ستارۂ صبح
مرتب:ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر،نظام آباد
مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل،حیدرآباد
ریاست تلنگانہ میں شہرنظام آباد اپنے ادبی وشعری رحجانات کے باعث منفرد مقام کاحامل شہر تسلیم کیاجاتاہے۔ یہاں پر شعر وادب کا کافی اچھا ذوق پایاجاتا ہے۔ ضلع نظام آباد اردو ذریعہ تعلیم‘صحافت،شعروادب،ادبی انجمنیں ،تہذیب و ثقافت ہراعتبار سے بہترموقف کاحامل رہاہے۔
یہاں کی اردوصحافت بھی علاقہ تلنگانہ میں کافی مقبول عام ہے۔ نظام آباد سے ملک گیر سطح پر آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ شائع ہونے والا معیاری رسالہ ’’ماہنامہ تمہید‘‘ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدرؔ کی ادارت میں مسلسل پابندی سے شائع ہوتاآرہا ہے۔ نظام آباد کے ادبی ماحول کوفروغ دینے میں کئی حیثیتوں سے ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر ؔ نے اپنا تحقیقی کام ’’راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘‘ کے موضوع پر انجام دیاہے۔ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر نے راجہ مہدی علی کی ادبی خدمات کو اردوحلقوں میں دوبارہ سے روشناس کروایاہے۔ ڈاکٹرقدیر مقدرؔ نے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے ساتھ ساتھ راجہ مہدی علی خاں کی شعری ونثری(ادبی) سرمایہ کو اردوکی نئی نسلوں تک پہنچانے کاکا م بحسن خوبی انجا م دیتے آرہے ہیں۔ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر ؔ کی اب تک آٹھ کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں جن میں راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘ کلیات راجہ مہدی علی خاں‘ خط لکھیں گے گرچہ مطلب ۔۔۔!(راجہ مہدی علی خاں کے خطوط کامجموعہ)‘ نثریات راجہ مہدی علی خاں (کملا)‘ طنز ومزاح کا تحقیقی وتنقیدی کامطالعہ‘ حرف ناگفتن‘ خوشبوئے قلم(شعری مجموعہ)‘ نغمات راجہ مہدی علی خاں شامل ہیں۔ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر راجہ مہدی علی خاں پر ایک اتھارٹی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے راجہ مہدی علی خاں پر لائق تحسین تحقیقی کام انجام دیاہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر نے ’’صبح ستارہ‘‘ کے عنوان سے راجہ مہدی علی خاں کے مغربی افسانوں کے ترجمہ کومرتب کیاہے۔اس کتاب کا انتساب ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر نے اعظم راہی ایڈیٹر’’پیکر‘‘کے نام معنون کیاہے۔
اس کتاب کے آغازمیں ڈاکٹرعبدالقدیر نے جامع مقدمہ لکھا ہے۔ جس میں راجہ مہدی علی خاں کی شخصیت کامکمل تعارف‘ان کا خاندان‘ان کی ادبی خدمات‘مغربی افسانوں کا ترجمہ‘راجہ مہدی علی خاں کی ترجمہ نگاری کومفصل انداز میں بیان کیاہے۔ راجہ مہدی علی خاں کے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالقدیر مقدرنے لکھا ہے کہ’’راجہ مہدی علی خاں کا اردوزبان وادب پربڑا احسان ہے کہ انہوں نے انگریزی ادب اوردیگر زبانو ں کے ادب پاروں کوجومقبول ترین ادیبوں اورقلمکاروں کے شاہکار تخلیقات ہیں اردومیں منتقل کیاہے اردوادب کوجدید افسانے کی تکنیک‘ہیئت‘ ماہیت سے روشناس کرانے کا ذریعہ بنے۔ راجہ صاحب کے ترجمہ کئے گئے افسانوں اورکہانیوں کا بغورمطالعہ کرنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویاانہوں نے اصل تخلیق کار کا ہی کارنامہ انجام دیاہو۔ چونکہ کہ راجہ صاحب کاطرز اسلوب اور ندرت بیان‘لفظوں کاحسین انتخاب‘ تشبیہات واستعارے یہی تاثردیتے ہیں کہ خود راجہ صاحب کی ہی تخلیق ہے۔ ان کی سحر انگیز تحریروں سے نقل پراصل کا گمان ہونے لگتا ہے۔‘‘
