دخترانِ ملت ارتداد کے دہانے پر
مولانا سید احمد ومیض ندوی
گزشتہ دنوں سیاست اخبار میں شائع ایک خبر کو پڑھ کر دل انتہائی مغموم اور غموں سے چور ہوا۔ اخبار بینی بہت سے افراد کا معمول ہے لیکن اکثر خبروں سے ہم سرسری طور سے گزر جاتے ہیں۔ بعض خبریں انتہائی المناک ہوتی ہیں اور بعض واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ حساس انسان دل پکڑ کر رہ جاتا ہے۔
اسی طرح بعض واقعات ملی حمیت اور اسلامی غیرت کو للکارنے والے ہوتے ہیں۔ نلگنڈہ کے ایک دیہات میں پیش آئے حالیہ واقعہ نے ہوش اڑادئیے۔ تفصیلات کے مطابق نلگنڈہ کے تیرتی منڈل کے موضع ملے لاری گورام کی ساکن ایم ڈی آسیہ (حسینہ) اور اسی موضع سے تعلق رکھنے والے سرینواس کے درمیان عاشقی چل رہی تھی۔ شادی سے انکار پر آسیہ نے سرینواس کے مکان کے پاس احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ دوسرے دن موضع کے ذی اثر افراد نے اس کی حمایت کرتے ہوئے پولیس میں شکایت کی۔ پولیس اسٹیشن طلب کرتے ہوئے موضع کی عوام کی موجودگی میں چھ ماہ قبل شادی کرادی۔ چھ ماہ کے اندر بیوی آسیہ حاملہ ہوئی جس پر شوہر نے فوری حمل ضائع کرنے پر زور دیا لیکن بیوی نے انکار کیا جس پر سرینواس شوہر جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ بیوی (آسیہ) انکار کرتے ہوئے والدین کے مکان واقع ملے واری گوڈم چلی گئی۔ 19؍اگست کی شام کو مکان میں تنہا دیکھ کر شوہر سرینواس نے چاقو سے حملہ کرکے گلا کاٹ دیا، کچھ ہی دیر میں خون میں لت پت بیوی نے دم توڑ دیا۔
چند لمحوں میں آسیہ کی کہانی ختم ہوگئی، لیکن اس نے ملتِ اسلامیہ کے سرکو شرم سے جھکا دیا ہے ۔ ہر وہ مسلمان جس کے سینے میں ملت کے لئے اور دینِ اسلام کے لئے دھڑکنے والا دل ہو اس واقعہ کو پڑھ کر ضرور مغموم ہوا ہوگا۔ مگر قارئین! اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بننے والے اس قسم کے واقعات اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ فرار ہوجانا ، پھر اپنے دین و مذہب کو خیرباد کرکے ان سے شادی رچانا اب اس قدر عام ہوچکا ہے کہ ہر ماہ اس قسم کے متعدد واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھٹکل سے تعلق رکھنے والے ملک کے ایک معروف عالم دین مولانا الیاس ندوی نے اپنے مضمون میں اس قسم کے واقعات کی جو تفصیل پیش کی ہے وہ انتہائی چونکا دینے والی ہے۔ مولانا نے دہلی و اطراف کے تعلق سے جمعیت علماء سے وابستہ علماء کرام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ پچھلے ایک سال میں دہلی و اطراف میں پانچ سو سے زائد مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ بیاہ کرکے اپنے گھر اور والدین سے فرار ہوچکی ہیں۔ جموں کشمیر کے دورہ میں مولانا شکیل ندوی نے انہیں بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم آٹھ مسلم لڑکیاں اسلام سے دستبرداری کا اعلان کرچکی ہیں۔ مولانا کے ایک عزیز نے انہیں بتایا کہ چند ماہ قبل قریب کی بستی کی دو مسلم طالبات نے اسلام کو خیرباد کہہ کر ارتداد کو گلے سے لگالیا ہے۔ گزشتہ ۸؍جولائی کے اخبارات میں شہرحیدرآباد میں سنگھ پریوار کی جانب سے چل رہی لو جہاد مہم کی ہوش ربا تفصیلات شائع ہوئیں۔ آئی ٹی شعبہ میں دور دراز علاقوں میں ملازمت کررہی مسلم لڑکیوں کو خصوصیت کے ساتھ نشانہ بنانے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اخبار کے مطابق دیگر ریاستوں میں بھی اس قسم کی مہم شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اخبار نے تصاویر کے ساتھ اس قسم کی کئی لڑکیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ مثلاً اڑیشہ بھوبنیشور روٹری لائن کی رہنے والی ایک ۳۲ سالہ لڑکی جو آئی ٹی حیدرآباد میں ملازمت کررہی ہے اور گچی باولی میں مقیم ہے،ملازمت کے دوران جوبلی ہلز کے رہنے والے ایک غیر مسلم لڑکے سے اس کا عشق ہوگیا اور دونوں نے ۲۵ ؍اپریل ۲۰۱۸ء کو شادی کرنے کی غرض سے ضلع رنگاریڈی کے رجسٹرار آفس میں درخواست دی۔ اسی طرح رگھویندر کالونی رنگاریڈی کی مقیم ایک مسلمان لڑکی جو سافٹ ویر انجینئر بتائی جاتی ہے اور فی الحال شیخ پیٹ گلشن کالونی میں مقیم ہے ، اس کا تعلق تریپورہ رام نگر کے متوطن غیر مسلم نوجوان سے ہوا جو فی الحال کنڈہ پور میں مقیم ہے ۔ ان دونوں نے بھی شادی کی غرض سے ۱۹؍جون ۲۰۱۸ء کو ضلع رنگاریڈی کے رجسٹرار آفس میں درخواست داخل کی ہے۔ ایک اور واقعہ میں وینکٹ نگر گچی باؤلی کی مسلم لڑکی کا وجے واڑہ کے رہنے والے غیر مسلم نوجوان سے تعلق ہوا جو سافٹ ویر انجینئر بتایاجاتا ہے۔ ان دونوں نے بھی رجسٹرار آفس میں شادی کی غرض سے درخواست داخل کی ہے۔ یہ چند نمونے ہیں ورنہ میریج رجسٹریشن آفس کے نوٹس بورڈ کا جائزہ لیں تو وہاں اس قسم کی بہت سی تصاویر دیکھنے کو ملیں گی۔
