قائداعظم کا خواب
کالم : بزمِ درویش
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
وطن عزیز کے تمام حکمرانوں اور موجودہ لیڈروں کی تقریریں اور با تیں بلکہ اِن کے خو شامدیوں کی چمچہ گیری کو آپ بغور دیکھ لیں تو یہ سارے کے سارے عوام کی عقیدت کا استحصال کر نے کے لیے خو د کو قائداعظم کا حقیقی جا نشین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں
لیکن یہ بات ہمیشہ فہم سے بالا تر ہی ہے کہ یہ ایسے کردار اور طرز عمل سے قائداعظم کے تیر و نظر نہیں آتے ہما رے آج کے لیڈروں کو ہیروئن کے نشے کی حد تک جس چیز کا لپکا ہے وہ خو د پسندی اور اپنی ذات کو طاقت کا سر چشمہ بنانا اور خو د کو حقیقی اور آخری نجا ت دہندہ ثابت کر نا یہ خو د کو ہر قسم کے احتساب اور قانون سے ما ورا سمجھتے ہیں نمو د و نما ئش اور پروٹوکول اِن کا نفسیاتی مسئلہ ہے ہر دور میں حکمران اِس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کر تے رہے کہ مالک کا ئنات نے اگر ان کو اقتدار کی مسند پر بٹھا یا ہے تو عوام کی خدمت کے لیے ہمارے حکمران اِس با ت کو بھی ما ننے سے انکا ری ہیں کہ اصل با ت خدمت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا نے میں ہے لیکن یہ ہر دور میں یہی سمجھتے رہے ہیں کہ کروفر سے آدمی لوگوں میں معتبر لڑتا ہے بڑا بننے کے لیے جہازی گا ڑیاں شاہی محلات جیسے بنگلے اور لشکری پروٹوکول یہ خو د کو بڑا ثابت کر نے کے لیے قانون کو کمزور یا گھر کی با ندی بنانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں تا ریخ کے اوراق میں شہرت اور نامور ہو نے کے لئے صاحب زر ہو نا ضروری سمجھتے ہیں لیکن اِن عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ شہرت اور عزت میں زمین آسمان کا فرق ہے شہرت تو ظالم کی بھی ہو سکتی ہے مگر تا ریخ کے ما تھے پر عزت صرف عادل حکمرانوں کو ہی نصیب ہو تی ہے شہرت تو کسی دولت مند جاہل کی بھی ہو سکتی ہے مگر عزت صرف عالم فاضل کے مقدر میں ہی آتی ہے شہرت تو کسی ڈکیت یا قاتل کی بھی ہو سکتی ہے مگر تا ریخ کے آسمان پر چاند بن کر چمکنے والے رحم دل ہی ہو سکتے ہیں شہرت تو ہر صاحب اقتدار کی ہو تی ہے مگر عزت صرف صاحب کردار کی ہی ہو تی ہے تا ریخ انسانی کے بہت بڑے حکمران چنگیز خان نے ایک با ر اپنے ساتھیوں سے پو چھا تھا کہ میرا نام تاریخ میں زندہ رہے گا تو خو شامدی درباری تو خا موش رہے لیکن ایک صاحب عقل بول اٹھا کر جہاں پناہ اگر آپ کسی انسان کو زندہ چھوڑیں گے تو ہی کوئی یاد کرنے والا بھی ہو گا یہی حال تما شی حکمرانوں کا ہوتا ہے کہ اگر یہ عوام کو انصاف اورسہولیات دیں گے تو ہی عزت پائیں گے رہ گئی شہرت تو وہ تو ہر دور کے فرعون تیمور ہلاکو کو بھی حاصل رہی ہے شہرت اور خو د پسندی بڑے بڑوں کو نیست و نا بود کر دیتی ہے لیکن تا ریخ میں زند ہ صرف نیک نام و عوام کے خدمت گزار ہی رہ جاتے ہیں آج کے لیڈر اور پچھلے حکمران جس کو بھی آپ دیکھ لیں وہ خو د کو خلفا راشدین کا جانشین قرار دیتے ہیں اِن بصیرت کے اندھوں کو کون سمجھا ئے کہ تاریخ انسانی کے عظیم اور عادل ترین خلفا راشدین کی عزت پروٹوکول کے سائے میں یا محلات میں رہنے سے نہیں بلکہ رات کو پہرہ دینے سے بڑھی حضرت ابو بکر کو حکمرانی کے دور میں بھی کپڑے کے تھان کندھے پر رکھ کر بیچنے میں کو ئی عار نہ تھی اور فاروق اعظم کو راتوں کو ضرورت مند وں کو تلاش کر نے اور بیت المال کے گم شدہ اونٹوں کو خو د ڈھونڈنے میں کو ئی تا مل نہ تھا حضرت عثمان غنی کو اما رت سے غربت کے سفر میں کوئی تکلیف نہ تھی اور شیرِ خدا حضرت علی کو ایک یہودی کی شکا یت پر عدالت میں پیش ہو نے میں کو ئی ہچکچاہٹ نہ تھی اور پھر اہل دنیا نے خو شگوار حیرت سے دیکھا حضرت عمر بن عبدالعزیز کو انکی پہلے سالانہ آمدنی پچاس ہزار اشرفیاں تھی امیر االمومنین بنے تو آمدن دوسو اشرفی رہ گئی جبکہ ہما رے حکمران کرا ئے کی گاڑیو ں میں آتے ہیں اور چند شب و روز اقتدار کے ایوانوں میں لو ٹ مار کے بعد دولت کے انبار لے کر جا تے ہیں یہاں تو کنگال