کالم : بزمِ درویش
عوام کے لیڈر
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
کرہ ارض خالقِ کائنات کی تخلیقات سے بھری پڑی ہے ‘خدا کی عظیم تخلیقات میں سب سے پراسرار اور پیچ در پیچ الجھی ہو ئی تخلیق انسان ہے ‘اِس کے ہزاروں زاوئیے ہیں اورہر زاویہ اپنے اندر سینکڑوں رنگ رکھتا ہے اِس کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ کسی ضرورت یا اپنی سہولت کے لیے وہ نہایت چالاکی سے بڑی موثر دلیلیں تراش لیتا ہے
اپنی ہی باتوں سے پھر جانا بھی انسان کا خاصہ ہے پھر اپنی ہی باتوں پر عش عش کر اٹھتا ہے ‘انسان کے مختلف رنگوں اور دلیلوں کا اگر مشاہدہ کر نا ہو تو آپ کو چہ سیاست کو ملا حظہ کریں جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ حضرت انسان اپنا رنگ بدلتا نظر آتا ہے اِس کا تا زہ نمو نہ آپ مو جودہ الیکشن میں دیکھ سکتے ہیں ‘ ایماندار دیا نت دار با کردار امیدواروں کی جگہ کر پٹ نسل در نسل سیاستدانوں کو ٹکٹ دیتے ہوئے پارٹی لیڈروں کا یہ کہنا کہ فرشتے کہاں سے لا ؤں‘ اِیسی لا جواب دلیل کے بعد بنی گالا کے پھاٹک کھل گئے اور پھر لوٹوں کی ایسی دھکم پیل ہوئی کہ خدا کی پناہ‘ ایم کیو ایم پر برسوں آگ کے گولے برسانے کے بعد آج کل جس طرح جھپیاں ڈالی جارہی ہیں اور جمہوریت کے لیے ایم کیو ایم کے شاندار ماضی کے جو حوا لے دئیے جا رہے ہیں خدا کی پناہ‘ کسی کو پنجاب کا ڈاکو کہنا اور پھر مدح سرائی کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں حقیقی کام تو صرف آپ کے دورِ حکومت میں ہی ہوا ہے ‘ آزاد امیدواروں کو ناسور قرار دینا انہیں اچھو ت قرار دینا ‘ سیاست کے ماتھے پر کلنک کا دھبہ قرار دینا اور پھر اُنہی آزاد امیدواروں کو خصوصی جہاز میں بھر بھر کے لانا اُن کے گلے میں ہار پہنانا انہیں جمہوریت کے حقیقی وارث قرار دینا یہ تماشا بھی اہل وطن پھٹی نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ مخالف پارٹی کے ساتھ بیٹھنے سے بہتر میں مرجاؤں یا اپوزیشن میں بیٹھ جاؤں ‘ آج گھنٹوں اُن کی مدح سرائی کر نا بھی عجیب نظارہ اہل وطن نے خوب دیکھا اقتدار کی غلام گر دشوں کے مزے لو ٹنے کے لیے پارٹی لیڈر تو ہر دور میں رنگ بدلتے آئے ہیں میراثی بن کے ریکارڈ توڑتے آئے ہیں لیکن عوام بھی ایسے عظیم لیڈروں سے زیاد ہ پیچھے نہیں ہیں آپ کسی سے بھی پوچھ لیں سیاسی لوگ کیسے ہیں تو الزامات ، اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کر دیں گے ‘ سیاسی لیڈروں کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے سوشل میڈیا اورالیکڑانک میڈیا نے بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے ‘ وطن عزیز کے بے شما قلم کاروں دانشوروں خطیبوں شاعروں کالم نگا روں نے اپنا اسلوب نثر اور زو ر بیان اِس حقیقت کو اجاگر کر نے پر لگا دیا کہ خدا کے بندو تم جن لیڈروں کو ووٹ دے کر اقتدار کی غلام گردشوں کے شاہسوار بنا تے ہو یہ وہی ما ضی کے مخصوص چہرے ہیں جو روپ اور پارٹیاں بدل بدل کر تمہیں پھر بے وقوف بنانے آجاتے ہیں جنہیں تم مسیحا بناتے ہو وہی کمین گاہوں میں تیر اندازی کر تے نظر آتے ہیں جنہیں تم مشعل راہ سمجھتے ہو وہی تمہار ے مقدر کی تاریکیوں کو اور سیاہ کر تے ہیں جنہیں تم زندہباد کے نعروں سے اپنے سروں پر بٹھاتے ہو وہی تمہیں تاریک کنوؤں میں گراتے ہیں ‘جنہیں تم خوابوں کی سہا نی تعبیر سمجھتے ہو وہی تمہاری بربا دی کے ذمے دار ہیں ‘یہ سر فروش نہیں وطن فروش ہیں یہ ارباب سیاست نہیں ارباب تجارت ہیں ‘ یہ خدمت خلق کے مسافر نہیں عوام کے اصل لٹیرے ہیں ‘ یہ محافظ نہیں ڈاکو