ڈاکٹر گل رعنا کی تصنیف’’ مجتبیٰ حسین اور فن طنز و مزاح نگاری ‘‘کا رسم اجرا
رپورٹ: ڈاکٹر اسلم فاروقی
ڈاکٹر گل رعنا اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نظام آباد کی تحقیقی تصنیف’’مجتبیٰ حسین اور فن طنز و مزاح نگاری ‘‘کا رسم اجرا 18اگسٹ شام سات بجے بینکویٹ ہال نظام کلب حیدرآباد میں مدیر روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
تقریب کی صدارت ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ نامور افسانہ نگار پروفیسر بیگ احساس سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی و سنٹرل یونیورسٹی حیدرآباد نے کی۔ مہمان خصوصی نامور مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین ‘ سہیل وحید مدیر نیا دور لکھنو‘پروفیسر اشرف رفیع عثمانیہ یونیورسٹی ‘پروفیسر فاطمہ پروین عثمانیہ یونیورسٹی تھے۔ تقریب کی نظامت ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے کی۔ اور مہمانوں کا استقبال کیا۔ مجتبیٰ حسین کے فن پر تقریر کرتے ہوئے مہمان خصوصی سہیل وحید نے کہا کہ مجتبیٰ حسین اس صدی کے بڑے مزاح نگار ہیں۔ وہ حیدرآبادی ہیں لیکن ان کی تحریروں میں دکنی زبان کی جھلک نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنی مزاح نگاری کے طویل سفر میں زندگی کے مشاہدات کو فنکاری سے پیش کیا۔ اہل حیدرآباد نے ہر زمانے میں عظیم شخصیات کو پیش کیا۔ آج ساری دنیا میں حیدرآباد کی پہچان اردو زبان سے ہے اور مجتبیٰ حسین صاحب اپنی مزاح نگاری کے میر کاروان ہیں۔ سہیل جاوید نے اعلان کیا کہ وہ بہت جلد اردو اکیڈیمی یوپی کے رسالہ نیا دور میں مجتبیٰ حسین خاص نمبر شائع کریں گے۔نامور شاعر شاذ تمکنت کے بھائی جناب امتیاز الدین نے مجتبیٰ حسین کے فکر و فن پر روشنی ڈالی۔ اور روزنامہ سیاست سے ان کی دیرینہ رفاقت کا اعتراف کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر گل رعنااور ان کے شوہر کو کتاب کی اشاعت اور بہترین رسم اجرا تقریب منعقد کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے مجتبیٰ حسین کے فکر وفن پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کی تحریروں میں بیشتر مرد حضرات کے خاکے ہیں لیکن غیر معمولی طور پر انہوں نے خواتین پر نہیں لکھا یا بہت کم لکھا۔ جب کہ مزاح نگاری کے لئے خواتین مشہور ہیں۔ انہوں نے صاحب کتاب ڈاکٹر گل رعنا کو ان کی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد دی اور ان کے شوہر نامور فوٹو گرافر عبدالحق کو مبارکباد پیش کی کہ گل رعنا کے علمی سفر میں انہوں نے بھرپور ساتھ دیا اور اس کتاب کو امریکہ سے شائع کروایا۔ پروفیسر فاطمہ بیگم نے کہا کہ مجتبیٰ حسین نامور مزاح نگار ہیں انہوں نے اہل حیدرآباد اور اردو کا نام ساری دنیا میں روشن کیا۔ ان پر کئی طلباء نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے اور یہ کام حیدرآباد سے زیادہ یوپی بہار اور کشمیر میں ہوا۔ حیدرآباد سے جامعہ عثمانیہ کی ہونہار طالبہ ڈاکٹر گل رعنا نے ان کی فکر و فن پر مقالہ لکھ کر حق اداکردیا۔ انہوں نے گل رعنا کے بارے میں کہا کہ وہ ابتداء ہی سے ہونہار طالبہ رہی ہیں اور اپنے اساتذہ کا نام روشن کیا۔ آج مجھے اور ان کے اساتذہ کو خوشی اور مسرت حاصل ہورہی ہے کہ گل رعنا کے پی ایچ ڈی مقالے کو کتابی شکل دی گئی اور اس کا عظیم الشان پیمانے پر رسم اجرا عمل میں آیا۔ گل رعنا نے اپنی تحقیق میں محنت کی اور مجتبیٰ حسین صاحب کے فکر و فن اور اسلوب کے تعلق سے نئے گوشے نکالے۔ جناب زاہد علی خان مدیر سیاست حیدرآباد نے کتاب کی رسم اجرا انجام دی اور بہ طور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجتبیٰ حسین روزنامہ سیاست کے پہلے قاری ہیں اور روز اول سے سیاست سے وابستہ ہیں۔ جب انہیں جناب محبوب حسین جگر صاحب اور جناب عابدعلی خان صاحب نے شیشہ و تیثہ کالم لکھنے کی ذمہ داری دی تو انہوں نے بڑی محنت سے یہ ذمہ داری نبھائی۔ اور اس وقت سے آج تک مجتبیٰ حسین کی تحریرں سیاست کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کو یہ فخر ہے کہ یہاں مجتبیٰ حسین جیسے قد آوار مزاح نگار موجود ہیں۔ حیدرآباد اردو کا شہر ہے اور اردو زبان کا فروغ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اردو امتحانات کی تحریک سے سیاست کے اردو ٹی وی چینل تک سفر کی یادوں کو پیش کیا اور کہا کہ آج سے کئی سال پہلے غیر اردو دان راموجی راؤ صاحب نے ای ٹی وی اردو چینل شروع کرکے اردو پر احسان کیا تھا آج روزنامہ سیاست کو بھی احساس ہوا کہ اس کا اپنا اردو چینل ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ سیاست ایپ سے اردو چینل دیکھا جاسکتا ہے اور بہت جلد حیدرآباد کے گھروں میں سیاست چینل نظر آئے گا انہوں نے گل رعنا کو مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے مجتبیٰ حسین کے فکر وفن پر تحقیقی مقالہ لکھا اور بڑے اچھے طریقے سے امریکہ سے شائع کرایا انہوں نے کہا کہ ایک خاتون نے یہ کتاب لکھی تھی تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے میں اس رسم اجرا تقریب میں شرکت کر رہا ہوں انہوں نے ڈاکٹر گل رعنا کے شوہر عبدالحق کو مبارکباد دی کہ اس قدر اچھی تقریب نظام کلب میں منعقد ہوئی۔ نظام کلب میں شائد یہ کسی اردو کتاب کی رسم اجرا کی پہلی تقریب ہے۔ ڈاکٹر گل رعنا نے رسم اجراء تقریب میں شرکت کرنے والے سبھی مہمانوں‘اساتذہ اور دوست احباب کا شکر ادا کیا۔ اور کہا کہ اللہ کا فضل نبی ﷺ کے صدقے‘ والدین کی شفقت‘اساتذہ کی تربیت اور دوست احباب کی نیک تمناؤں سے ان کا تعلیمی سفر جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجتبیٰ حسین مزاح نگاری کا سمندر ہیں اور ہماری کوتاہی ہے کہ اس سمندر کے کچھ قطروں سے ہی استفاد ہ ہوسکا ہے انہوں نے مستقبل میں مزید بہتر کتابوں کے لیے نیک تمنائیں چاہیں ۔ اور اس تقریب میں شرکت کرنے والے سبھی مہمانوں دوست احباب اور افراد خاندان کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی مجتبیٰ حسین نے کہا کہ میں عمر کی نویں دہائی میں ہوں اب مزید بڑھاپا برداشت نہیں کرپاتا لیکن احباب کا پیار وخلوص ہے کہ اس طرح کی تقاریب میں شرکت کرتا ہوں انہوں نے بنیادی طور پر اختلاف کیا کہ کسی زندہ ادیب پر تحقیقی کام کیا جائے لیکن ان پر بارہ سے زیادہ طلباء نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ انہوں نے روزنامہ سیاست کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ان کے زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے مزاح نگاری کے سفر میں مدد دی۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں جو کچھ دیکھتا ہوں اسے مزاح کے ذریعے پیش کرتا ہوں انہوں نے ڈاکٹر گل رعنا اور ان کے شوہر عبدالحق کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ عبدالحق فوٹو گرافی کے دوسرے عبدالحق ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس نے صدارتی تقریب کی کہ اور کہا کہ اردو کی گل سسٹرز گل رعنا اور نرجس گلنار زمانہ طالب علمی سے ہی جامعہ عثمانیہ کے ادبی مقابلوں سے اپنی شناخت قائم کئے ہوئے تھیں۔ اور آج ڈاکٹر گل رعنا کی اس تصنیف کی رسم اجراء نے اس بات کو ثابت کردیا کہ یہ اپنے مضبوط ارادوں کے ساتھ ترقی کے مدارج طے کریں گی۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ امیتابھ بچپن اور جیہ بھادری کی طرح گل رعنا اور عبدالحق کی جوڑی ہے۔جو آل انڈیا ریڈیو کی اپنی دوستی سے شادی میں بدلی اور اب اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر گل رعنا کو مبارک باد پیش کی کہ مجتبیٰ حسین کے فکر و فن پر انہوں نے تازہ ترین تحقیق کو بھی کتاب میں شامل رکھا۔ انہوں نے کتاب کے خوبصورت ٹائٹل اور اشاعت کے لیے عبدالحق کو مبارکباد پیش کی۔ پروفیسر بیگ احساس نے کہا کہ پاکستان میں مشتاق احمد یوسفی عالمی سطح کے مزاح نگار رہے اور ہندوستان میں مجتبیٰ حسین ہیں انہوں نے کہا کہ مزاح نگاروں کی فہرست میں ایک سے دس تک مجتبیٰ حسین کا ہی نمبر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو زبان کو یہ اعزاز ہے کہ ہمارے ہاں مجتبیٰ حسین جیسے مزاح نگار ہیں۔ انہوں نے مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری اور شخصیت کے دیگر گوشوں کو اجاگر کیا۔ڈاکٹر گل رعنا کے شوہر عبدالحق نے تمام شرکائے محفل سے اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر گل رعنا کے افراد خاندان کی جانب سے مہمانوں کی شال پوش کی گئی۔ اساتذہ افراد خاندان اور دوست احباب کی جانب سے ڈاکٹر گل رعنا اور عبدالحق کی گل پوشی کی گئی۔ اور انہیں کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی گئی۔ تقریب کے بعد مہمانوں کے لیے پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں حیدرآباد کی کئی نامور علمی و ادبی شخصیات جناب مضطر مجاز مدیر ادبی سپلمنٹ روزنامہ منصف۔ جناب اسلم فرشوری۔ شبینہ فرشوری ۔افشاں جبین۔ جناب امتیاز الدین صاحب۔ جناب شجاعت علی شجیع۔ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز مدیر گواہ۔ڈاکٹر جاوید کمال۔ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر۔ڈاکٹر حمیرہ صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ویمنس ڈگری کالج سنگاریڈی۔ ڈاکٹرجاوید کمال۔ سمیرہ نازنین پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد۔ ڈاکٹر عابد عبدالواسع پی آر او مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی۔ جناب شہاب الدین ہاشمی نامہ نگار سیاست۔ نیر اعظم۔ راجندر کمار۔ شیاملی شاہ۔نرجس گلنار۔ڈاکٹر سلمان عابد۔اور دیگر اساتذہ ریسرچ اسکالرس اور محبان اردو نے شرکت کی۔ اور کامیاب تقریب کے انعقاد کے لیے ڈاکٹر گل رعنا کو مبارکباد پیش کی۔