطور عبادات اس کی مشق کی جاتی ہے، اسی طرح یوگا کے اشلوکوں میں توحید، رسالت، کتاب اللہ ،یوم آخرت کا انکاراور مخلوق کے خالق میں حلول کرجانے کا عقیدہ ہے، ان سب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یوگا ہندو تہذیب کا حصہ ہے۔( فیاض احمد قاسمی،ماہنامہ دارالعلوم، جولائی اگست ۲۰۱۵ئاس لئے مسلمانوں کو بھی ہندؤں کے تہذیبی عمل سے دور رکھنا چاہئے۔
* یوگا کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ یوگا کرنے و الے شخص کا جسم خصوصا سینہ پیٹھ اور رانیں کھلی ہوں، عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ یوگا کرنے والے حضرات بہت کم کپڑا زیب تن کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسے طریقے سے اس عمل کی انجام دہی کرتے ہیں کہ بے پردگی اور عریانیت کا برملا اظہار ہوتا ہے، جب کہ حدیث میں ران کو شرم گاہ میں داخل مان کر اس کو ڈھکنے کی تاکید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: أن الفخذ عورۃ(ترمذی شریف باب ما جاء ان الفخذ عورۃ ،حدیث نمبر: ۲۷۹۵،) یعنی ران قابل ستر سامان ہے، یہ تو مردوں کے یوگا میں بے پردگی کی باتیں ہیں ،جبکہ عورتوں اور لڑکیوں کے یوگا میں برہنہ پن کا ایسا اظہار ہوتا ہے کہ ایک با غیرت انسان کبھی بھی اپنی گھر کی عورتوں کو یوگا جیسا عمل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے، کیوں کہ عموما یوگا کے دوران لڑکیاں چست اور تنگ کپڑے زیب تن کرتی ہیں جس سے اس کے جسم کے نشیب وفراز کا اظہار ہوتا ہے،اکثروبیشتر جسم کے وہ حصے جو ستر میں داخل ہیں کھلارہتا
ہے،یوٹیوب پر موجود ویڈیو کو دیکھ کر اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے، جب کہ شریعت اسلامیہ نے خواتین کی بے پردگی کی نہایت ہی سختی سے ممانعت کی ہے،اوربے پردگی پر سخت وعید فرمائی ہے،چنانچہ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے: عن أبي ہریرۃؓ قال قال رسول اللہﷺ: صنفان من أہل النار لم أرہما قوم معہم سیاط کأذناب البقر یضربون بہا الناس، ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات رؤسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا، وإن ریحہا لیوجد من مسیرۃ کذا وکذا.(مسلم شریف، باب النساء الکاسیات ، حدیث نمبر: ۲۱۲۸) یعنی میں نے جہنمیوں کے دو طرح کے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے ان میں سے ایک وہ عورتیں ہیں جو کپڑے زیب تن کئے ہونے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں، خود دوسروں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں، یہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اور اتنی دور کی مسافت سے پائی جاتی ہے،یوگا کی عملی کیفیت اور حضور کے اس ارشاد کو سامنے رکھا جائے توغور کیجئے یوگا کے جواز کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔
* یوگاکی وکالت کرنے والوں کا ا ستدلال یہ ہے کہ ہندوعقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد کو چھوڑ کر صرف جسمانی ورزش ممنوع نہیں ہے، کیوں کہ اسلام علاقائی اور بیرونی مفید اور کار آمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی نیک نیتی کے پیش نظریوگا کو جائز قرار دینے کا فیصلہ کیا ہو، لیکن اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، کسی پیچیدہ مسئلہ کو کاٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑے اور ذرے کرکے ایک ہلکے عناصر کو لے کر جواز کا حکم صادر کرنا خواہشات نفس کی پیروی تو ہوسکتی ہے، لیکن اسے شریعت کے مزاج کی رعایت نہیں کہہ سکتے ہیں، اگر مان لیا جائے کہ یوگاورزش کی حد تک جائز ہونا چاہئے، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یوگامفضی الی الکفر والشرک بھی ہے، دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا ، لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کردیں گے، یوگیوں کے مٹھوں اور کیندروں میں جاکر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے، یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انہیں اس وقت یوگا اسلامی کلچر نظر آئے گا، غرض کہ مسلم معاشرہ ایمان وشرک کی پیروی میں تبدیل ہوجائے گا، لیکن انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا، اس لئے شریعت کے عمومی مزاج کی رعایت ہونی چاہئے نہ یہ کہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے کانٹ چھانٹ کر جواز نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے، پھر میں پوچھتا ہوں کہ اگر یوگا نہ کیا گیا تو کون سی بلائے ناگہانی آجائے گی، کیا ورزش اور جسمانی صحت کے خیال کے لئے یوگا کا کوئی متبادل نہیں ہے اور کیا جو لوگ یوگا نہیں کرتے وہ جسمانی اعتبار سے غیر صحت مند ہیں؟
* سعید الرحمن سنابلی نے یوگا کے طریقہ کا جائزہ لے کر اس پر حکم شرعی کو مرتب کیا ہے، وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: یوگا مختلف آسنون سے عبارت ہے،ان آسنون میں ایسے بھی ہیں جن کو کرتے ہوئے لگتا ہے کہ آدمی اپنی اصلی خلقت سے نکل گیا اور کسی جانور کے مشابہ دکھنے لگتا ہے،یہی نہیں اس حالت میں ا گر کوئی اجنبی شخص دیکھ لے تو بہر صورت اسے توانا یا صحیح سالم نہیں کہہ سکتا ہے، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی اپاہچ یا جسمانی اعتبار سے معذور شخص ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو نہایت خوبصورت شکل وصورت دی ہے جس کی ہر شخص کو قدر کرنی چاہئے اور ایسے کاموں سے احتراز کرنا چاہئے جس میں خداداد شکل وصورت میں تحریف یا تبدیلی لازم آتی ہو۔( ماہنامہ الفیصل اپریل ۲۰۱۶ء)
ان وجوہات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوگا صرف ورزش نہیں خالص ہندوانہ مذہبی عملی ہے او راگر چہ اس سے کفریہ کلمات کو ختم کردیا جائے تو بھی اس کی قباحت ختم نہیں ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ ہندؤں کا قدیم تہذیبی عمل ہے، اس کو کرنا غیروں کے ساتھ مشابہت کے علاوہ کفریہ عمل تک پہونچنے کا ذریعہ ہے، اسلام کی روح اور مزاج کی حفاظت دور حاضر کا اہم تقاضہ ہے، محض جسمانی ورزش اور بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پریکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

Share
Share
Share