زیر مطالعہ کتاب میں ڈاکٹرقدیر مقدر نے اپنے طویل ترین مقدمہ میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں راجہ مہدی علی خاں کی ترجمہ نگاری کا جائزہ لیاہے۔اس کتاب میں مقدمہ کے بعدتعارف کے عنوان سے سید عبداللہ اورینٹل کالج لاہور کا مضمون شامل کیاگیاہے۔جس میں سید عبداللہ نے راجہ مہدی علی خاں کے مغربی افسانوں کے ترجمہ کی اہمیت کو بیان کیاہے اوراس متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’یہ افسانے اگرچہ ترجمہ ہیں لیکن ان کی شگفتگی ضائع نہیں ہوئی۔ر اجہ صاحب کواردو زبان پرغیرمعمولی قدرت حاصل ہے اوران کی اس خصوصیت کی تصویر ان افسانو ں میں صاف صاف نظرآجاتی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے ولایت کے پھول ہندوستانی کیاریوں میں اس خوبصورتی سے لگائے ہیں کہ بے اختیارانہیں داد دینے کوجی چاہتا ہے۔ امید ہے کہ یہ خوبصور ت کیاریاں ’’نظارہ گیان گل‘‘ کی دل کشی کا باعث ہوں گی۔‘‘
اس مغربی افسانوں کے ترجمہ ’’ستارہ صبح مرتبہ1952ء ‘‘کے عنوان سے 16افسانوں کوشامل کتاب کیاگیاہے۔ اس کے ساتھ ہی ’’ملکاوں کے رومان ‘‘(دوسرا ایڈیشن مرتبہ1952ء )کے موضوع کے تحت 14افسانوں کوشامل کیاگیاہے۔ساتھ ہی تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹرعبدالقدیر مقدرؔ نے ’’غیرمطبوعہ افسانوں‘‘ کوبھی اس مجموعہ میں جمع کیاہے۔جن کی تعداد 5ہیں۔زیرتبصرہ کتاب کا پہلا ’’افسانہ گمنام عورت کاخط‘‘ (از استہفینا ریونگ)کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں راجہ مہدی علی خاں کے ترجمہ کے انداز کو محسوس کیجئے گا کہ ’’خط کیاتھا ایک اچھا خاصہ مضمون یا افسانہ تھا‘افسانہ نگار کومخاطب کرکے لکھاگیا۔ چھتیس صفحات پرمشتمل تھا۔ تحریر زنانہ تھی اور بہت جلدی میں لکھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے ایک ایک حرف سے بیقراری ٹپکتی تھی۔ خط کتاب وآداب سے محروم تھا۔ اس مضمون یا خط کے ساتھ کوئی اور تعارفی رقعہ نہیں تھا جس سے بھیجنے والی عورت کا پتہ یا نام معلوم ہوسکے۔ چنانچہ مصنف نے انتہائی تعجب اوراشتیاق سے اس خط کوالٹ پلٹ کردیکھا لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کہاں سے آیا ہے۔ لفافے کی لو پرلکھاتھا ’’آپ کے نام۔ جومجھے نہیں جانتے۔‘‘ مصنف نے لفافے پرجب یہ الفاظ پڑھے تو اوربھی حیرت زدہ ہوگیا۔ اس نے نہایت ہی بیتابی سے لفافہ چاک کیا اور گمنام عورت کاخط پڑھنے لگا جسے یہاں لفظ بہ لفظ درج کیاجاتا ہے۔‘‘
ستارہ صبح میں شامل دیگرافسانوں میں سرما کی ایک رات(میکسم گورکی)‘ اردلی(ایڈمنڈایمی سس)‘ گمشدہ ستارے (کیٹل منڈیز)‘ بیوی کا انتقام(کیٹل منڈیز)‘شمعدان(انطون چیخوف)‘ دلہن کی چوڑی(گریگوری زینو پولا)‘فیروزہ(لارڈینی سن)‘اسرار(ڈاکٹرایم۔ آر۔جیمز)‘جوگن(ٹیگور)‘ رہروان جادۂ عشق (نامعلوم)‘ فریب در فریب(طامس برک)‘ فلسفی کی بیوی(کارلو دوسی)‘ افسانہ مہرووفا(گیووانی فریرینٹیو)‘ خونخوار دیو(جان نیروڈا)‘ آخری دن(نامعلوم)شامل ہیں۔
