مرتب : ڈاکٹر نسیم عباس احمر
مطالعہ : عبدالعزیز ملک
ڈاکٹر نسیم عباس احمر اردوادب کے معاصر منظر نامے میں اکثر اوقات اپنے موجودگی کا احساس تحقیقی،تنقیدی اور تدوینی کاموں سے دلاتے رہتے ہیں،جس کا ثبوت وہ مضامین ہیں جو ملک کے مؤقر رسائل و جرائد کے صفحات کی زینت بن کر تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر نسیم عباس احمر یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ اردو میں پچھلی ایک دہائی سے تدریسی اور تحقیقی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اب تک ان کی متعدد کتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں’’ ن م راشد کے خطوط‘‘،’’ادبی تاریخ نویسی ‘‘،’’سر سید شناسی کے چند اہم زاویے‘‘ اور ’’ اردو افسانے کے نظری مباحث‘‘ شامل ہیں ۔ وہ نہ صرف محنتی استادبلکہ باریک بین نقاداور محقق بھی ہیں۔ حال ہی میں ان کی تازہ تدوینی کا وش ’’ نو تاریخیت(منتخب اردو مقالات)‘‘ سامنے آئی ہے،جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے ۲۰۱۸ء میں شائع کیا ہے۔
اگرچہ نوتاریخیت کی اصطلاح اردو تنقید میں نئی ہے لیکن عالمی ادب میں اس کا آغاز اسی کی دہائی میں ہو گیا تھا۔اس کے بنیاد گزاروں میں کیلی فورنیا یونیورسٹی امریکہ کے گرین بلاٹ کا نام نمایاں ہے۔اس کے علاوہ جوناتھن گولڈ برگ،لوئی مونٹروس،لیونارڈ لینن ہاؤس،سٹیفن اورلیسا جارڈن نے اسے تحریری کاوشوں سے تقویت بخشی۔ برطانیہ میں ریمنڈ ولیمز کا نام نمایاں ہے جنھوں نے نوتاریخیت کے لیے ’’ثقافتی مطالعات ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔مزید براں کیتھرین بیلسی ،جونتھن ڈولی مور،فرانسس بارکر اور ایلن سن فیلڈکے نام بھی اس ضمن میں لیے جا سکتے ہیں۔اردو تنقیدمیں جن لوگوں نے اسے متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں گوپی چند نارنگ،ناصر عباس نیر،ریاض صدیقی،وہاب اشرفی ، الطاف انجم اورشمس الرحمان فارقی کے نام زیادہ اہم ہیں ۔مذکورہ کتاب میں اردو ناقدین کی نوتاریخیت پر مبنی تحریروں کا انتخاب شائع کیا گیا ہے۔کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ نوتاریخیت کے نظری مباحث کا احاطہ کرتا ہے جب کہ دوسرے حصے میں عملی مطالعات پیش کیے گئے ہیں ۔
کتاب میں نوتاریخیت کے نظری مباحث پر دس مضامین شامل ہیں جن میں پہلا مضمون ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ’’ تاریخیت اور نئی تاریخیت ادبی تھیوری کا اہم مسئلہ ‘‘ کا عنوان لیے ہوئے ہے۔ یہ خاصا طویل مضمون ہے جوپانچ حصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصے میں انھوں نے ادب اور تاریخ کے باہمی تعلق کے پس منظرکو بیان کیا ہے ۔دوسرے حصے میں ادب میں موضوعیت اور معروضیت کی بحث کے نتیجے میں ابھرنے والے دبستانوں پر بحث کی گئی ہے جس میں مارکسزم ،نیو کریٹسزم اور فارملزم کے دبستان اہم ہیں،اسی حصے میں آگے چل کر گوپی چند نارنگ نے نوتاریخیت کو ساختیاتی مباحث کا نتیجہ قرار دیا ہے:
’’واضح رہے کہ ساختیات جن محدود مقاصد کے ساتھ ادب وفلسفے کے میدان میں اتری تھی اس کے اثرات اس سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوئے۔سب سے بڑااثر ادبی مطالعات پر یہ ہوا کہ تاریخیت کے اعتبار سے تین نئے رویے بتدریج سامنے آئے:۱۔ نشانیات یعنی Semioticsکا رویہ ۲۔قاری اساس تنقید ،نیر ادب کی قبولیت کا نظریہ (Reception Theory)۳۔نوتاریخیت (New Historicism)‘‘
