فضائل حضرت امام حسین و اہلِ بیت اور حادثہ کرب وبلا
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
hhmhashim786 @gmail.com
اللہ رب العزت نے ہر زمانے میں انبیا ئے کرام کو مبعوث فرمایا – بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے مصطفی جان رحمت ﷺ نے اللہ کی وحدانیت، عقیدہ توحید اور اپنے رسول ہونے کا اعلان فرمایا۔ آپ ﷺ کی جانب سے دی جانے والی دعوت اسلام پر جن لوگوں نے لبیک کہا،آپ ﷺ کا دیدار اور پھر ایمان پر ہی اس دنیا سے پردہ فرما گئے وہ حضرات صحابی یعنی حضور ﷺ کے صحبت یافتہ کہلائے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی رضا مندی کی خوش خبری سنائی جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْاعَنْہُ ط ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ(القرآن ، سورہ البینہ۹۸ ، آیت ۸) ترجمہ:اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی،یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔(کنزالایمان) بڑی رحمت ونعمت ہے کہ رضائے رب تبارک تعالیٰ مرضیِ مولا ،اہلِ بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حاصل ہوگئی ہے اور انہیں اس قدر اجر عظیم اللہ سے ڈرتے رہنے کی وجہ کر ملا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار نعمتیں ملیں۔ صحابہ کرام و اہلِ بیت اطہار کو ہدایت یافتہ ہونے کی بشارت بھی ملی۔
وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وََکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط اُوْلٰءِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْن۔(القرآن سورۃ الحجرات ۴۹، آیت ۶۷) ترجمہ: اللہ نے تمہیں ایمانی پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگواراکردی، ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں۔یہ سب آسمانی ہدایت کے چمکتے ستارے ہیں۔اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خصوصیت یہ ہے کہ نبیِ رحمت ﷺ کی صحبتِ پاک نے ان کو محفوظ عن الخطا کردیا۔ ان صحبت یافتہ نفوس کے سردار بہ اجماعِ امت چار یار باصفا ابوبکرو عمرو عثمان و حیدررضی اللہ علیہم اجمعین ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس بابرکت جماعت میں ایک جماعت ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ہے جن کا تعلق براہ راست کاشانۂ شافع یوم النشور ﷺ سے ہے۔ اس جماعت صحابہ کو اہلِ بیت کہتے ہیں۔ ان اہلِ بیت میں آپ ﷺ کی ازواج ، اولاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ ان کے فضائل و محاسن بے شمار ہیں۔ خصوصی طور پر حضور نبی رحمت ﷺ نے ان حضرات اہل بیت میں بھی چار ہی کو تخصص بخشا۔ جن میں اول لخت جگر مصطفی ﷺ ، فاطمۃ الزہرا ، شوہرِ فاطمہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ اور ان کے دو پھول ہیں جیسا کہ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کہتے ہیں:
کیا بات رضا اس چمنستان کرم کی
زہرا ہیں کلی جس میں حسین اور حسن پھول
حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔ قرآن کریم و احادیث کریمہ میں ان چار نفوس اہلِ بیت صحابہ کرام کے بے شمار فضائل و مناقب موجود ہیں۔ تمام اہلِ بیت مصطفی سے محبت فرض ہے۔ خصوصاًان چار نفوس کے ساتھ فرض عین ہے بلکہ سرمایہِ ایمان ہے۔ رضائے خداوندی و رضائے مصطفوی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرمارہاہے۔ قُلْ لَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰیط (القرآن،سورۃ شوریٰ۴۲، آیت ۲۳) ترجمہ: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت اور جو نیک کام کرے ہم اس کے لئے اس میں اور خوبی بڑھا ئیں ، بے شک اللہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے۔(کنزالایمان)اس ہدایت و تبلیغ پر اور تمہاری خیر خواہی پر میں تم سے کچھ طلب نہیں کررہا۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اپنی بڑائی سے دور ہوجاؤ اور ہمارے قرابت (رشتے) داروں کو ایذا نہ پہنچاؤ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس سے مرادقرابت دار آلِ محمد ﷺ ہیں۔صاحب درمنشور علامہ جلاالدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد آپ ﷺ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! من قرابتک ھؤلاء الذین وجہت علینا مؤدتھم (اے اللہ کے رسول وہ آپ سے قریبی کون ہیں جن کے ساتھ محبت کرنا ہم پر اللہ کی طرف سے واجب کیا گیا) تو اس کے جواب میں رسول کریمﷺ نے فرمایا: قال علی و فاطمہ وولدھما۔علی ، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے یعنی حسن اور حسین۔ مشکوٰۃ شریف میں حدیث مبارکہ ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:وحبونی لحب اللہ واجسو اہل بیتی لحبی (مجھے محبوب رکھو اللہ کی محبت کی وجہ سے اورمیرے اہلِ بیت کو محبوب رکھو میری محبت کی وجہ سے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:احب اللہ من احب حسینا(جس نے حسین نے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی)(مشکوٰۃ شریف ص:۵۷۱، خطبات محرم ص:۳۳۱) حضرت علامہ ابن کثیر نے البدایہ وانہایہ میں حدیث مبارکہ بروایت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے ۔آپ فرماتے ہیں : حضور نبی رحمت ﷺ نے سیدنا علی، حسن و حسین اور فاطمہ کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ میرا اعلان جنگ اس کے ساتھ ہے جو تمہارے ساتھ لڑے،سلامتی ہے اس کے لئے جو تمہارے ساتھ سلامتی سے پیش آئے۔ اہلِ بیت بالخصوص حسنین کریمین کے فضائل میں محدثین کرام نے بے شمار احادیث روایت کی ہیں، جو کتابوں میں درج ہیں۔ اہلِ بیت سے محبت و عقیدت رکھنے والے مطالعہ فرمائیں اور ان کے کردار کو اپنائیں۔
