دکن کے نامور ادیب ‘محقق و نقاد
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید
ڈاکٹر محمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ
اردو شاتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر تلنگانہ اسٹیٹ
شہر اردو حیدرآباد اور اس میں قائم مادر علمیہ جامعہ عثمانیہ سے آزادی کے بعد فارغ ہوکر اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والے نامور سپوتوں میں ایک اہم نام پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا ہے ۔ جواردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں اپنی اعتدال پسند تنقید سے جانے جاتے ہیں۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید(۲۰۱۸۔۱۹۳۶) وقت اردو کے ممتاز محقق‘نقاد‘خاکہ نگار ‘ سوانح نگار‘کالم نگار‘شاعر‘صحافی اور ادیب گذرے ہیں۔ اردو تحقیق و تنقید میں ان کی ذائد از بیس کتابیں انہیں اردو کا زود نویس ادیب بناتی ہیں۔وہ علالت کے سبب گزشتہ کچھ سال سے اردو کی عملی دنیا سے دور ہے لیکن ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد روزنامہ سیاست میں ہر ہفتہ لکھی جانے والی ادبی ڈائری کے سبب آج بھی اردو ادب کے طالب علموں کو ان کے کارناموں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی ۔ ملازمت کے سلسلے میں آندھرا علاقے کی سری وینکٹیشورا یونیورسٹی میں ملازمت اختیار کی اور وہاں اردو کی شمع روشن کرنے کے بعد وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور مستقل طور پر حیدرآباد میں قیام پذیر ہیں۔ اردو کے ممتاز شاعر اور نقاد پروفیسر مغنی تبسم اور شہریار کے شاہکار تحقیقی کارنامے ’’ شعر و حکمت‘‘ اور دکن سے جاری ہونے والے ممتاز ادبی رسالے’’ سب رس‘‘ کے لئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے اپنے تحقیقی و تنقیدی قلم سے بے شمار کارہائے نمایاں انجام دئے۔
سلیمان اطہر جاوید چار پانچ پشتوں سے حیدرآبادی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ آج سے دو سو سال قبل اُن کے پشتینی رشتہ دار بلوچستان اور پنجاب میں تھے اور وہاں سے نقل مقام کرکے حیدرآباد منتقل ہوگئے اور مستقل طورپر حیدرآباد ہی میں سکونت اختیار کی۔ اُس وقت حیدرآباد سلطنت آصفیہ کا دارالخلافہ تھا۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے دادا کا نام محمد داؤد خان تھا۔نامور مجذوب بزرگ حضرت میاں میر نواب صاحبؒ سے روحانی طورپر انہیں عقیدت تھی۔حضرت میاں میر نواب صاحبؒ کی درگاہ مستعد پورہ کاروان اور پل قدیم کے درمیان حیدرآباد میں واقع ہے۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے آباء و اجداد اور خود ان کے گھرانے کے درگاہ حضرت میاں میر نواب صاحبؒ سے گہرے روابط رہے وہ اس درگاہ کے عقیدت مندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے والد کا نام محمد حسین خاں تھا۔ اور والدہ کا نام ’’گوری ماں ‘‘ تھا جو عزم و استقلال والی خاتون تھیں سلیمان اطہر جاوید پٹھان تو نہیں ہیں تاہم انہیں پنجابی حیدرآبادی کہا جاسکتاہے چوں کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق افغانستان سے رہا ہے لہذا ان کے دادا‘ والد وغیرہ میں پٹھانوں کا سا انداز جھلکتا ہے۔ لیکن بعد میں یہ لوگ حیدرآبادی تہذیب میں ڈھل گئے۔ سلیمان اطہر جاوید کی پیدائش اور تعلیم و تربیت چوں کہ حیدرآباد میں ہوئی ہے لہذا وہ خالص حیدرآبادی ہیں تاہم ان کے دادا محمد داؤد خان کے نام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شائد ان کے آباء و اجداد پٹھان ہوں گے لیکن حقیقت میں یہ پٹھان نہیں بلکہ شیخ ہیں۔سلیمان اطہر جاوید ۹؍اپریل ۱۹۳۶ء کو بروز پنچشنبہ(جمعرات) بوقت فجر پیدا ہوئے اتفاق سے اس دن عیدالاضحی بھی تھی۔ آپ کی جائے پیدائش محلہ مستعد پورہ حیدرآباد ہے ۔والدین نے ان کا نام محمد سلیمان خان رکھا جو آگے چل کر سلیمان اطہر جاوید کے نام سے مشہور ہوئے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی ابتدائی تعلیم زمانے کے دستور کے مطابق گھر سے شروع ہوئی۔ محلے کے مولوی صاحب انہیں اردو اور عربی(ناظرہ) پڑھاتے تھے۔ والد صاحب نے انہیں فارسی کی ابتدائی تعلیم دی اور بعد میں انہیں گورنمنٹ ہائی اسکول مستعد پورہ میں داخل کرایا۔ ۱۹۴۹ء میں اس اسکول سے انہوں نے پرائمری تعلیم کی تکمیل کی اور چادر گھاٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ تعلیم کے معاملے میں یہ کافی ذہین واقع ہوئے تھے۔ اس زمانے میں انگریزی اسکولوں میں داخل ہوچکی تھی اور ابتداء ہی سے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی انگریزی اچھی تھی۔ ایک دفعہ ان کی انگریزی کے استاد مہکری صاحب انہیں دسویں جماعت میں لے گئے جبکہ یہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے اور انہیں طلبہ کے سامنے اپنی کرسی کے قریب کھڑا کیا اور دسویں جماعت کی انگریزی پڑھنے کو کہا۔ انہوں نے فر فر سبق پڑھ دیا۔ مہکری صاحب نے ان کی لیاقت کو دسویں جماعت کے طلبہ کے سامنے سراہا۔ چادرگھاٹ ہائی اسکول کے پرنسپل مشہور افسانہ نگار جہاں بانو نقوی کے شوہر نقوی صاحب تھے۔ یعقوب صاحب تاریخ اسلام پڑھاتے تھے۔ اس دور کے طلبہ میں صلاح الدین اویسی بھی تھے۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید جس سال میٹرک میں تھے اس سال انہیں اپنڈکس کا عارضہ ہوا اور وہ دواخانہ میں عثمانیہ میں شریک ہوئے اور آپریشن کرنا پڑا۔ اس علالت کی وجہہ سے وہ سالانہ امتحان میں شرکت نہ کرسکے اس طرح ان کا ایک سال ضائع ہوا۔ سلیمان اطہر جاوید نے بالآخر چادر گھاٹ ہائی اسکول سے ۱۹۵۲ء میں میٹرک کامیاب کیا اور چادرگھاٹ کالج میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کالج کے پرنسپل تھے اور اساتذہ میں ڈاکٹر حمید الدین شاہد اور حامد صدیقی تھے۔ زور صاحب اپنے مخصوص انداز میں اردو پڑھاتے تھے۔ کالج کی علمی وادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے ۱۹۵۵ء میں انٹرکامیاب کیا۔ آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ ان دنوں بی اے کی جماعتیں بھی یونیورسٹی ہی میں ہوا کرتی تھیں۔ بی اے کے اساتذہ میں پروفیسر عبدالقادر سروری‘ پروفیسر سید محمد‘ پروفیسر رفیعہ سلطانہ‘ ڈاکٹر حفیظ قتیل اور ڈاکٹر سید حمید الدین شطاری صاحبان تھے۔ جبکہ قتیل صاحب اردو غزل پڑھاتے تھے۔ ان اساتذہ کے فیض سے سلیمان اطہر جاوید نے ۱۹۵۹ء میں بی.اے کی ڈگری حاصل کی اور یہیں سے ۱۹۶۲ء میں انہوں نے ایم اے کی تکمیل کی۔ دوران تعلیم ان کے دوستوں میں پروفیسر افضل محمد‘ احمد جلیس اور شاذ تمکنت وغیرہ تھے۔