مضمون کے تیسرے حصے میں تاریخیت کے مضمرات پر بحث کی گئی ہے ۔نارنگ نے سٹیفن گرین بلاٹ کو نوتاریخیت کا پیش رو قرار دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ و ہ ادب کے بارے میں پہلے سے موجودتاریخی اور ثقافتی نظریات سے مختلف نقطۂ نظر اپناتے ہیں ۔ان کے خیال میں’’ا دب کا معاملہ اپنے زمانے کے رائج ضابطوں اور طور طریقوں کے ساتھ خاصا پیچیدہ اور تہ در تہ ہوتا ہے اور عمل در عمل کے یہ پیچیدہ رویے باہم دیگر مل کر کسی عہد کی تصویر بناتے ہیں۔‘‘یوں تاریخیت کے عقب میں ساختیاتی فکر کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مضمون کے چوتھے حصے میں برطانیہ میں نوتاریخیت پر بحث کی گئی ہے جسے جانتھن ڈولی مور نے ’’ثقافتی مادیت‘‘ کانام دیا ہے ۔یہ اصطلاح انھوں نے ریمنڈ ولیمز کی کتاب ’’Marxism and Literature ‘‘سے مستعار لی ہے۔ڈولی مور کے علاوہ فرانسس بارکر ،کیتھرین بیلسی اور ایلن سن فیلڈنے بھی اسے فروغ دیا ہے۔ان کامقصد ادب اور تاریخ کے پیچیدہ اور گہرے رشتوں کو معرضِ تفہیم میں لانا تھا۔مضمون کے پانچویں حصے میں نوتاریخیت اور تانیثیت کے رجحانات میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اردو میں نوتاریخیت کی جانب توجہ مبذول کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
’’نوتاریخیت‘‘ریاض صدیقی کا مضمون ہے جس میں انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’دستک اس دروازے پر‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخیت پر گفتگو کا آغاز کیا ہے اور بات مغرب کے دانشوروں تک لے گئے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ انھوں نے یہ اصطلاح اس لیے وضع کی ہے تاکہ حدِ امتیاز کا احساس ختم نہ ہو جائے ۔مزید یہ کہ نوتاریخیت ماضی میں پائی جانے والی آفاقی تاریخیت کی نفی نہیں کرتی ۔مضمون کے آخر میں نوتاریخیت کے موضوع پر انگلش انسٹی ٹیوٹ آف کیمبرج میں منعقدہ سیمینار کی مکالماتی نشست کا حوالہ دیاگیا ہے جس میں پیش کی جانے والی آرا میں ڈاکٹر وزیر آغا نے جو گنجائشیں پیدا کی ہیں ان کا ذکر کرد یا ہے ۔کتاب کا تیسرا مضمون بھی ریاض صدیقی کا ہے جس کا عنوان ’’اردو تنقید کا مسئلہ اور نوتاریخیت ‘‘ ہے ۔ اس مضمون میں انھوں نے تنقید کو علمی ،ثقافتی اورادبی نشوو نما کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ریاض صدیقی کا خیال ہے کہ اس وقت اُردو تنقید کی صورتِ حال ابتر ہے ۔ماضی کا احاطہ کریں تویہ واضح ہوجاتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل اردو تنقید کی صورتِ حال تسلی بخش تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زبوں حالی کا شکار ہو گئی ۔اس کی وجہ وہ حکمران طبقہ ہے جو تنقیدی نظریات کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے،اس کے باوجود تاریخ کے دھارے میں وہ سب کچھ محفوظ رہ جاتا ہے جو آگے چل کر خود کو منوا لیتا ہے۔جدیدیت پسندی نے انہی حقائق کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ردِ عمل کے طور پر نوتاریخیت کا مکتبہ فکر سامنے آیا۔اس مضمون میں میکارتھیت کی بھی مذمت کی گئی ہے جس نے دانشوروں کو حقائق کے بیان سے باز رکھا اور اس اثر کو نوتاریخیت نے کم کیا ہے ۔ ادب اور تنقید کے تاریخیت سے رجوع کو مضمون نگار نے فعال تعمیری رجحان قرار دیا ہے ۔
