کلام اقبال میں فکری و اصلاحی جہات
جاگیردار عذرا شیرین
ریسرچ اسکالر و جز وقتی لکچرر
مہاراشٹرا اودیگری کا لج ٗ اودگیرضلع لاتور
Mob:7721952754
شاعری امکانی حدوں کا اک سلسلہ ہے۔ یعنی حیات وکائنات کے وہ مرکزی حقائق جو انسانی زندگی کوزیادہ سے زیادہ متاثر کرتے ہیں اور مترنم خیالات ومحسوسات بن کر موزوں ترین الفاظ و اندازِبیان میں اظہار پاتے ہیں تو شعر کہلاتے ہیں۔
شاعری کو عام طور پر لطفِ طبع کاذریعہ سمجھ کر اسے اعمالِ حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا اور تاویل قرآن پاک سے دی جاتی ہے کہ شاعر جھوٹ بولتے ہیں۔اُن میں عمل کا فقدان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں علمائے جمہور کی رائے یہ ہے کہ اعلی مقاصد کے تحت لکھی گئی شاعری اندھیروں میں اجالوں کا کام کرتی ہے اور جھوٹ ہوتے ہوئے بھی اس سچ کا احساس دلاتی ہے ٗ جس کا ادراک ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ
’’جس شاعر ی سے ملت کا دل قوی ہواور اس کی ہمتیں بلند ہوں ،اس کو اعلی درجے کے اعمالِ حسنی میں شمار کیا جانا چاہیے‘‘(1)
اردو شاعری ابتدا ہی سے اعلی مقاصد کی حامل رہی ہے ۔اس میں انسانی اقدار و تحفظ کا پاس ولحاظ رکھا جاتاہے ۔اصلاح و عمل اور فکری رجحا نات کی تشہیر کی جاتی ہے۔ملک و ملت کے عالم گیر مسائل کا حل بھی یہاں ڈھونڈا جاتا ہے۔شرق و غرب کے بہترین افکار پر بحث کی جاتی ہے۔ غرض خو ابیدہ انسانیت کو جگانے اور حرکت و عمل پر مائل کرنے کے لیے شاعری بانگِ درا بنی۔ شاعر کاجذبۂ تخلیق جب لفظوں کی فراوا نی اور ترکیب سازی کے مراحل سے گزر کرشعورِجمال کا مظہربنتاہے اور اس کے جذبا ت و احساسات کی باریکی‘ نیرنگی فطرت کے تحت پل پل رنگ بدلتی کا ئنات کے تجربا تی جو ہرلٹاتی ہے ٗ تو شاعر اپنے عہد کی بے مثال اور قابلِ رشک شخصیت بن جاتا ہے۔یہی بات ہم ڈاکٹر سر محمد اقبال کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔
اقبال بیک وقت مفکر ،مدبر ،دانشور ،حکیم الامت ،مصلحِ قوم ٗ ر ہبرِ دین و دنیا اورقومی و ملی شاعر ہیں۔ان کی شاعری کا موازنہ اردو کے کسی بھی شاعر سے کیا جائے تو اقبال کا پلڑا نہایت بھاری نظر آتا ہے۔اس کی وجہہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مہذب ترین اور اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کی تشہیرکی ہے ٗ مذہبی افکار و نظریات کا مشرقی امتزاج اقبال کی شعری پہچان ہے ۔ قومی و ملی درد اور بے پایاں تڑپ کے تئیں اُن کا شعری تجربہ سماجی ،طبقاتی ٗاور سیاسی حالات کی بھٹی میں تپ کر بین الاقوامی یا عالمگیر احساس کا حامل ہوگیا ہے اور یہ پھیلا ؤ انہیں کسی بھی پل سکون عطا نہیں کرتاٗیہیں ان کے قلم کو وہ راہیں مل جاتی ہیں جسے جدت آمیزی اوراصلاح پسندی کا نام دیا جاتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں ایک کائنات سمائی ہوئی نظر آتی ہے ۔اس لیے کائناتی مسائل بھی یہاں دکھائی دیتے ہیں ۔موضوعات کی لہریں ہر
(2)
طرف سر ابھارتی ہیں اور تخلیق کا سمندر مد و جزر برپا کرتا ہے۔ حسن وعشق کا موضوع اگرچہ حکما ء اور صوفیا کے یہاں بھی ملتا ہے لیکن ٗ اقبال نے حسن
کے مقابلے میں عشق کی ہمیشہ سراہنا کی ہے اور عاشق صادق کی خودداری کا اظہارکیا ہے۔