آتے ہیں اور مال دار بن کے جا تے ہیں یہ مثالیں دیتے ہیں عوام کے خادم اِن کی خدمت میں عرض ہے عمر بن عبدالعزیز خلافت سے پہلے دو ہزا ر درہم کا ریشمی لبا س زیب تن کر تے تھے خلیفہ بنے تو پا نچ درہم کے لباس پر آگئے اور اِیسی فقیرانہ حکمرانی پر آپ کے انتقال پر قیصر روم نے اِس طرح خراج عقیدت کا اظہار کیا کہ کو ئی راہب دنیا چھوڑ دے تو کو ئی تعجب نہیں حیرت تو اِس پر ہے کہ جس کے قدموں میں دنیا جہان کی دولت بچھی تھی مگر اس نے فقیرانہ زندگی بسر کی ہما رے موجود ہ لیڈر وں کو اگر آپ دیکھیں تو غریب عوام پر ترس ہی آتا ہے اِن لیڈروں کی طرز زندگی ملا حظہ فرمائیں رائے ونڈ کے محلات وسیع و عریض سینکڑوں ایکڑز پر محیط سلنطت بلا ول ہا س کی آرائش و تزئین اور بھٹو خاندان کی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل سلطنت عمران خان صاحب کا طرز زندگی اور بنی گالا کی سلطنت چوہدریوں کا طرز زندگی اور گیلانی صاحب کی لو ٹ مار کے قصے تو ابھی بھی پرانے نہیں ہو ئے اِن کو شرم نہیں آتی جب یہ خود کو قائداعظم اور خلفا راشدین کے حقیقی وارث قرار دیتے ہیں جو لیڈر حکمران وطن عزیز کے کسی ہسپتال میں علا ج کروانا پسند نہ کر تے ہوں جن کے بچے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہ کرنا چاہتے ہو ں جن کی شادیوں پر شاپنگ دشمن ملک سے کی جا تی ہو جنہوں نے عوام کش سسٹم میں کبھی حقیقی تبدیلی لانے کی کو شش نہ کی ہو ، ہما رے حکمران شہرت کے طالب ہیں اِن کو یہ کو ن سمجھا ئے کہ شہرت کے لیے عوامی خدمت کا ہو نا بہت ضروری ہے حقیقی حکمران جہازی مہنگی گاڑیوں میں ہیلی کا پڑوں اور پروٹوکول کے لشکروں کے ساتھ حرکت کر نا زر نگار کر سیوں پر بیٹھنا دنیا کے مہنگے ترین لباس پہننا قصیدہ گوں کی محفلیں سجانا اپنے خو شامد یوں حواریوں کے ساتھ دنیا جہاں کی سیر کر نا اِن کے شوق اور مزاج شامل نہیں ۔ ہما رے لیڈروں کی یادداشت کے لیے عرض ہے کہ قائداعظم جو پاکستان چاہتے تھے یہ کوئی مشکل فلسفیانہ با ت نہیں ہے بلکہ وطن عزیزکا عام شہری بھی اِس حقیقت کو اچھی طرح با خبر ہے کہ قائداعظم کیا پاکستان چاہتے تھے شاعر مشرق نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قائداعظم نے جس عظیم ملک کے لیے اپنا خو ن پسینہ بہایا اور لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر جس پاکستان کی جدوجہد کی اس پاکستان میں بادشاہ چوہدری سردار میاں یاصاحب کا قانون نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا قانون نا فذ ہو گا ایسا اسلامی حقیقی قانون جو ہر ایک چھوٹے بڑے امیر غریب کو عزت نفس مساوات اور انصاف کی ضمانت فراہم کر ے گا ایسا پاکستان جس میں چند خاندانوں کی سیاسی معاشی اجارہ داری نہیں ہوگی یہ ملک کسی کی ذاتی جا گیر نہیں ہوگی نہ ہی نسل در نسل حکمرانو ں کو کسی کو حق حاصل ہوگا ہر شخص کو اس کی ذہنی و علمی جسمانی فکری و فنی صلاحیت کے مطابق ترقی کے یکسا ں مواقع میسر ہونگے اور حکمرانی عوام کی ہو گی عوام کے حقیقی اصلی نمائندوں کی ہو گی اقتدار عوام کی خواہشوں اور امنگوں کے مطابق ہو گا غیر ملکی طاقتوں کی کٹھ پتلیاں حکمرانی نہیں کر یں گی ایسا پاکستان جس میں ایسی تفریق اور امتیاز نہیں ہو گا کہ نسل در نسل حکمرانوں کی اولاد ہیں جونکیں بن کر عوام کا خون چوستی رہیں ایسا نظام نہیں جہاں حکمران کی اولاد حکمران اور ساری کا بیٹا ساری رہے ایسا پاکستان جسمیں افراد کی بجا ئے ادارے مضبوط ہوں انصاف ایسا کہ حق دار کو آسانی سے اس کا حق حاصل ہو جہاں زندگی گزارنے کے لیے کسی چوہدری یا با اثر کی خو شامد یا نو کری نہ کر نے پڑتی ہو یہ تھا وہ پاکستان جسے قائداعظم نے حاصل کر نا چاہا اور حاصل کیا لیکن اتنے سال گزرنے کے با وجود شاعر مشرق اور قائداعظم کا خواب ابھی تک ادھورا ہے تشکیل پاکستان کے بعد تکمیل پاکستان کا حقیقی مرحلہ ابھی با قی ہے ایسا پاکستان جہاں پر ایک حقیقی آزادی ہو آگے بڑھنے کے مواقع یکساں ہو ں تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ ہے قائداعظم کا پاکستان ۔