اس قسم کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ پیش آنا کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ آخر کب تک ہم خوابِ خرگوش سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے؟ کیا ہماری غیرت ملی کو سانپ سونگھ گیا؟ آخر کب تک ملت کی بیٹیاں اپنے دین و ایمان کا سودا کرتی رہیں گی؟ اس تشویشناک صورتحال کا حل تلاش کرنے سے پہلے ان اسباب کی نشاندہی ضروری ہے جو اس قسم کے واقعات کا محرک بنتے ہیں۔
اس قسم کے واقعات کا بنیادی سبب دینی تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ عام طورپر والدین اپنے بچوں کی دینی تربیت سے غافل ہوتے ہیں۔ بیشتر والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دلوا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ گھریلو دینی ماحول و تربیت سے محروم لڑکیاں جب کالجوں کے مخلوط ماحول میں قدم رکھتی ہیں تو آسانی سے غیر مسلم لڑکوں کے دامِ فریب میں آجاتی ہیں۔ دین و ایمان کی عظمت سے ناواقفیت انہیں کفر و شرک کی ظلمتوں میں ڈھکیل دیتی ہے۔ گھر میں پختہ دینی تربیت کا نظم ہو تو وہ کبھی دین و ایمان کا سودا نہیں کرسکتی۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اولاد کی دینی تربیت کی ذمہ داری بخوبی نبھائیں۔
اسکولوں اور کالجوں کا آزادانہ اور مخلوط ماحول بھی اس طرح کے واقعات کا ایک سبب ہے۔ اسلام میں مرد و خواتین کے اختلاط کو روکا گیا ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کو مخلوط نظام تعلیم سے دور رکھیں۔ مسلمانوں کو ایسے کالجوں کے قیام پر توجہ دینا چاہئے کہ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علحدہ نظم ہو۔
سیل فون کا بیجا استعمال بھی خوب تباہی مچارہا ہے ۔ کالجوں میں زیر تعلیم بچیاں سیل فون کے ذریعہ غیروں سے جلد رابطہ میں آجاتی ہیں۔ زیر تعلیم بچیوں کو اسمارٹ فون عطا کرنا والدین کی بڑی غلطی ہے۔ اسمارٹ فون دورِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ نئی نسل کے اخلاق پر وہ بڑے منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ واٹس ایپ ، فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر درائع کا استعمال کرکے نئی نسل ہر قسم کی اخلاقی حدوں کو پارکررہی ہے۔
اس قسم کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ایک سبب فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے چلائی جارہی مہم ہے۔ مختلف فرقہ پرست تنظیمیں نوجوانوں کو مسلمان لڑکیوں کو پھانسنے کے لئے مستقل ترغیب دیتی ہیں۔ گزشتہ ۲۰ ؍ستمبر کو مغربی بنگال میں وی ایچ پی نے ہندو نوجوانوں کے لئے فرمان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلم لڑکیوں سے شادی کریں اور بعد میں ان کا مذہب تبدیل کرالیں۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ ہندو نوجوانوں کو ان مسلم لڑکیوں سے شادی کرنی چاہئے جو ذہنی طورپر ہندو مذہب کے قریب ہیں اور انہیں ہندو دھرم کا حصہ بنانا چاہئے۔ مغربی بنگال میں باقاعدہ مہم کے تحت پمفلٹ تقسیم کئے جارہے ہیں جن میں ہندو خواتین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ لوجہاد سے بچ کر رہیں۔ بالفاظ دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہندو خواتین کو بچاؤ اور مسلم خواتین کو پھنساؤ۔