بے خطر خود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
باغِ بہشت سے مجھ کو حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
اسی طرح عرفانِ ذات اور عرفانِ نفس کامضمون بہت قدیم ہے لیکن اقبال نے فلسف�ۂ خودی کی تخلیق کرتے ہوئے اس میں جدت اور تنوع پیدا کردیاہے ۔ اولیا ئے عظام اور صو فیا ئے کرام کا ہمیشہ اللہ جمال و یحب الجمال کے پیشِ نظریہی عمل و عقیدہ رہا کہ مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
جب کہ ہمیں اقبال یہ بتاتے ہیں جو بندہ اللہ کی محبت میں فنا ہو جاتا ہےٗ وہ فنا ہو کر بھی بقا اختیار کرتا ہے ٗ اور ایساقطرہ سمندر میں مل کے بھی اپنا وجود برقرار رکھتا ہے ۔
غواصِ محبت کا اللہ نگہبان ہو
ہر قطرۂدریا میں ہے دریا کی ہے گہرائی
قیامت کا منظر ہمیں معلوم ہے کہ کتنا دلخراش ہوگا ٗ جہاں ہر انسان نفسا نفسی کا شکار ہوگا اور ہر کسی کو اپنے حساب و عمل کی پڑی ہوگی ٗ وہاں دیکھیے کہ اقبال اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں:
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
اس طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی فکر ہو کہ عقیدہ اقبال کی دکان بھی مولانا حالی کی طرح سب سے الگ اور منفرد نظر آتی ہے ۔ مو ضوعات کا یہ پھیلاؤ اردو کے کم ہی شعراء کے ہاں پایا جاتا ہے۔اس سلسلے میں خان عاقب حسین کا اقتباس بے محل نہ ہوگا:
’’ کلامِ اقبال میں مذہبی سرچشموں کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کی رعنائیاں بھی ہیں اور قوموں کاعروج وزوال بھی ہے۔تاریخ کے دھارے بھی ہیں ،عصرِنو کی تحریکیں بھی ہیں اور فکر و دانش کی شمعیں بھی ۔سائنس کے تجربات کے ساتھ ساتھ فلسفوں کی کشاکش بھی ہے۔اور کھوئے ہوؤں کی جستجو بھی ہے۔ایسے راسخ العلم شخص کا یہ کہنا کہ ’’ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے ‘‘ ایک نرالا اندازِ بیان ہے۔(2)
اقبال فلسفہ خودی کے خالق کہلائے ۔انہوں نے سادہ ٗدرویشانہ ا ور قلندرانہ زندگی گزاری۔ان میں مولانا حالی کی حقیقت شناسی،غالب کے تخیل کے ساتھ ہم آغوش ہو گئی تھی ۔ کلیتاََ کسی حکیم ،ملا ،صوفی و فقیہہ سے ہم آہنگ نہیں ہوئے۔ ۔آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھ کھول کر دیکھتے اوردکھاتے رہے۔ اقبال کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ مغربی و مشرقی علوم وفنون پر یکساں مہارت رکھتے تھے اور مغربی افکار کے روشن پہلووں سے اصلاح و تجدید کا کام لینا چاہتے تھے۔ ان کے پیش رؤوں میں محمد حسین آزاد ،الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی نعمانی نے مغرب کے بعض جدید اثرات قبول کئے تھے لیکن براہِ راست انگریزی زبان یا مغربی افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے ٗ جب کہ محمد حسین آزاد نے ’’ نیرنگِ خیال ‘‘ میں یہ پیشن گوئی کی تھی جو اقبال میں مجسم ہو گئی :
’’ آئندہ درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب و مشرق دونوں کے خزینہ افکار کی چابیاں ہوں گی ۔‘‘(3)
1905سے اقبال کی شاعری کا با ضابطہ آغاز ہوا۔یہ دور ان کی وطنی شاعری کا دور تھا ۔’ہمالہ ‘حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر لکھی گئی پہلی نظم ہے۔شاعر کی نگاہ میں ہمالہ صرف ہندوستان کا ایک بلند و بالا خوب صورت پہاڑہی نہیں بلکہ ایک ایسی عبرت گاہ ہے جس کے دامن میں ہزاروں سال کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔
اے ہمالہ ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے جھک کہ تیری پیشانی کو آسماں
’’ترانہ ہندی‘‘ میں پھر ایک بار ہمالہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پر عظمت پہاڑ، ہند کا پاسباں ہے جس کے گود میں ندیاں بہتی ہیں اور سارے اہم امور اسی کے سائے میں انجام پاتے ہیں۔
پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں جس کی ہزار ندیاں
گلشن ہیں جن کے دم دے رشک جنا ں ہمارا
اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمالات کا استعمال وطن پرستی کے زمرے میں صرف کیا تو ان کے کلام کی دھوم مچ گئی اور مسلمانوں سے زیادہ ہندو متاثر ہوئے ۔ ’ترانہ ہندی‘ کی شہرت آزادی کے وقت سے اب تک جاری ہے۔نیز ’’نیا شوالہ ‘‘ آج بھی وطن پرستی کی شاندار مثال ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
پتھر کی مورتی کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
کلام اقبال میں ہندوستانی فضا ؤں ٗ ہواؤ ں اور یہاں کے پہاڑی و میدانی علاقوں کا تذکرہ بھی جا بجا ملتا ہے ۔’ پہاڑ اور گلہری ‘’ابرِ کہسار ‘’وطنیت‘ ‘’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ‘ ’ایک آرزو ،’راوی کا کنارہ ‘جیسی نظمیں اس قبیل کی ہیں۔اقبال کے یہاں حب الوطنی کا دوسرا رخ بھی نظر آتا ہے جس میں وہ ہندوستان کے علماء،صفحا ، منیوں اور رشیوں سے اپنی محبت و احترام کو ظاہر کرتے ہیں۔نظم ’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ‘ کے پہلے شعر کے دو مصرعوں میں خواجہ چشتی ؒ اور گرو نانک کا ذکر ملتا ہے۔انہیں اقبال نے پیامبرانِ توحید و حق کہا ہے۔
چشتی نے جس زمیں پر پیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن یہی ہے میرا وطن یہی ہے
فکرِ اقبال کے مشرقی سر چشموں کو اسلامی اور غیر اسلامی ماخذوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔مثلاَ غیر اسلامی ماخذات میں مذکورہ دانشوران کے علاوہ رامانج کی بھگوت گیتا اور کرشن کے پیغام اور سوامی رامانند تیرتھ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے نیز اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں اقبال نے ویدانت اور اپنیشد وں کے بارے میں اشارے دئے ہیں۔انھوں نے قدیم ہندوستان کے مفکر ’’کپل‘‘کے تینوں گنوں پر بحث کی ہے اور ایرانی مفکر ’’مانی ‘‘کے پیش کردہ فلسفیانہ نظریے کے ساتھ اس کا تعلق ظاہر کیا ہے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ،ہندو ذہن کو اس کے صحیح تاریخی اور مذہبی تناظر میں سمجھیں ۔اقبال کو ہندووں کی مذہبی کتابوں کے اردو تراجم پسند نہیں آتے تھے اور وہ ان کا اپنے طور پر ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔اقبال نے اسلامی ادب بالخصوص قرآن و حدیث کے علاوہ جن اسلامی مفسرین سے استفادہ کیا ٗ ان میں حضرت جنید ؒ ،مولانا رومؒ ،الجبیلی ،شہاب الدین مقتول ،عراقی ،امام غزالی ،ہجویری ،منصور حلاج ،شیخ احمد سرہندی ،مجدد الف ثانی ،شاہ ولی اللہ ،سر سید احمد خان ،جمال الدین افغانی کے نام کافی اہم ہیں ٗجبکہ شعرا میں بیدل ،غالب اور مولانا حالی کا ان پراثر نظر زیادہ آتاہے۔ مغربی افکار کے سر چشمے اقبال نے آرنلڈ،برگساں،دانتے ،نیطشے ،گوئٹے اورلینن سے حاصل کئے اور آہِ سحر گاہی میں وہ سب حاصل کیا ٗ جو شاعر اسلام اور شاعر مشرق کہلانے کے لیے کافی تھا۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال کی شہرت سبھی حدیں توڑ گئی ۔
درویش خدا مست نہ مشرق ہے نہ مغرب
گھر میرا نہ دلی ،نہ صفاہاں ،نہ سمر قند
اقبال نے وطن اور ملت کے علاوہ عالم گیر افکار پر بھی عمیق نگاہ ڈالی ہے۔وہ زندگی کے کسی لمحے میں انسانی مسائل و معاملات سے لا تعلق نہیں رہے۔ گذشتہ صدیوں میں ہوئی انسان کی پامالی اور اقدار کی شکست و ریخت نے اقبال کو پریشان کر دیا۔ وہ انسان کے فوق البشر ہونے کے قائل تھے ۔ انسانی تباہ حالی ٗ بد حالی اور پستی ان سے دیکھی نہ گئی ۔جس کا اندازہ ان کی نظم ’’انسان اور بزمِ قدرت ‘‘ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے انسان اور قدرت کے مابین ہونے والے سوال و جواب کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے ٗکہ انسان مالک حقیقی کی رحمتوں اور نور کے اجالوں سے کیوں دور ہو گیا ہے ٗجبکہ قدرت کی دوسری تخلیقات نباتات و جمادات روشن ،سر سبز و شاداب ہیں۔
میں بھی آیا ہوں اس نور کی بستی میں مگر
جل گیا میری تقدیر کا اختر کیوں کر
انسان کے وجود اور اس کی غرض و غائیت پر اقبال مستقل غور کرتے رہے اور انسانی اقدار کی زبوں حالی کا بھی انہوں نے گہرا مطالعہ کیا۔1915ء میں انہوں نے اصلاح و شناخت کا نرالہ طریقہ ’فلسفہ خودی ‘ کی صورت میں پیش کیا ۔جس میں انسان کی عظمت اور بزرگی کو پیش کرتے ہوئے اسے کائنات کی سب سے محبوب شئے بتایا۔ان کا کہنا تھا کہ قوموں کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر شدید احساس کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔گویا فلسفہ خودی انسان کی انفرادی سوچ کا نقطۂ آغاز ہے جو پھیل کر وسیع ہوتا ہے اور اجتماعی شعور کی منزل حاصل کر کے معاشرے کے استحکام کی ضمانت بن جاتا ہے۔اقبال نے نظم ’’ شمع و شاعر ‘‘ میں انسان کی انہی خوبیوں کو پیش کیا ہے ۔
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ،رہرو بھی تو ،رہبر بھی تو ،منزل بھی تو
بے خبر !تو جو ہرِ آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اقبال ساری دنیا کے مسلمانوں کی بے راہ روی اور پریشان حالی سے انتہائی فکر مند تھے ۔وہ ملتِ اسلامیہ کے علاوہ پوری عالمِ انسانیت میں انقلاب کے آرزو مند تھے۔عصرِ حاضر میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے اس کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔’لوتھر ‘کی اصلاحِ کلیسا کی تحریک ،انقلابِ فرانس ،مسولینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش نیز انقلابِ روس نے اقبال کو فکری آگہی بخشی تھی ۔نظم ’ خضرِ راہ ‘ میں انہوں نے اس کو عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔خضر ؑ کے حوالے سے زندگی ،جمہوریت،سلطنت ،سرمایہ دار اور مزدور،صحرا نوردی کی حقیقتوں کو واضح کیا گیاہے۔اقبال کہتے ہیں کہ انقلابات نفوس میں ہیجان اور اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں اور اصلاح و عمل کی سبیلیں نکلتی ہیں۔۔اقبال ملتِ اسلامیہ میں اسی اضطرابی کیفیت کو ابھارنے کے لئے ملت کی ہمت بلند کرتے ہوئے امید دلاتے ہیں کہ
دیکھیے اس بحر کی تہ سے نکلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبال اسلام کے بہترین نظامِ حیات ہونے پر جہاں فخر محسوس کرتے تھے ٗ وہیں ملتِ اسلامیہ کے نوجوانوں کی زبوں حالی پر افسوس کرتے ہیں۔وہ خوابیدہ نوجوانان کے د ل ودماغ میں عمل کی چنگاری پیدا کرنا چاہتے تھے۔اس کی عمدہ مثال نظمیں ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘ ’خطاب ایک نوجوان کے نام ، قابلِ ذکر ہیں۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ،تیرے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا شکوہ خسروی بھی تو کیا حاصل ؟
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے مسلمانی
ہر چند کہ یہ نظم عنوان کے اعتبار سے’’ ایک نوجوان کے نام ‘‘ہے لیکن عملاََ یہاں اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے تمام نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تیرے ایوانِ راحت میں مغربی آرام و آسائش کے سارے سامان نظر آتے ہیں۔انہی سامانِ تعیش نے تمہیں تن آسان بنادیا ہے۔ یہ تن آسانی تمہیں زیب نہیں دیتی ۔ جفاکشی تمہاری صفت ہونی چاہئے ۔ اقبال نے یہ نصیحت بھی کی ہے کہ نوجوان اپنے اندر حیدرِکرار حضرت علی ؑ کی سی قوت و جرأت اور حضرت سلمان فارسی جیسا استغنا پیدا کریں۔ اسی طرح ’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام ‘ میں اقبال اصلاحِ فکر و عمل کی ضرب کاری ٗ اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر لگاتے ہیں۔وہ نو جوانوں کی بے بصری اور کم فہمی کو دیکھتے ہوئے حسرت آمیز لہجے میں کہتے ہیں کہ
کبھی اے نوجواں مسلم !تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا ،تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
شاعرِ مشرق نے ستاروں سے آگے کی منزل کا پتہ بتاتے ہوئے نوجوانانِ قوم کو دنیا فتح کرنے کی تلقین کی ہے۔ وقت اور حالات کے پیشِ نظر اقبال نوجوانوں کی فوری اصلاح کے حامی تھے چونکہ وہ مغرب و مشرق کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔ مغربی بے حیائی اور انسانی قدروں کا زوال انہیں ایک آنکھ نہ بھایا ٗ زندگی کی روح انہیں کہیں دکھائی نہ دی ٗ نیز یہی محرومی انہیں ملتِ اسلامیہ میں بھی نظر آئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے خرد کی بنیاد پرمادی ترقی تو حاصل کرلی لیکن روحانیت میں پیچھے رہ گیا۔جبکہ مشرق ملا،صوفیاور سیاسی راہ نماؤں کے جھمیلوں میں الجھا رہا اور مادیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کے معاملوں میں بھی پریشان رہا۔اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا زمانہ ٗ کیا زمانے والوں کی تگ و دو
مغرب کی چالاکیوں اور عیاریوں سے اقبال دل برداشتہ تھے۔یہ تہذیب عالمِ روحانی کی منکر اورالحاد کی طرف مائل تھی۔اس کی ظاہری ترقی آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی لیکن اسکا حقیقی جوہر ماند پڑ گیا تھا۔اقبال نے یہ صورتِ حال دیکھی اور اندازہ لگا لیا کہ ملتِ اسلامیہ کا احیا مغرب کی اندھا دھند تقلید سے نہیں ہوسکتا۔انہیں اس بات کا بھی افسوس تھا کہ ہند کے علاوہ عالمِ اسلام کا بیشتر حصہ فرنگیوں کی زد میں جا چکا تھا۔ترکی و ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے خفیہ معاہدوں سے تقسیم کر رکھا تھا۔ لہذا اقبال چاہتے تھے کہ مسلمانانِ عالم نیل کے دریا سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر ایک ہو جائیں۔ اس لئے انہوں نے ایرانی مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں سے سن
اور ایران میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
اقبال انسانیت کے عروج کے حامی تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ مشرقی و مغربی روایات کے پھندوں سے باہر نکل کر عوام اپنی طاقت ،اجتماعیت اور یگانگت کا استعمال کریں نیز غلامی کی زنجیروں سے باہر نکلیں۔جمہوریت کے مفہوم سے آگاہی حاصل کریں اور سلطنت وحکومت کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہیں اور سیاست کو مذہب سے ہم آہنگ کریں۔عوام میں مذکورہ اصطلاحات کی افہام و تفہیم کے لئے اقبال نے نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ لکھی ۔جس میں انہوں نے قوم کے ناقص سرمایہ دارانہ نظام پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔سرمایہ داروں کی اجارہ داری سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے اقبال نے مزدوروں کو یہ کہہ کر بیدار کیا ہے کہ
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اقبال افراد میں ذاتی شناخت و ریخت کا جذبہ چاہتے تھے ۔ان کی صلاحییتوں کو مناسب سمت میں بڑھتا دیکھنے کے خواشمند تھے۔جس کا حصول صرف بہتر تعلیم سے ہو سکتا تھا۔’ تعلیم ‘ اقبال کے اصلاحی موضوعات اور افکار کا اہم ترین پہلو ہے۔وہ گر چہ ماہرِ تعلیم نہ تھے لیکن اس کے بنیادی اور کلیدی عناصر سے بخوبی واقف تھے۔ وہ کبھی کسی ایسے تعلیمی منصوبے کے حق میں کبھی نہ تھے جس کا رشتہ مذہبی فکر اور روحانی عقیدے سے منقطع کر دیا گیا ہو۔وہ سیکولر مغربی فکر کے حامل تعلیمی فلسفے کو قطعی نا پسند کرتے تھے کیونکہ اس فلسفے میں کائنات کے مسائل کو خدا کے بغیر حل کیا جاتا تھا۔اس کے بارے میں اقبال رقم طراز ہیں کہ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دینِ مروت کے لئے
معقولات سے منحرف ،سائنس ،فلسفہ ،تاریخ،سیاست ،معیشت ،قانون اور عمرانی علوم سے اہلِ اسلام کی دور ی کو اقبال ہلاکت اور رسوائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔عقل ودل کی معنویت اورتعلیم کی تہ بہ تہ پرتوں کو کھولتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ علم کا سب سے بڑا کمال فرد میں خودی کا پروان چڑھانا ہے۔خودی ہر تخلیق کی روح ہے اور یہ خود سر چشمۂ تخلیق بھی ہے ۔یہ انسانی نفسیات کا وہ نقطہ ہے جس سے تمام تصورات منور ہوتے ہیں۔اقبال کے تمام افکار کی اساس خودی ہے۔ان کے مطابق فرد میں خودی کا شعور ہی اسے کائنات و حیات کے ہمہ گیررازوں سے واقف کراتا ہے نیز عمل کے لئے بیدار کرتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
اقبال عصری نظامِ تعلیم سے حد درجہ مایوس ہو گئے تھے ۔وہ مدرسوں،مکتب و خانقاہوں کے زوال ،تہی مائیگی اور بے بصری کے ماتم گسار ہیں۔ان کے نزدیک اساتذہ و معلمین میں خلوص،ریاضت اور سچی لگن ناپید ہے۔روحانی تربیت کے سر چشمے خشک ہیں۔یہ لوگ معنوی اولاد کو کتاب خواں تو بنا سکتے ہیں ٗ لیکن کار زارِحیات میں حق کی سربلندی اور نجات کے لئے سینہ سپر ہونے کا ہنر نہیں سکھا سکتے۔چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک نہ زندگی،نہ محبت ،نہ معرفت نہ نگاہ
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
غرض اقبال تعلیم میں ہمہ جہت ترقی کے خواہاں ہیں ۔انہوں نے طالبِ علم کو بھی من میں ڈوب کر اپنے سراغ کوحاصل کرنے کا سبق پڑھایا ہے ۔وہ دورِ جدید کے مدرسوں میں پڑھنے والے ان طالبِ علموں کو جو اہلِ مغرب کے افکار و خیالات اور اس کی تہذیب و ثقافت کا شکار ہوچکے ہیں کہا ہے کہ تم ایک ایسے سمندر کی مانند ہو جس کے لہروں میں کوئی تڑپ اور بے قراری نظر نہیں آتی۔وہ دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کی زندگیوں کو طوفان سے آشنا کردے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نھیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
اقبال مزید کہتے ہیں کہ طالبِ علم نصابی کتابوں تک خود کو محدود نہ رکھے بلکہ معلوماتی،تحقیقی اور جدید و مفید کتابوں کا مطالعہ کرتا رہے نیز جو کچھ کہ وہ پڑھ رہا ہے اس پرعمل پیرا ہوجائے۔تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب رہے۔زندگی کے متعلق اگر اقبال کے افکار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسے امید و بیم کی مسلسل کشاکش کا نام کہا ہے ۔وہ زندگی کو ایسے عمل سے تعبیر کرتے ہیں جو نفع و نقصان کے تصور سے بلند ہوتا ہے۔زندگی دائمی ہے جسکا اصل آغاز موت کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ ا گر انسان کو لامتناہی زندگی کے جام پینے کا شوق ہے تو اسے جدو جہد سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہئے ۔
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ،پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سرِآدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
زندگی،موت ٗ بعد الموت ،جیسے موضوعات کے تحت اقبال نے فرد کی اصلاح کی کامیاب سعی کی ہے۔اقبال کے لامتناہی موضوعات اور فکر کے سرچشموں میں تہذیب و تمدن،فنونِ لطیفہ ،اشتراکیت ،سیکولرزم ،عقل و عشق،تصوف ،اسرارِخودی و رموزِ بے خودی ،گلشنِ رازِجدید ،رومانیت ،روحانیت، لادینیت ،وحدانیت غرض کہ افکار کا اتھاہ سمندر موجود ہے۔جسکی ہر موج کا خلاصہ مضمون ہذا میں ممکن نہیں ۔
——
حوالہ جاتی کتب :
(1) فکر اقبال : ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ۔ ص 13۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس علی گڑھ۔ 2014ء
(2) اقبال بہ چشم دل :خان حسین عاقب ۔ص ۔ 13۔ادارہ ادب اسلامی ہند مہاراشٹرا 2015ء
(3) فکر اقبال :ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ۔ ص 23۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس علی گڑھ۔ 2014ء