عجیب غم ہے’ غموں کا علاج کرتاہے !
عظمت علی
مشہور کہاوت ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم اور ہر درد کا مداویٰ ہے ۔ کڑ یل جوان کے موت کی خبر سنتے ہی ماں ہو ش وحواس کھو بیٹھتی ہے ۔اب ہر وقت آنکھوں کےساحلوں پر اشکوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ۔مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتاہے ،ذہن پر فراموشی کی گرد بیٹھتی جاتاہے اور آنکھوں کی نمی خشکی میں تبدیل ہوتی جاتی ہے اور پھریوں ہوتا ہے کہ آنکھیں نم ہوئیں اوربس !
تجارت میں بھاری نقصان ہوا ۔ اطلاع پہونچتے ہی چہرے پر پژمردگی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور چین و سکون رخصت ۔لیکن جوں جوں حالات کروٹیں لیتا ہے ، نا امیدی و شکستگی کے آثار رفتہ رفتہ مدہم پڑتے جاتے ہیں اور ایک مدت بعد طاق نسیاں کے حوالہ ہوجاتے ہیں ۔
بنی نوع آدم کی تاریخ میں ایسے بے شمار دلخراش واقعات نے جنم لیا مگر چند برس بعد ہی فراموشی کی نذر ہوگئے ۔ کربلاایک ایسا واقعہ ہے جو آج بھی اسی شان وشوکت سے زندہ ہے اوراسلام محافظ اور حق و باطل کا معیار بنا ہوا ہے۔ اس کا انفرادیت یہ ہے کہ زمانے کی ستم ظریفی کے باوجود اس میں دن بدن نکھار پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔اس کی مختصر سی داستان یہ ہے کہ معاویہ کا انتقال ہوتا ہے اور یزید عنان حکومت سنبھال لیتا ہے۔ وہ ،آل رسول کا دشمن اپنے کو جانشین مصطفیٰ اور خلیفۃ المسلین کا دعویدار بن بیٹھا۔ ا س نے اپنی باطل حکومت اور اپنے صفات رذیلہ کی یوں ترجمانی کی ہے ۔
لیت اشاخی ببدر شھدو ا
جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلو ا واستھلو ا فرحا
ثم قال یا یزید لاتشل
قد قتلنا القوم من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل
لعبت بنی ھاشم بالملک فلا
خبر جاء و لاوحی نزل
کاش کہ !آج میرے وہ بزرگ ہوتے جو جنگ بدر میں مارے گئے توخوش ہوتے اور مجھ کو دعا دیتے کہ اے یزید ! تیرے ہاتھ شل نہ ہو۔ میں نے ان کے چنندہ بزرگوں اور سادات بنی ہاشم کا قتل کیااور جنگ بدر کا انتقام لیاتو بدلہ بھی پورا ہوگیا۔ دراصل !بنی ہاشم نے ملک گیری کا ایک ڈھونگ رچاتھا ۔ نہ ان کے پاس کے پاس کوئی فرشتہ آیا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی۔(لہوف ،مؤلف :سید ابن تاؤوس ،صفحہ 234،ناشر :انتشارات نبوغ ،نوبت چاپ بیستم 1393چاپخانہ باقری ، سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 143،تاریخ طبری جلد 7 صفحہ 383اور بحارالانوار جلد 45صفحہ 132)
اس اشعار کےمطالعہ سے ہر صاحب بصیر ت کی یہی متفقہ رائے ہوگی کہ وہ تو مسلمان کہے جانے کے لائق نہ تھاچہ برسد خلیفۃ المسلمین ۔۔۔!
دور حاضر میں کچھ ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے یزید کو رضی اللہ کے لقب سے پکارا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید ارشاد فرماتاہے :”صم بکم عمی فھم لایبصرون۔ "یہ سب بہرے ،گونگے اور اندھے ہوگئےہیں ۔(سور ہ بقرہ 18)۔
یزید نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اسلام کی نامور شخصیتوں کے پاس پیغامات بھیجے اور ان سے مطالبہ بیعت کیا ۔اسی مقصد کے تحت ایک خط مدینہ کے حاکم کو بھی لکھا اور اس بات کی طر ف توجہ دلائی کہ امام حسین سے بھی بیعت لے لی جائے اور اگر وہ انکار بیعت کریں تو انہیں قتل کردیا جائے ۔ حاکم مدینہ نے یہ خبر امام حسین علیہ السلام تک پہونچادی اور جواب کا مطالبہ چایا ۔
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”انا للہ وانا لیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامۃ براع مثل یزید "جس وقت حکومت اسلامی کی مسند پر یزید جیساآدمی تخت نشین ہوجائے تو اس وقت اسلام کا بس خداحافظ !(رہبران معصوم صفحہ 256دوسرا ایڈیشن اور مقتل خوارزمی جلد 1صفحہ 184)
جب خاندان عصمت و طہارت نے دیکھاکہ پانی سر سے گزرہاہے اور دین اسلام خطرے میں پڑگیا ہے تو 28 رجب المرجب60ھ میں مدینہ کو الوداع کہ دیا۔ امام علیہ السلام محو سفر تھے کہ اچانک ایک صحابی نے تکبیر بلند کی ۔
امام نے سوال کیا :تم نے تکبیر کیوں کہی؟
صحابی نے عرض کیا:میں نخلستان دیکھ رہا ہوں ۔
اصحاب نے عرض کیا:ہم نے اب تک اس جگہ پر کوئی نخلستان نہیں دیکھا !
امام نے فرمایا:پس تم کیا دیکھ رہے ہو؟
عرض کیا :بخدا قسم ! گھوڑے کے کان دکھائی دے رہے ہیں۔
امام نے فرمایا:میں بھی یہی دیکھ رہاہوں ۔ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ مکمل طور پر حر ابن یزید ریاحی اپنے لشکر سمیت نظر آنے لگا۔ (زندگانی چہاردہ معصوم 824طبع :خیابان خاکفرج ،کوچہ 75 انتشارات آئین دانش ،قم ،ایران )
امام علیہ السلام جس مقام سے روانہ ہوئے تھے (وہاں سے ) پانی کاذخیرہ کرلیا تھا۔ راستہ میں آپ سے ایک قافلہ آملا۔
اما م علیہ السلام نے فرمایا:ساری گفتگو بعد میں !پہلے یہ بتاؤ کہ چہرے پر پژمردگی اور تھکاوٹ کاسبب کیاہے؟
عرض کیا :پیاسے ہیں ۔
امام نے اپنے اصحاب کو پانی پلانے کاحکم دیا۔ ایک ہزار کے لشکر کوسیراب کیاگیا اور حکم امام علیہ السلام کے مطابق جانوروں کو کئی بار (جب تک انہوں نے خود سے منھ نہیں ہٹالیا) پانی پلایا گیا۔
حر کے سپاہیوں میں سے ایک شخص کا بیان ہے کہ میرے اوپر پیاس کی اتنی شدت تھی کہ گھبراہٹ کے سبب میں پانی نہیں پی پارہا تھا۔ ایسے عالم میں حسین خود تشریف لائے اور مجھے سیراب کیا۔
امام حسین علیہ السلام کے اس اخلاق کو ملاحظہ کیجئے اور پھر اس نظریہ پر ایک نگاہ ڈالیں کہ کیا آپ نے بغاوت کی تھی اور جنگ کے لئے نکل پڑے تھے؟! دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے ۔
آپ جنگ کی خاطر نہیں نکلے تھے ورنہ دشمن کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلانا اور ان کی خاطر داری کرنا، جنگ کی نشانی ہے یا انسانیت کی معراج ۔۔۔؟!
دوسری محرم الحرام کو یہ قافلہ وارد کربلا ہوا۔ امام نے سوال کیا کہ یہ کون سے سرزمین ہے ؟
لوگوں نے بتایا: یہ کربلا ہے۔
امام نے فرمایا:”اللھم انی اعوذ بک من الکرب والبلاء "میرے اللہ ! تجھ سے ہر کرب و بلا سے پنا ہ چاہتا ہوں ۔(لہوف :مؤلف سید ابن طاؤوس صفحہ 110،ناشر :انتشارات نبوغ نوبت چاپ بیستم 1393چاپخانہ باقری )
تسبیح و تہلیل میں شب وروز بسر ہوتے رہے یہاں تک کہ شب عاشور آئی ۔ امام نے تما م اصحاب وانصار کوجمع کیا اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا:میں تم سے اپنی بیعت کا قلادہ اٹھائے لیتاہوں ۔ جنت کی بھی ضمانت لیتاہوں ۔ اب جسے جانا ہے وہ جائے ۔آپ نے چراغ بھی گل کردیا پھر بھی کوئی پروانہ شمع امامت سے دور نہ ہوا۔ امام نے چراغ بجھا کے یہ بتایا کہ دیکھو یہ ہیرے ہیں انہیں رات کی تاریکیوں میں ہی پر کھا جاسکتاہے ۔
میدان کربلا میں ایک طرف تاحد نگا ہ لشکر تھا جو شمشیروں، نیزوں، کمانوں اور بھالوں سے لیس تھا۔ مگر دوسری طرف نصرت خدا، حصار امامت، عزم محکم، ثبات قدمی، جذبہ ایثار و فداکاری اور راہ خدامیں جان کا نذرانہ پیش کرنے کا ولولہ تھا ۔امام حسین علیہ السلام اور آپ کےاصحاب کے پاس اسلحوں کا فقدان ظاہر کرتا ہےکہ وہ جنگ کے لئے نہیں بلکہ اپنے لہوسے دین کی آبیاری کرنے آئے تھے۔ امام علیہ السلام کسی بھی صورت میں آمادہ برسر پیکار نہ تھے بلکہ ہمیشہ صلح ومصالحت کے حامی رہے تھے۔ مگردشمن پر دولت و حکومت کانشہ چڑھاتا ۔اس لئے اس نے جنگ کا آغاز کردیا۔ امام علیہ السلام کےاعزاء و اقارب راہ خدا میں مر کےامر ہوگئے اور یہ پیغام دے گئے کہ "ولا تحسبن الذین قتلو افی سبیل اللہ امواتابل احیاء عند ربھم یرزقون "اور خبردار راہ خدامیں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔(سورہ آل عمران 169)
کربلا کے مہمانوں نے ہر دردکوخرید کر جان کا سودا کیا۔ انہیں کا صدقہ ہے کہ ’اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد‘۔ کروڑوں سلام ان جیالوں پر جن کےزخم امت کے زخموں کا مرہم بنے اور جن کا غم لوگوں کے غموں کا علاج بنا!