ایک غیر مسلم نوجوان جس نے ایک مسلمان لڑکی کو اپنی گرل فرینڈ بنا رکھا ہے ایک مسلمان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی پوری کوشش مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کو ان کے دین سے بدظن کرنا ہے ،اس کے لئے ان تنظیموں نے بہت مضبوط لائحہ عمل بنایا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کو طلاق ، گھریلو مظالم اور آزادی کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمان عورتوں سے پیسہ دے کر نقاب پہناکر اسلام مخالف بیانات ریکارڈ کروائے جارہے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیاجارہا ہے۔ مسلم لڑکیوں کو ورغلانے کے لئے بہت ہی خطرناک منصوبے کے تحت کام ہورہا ہے۔ اس کے لئے باضابطہ نوجوان لڑکوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور سے اردوزبان سکھائی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے اندر جلد متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے لہٰذا جب وہ غیر مسلم لڑکوں کی زبان سے اردو زبان کے الفاظ اور اشعار سنتے ہیں تو فطری طورپر متاثر ہوتی ہیں اور یہیں سے ان کی بربادی کی داستان شروع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ نوجوان نے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک مسلمان لڑکی کو گمراہ کرنے کے عوض دو لاکھ روپئے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی جاتی ہے کہ چھ مہینوں سے سال بھر کے اندر لڑکی کو اس حالت میں لا کھڑا کرنا ہے کہ وہ یا تو خودکشی کرلے یا سماج میں منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔ مذکورہ غیر مسلم نوجوان نے جن باتوں کا انکشاف کیا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فرقہ پرست تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو مرتد کرنے کے لئے کس قدر منصوبہ بند طریقہ پر سرگرم عمل ہیں۔
اس صورتحال کے سدِ باب کے لئے سب سے پہلے والدین کو احساس دلانا اشد ضروری ہے ۔ والدین اس حقیقت کا ادراک کریں کہ اولاد کی ایمان سے محرومی کس قدر بدبختی کی بات ہے۔ جب تک والدین کو اس صورتحال کی سنگینی کا احساس نہیں ہوگا تب تک کوئی حل کارگر ثابت نہ ہوگا۔ دوسرا اہم کام نئی نسل کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا ہے۔ اس کے لئے ہر محلہ اور ہر بستی میں مکاتب کا جال پھیلانا ضروری ہے۔ اس طورپر کہ مسلمان گھرانے کا کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ کالجوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کو دینی فکر سے آراستہ کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ کالج کا انتظامیہ اگر مسلمان ہو تو انتظامیہ سے منظوری لے کر ایک گھنٹہ دینیات کا رکھاجائے اور علماء کرام یہ خدمت انجام دیں۔ اس طرح ہر کالج میں علماء کرام کے اصلاحی بیانات اس سلسلہ میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ نیز کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے لئے آن لائن دینی کلاسس کا بھی نظم کیاجاسکتا ہے۔ گرمائی تعطیلات اور دیگر مواقع پر ایک ماہی یا چالیس روزہ سمرکیمپ کا اہتمام بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ نئی نسل کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوششوں کے ساتھ گھروں میں دینی ماحول پیدا کرنا اشد ضروری ہے۔ دین وایمان کی کمزوری اور خوفِ الٰہی کا فقدان ہی آدمی کو غلط راستوں پر لے جاتا ہے۔ گھروں میں دینی ماحول تب ہوگا جب والدین خود دینداراور خداترس ہوں گے۔ نیک ماں باپ ہمیشہ اولاد کی نیکی کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔ اس کے بر خلاف بے دین والدین کو اولاد کی دینداری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ ملت کے ہر فرد کو دخترانِ ملت کے ارتداد پر فکر مند ہونا چاہئے ۔ وقت سے پہلے اگر فکر نہ کی جائے تو کل کو یہ فتنہ ہمارے گھروں کو دستک دے سکتا ہے۔
۲ thoughts on “دخترانِ ملت ارتداد کے دہانے پر :- مولانا سید احمد ومیض ندوی”
ميرى نظر ميں ایک حل اور بھی ہے اور وہ یہ کہ دوست اسلامی ملک افغانستان جهاں مردوں کی تعداد عورتوں کے بہ نسبت بہت کم ہے ، اور طلاق بالکل نہیں اور ہر مرد عورت کو اپنی عزت, ناموس اور آبرو سمجهتا ہے , اور عظيم هندوستان كي دوستي بهي ان كيساتھ اپنی مثال آپ ہے کہ ان سے بچیوں کے رشتے کرادیجائیں
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته جناب ندوی صاحب اور جمله قارئېن اس بات کی کوئی ضمامت نهين کږ اسلاف خلاف باحجاب عورت مسلمان هو تجربه سے ثابت هیکه غیر مسلم عورت مسلمان عورتون کا حجاب پهن کرتی هین