کتاب میں ملکاؤں کے رومان کے تحت 14افسانے شامل ہیں جن کے افسانہ نگاروں کے نام نامعلوم ہیں۔ ساتھ ہی غیر مطبوعہ افسانوں کے تحت پانچ افسانے شامل ہیں۔
کتاب کے دوسرے حصہ میں شامل’’ملکاؤں کے رومان‘‘کے تحت پہلا افسانہ ’’ہسپانوی شہزادی کی داستانِ محبت‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس میں راجہ مہدی علی خاں کی ترجمہ نگاری کے نمونے کوملاحظہ فرمائیں۔ ’’شہزادی الفنٹا جوزیفائنا اپنے فلک بوس مرمریں محل کے سامنے شاہی باغ میں بید کے درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو ایک سحرآفریں ادا سے تھامے ہوئے بہارکی دیوی کی طرح کھڑی تھی اوراپنی حسین اور شوخ سہلیوں کے ساتھ جھرمٹ میں اس طرح معلوم ہورہی تھی جیسے ستاروں کی جھرمٹ میں چودھویں کاچاند۔‘‘
غیرمطبوعہ افسانوں کے تحت پانچ افسانے جزیرہ امن،بوڑھا سا زندہ،گندم کے پودے،ایک شام،انجام کے عنوان سے شامل ہیں۔ ’’ایک شام‘‘جس کو فرانسسکو چامشیانے لکھا ہے۔اس افسانہ میں راجہ صاحب کی ترجمہ نگاری کوملاحظہ کریں۔’’ ہم لڑکوں کوسال بھر پھلوں میں پکے پکے سرخ بیر سب سے زیاد مرغوب تھے۔ہم اس سرخ سرخ زرد‘زرد سرسبز پھل سے لدی ہوئی بیریوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھاکرتے تھے اورانہیں دیکھتے ہی ہمارے منہ میں پانی بھرآتاتھا۔ بستی کے اردگرد پھلو ں کے اوربھی کئی درخت تھے لیکن انہیں دیکھ کرکم از کم دامن صبر ہمارے ہاتھ سے کبھی نہ چھوٹتا بیروں کی بات ہی کچھ اور تھی۔‘‘
بہرحال ڈاکٹرعبدالقدیر مقدر نے راجہ مہدی علی خاں کے حوالے سے رومانوی مغر بی افسانوں کابہت ہی خوبصورت ترجمہ کو اردودنیا میں روشناس کروایاہے۔راجہ مہدی علی خاں کوترجمہ نگاری میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ ان کے ترجمے کافی معیاری ترجموں میں شمارہوتے ہیں۔راجہ مہدی علی نے ان ترجموں میں قاری کی انہمک کو مدنظررکھا ہے اور دلچسپ واثرانگیز ی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے ان تراجم میں جدید تکنیک‘ہیئت اورادبیات کے تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھاہے۔ڈاکٹرعبدالقدیرمقدرمبارک باد کے مستحق ہے کہ انہوں نے راجہ مہدی علی خاں کی خدمات اوران کے کارناموں کوعصرحاضر میں دوبارہروشناس کروایاہے۔ تاکہ نئی نسل ان سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ادبی ذوق وشوق کی تسکین کومطالعہ کے ذریعہ پورا کرسکے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر نے اپنی تحقیق و تنقید کے ذریعے راجہ مہدی علی خاں کے ادبی کارناموں دوبارہ جلا بخشی ہے وہ اردو زبان و ادب کے محسن ،مخلص خادم ہے ۔اپنے انفرادی خرچ سے ہر ماہ پابندی سے ماہنامہ تمہید جاری کرتے ہیں ،عصرحاضر میں اردو زبان کے فروغ میں مسلسل کوشاں ہے ان کی اردو کی تئیں خدمات کو ہمیشہ یادر رکھا جائے گا ۔میں پھر ایک مرتب ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سے امید بھی ہے کہ نوجوان نسل کو اردو کے ادبی سرمائے سے استفادہ کے لئے اس طرح کی تخلیقات کوشائع کرتے رہیں گے اور اپنی ادبی کوششوں کومسلسل جاری رکھیں گے ۔اس کتاب کے ناشر تمہید نظام آباد ہے۔328صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 380روپئے رکھی گئی ہے جودفترماہنامہ تمہید 9۔14۔124‘احمد پورہ کالونی نظام آباد سے یا فون نمبر 9440574710پر ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