کالم : بزمِ درویش
خودکشی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
اُس نے اداس بے بس نظروں سے میری طرف دیکھا اورپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ‘ اُس کی آنکھوں میں قبرستانوں کا سناٹا اور فرات کی طغیا نی تھی ‘ کسی بہت بڑے غم یا حادثے نے اُس کے جسم و روح کو کچل کر رکھ دیا تھا ‘ کر ب کی شدت سے اُس کا جسم لر ز رہا تھا بلکہ جسم کا رواں رواں ما تم کر تا نظر آرہا تھا
اُس کے چہرے کی ویرانی کربلا کے لٹے ہوئے مسافر کی عکاسی کر رہی تھی ۔ اُس کی حالت سے اُس کی شکست واضح نظر آرہی تھی جیسے کسی نے اُس کی متاع حیات اُس سے چھین لی ہو وہ کٹی پتنگ کی طرح بے رحم ہواؤں کے دوش پر در بدر ٹھو کریں کھا تی نظر آرہی تھی ۔ میرے سامنے تقریبا پچاس سالہ ضعیف کمزور عورت بیٹھی تھی مجھے اُس کی حالت دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی خو فناک طو فان سے گزر نے کے بعد مدد یا امید کی تلاش میں میرے پاس آئی ہے‘ وہ کتنی دیر سے بے جان زرد لاشے کی طرح بیٹھی ہوئی تھی اُس کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات سے واضح پتہ چل رہا تھا کہ اُسے زندگی معاشرے اور انسانوں سے کسی بھی قسم کا لگاؤ یا احساس نہیں ہے اُس کے کپڑوں سے بخوبی پتہ لگ رہا تھا کہ اُس نے پچھلے کئی دنوں سے کپڑے نہیں بدلے ‘ اُسے اپنا ہو ش تک نہیں تھا اگر اُس کی سانسیں نہ چل رہی ہوتیں اور وہ چل پھر نہ رہی ہوتی تو کو ئی بھی اُسے زندہ نہ کہتا بلکہ زندگی اور احساسات سے عاری لاش تھی جو میرے پاس آئی تھی اُس کا رونا اداسی بے بسی اور حالت زار مجھے خنجر کی طرح کاٹ رہی تھی میں نے اُسے صرف اتنا ہی کہا تھا بہن میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں تو اُس نے رونا شروع کردیا اور کہاسر میری مدد اب کوئی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اب مجھے کسی کی مدد کی ضرورت ہے میں اب ہر قسم کی مدد تعاون کی ضرورت سے آزاد ہو چکی ہوں دنیا میں کو ئی بھی اب میری مدد نہیں کر سکتا جب مجھے مدد کی ضرورت تھی اُس وقت اِس بے رحم ظالم بانجھ معاشرے نے میری مدد نہیں کی ‘ میں مدد کے لیے در بدر بھٹکی ہو ں ‘ ہزاروں دروازوں پر مدد کے لیے دامن مراد پھیلایا لیکن اِس تھو ر زدہ مر دہ معاشرے نے میرے درد میں اضافہ ہی کیا ہر گزرتے دن کے ساتھ میرے زخموں پر نمک چھڑکا میری روح کو تار تار کیا روزانہ میری روح پر گھا ؤ لگتے رہے اور جسم کو کباب کی طرح سیخ پر پرو کر جلتے انگاروں پر رکھا تھا ۔ دنیا میں آنے کی سزا میں نے بہت بھگتی ہے ‘ زندگی اتنی بے رحم جلاد صفت ہوگی میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا زندگی نے ہر سانس کے بدلے میں مجھے زخم دکھ کر ب دیا ‘ خو شی اطمینان نے برسوں پہلے ہی مجھ سے نا طہ تو ڑ لیا تھا پھر میں زندگی کے جلتے جھلستے ریگستان میں ننگے آسمان اور پاؤں کے ساتھ دوڑی ہوں میں زندگی کے خشک صحرا میں ایک بو ند پا نی کے لیے تر سی ہوں لیکن مجھے ایک ایک بو ند پا نی کے لیے تر سایا گیا تڑپایا گیا ہر رات میں کباب کی طرح آگ پر پروئی گئی ہوں ‘ میں ہر ظلم درد خو شی کی امید پر سہتی رہی کہ غم کی سیا ہ رات ایک دن اجا لے میں ضرور بدلے گی خو شی نے تو مجھے بھو ل کر بھی نہیں دیکھا بلکہ میری ہر کو شش کے بعد خو شی مجھ سے میلوں دور بھا گتی چلی گئی ۔ میں زندگی کی طو فانی موجوں میں تنکے کی طرح بے آسرا مدد مدد پکا رتی رہی لیکن کسی نے میری مدد نہ کی ‘ آخر کا ر میں جس کے لیے مدد خو شیوں کی بھیک مانگتی رہی وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اِس فقرے کے ساتھ ہی اُس نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا اُس کا جسم آتش فشاں کی طرح پھٹ رہا تھا ‘ غم کا درد اُس کی آنکھوں سے سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا ۔ میں نے اُسے کھل کر رونے دیا تا کہ اُس کا من ہلکا ہو سکے اُس کے اندر کا کرب آنکھوں کے راستے بہہ سکے اُس کا غم اور حالت دیکھ کر میرا جسم سراپا شفقت بن چکا تھا میں دنیا ما فیا سے بے خبر اُس کی طرف متو جہ تھا میری فطری حس جو کسی کو غم یا پریشانی میں دیکھ کر بیدار ہو تی ہے وہ پوری طرح بیدار ہوچکی تھی میری آنکھوں میں بھی پانی لہریں مارنے لگا اُس کا درد میری آنکھوں میں بھی کروٹیں لینے لگا ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہر صورت میں اُس کی مدد کروں گا اُس کے غم کا مداوا بنوں گا اُس کے غم کو خو شی میں بدلوں گا اُس کی بے نور غم زدہ آنکھوں میں خو شی کے رنگ بھر سکوں اب میں اِس انتظار میں تھا کہ وہ اچھی طرح روکر اپنا دل ہلکا کر لے پھر بتا ئے اُس کے سر یہ کونسا غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے جس کہ وجہ سے اُس کا جسم و روح کر چی کرچی ہوکر بکھر گیا ہے میں شفیق نظروں سے اُس کی طرف دیکھتا رہا پھر اُس نے اِدھر اُدھر خوف زدہ نظروں سے دیکھا اور تھوڑا آگے جھک کر دھیرے سے بو لی سر کیا خو د کشی واقعی حرام ہے کیا خو د کشی کر نے والے کو اللہ تعالی معاف نہیں کر تا سر اگر خو د کشی گناہ ہے تو اُس کی معافی کس طرح ملتی ہے اور اگر غموں کا طوفان اِس قدر بڑھ جائے کہ سانس لینا تک دشوار ہو جائے زندگی عذاب بوجھ بن جائے تو بھی خو د کشی حرام ہے ‘ اب مجھے لگا کہ وہ کسی شدید غم یا حالات کی وجہ سے خودکشی کرنا چاہ رہی ہے میں نے کہا نہ بہن آپ خودکشی بلکل نہ کرنا اور نہ ہی اللہ تعالی خودکشی کرنے والوں کو معاف کر تا ہے ‘ میرے لہجے میں مولوی بو ل رہا تھا جو دوزخ کے بارے میں دن رات لوگوں کو ڈراتا ہے جب میں نے اچھی طرح مذہب کی تعلیمات اُس پر جھاڑ دیں تو وہ بولی سر زندگی کا ایک ایک سانس ہمالیہ جیسا بوجھ بن جائے جب زندگی موت سے بدتر ہو جائے تو بھی ‘ تو میں نے پھرخوب اُس پر اصلاحی لیکچر جھاڑ دیا تو وہ بولی اِس کا مطلب خود کشی کی سزا ہر حالت میں ملتی ہے لیکن سر میری بیٹی تو خود کشی کر چکی ہے وہ تو جسم کی قید سے آزاد ہو کر آسمان کی بلندیوں کی طرف پرواز کر چکی ہے اُس کی بات سن کر میرے اوپر سوار مولوی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ‘ میں پھٹی نظروں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا تو اُس نے پھر بولنا شروع کیا سر میں لاوارث تھی کو ڑے کے ڈھیرسے کسی نے پکڑ کر یتیم خانے جمع کرا دیا ‘ زندگی کی سولی پر لٹکی پتہ ہی نہ چلا کب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو یتیم خانے میں ہی میرے جیسے کسی جوان بندے نے جب کمانا شروع کیا مجھ سے شادی کر لی ‘ اب ہم دنیا میں دونوں میاں بیوی تھے ہمارے آگے پیچھے کو ڑے کا ڈھیر اور یتیم خانہ تھا ہم دونوں شناخت سے محروم تھے ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی شناخت تھے پھر اللہ نے ہمیں چاند سی بیٹی سے نوازا‘ اجھڑے گلشن میں بہار آگئی قافلہ شب و روز چلتا رہا بیٹی جوان ہو گئی تو اُس کی شادی کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دی اِسی دوران میرا میاں نا ئب قاصد کے عہدے سے ریٹائر ہوا تھا ہم نے تین مرلے کا گھر بنا لیا ‘ رشتوں کی تلاش شروع تھی کہ میاں خالقِ حقیقی کو جاملا اب زندگی باکسنگ کے دستانے پہنے میری منتظر تھی ‘ بیٹی عام شکل و صورت کی تھی پتہ ہی نہ چلا سر میں چاندی اُترنے لگی اِس دوران بیٹی کی تین منگنیاں بھی ہوئیں جو ہماری غربت کی وجہ سے ٹو ٹ گئیں ‘ ہمارا گزارا پینشن کے چند ہزاروں پر تھا پچھلے ماہ پھر میری بیٹی کی چوتھی منگنی ہوئی چنددن بعد ہی لڑکے کے گھر والوں نے مطالبہ کیا کہ گھر بیچ کر ہمارے بیٹے کو کاروبار کے لیے پیسے دیں ‘ جب میں نے انکار کیا تو گھر آئے منگنی توڑنے کا اعلان کیا اور خوب ذلیل کر کے چلے گئے میں اُن کے پاؤں پکڑکر منتیں ترلے کرتی رہ گئی لیکن انہوں نے ٹھو کریں مار کر انکار کر دیا بیٹی یہ ظلم برداشت نہ کر سکی کیونکہ وہ مسلسل دس سالوں سے ظلم کی اِس چکی میں پس رہی تھی چند دن پہلے پنکھے سے جھول کر جسم کی قید سے آزاد ہو گئی ‘ میری دنیا لٹ گئی میں آپ کے پاس صرف اِس لیے آئی ہوں کہ کیا اُس نے حرام موت کو گلے لگایا کیا خدا اُسے معاف کرے گا ۔ میں گلو گیر لہجے میں بو لا وہ حوروں سے پاک تھی ستر ماؤں سے شفیق خدا اُسے معاف کرے گا پھر وہ زندہ لاش اٹھ کر چلی گئی لیکن مجھے انگاروں پر لٹاگئی ‘ کب تک ہمارا معاشرہ معصوم پریوں کو سیخوں پر پرو کر انگاروں پر بھونتا رہے گا ۔