حادثہِ کرب وبلا معرکہِ حق وباطل یا اقتدار کی جنگ؟ اوپر ذکر کی گئی آیاتِ قرآنی و احادیث طیبہ اور واضح دلیلوں کے باوجود لوگ امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کی جنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دراصل وہ صحابہ کرام و اہلِ بیت کرام سے بغض رکھتے ہیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔بغض و حسد کی وجہ کر ہی شیطان راندہ بارگاہ رب العالمین ہوا۔ اس پر آپ توجہ فرمائیں۔ اصل مسئلہ کیا ہے، جولوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے درمیان تنازعہ اور لڑائی اقتدار کے لئے تھی۔یزید خلیفہ راشد تھا اور مسلمانوں کی اکثریت نے برضا و رغبت بلا جبر وکراہ و تحریص(لالچ) و ترغیب اس کی بیعت کی تھی اور حضرت امام حسین نے اس کے خلاف بغاوت اس لئے کی تھی وہ خود خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ اس طرح کے گمراہ کن خیالات کی ترویج و اشاعت بھی کررہے ہیں۔
معاذ اللہ معاذاللہ! اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ جب اللہ رب العزت نے ان کی پاکی و صفائی کا علان فرمایا :اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً(القرآن سورہ احزاب۳۳، آیت ۳۳) ترجمہ: اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے(رسول اللہ کے) اہلِ بیت !تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل(اور شک و نقص کی گرد تک) دور کردے اور تمہیں(کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک و صاف کردے۔ اہلِ بیت کی طہارت اور پاکیزگی کااعلان اللہ رب العزت نے فرمایا اور حضور کریم ﷺ نے ان کے جنتی بلکہ جنتی نوجوانوں کا سردار ہونے کی بشارت دی اللہ جل شانہٗ اور اس کے محبوب نبی کریم ﷺ سے زیادہ اپنے قول میں اور وعدہ میں کوئی سچا نہیں۔ قرآن میں ہے :وَعْدَاللّٰہِ حَقًّا وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً۔(القرآن سورۃ النسا۴،آیت ۱۲۲) ترجمہ: اللہ کا وعدہ سچا اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ۔(کنزالایمان) وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا۔(القرآن سورۃ النسا۴، آیت ۸۷) ترجمہ: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی(کنزالایمان) ان گمراہ کن خیال کرنے سے معاذ اللہ معاذاللہ اللہ جل شانہٗ کے وعدہ اور سچ ہونے پر شک ہوتاہے جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ایمان پر غور کرنا چاہئے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے ،اٹل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے : سب سے زیادہ سچی بات کلام اللہ ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد(ﷺ ) کی ہدایت ہے۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ جھوٹ، وعدہ خلافی اور اس طرح کے نقائص و عیوب سے پاک ومنزہ ہیں۔ اور اللہ نے جن لوگوں کو کامل طور پر معصیت ، گناہ اور ہر طرح کی بری باتوں سے پاک وصاف فرمایا ہے ، ان سے بھی اس طرح کے گناہ او ر جرائم کا صدور شرعاً ناممکن ہے۔ دور جدید کے خارجیوں اور گستاخانِ رسول و اہلِ بیت ،یزیدیوں کو غور کرنا چاہئے کہ جگر گوشۂ رسول ﷺ کو خطاکار ثابت کرنے سے کہیں وہ اپنے ایمان سے ہی تو ہاتھ نہیں دھو بیٹھے ہیں۔ یزید کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے غور کریں۔ (سوانح کربلا، شرح عقائد نفی، صفحہ ۱۱۷) میں رایانی اپنی سند میں صحابیِ رسول حضرت ابو داؤد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سناہے:اول من یبدل سنتی رجل من بنی امیہ یقال لہ یزید۔ میری سنت کا پہلا بدلنے والا ایک شخص بنی امیہ کا ہوگا جس کانام یزید ہوگا۔(تاریخ الخلفا، صفحہ ۱۴۲) یزیدیوں کے ظلم و ستم او رجورو جفا کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ اس طرح کا المناک حادثہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر کسی نبی کی اولاد کے ساتھ پیش نہیں آیا،جو ظلم جانِ کو نین ﷺ کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا پر ہوا۔ تاریخ گواہ ہے ان پاک نفوس کے فضائل تو قرآن و احادیث میں بے شمار موجود ہیں۔ پھر بھی دلوں میں کجی ہے تو اللہ سے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ یزید کے فسق و فجور کی دنیا قائل ہے۔ علامہ سعید الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل اور اہلِ بیت کی توہین و تذلیل پر یزید کے برا کہنے پر توقف نہیں کریں گے(اسے ہر حال میں برا کہیں گے)۔البتہ اس کے ایمان کے بارے میں توقف کریں گے(نہ اسے کافر کہیں گے اور نہ مومن)۔ محدث ابن جوزی بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔ (سوانح کربلا)
اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت اطہار کی محبت سے سرشار فرمائے اور یزیدیوں سے دور نفور عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین-