حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا جائزہ
عادل شاہی عہد سے 1960ء تک
مصنفہ : ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ
مبصر : سید معظم راز
قصہء اہلِ جنوں کوئی نہیں لکھے گا
جیسے ہم لکھتے ہیں، یوں کوئی نہیں لکھے گا
شہرِ آشوب کے لکھنے کو جگر چاہئیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں کوئی نہیں لکھے گا
ممتاز پاکستانی شاعر افتخار عارف کے درج بالا اشعار کے حوالے سے ذہن بے اختیار اردو زبان و ادب کی اس ذہین و فطین کم عمر شخصیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے جسے اردو ادبی دنیا، اساتذہ و وطلبأ برادری ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ کے نام سے جانتی ہے۔ گذشتہ دنوں، انھوں نے خاکسار کو زیر نظرکتاب کی اشاعت کی خوشخبری دیتے ہوئے بڑی شد و مد کے ساتھ منہ بولے بڑے بھائی کی حیثیت سے ان کی شخصیت و اس کتاب (جو خیر سے ان کی دوسری تصنیف بھی ہے) کے بارے میں مختصر سہی ایک مضمون لکھنے کی خواہش کی۔ ان کی اس غیر متوقع خواہش پر ان کی شخصیت و زیر تبصرہ تصنیف پرانا تاثراتی مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو بےساختہ پروفیسر غیاث متین کے دو شعر یاد آئے:
لہجے کو پھول لفظ کو جگنو اگر کریں
وقتِ رَواں کے ساتھ معانی سفر کریں
اندر کی بارشوں نے جو منظر دکھائے ہیں
باہر کی دھوپ چھاؤں کو اس کی خبر کریں
ناہیدہ سلطانہ، اردو زبان و ادب سے پرے متوسط طبقے کے پیشہ تجارت سے وابستہ پھلوں و میوؤں کے تاجر محمد عبدالجبار صاحب مرحوم کے دو لڑکوں و چار لڑکیوں پر مشتمل خاندان کی سب میں چھوٹی اور واحد اعلی تعلیم یافتہ صاحبزادی ہیں۔ وہ، ابتداء ہی سے یعنی اسکول و کالج کے زمانے سے تعلیم کے ساتھ علمی و ادبی سر گرمیوں میں بھرپور دلچسپی و انہماک کے ساتھ حصہ لیتی آئی ہیں۔ دورِ طالب علمی سے تحریری و تقریری مقابلوں کے علاوہ بیت بازی و ڈراموں میں اپنے بہترین مظاہروں کے باعث وہ برسوں تک انعام و اکرام سے نوازی جاتی رہیں۔ مزید برآں پوسٹ گریجویشن سطح تک اعلی علمی و ادبی صلاحیتوں کے بھرپوراظہار کے ضمن میں انھوں نے اپنے معیار کو ہمیشہ برقرار رکھنے کو ترجیح دی اور ایم۔ اے اردو میں اعلی نشانات سے کامیابی کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا۔
ان کے والدین نے اپنی کم آمدنی و محدود مالی وسائل کے باوجود اولاد کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی یا کسر نہیں چھوڑی۔ خود ناہیدہ سلطانہ نے اپنے دیگر بھائی و بہنوں کی بہ نسبت ذاتی محنت، عزم و حوصلہ، لگن و جستجو کے سہارے اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ ایم۔اے میں کامیابی کے بعد انھوں سے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم۔ فل بھی امتیازی نشانات کے ساتھ کامیاب کیا۔
ان کے والد محمد عبدالجبار صاحب نے ناہیدہ سلطانہ کا اردو زبان و ادب کے تئیں لگن و دلچسپی اور شوق کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی آف حیدرآباد ہی سے پی۔ ایچ۔ ڈی میں داخلہ دلوایا اور ہر قدم اور ہر مشکل موڑ پراپنی بیٹی کی رہنمائی کی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کی تکمیل کے دوران والد کی اچانک رحلت یوں تو ناہیدہ سلطانہ کے لئے صدمہء جانکاہ ثابت ہوئی۔ وہ وقتی طور پر متاثر رہیں لیکن اپنے والد مرحوم کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر انھوں نے دوبارہ نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے تعلیمی و ادبی سفر کو جاری رکھنے ترجیح دی۔بقول افتخار عارف:
شکستہ پر جنوں کو آزمائیں گے نہیں کیا
اڑانوں کے لئے پر پھڑپھڑائیں گے نہیں کیا
2010ء میں انھوں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پروفیسر بیگ احساس کی رہنمائی اور ڈاکٹر عرشیہ جبین کی نگرانی میں جدید لب و لہجہ کے ممتاز شاعر علی ظہیر کی شخصیت و فن پر بڑی عرق ریزی کیساتھ ریسرچ کرتے ہوئے اپنا ایم فل مقالہ تکمیل کیا۔ یہ مقالہ بعد ازاں کتابی شکل میں بعنوان ”علی ظہیر : شخص اور شاعر” ، زیور طبع سے آراستہ ہو کر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے 2014ء میں شائع ہوا۔
یہاں، سال 2009ء میں ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ سے میری ان کے ایم فل مقالہ کی تکمیل کے دوران ہوئی اولین ملاقات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ممتاز شاعر علی ظہیر کی شخصیت و شاعری پر مشتمل اس مقالے کا پہلا باب علی ظہیر کے (12) ہم عصر شعراء کے تعارف پر مشتمل ہے۔ جن میں مغنی تبسم، راشد آزر، مصحف اقبال توصیفی، مضطر مجاز، غیاث متین، اعتماد صدیقی وغیرہ کے علاوہ میرے والد ماجد رؤف خلش شامل ہیں۔ ناہیدہ سلطانہ نے اپنے اس تحقیقی کام کے سلسلے میں ان تمام (12) شعراء سے فرداً فرداً ملاقات کرتے ہوئے نہ صرف تفصیلات جمع کیں بلکہ ذاتی طور پر کڑی محنت و دلچسپی سے ان شعراء کی رہائش گاہوں کو پہنچ کر ان سبھی کے انفرادی سطح پر انٹرویو بھی کئے۔
میرے والد ماجد رؤف خلش سے ملاقات و انٹرویو کے دوران اتفاقیہ طور پر میرا، ان سے سامنا ہوا۔ اس موقع پر والد صاحب نے ناہیدہ سلطانہ کا تعارف کرواتے ہوئے جدید شاعری اور شہر دکن حیدرآباد کے جدید لب و لہجہ کے شعراء سے موصوفہ کی دلچسپی کی بابت بھی بتایا۔ حسن اتفاق کہ اوائل عمری سے یہ موضوع میرا بھی پسندیدہ رہا ہے۔ گذرتے وقت کے ساتھ شعبہ ہائے حیات سے متعلق مختلف امور میں ایک جیسی دلچسپی اور علمی و ادبی پسند نا پسند میں یکسانیت کے حوالے سے وہ بتدریج ہمارے اہل خانہ سے قریب ہوتی گئیں۔
2000ء کی ابتداء سے اردو شعر و ادب کے مسودوں کی کمپیوٹر کمپوزنگ میں میری دلچسپی و مشغولیت کے بارے میں جانکاری ملنے پر ناہیدہ سلطانہ نے ان کے بشمول دیگر رفقاء کے مقالوں کی کمپوزنگ کرنے کی خواہش کی۔ ایک بڑے بھائی اور ادب کے ادنیٰ طالب علم کے ناطے مجھے ان سبھی کے مختلف النوع موضوعات پر مشتمل دلچسپ و پر مغز تحقیقی و تنقیدی مقالے کمپوزنگ کرنے کی ذمہ داری نبھانے میں واقعی مسرت ہوئی۔یعنی اعتماد صدیقی کے الفاظ میں:
ہم پرندوں کے پر نہیں گنتے
ہم تو ان کی اڑان دیکھتے ہیں
2016ء میں صدرشعبہء اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد پروفیسر مظفر علی شہ میری کی رہنمائی اور ڈاکٹر عرشیہ جبین و دیگر اساتذہ کرام کی نگرانی میں انھوں نے اپنے پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ بعنوان ”حیدرآ باد میں اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ : 1960سے 2010ء تک” کو بحسن و خوبی مقررہ وقت میں تکمیل کرتے ہوئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس مقالے کے موضوع اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اساتذہ کرام اور رفقأ سے مشورے کے بعد اسے دو حصوں میں شائع کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