ہیں ‘یہ وہ بھیڑیے ہیں جن کا عوام رکھوالی کے لیے انتخاب کرتی ہے ‘ اِن سیاستدانوں کو جتنا بھی آئینہ دکھا ئیں مجال ہے جو اِن کے ما تھوں پر عرق ندامت کا ایک قطرہ بھی نمو دار ہوا ہو‘ سیاست وہ خاردار وادی ہے جس میں دن رات حکمران اور اپو زیشن ایک دوسرے کھا ل اتا رتے میں مصروف نظر آتے ہیں ‘ حکمران اپوزیشن کاشجرہ نسب کھنگالتے نظر آتے ہیں اوراپوزیشن حکمرانوں کی سات پشتوں کا گند با ہر نکالتی ہے اِس طرح یہ دونوں ایک دوسرے کے سلطانی گواہ بنتے نظر آتے ہیں ‘ کو چہ سیاست اب کو چہ ملامت ہے ہر روز نیا جھگڑا ‘ الزامات ‘تہما ت کی با رش ‘ گالی گلو چ کی آبشار ‘ نفرت و غصے کے گو لے دن رات بر سائے جاتے ہیں یہ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کے لیے انسانیت کی آخری حدوں سے بھی گزر جاتے ہیں یہ خود کو فرشتوں سے افضل اور دوسروں کو شیطانوں سے بھی آگے قرار دیتے ہیں ‘ غرض اِن کے باہمی جھگڑے ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ لیکن بھو لے عوام یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی سبق نہیں لیتے حکمران ایسے کہ وقت حالات بدل گئے دنیا مہذب اور ترقی یا فتہ دور میں داخل ہو گئی لیکن پاکستانی لیڈروں کے سر پر جو تک نہیں رینگی نہ تو حکمرانوں نے اپنے آپ میں سدھار پیدا کیا اورنہ ہی عوام نے بیداری کی انگڑائی لی ‘ سیاستدانوں کی با ہمی لڑائیاں ایسی کہ قبروں سے مر دے نکل پڑیں لیکن عوام کی جبیں بے نیاز کہ جہاں دھری تھی دھری رہی‘ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاستدانوں نے کر پشن لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں اِن سے کتابوں نے دامن بھرے اور شاعری کی بیا ضیں کل نظر آتی ہیں صحافی لوگوں نے اِن کے شجرے نسب زمین کی تہوں سے کھود نکالے ‘ وسیع و عریض رقبوں کے یہ مالک کیسے کوچہ سیاست میں آئے ‘ اِن کی مدد کس گھناؤنے طریقے سے ہوئی کس کے تلوے چاٹنے کے بعد یہ کو چہ اقتدارکے کیڑے بنے کس کے در پر سالوں مدح سرائی کا تحفہ انہیں کس طرح ملا یہ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے یہ کس طرح کرا ئے کے گھروں سے سینکڑوں کنال کے محلات میں منتقل ہو ئے ابھی وہ نسل زندہ ہے جس نے اِن کو اہل اقتدار کے چرنوں میں جو تے چاٹتے دیکھا ‘ گر دش زمانہ کے بعدآج یہ خود اُس مقام پر فائز ہوچکے ہیں دانشوروں اورمیڈیا نے کس کس کی عباء کو نہیں کھو لا ‘کس کے کپڑوں کو نہیں اتارا ‘ کون سا نقاب نہیں سرکایا ‘ کس کی دستار کے نشیب و فراز پر تبصرہ نہیں کیا مگر یہ لیڈرنہ بدلے اور نہ ہی عوام بدلے کیا عوام نہیں جانتے اِن وڈیروں کے ڈیروں پر عوام کو بو ل براز لینے پر مجبور کیا جاتا ہے ‘ زندہ انسانوں کو آگ کی چمنیوں میں زندہ جلا دیا جاتا ہے ‘ انسانوں کو جانوروں کی طرح باندھ کر رکھا جاتا ہے ‘ کیا بلوچ نہیں جانتے اُن کا وڈیرہ کتنی پاک باز لڑکیوں کی عزت تار تار کرچکا ہے ‘ سندھ کے ہاری نہیں جانتے اُن کی زمینوں پر کس کا قبضہ ہے ‘ پنجاب کے چوہدری کس طرح بنے ہیں کیایہ پنجابی نہیں جانتے ‘ پختون بھی خوب جانتے ہیں اُن کے لیڈروں کی رگوں میں دوڑتاہوا خون اُن کے جسموں سے نچوڑے خون کا فیض ہے لیکن یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی جس طرح لیڈروں نے قسم کھا رکھی ہے انہوں نے اپنی بد حرکات اور کر پشن سے باز نہیں آنا اِسی طرح عوام نے بھی ضد کر رکھی ہے کہ انہی کر پٹ لیڈروں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں پہنچا کر اپنا خون نچوڑنے کا ایک بار پھر موقع دینا ہے ‘ نہ تو لیڈر بدلے اور نہ ہی عوام بدلے ۔