پروفیسر عتیق اللہ کے دومضامین کتاب میں شامل ہیں ۔پہلے مضمون کاعنوان ’’تاریخیت اور نو تاریخیت‘‘ہے جس میں نوتارٰیخیت کو معرضِ تفہیم میں لانے کے لیے ادب اور تاریخ کے رشتے پر بحث کی گئی ہے ۔ ادب میں تاریخی مطالعے کوتین شقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔۱۔ روایتی تاریخی طریق رسائی ۲۔مارکسی تاریخی طریق رسائی ۳۔ نوتاریخی طریق رسائی ۔پروفیسر عتیق اللہ کے خیال میں نو تاریخی طریق رسائی میں نو مارکسیت کی جھلک موجود ہے جو ادب اور نظریے میں با معنی اشتراک کی جستجو ہے۔ان کادوسرا مضمون ’’نوتاریخیت اور اس کا پیش و پس ‘‘ کے نام سے ہے اس مضمون میں نوتاریخیت پر بحث کرنے سے قبل تاریخیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس ضمن میں مضمون کے آغاز میں تاریخ نگاری کے اجزائے ترکیبی کو متعارف کرایا گیا ہے ۔ ہیڈن وہائٹ کے نزدیک اجزائے تر کیبی کرونیکل،کہانی،پلاٹ نگاری ،وضاحت اور آئیڈیالوجی پر مشتمل ہیں ۔اس مضمون میں تاریخیت کی وضاحت کے بعد نوتاریخیت کو بھی متعارف کرایا گیا ہے ۔ مذکورہ مضمون میں گزشتہ مضمون کے متعدد نکات دہرائے گئے ہیں ۔
کتاب کا چھٹا مضمون ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ہے جس کا عنوان ’’نئی تاریخیت‘‘ ہے ۔ اس میں انھوں نے نئی تاریخیت کو مابعد جدیدیت کا مظہر قرار دیا ہے۔اس کی وضاحت کے ضمن میں انھوں نے قدیم اور جدید فکر کا موازنہ پیش کیا ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ گرین بلاٹ نوتاریخیت کے بنیاد گزاروں میں شامل ہے ،اس حوالے سے ان کے مضامین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں ۔ناصر عباس نیر نے بھی دیگر ناقدین کی طرح نوتاریخیت کے برطانوی روپ کو ثقافتی مادیت کا نام دیا ہے۔ ریمنڈ ولیمز اور کیتھرین بیلسی اس کے دو اہم نمایندے ہیں جن کے خیالات کو وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔ جدید نظریات کواردو میں متعارف کرانے والوں میں اہم نام وہاب اشرفی کا بھی ہے ۔ان کا مضمون ’’ مابعد جدیدیت،تاریخیت،نئی تاریخیت‘‘کے عنوان سے اس کتاب میں شامل ہوا ہے۔ یہ مختصر مضمون ہے جس میں انھوں نے مشل فوکو کے نظریات کے تناظر میں نوتاریخیت کی تفہیم کرانے کی کوشش کی ہے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نئی تاریخیت ،ادبی متون کو بھی سماج اور طاقت کے رشتے کا مظہر گردانتی ہے۔
الطاف انجم کا مضمون ’’نئی تاریخیت‘‘ کے نام سے کتاب میں شامل ہے جس میں انھوں نے نو تاریخیت کو مابعد جدیدیت کا مظہر قرار دیا ہے جو کسی بھی نظریہ کو واحد اور حتمی تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔یہ مضمون دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں تاریخیت کا تعارف کرایا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں نوتاریخیت کے اہم نکات پر بحث کی گئی ہے۔تاریخیت اورنوتاریخیت کے تعارف میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو اس سے قبل مضامین میں موجود ہیں لیکن کہیں کہیں مضمون نگار نے اپنی رائے کا اضافہ بھی کیا ہے:
’’ عتیق اللہ نے نئی تاریخیت کی جو تعریف کی ہے اس سے کئی سطحوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔اس سے پہلے ناصر عباس نیر نے نئی تاریخیت کی جو وضاحت کی ہے وہ ادب اور تاریخ کے مابین ان تصورات کی حامل ہے جو ساختیات اور پس ساختیات نے پیش کیے ہیں جبکہ نئی تاریخیت کے بنیادی نکتے دو ہیں۔‘‘
الطاف انجم نے نوتاریخیت کو کولاژ سے تعبیر کیا ہے جس طرح اس میں متنوع اشیا کے مابین عدم ربط اور عدم تسلسل موجود ہوتا ہے بعینہٖ نوتاریخیت میں متنوع ڈسکورسز کے مابین بے ربطی اور عدم تسلسل کی کیفیت موجود ہوتی ہے لیکن نقاد عدم تسلسل کے بین السطور تسلسل اور ربط کو دریافت کر لیتا ہے۔قاسم یعقوب کا مضمون ’’تاریخ اور نوتاریخیت‘‘ کے عنوان کے تحت گزشتہ مضامین کے مباحث کی باز گشت ہے۔ اس میں تاریخیت کے تعارف کے ساتھ ساتھ فوکو کے تصورِ تاریخ کو مہارت سے بیان کیا گیا ہے جس سے تاریخ کے عدم تسلسل اور بے ربطی کے عمل کو سہل انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔اگلا مضمون ڈان ای وین کے مضمون کا اردو ترجمہ ہے جسے فرحت احساس نے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔اس مضمون میں نوتاریخیت پر ہونے والے مباحث پر اظہارِ خیال کے ساتھ ساتھ ویزلے مارس کی کتاب "Towards a New Historicism”کا حوالہ دیا ہے جس میں روایتی تاریخیت کی چار اہم اقسام بیان کی گئی ہیں۔۱۔ مابعد الطبیعیاتی ۲۔ اثباتی ۳۔ قوم پرستانہ ۴۔جمالیاتی ۔مذکورہ مضمون میں نوتاریخیت کے متعدداہم مصنفین کی تحریروں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے ان میں گرین بلاٹ سے لے کر لیوتار،دریدااور جوڈتھ نیوٹن کے نام بطورِ خاص شامل ہیں ۔مضمون اگرچہ ترجمہ ہے لیکن اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ قاری کو ترجمے کا احساس نہیں ہوتا بلکہ طبع زاد محسوس ہوتا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ نوتاریخی مطالعات پر مبنی ہے ۔ پہلا مضمون شمس الرحمان فاروقی کا پریم چند کے افسانے ’’ بڑے گھر کی بیٹی‘‘پر ہے جسے نوتاریخی تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کے خیال میں نئی تاریخیت کے دو اہم نکتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ مصنف اپنے زمانے کے مقتدر طبقے کے خلاف کوئی مؤقف اختیار کرتا ہے یا نہیں ؟یہ مؤقف مزاحمتی ہے یا مفاہمتی ۔دوسرا یہ کہ مصنف کا اپنے عہد کے سماج پر ردِ عمل شعوری ہے یا لاشعوری۔پریم چند کے ہاں مقتدر طبقے کے خلاف مزاحمت کا رویہ موجود ہے جو لاشعوری کے بجائے شعوری ہے ۔ بقول شمس الرحمان فاروقی افسانے کے کردار آنندی کے ساتھ ہونے والی بے انصافی سماج کی بنت کا نتیجہ ہے ، جہاں سماج ذاتی ملکیت اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر مبنی ہو وہاں بے انصافی عام ہو جاتی ہے ۔ پریم چند کا مذکورہ نقطہ نظر انھیں ترقی پسند خیالات کے قریب لے جاتا ہے۔ ’’گردشِ رنگِ چمن :نئی تاریخیت کی ایک روشن مثال‘‘پروفیسر بیگ احساس کا مضمون ہے جس میں انھوں نے ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ کو نو آبادیاتی تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اس دور کے تاریخی نمونوں کی یافت کی ہے ۔ مضمون کے آخر میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرۃالعین حیدر کے بعد کئی لوگوں نے تاریخ کو فکشنائز کرنے کی کو شش کی ہے لیکن یا تو تاریخ پیچھے رہ گئی ہے یا پھر فکشن ۔ ایسا فکشن جس میں تاریخ اور ادب ایک دوسرے کے ہم پلہ اور باہم پیوست ہوں قرۃالعین حیدر کا کمال ہے۔’’قصصِ ہند:تاریخیت اور نوتاریخیت‘‘ڈاکٹر قاضی عابد کا مضمون ہے جس میں نوتاریخیت کے عناصر کو بنیاد بنا کر محمد حسین آزاد کی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب کے ادوار کا تجزیہ ، ان کے اس عہد کے حکمرانوں سے تعلقات اور ان کے والد کے قتل کے واقعے کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کتاب کا نوتاریخی مطالعہ پیش کیا گیا ہے جومضمون نگار کے خیال میں اپنے عہد کے مقتدربیانیے کو پیش کرتی ہے۔کتاب کے آخر میں مرتب کا مضمون ’’ خس و خاشاک زمانے :نوتاریخی پڑھت‘‘ بھی دلچسپ مضمون ہے جسے اپنے دور کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’’نوتاریخیت (منتخب اردو مقالات) ‘‘ اردو تنقید میں عمدہ اضافہ ہے ۔ خاص طور پر ایسے قارئین کے لیے یہ کتاب اور بھی اہمیت کی حامل ہوگی جو مابعد نظریات کی تفہیم کے خواہاں ہیں ۔ اردو میں اب تک شائع ہونے والے معیاری مقالات کو یکجا کرنااور انھیں منظرِ عام پر لانا اہم کام ہے جس پر ڈاکٹر نسیم عباس احمر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
——