زیر نظر تصنیف ” حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا جائزہ : عادل شاہی عہد سے 1960ء تک ” اسی مقالے کے ابتدائی دوتحقیقی و تنقیدی ابواب پرمشتمل ہے۔ اس باب میں دکن میں اردو شاعری کے آغاز اور اس کے فروغ کے علاوہ بہمنی، قطب شاہی اور نظام شاہی سلطنت میں اردو شاعری اور اہم شعراء پرشخصیت و فن کے حوالے سے مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ 1947ء میں ہندوستان کوملی آزادی اور پھر1948ء میں ریاست حیدرآبادمیں پولیس ایکشن کے بعد درباری عہد و بادشاہت کے زوال و خاتمے کے سبب ادبی سطح پر مرتب ہونے والے اثرات کا خلاصہ کیا گیا ہے۔ اس عہد کے ترقی پسند شعرأکرام مخدوم محی الدین، سکندر علی وجد، میکش، خورشید احمد جامی اور صفی اورنگ آبادی کے ساتھ نظیر علی عدیل، راجہ نرسنگ راج عالی، محبوب راج محبوب، شاہد صدیقی وغیرہ جیسے روایتی و کلاسیکی شعرا کا تعارف اور ان کی شاعری کاسیر حاصل تجزیہ بھی اس تصنیف میں شامل ہے ۔
المختصر، ناہیدہ سلطانہ کو ان کی اس کتاب کی اشاعت پردلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے میں امید کرتا ہوان کہ ان کی یہ دوسری تصنیف بھی علمی ادبی حلقوںکے علاوہ یونیورسٹی سطح پر تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف طلبأ برادری میں قبولیت کی سند حاصل کرے گی۔ توقع ہیکہ اس اہم موضوع پر تکمیل پائے مقالے کے بقیہ تین ابواب بھی علحدہ کتابی شکل یعنی تیسری تصنیف کی صورت میں جلد منظر عام پر آئیں گے۔ ان ابواب میں نہ صرف 1960ء سے 2010ء تک (یعنی نصف صدی کے عرصے میں) حیدرآباددکن میں اردو شاعری اور اس وقت کی ترقی پسند تحریک کے زوال کے اسباب پر تحقیقی و تنقیدی حوالوں کے ساتھ تفصیلات شامل ہیں بلکہ جدیدیت کے آغاز پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد میں جدیدیت کے فروغ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور تمام موضوعاتی تبدیلیوں، تکنیکی تجربوں اور نئے اصناف سخن کے آغازکی تفصیلات بھی مستند حوالوں و ذریعوں سے دی گئی ہے۔
پس لفظ : موصوفہ کے تعلق سے عموماً یہ غلط تاثر پایا جاتا ہیکہ وہ ضدی، مغرور و خودپسند فطرت کی حامل ہیں۔ ذاتی تجربات و مشاہدات کے تناظر میںمیرے تاثرات کچھ یوں ہیں کہ درحقیقت ناہیدہ سلطانہ ایک کم گو، نرم مزاج لیکن گرم جذبات کی حامل خوددار شخصیت کا نام ہے۔ وہ فطری شرم و حیا کے تقاضوں کے عین مطابق ہر کس و ناکس سے بے تکلفی کی کبھی روا دار نہیں رہیں۔ ان کے مزاج کی خودداری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ علمی، ادبی و معاشی سطح پر مشکل کشا حالات میں بھی متعلقہ اداروں و شخصیات تک پہنچ کی اپنی اہلیت کے باوجود کبھی کسی سے مدد لینا گوارہ نہیں کرتیں۔ شہر دکن حیدرآباد کے ممتاز شاعر اعتماد صدیقی نے ایسی ہی صورتحال میں کبھی فرمایا تھا:
کچھ میانہ روی کے بھی قائل ہیں ہم
ہر قدم جارحانہ نہیں چاہتے
تیرے در تک تو پہنچے ہیں اہلِ طلب
تیرا در کھٹکھٹانا نہیں چاہتے
——–
One thought on “حیدرآباد دکن میں اردو شاعری کا جائزہ : ڈاکٹر ناہیدہ سلطانہ :- مبصر : سید معظم راز”
hyderabad maen urdu shaiery ka jaieza perdh ke boohat afsoos howa adil shahi ka ek lafez bhee tabsere maen nahee hae raaz saheb se kahe ke jo unwan hae us per ek bat bhee nahee hae ataullah khan chicagof