سلیمان اطہر جاوید نے ایم اے کے بعد بھی تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ ایم اے کی تکمیل کے بعد پروفیسر عبدالقادر سروری وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہو گئے۔ سلیمان اطہر جاوید چاہتے تھے کہ ان کے عہد میں ہی ان کا داخلہ پی ایچ ڈی میں ہوجائے کیونکہ پروفیسر مسعود حسین خاں صدر شعبہ اردو بن کر آئے تھے۔ ان کے ساتھ علی گڑھ کی روایات بھی آئی تھیں۔ عبدالقادر سروری صاحب نے سلیمان اطہر جاوید کیلئے دکنیات سے متعلق چند ایک موضوعات رکھے تاہم دکنیات کی طرف ان کا فطری میلان نہیں تھا۔ پروفیسر مسعود حسین خان کے آجانے کے بعد یونیورسٹی کی فضاء ہی بدل گئی۔ چنانچہ سلیمان اطہر جاوید نے ان سے پی ایچ ڈی کیلئے نگران بننے اور موضوع کے انتخاب میں رہنمائی کی درخواست کی۔ پروفیسر مسعود حسین خاں نے ’’رشید احمد صدیقی‘‘ پر تحقیقی کام کرنے کا مشورہ دیا۔ مسعود حسین خاں صاحب رشید احمد صدیقی کے شاگرد رہ چکے تھے اور ان سے خاصے روابط تھے اور خود رشید احمد صدیقی کی شخصیت بھی اس لائق تھی یوں پی ایچ ڈی کے مقالہ کا عنوان ’’رشید احمد صدیقی اور فن‘‘ قرارپایا۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا جس پر ۱۹۶۸ء میں عثمانیہ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا مستحق قراردیا۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے مسلسل تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے دوران معاشی دشواریوں کے باوجود پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی ۱۹۶۵ء میں جرنلزم میں ریفریشر کورس کیا اور لسانیات کے گرمائی اسکول منعقدہ میسور سے ۱۹۷۱ء میں لسانیات کا سرٹیفکٹ کورس اور ۱۹۷۶ء میں شیلانگ میں منعقدہ یوجی سی گرمائی انسٹی ٹیوٹ سے اطلاقی لسانیات کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ابتدا میں محکمہ عطیات میں ملازمت کی ۔ پھر رہنمائے دکن سے وابستہ ہوئے۔ رہنمائے دکن میں انہوں نے جولائی ۱۹۵۹ء تاستمبر۱۹۶۹ء تقریباً نو سال ملازمت کی اور اس دوران پی ایچ۔ ڈی کی تکمیل بھی کی اور جزوقتی لکچرر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ مثلاً پروفیسر سیدہ جعفرہ کے رخصت لینے پر نظام کالج میں انہوں نے بہ حیثیت اردو لکچرر ۱۹؍جنوری۱۹۶۳ء تا۱۹۶۴ء کام کیا۔ اردو اور اروینٹل کالج میں یکم جون تا۲۰؍ستمبر۱۹۶۶ء کام کیا اور اس کی تنخواہ بھی نہیں لی۔ آخر کار ۲۱؍ستمبر۱۹۶۶ء کو سری وینکٹیشورا یونیورسٹی میں ان کا تقرر بہ حیثیت اردو لکچرر عمل میں آیا اور ان کی مستقل ملازمت کا سلسلہ شروع ہوا۔ وقت گذرنے کے ساتھ وہ اس یونیورسٹی میں ترقی پاتے رہے۔ ۱۹۷۶ء تک لیکچرر رہنے کے بعد وہ ریڈر بنائے گئے اور اپریل ۱۹۷۶ء تامارچ ۱۹۸۵ء میں ریڈر شعبہ اردو رہے۔ پھر انہیں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی اور بعد میں صدر شعبہ اردو بنائے گئے اس طرح تقریباً ۳۰ سال سری وینکٹیشورا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی آبیاری کے بعد ۳۰؍اپریل ۱۹۹۶ء کو وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔ اس دورن ان کے زیرنگرانی ۲۰ طلباء نے پی ایچ ڈی کیا اور ۵۰ طلباء نے ایم فل کیا ۔اپنے ایک شخصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ لوگ Retired ہوکر Tired ہوجاتے ہیں اور وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد تھک جاتے ہیں لیکن میں تھکا نہیں ہوں بس میری اصل تنخواہ کی جگہ مجھے وظیفہ مل رہا ہے اور تدریس کیلئے وہ طلبہ نہیں لیکن میں آج بھی اتنا ہی کام کرتا ہوں جتنا ملازمت کے دوران۔ چنانچہ وظیفہ پر سبکدوشی کے بعدبھی انہوں نے کام کرنا نہیں چھوڑا اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بہ حیثیت Visiting Professor تقریباً دو سال خدمات انجام دیں۔ وہ سنٹرل یونیورسٹی ہی میں تھے کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے انہیں اردو یونیورسٹی میں تعلیمی مشیر کے شعبہ کے منصب کا پیش کش کیا۔ سلیمان اطہر جاوید یہاں آگئے لیکن اردو یونیورسٹی کاماحول کچھ اور تھا۔ سلیمان اطہر جاوید جیسے کھلے مزاج کے انسان کا یہاں رہنا ممکن نہ ہوا۔ من بعد ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء انہوں نے گیسٹ فیکلٹی کی حییثت سے عثمانیہ یونیورسٹی میں خدمات انجام دی ۔ روزنامہ سیاست میں ادبی ڈائری لکھتے رہے جس کا سلسلہ کافی عرصہ چلا۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو پر کئی مضامین پڑھے۔ ادارہ ادبیات اردو شعبہ امتحانات سے بھی وابستہ رہے اور ادارہ کی مجلس انتظامی کے رکن اور ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے معاون مدیر رہے۔ وہ ۲۰۰۳ء میں جامعہ اردو علی گڑھ کی مجلس منتظمہ کے تاحیات رکن مقرر ہوئے ۔
۱۹۶۴ء میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی شادی اپنی خالہ زاد بہن نفیس النساء سے ہوئی۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی اہلیہ ان کیلئے صحیح معنوں میں نصف بہتر اور شریک حیات ثابت ہوئیں۔ کیونکہ شادی کے بعد پی ایچ ڈی کی تکمیل اور تروپتی میں ملازمت اور شوہر کی علمی‘ ادبی سرگرمیوں کی انجام دہی میں ایک خاتون خانہ کا جو کردار ہوتا ہے وہ انہوں نے بخوبی نبھایا۔ یہ خود بھی اردو دوست اور ادب نواز خاتون ہیں۔ بچوں کی شادی کے بعد مصروفیت کے طوپر اپنی رہائش گاہ واقع ارونا کالونی ٹولی چوکی حیدرآباد میں محلے کے بچوں کو اردو پڑھاتی ہیں اور انہیں روزنامہ سیاست کے زیر اہتمام منعقدہ اردو امتحانات میں شریک کراتی ہیں۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کو خدا نے ایک بیٹی اور دوبیٹے عطا کئے۔ بیٹی کا نام فراست فاطمہ دیبا ہے جبکہ بڑے بیٹے کا نام نورمحمد عرشی اور چھوٹے بیٹے کا نام لبیب محمد ذیشان ہے۔ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی اولاد نے بھی اعلیٰ تعلیم کے مدارج طئے کئے۔ بیٹی فراست فاطمہ دیبا کی شادی ڈاکٹر حبیب اﷲ خان سے ہوئی جو جیالوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور اب وہ این ایم ڈی سی مانصاحب ٹینک حیدرآباد میں اسسٹنٹ جنرل منیجر کے عہدے پر فائز ہیں بڑا بیٹا نور محمد عرشی گرائجویشن کرنے کے بعد ریاض سعودی عرب میں ملازم ہے۔ اور اس کی شادی ۱۹۹۷ء میں ہوئی۔ چھوٹا بیٹالبیب محمد ذیشان ایم بی اے اور کامرس میں پی ایچ ڈی کے بعد اب مسقط کی یونیورسٹی میں ملازم ہے اس کی شادی ۲۰۰۲ء میں ہوئی۔ادارہ ادبیات اردو سے وابستگی‘ پروفیسر مغنی تبسم اور شہریار کے رسالہ شعر و حکمت اور سب رس میں بے شمار تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھنے۔سیاست میں ادبی ڈائری لکھنے کے بعد زندگی کے آخری کچھ سال علالت میں گزرے اور ہندوستان کی آزادی کے دن۱۵ ۔اگسٹ۲۰۱۸ کو ان کی روح بھی جسم سے آزاد ہوئی۔ اور وہ اپنے بزرگان دین کے آستانے درگاہ میر نواب صاحب مستعید پورہ پرانا پل میں پپیوند خاک ہوئے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے زمانہ طالب علمی سے ہے لکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ کافی زود نویس واقع ہوئے ہیں۔ تحقیق‘تنقید‘سوانح ‘خاکہ نگاری اور دیگر اصناف میں ان کی ۲۲ کتابیں شائع ہوئیں جن کے نام اس طرح ہیں۔
تصانیف:
۱) رشید احمد صدیقی۔ حیات اور فن( پہلا ایڈیشن) ۱۹۶۸ء
رشید احمد صدیقی۔ حیا ت اور فن (دوسرا ایڈیشن) ۱۹۷۶ء
۲) اسلوک اور انتقاد ۱۹۶۹ء
۳) تنقید شعر ۱۹۷۱ء
۴) ادب میں ابہام اور اس کے مسائل ۱۹۷۴ء
۵) چہرہ چہرہ داستان ۱۹۷۷ء
۶) تنقیدی افکار ۱۹۷۷ء
۷) تاریخ تلگو ۱۹۷۸ء
۸) مکاتیب رشید احمد صدیقی ۱۹۸۰ء
۹) اردو شاعری میں اشاریت ۱۹۸۳ء
۱۰) عزیز احمد کی ناول نگاری ۱۹۸۶ء
۱۱) تنقید اور تہذیب ۱۹۸۷ء
۱۲) رشید احمد صدیقی ساہتیہ اکیڈیمی ایڈیشن ۱۹۸۸ء
۱۳) اقبال۔ ماورائے دیر و حرم ۱۹۹۲ء
۱۴) غالب کے چند نقاد ۱۹۹۵ء
۱۵) عزیز احمد کے افسانے ۱۹۹۶ء
۱۶) ساحر لدھیانوی ۱۹۹۶ء
۱۷) آنگن آنگن دکھ کے پیڑ ۱۹۹۶ء
۱۸) بزم چراغاں ۲۰۰۳ء
۱۹) دیوان غالب کا پہلا شعر ۲۰۰۳ء
۲۰) ادبی ڈائری ۲۰۰۵ء
۲۱) ادب کا بدلتا مزاج ۲۰۰۶ء
۲۲) غالب اور غالب ۲۰۰۶ء
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اپنے عہد کے نامور محقق ہیں۔ ان کی تحقیقی کتابوں میں رشید احمد صدیقی شخصیت اور فن ‘ تاریخ تلگو ادب اور فنون لطیفہ مکاتیب رشید ‘ اردو شاعری میں اشاریت ‘ عزیز احمد کے افسانے شامل ہیں ۔ ’’رشید احمد صدیقی شخصیت اور فن ‘‘ ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جس میں فن تحقیق کے اصولوں کی روشنی میں رشید احمد صدیقی کی حیات اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی تحقیق واضح اور مدلل ہے ۔ وہ تنقیدی انداز میں بات کو پیش کرتے ہیں۔تاریخ تلگو ادب اور فنون لطیفہ کتاب میں انہوں نے اردو میں تلگو ادب کی مختصر تاریخ بیان کی ہے ۔ اس سے اردو قارئین کو تلگو ادب کے مختلف ادوار کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اردو کے علاوہ تلگو ادب کی تحقیق میں بھی مہارت رکھتے ہیں ۔ مکاتیب رشید نامی کتاب میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے ایک مقدمہ کے ساتھ رشید احمد صدیقی کے تحریر کردہ خطوط کو جمع کیا ہے ۔ یہ خطوط انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے جمع کئے اور تاریخ و ار کتابی شکل میں شائع کیا ۔ ان خطوط سے رشید احمد صدیقی کے عہد کے حالات اور ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے ۔ اردو شاعری میں اشاریت نامی کتاب میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے اشاریت کی تعریف کی ہے ۔ لفظ کی اہمیت کو واضح کیا اور دیگر زبانوں کے عہد میں اشاریت کی تحریکوں کو بیان کرتے ہوئے اردو شاعری کے مختلف ادوار اور اردو کے مشہور شعراء میرؔ ‘ غالبؔ ؔ ‘ میراجیؔ ‘ اقبالؔ ‘ فیضؔ کی شاعری میں پائی جانے والی اشاریت کو پیش کیا ہے ۔ اشاریت کے موضوع پر پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا یہ اہم تحقیقی کام ہے ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی ایک اور تحقیقی کتاب ’’ عزیز احمد کے افسانے ‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے مشہور ترقی پسند نقاد اور جامعہ عثمانیہ میں انگریزی کے سابقہ استاد عزیز احمد کے افسانوں کو ایک طویل مقدمہ کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ عزیز احمد پاکستان اور کناڈا میں رہے تھے ۔ پاکستان میں ان کے دوستوں کو خط لکھ کر انہوں نے افسانے حاصل کئے اور اپنے مقدمے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کیا ۔ اس طرح ان کتابوں کی روشنی میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ایک نامور محقق کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تحقیق سے اردوادب کے کئی گوشوں کو سامنے لایا اور تلگو ادب سے بھی لوگوں کو متعارف کرایا ۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اردو کے معتبر نقاد ہیں۔ انہوں نے فن تنقید کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں جن میں اسلوب اور انتقاد ‘ تنقید شعر ‘ ادب میں ابہام اور اس کے مسائل ‘ تنقیدی افکار ‘ عزیز احمد کی ناول نگاری ‘ تنقید اور تہذیب ‘ اقبال ماورائے دیر و حرم ‘ دیوان غالبؔ کا پہلا شعر ‘ ادب کا بدلتا مزاج ‘ غالبؔ کے چند نقاد اور غالبؔ اور غالبؔ کا تنقیدی جائزشامل ہیں۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی بیشتر تنقیدی کتابیں تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔ جس سے ان کے تنقیدی رویے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اعتدال پسند تاثراتی نقاد ہیں ۔ وہ کسی فن پارے کی تشریح کرتے ہیں اور اس کے محاسن و مصائب بیان کرتے ہوئے ادب میں اس کا مقام متعین کرتے ہیں ۔ وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کی جانبداری کرتے ہیں ۔ تنقیدی کتاب اقبال ماورائے دیر و حرم میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے اقبال کی زندگی کے چند نئے گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے ۔ دیوان غالبؔ کا پہلا شعر نامی کتاب میں غالبؔ کے پہلے شعر ۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا۔ کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔کی تحقیق کی ۔ اور کاغذی پیرہن کی ایرانی روایت کو بیان کرتے ہوئے اس شعر کی تشریح تنقیدی انداز میں کی ۔ غالبؔ کے چند نقاد کتاب میں غالبؔ پر کی جانے والی تنقیدوں کو مختلف نقادوں جیسے مالک رام ‘ حالیؔ ‘ عبدالرحمن بجنوری ‘ رشید احمد صدیقی ‘ قاضی عبدالودود ‘ یوسف حسین خاں ‘ رشید احمد صدیقی یگانہ چنگیزی اور آل احمد سرور کی تحریروں کے حوالے سے تنقیدی انداز میں جائزہ لیا۔ اور ان نقادوں کی تنقیدوں کی خوبیوں اور خامیوں کو اعتدال پسندی سے اجاگر کیا ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے ہاں نفسیاتی یا سائنٹفک تنقید نہیں ملتی ۔ مجموعی طور پر وہ ایک تاثراتی نقاد ہیں ۔
’’ میری یہ پختہ رائے ہے کہ دکن کی چاروں ریاستوں میں ڈاکٹر مغنی تبسم اور سلیمان اطہر جاوید ہی صف اول کے نقاد ہیں ۔ سلیمان اطہر جاوید ملک گیر شہرت کے مالک ہی نہیں انہیں پاکستان میں بھی جانا جاتا ہے ۔ (پروفیسر گیان چند جین ۔ مشمولہ ’’ نذر جاوید ‘‘ مرتبہ مظفر شہ میری ۔ ص : ۲۴ )
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے سوانحی کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی تحریر کردہ دو سوانحی کتابیں رشید احمد صدیقی اور ساحر لدھیانوی ہیں ۔ رشید احمد صدیقی کتاب دراصل پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے تحقیقی مقالے کارواں بیان ہے ۔ اور رشید احمد صدیقی کے حالات زندگی کو بیانیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اسی طرح ساحر لدھیانوی کتاب میں اردو کے مشہور شاعر اور فلموں کے مشہور گیت کار ساحرلدھیانوی کے حالات زندگی اور ان کے شعری و ادبی سفر کا حال پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے تفصیل سے پیش کیا ہے اور ان کے کلام کا نمونہ دیا گیا ہے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید مشہور محقق‘ نقاد‘ ادیب و شاعر کے علاوہ ایک اچھے خاکہ نگار و مرقع نگار بھی ہیں۔ ان کے خاکوں و مرقعوں کے دومجموعے ’’چہرہ چہرہ داستان‘‘ اور ’’ بزم چراغاں‘‘ ہیں۔ چہرہ چہرہ داستان مجموعہ جون ۱۹۷۷ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوچکا ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے تحریر کردہ جملہ گیارہ(۱۱) خاکے و مرقعے ہیں۔ جن کے نام اس طرح ہیں۔ (۱) ایک تہذیب ایک موت‘ (۲) جامعہ عثمانیہ مرحوم‘(۳) زور صاحب‘(۴) سروری صاحب‘(۵) مولاناؒ ‘ (۶) غروب آفتاب‘(۷) ….جنگل اداس‘ (۸) اناللہ و انا الہ راجعون‘(۹) رفعت صاحب‘ (۱۰) یونس صاحب‘ (۱۱) دلداری عروس سخن۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے تحریر کردہ خاکوں مرقعوں کا دوسرا مجموعہ ’’بزم چراغاں ہے۔ جو ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب میں مصنف کے پیش لفظ کے بعد ۱۷خاکے ہیں۔ جن کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں۔ (۱) انہی کے فیض سے میری نگاہ روشن ہے۔ (۲) استاد محترم زور صاحب۔(۳) قیتل صاحب۔ (۴) رفیعہ آپا۔ (۵) گوپال متل صاحب۔ (۶)فاروقی صاحب۔ (۷) اردو علی خان۔ (۸) جگر صاحب۔ (۹) لطیف پاشا۔(۱۰) ظ۔صاحب۔ (۱۱) حبیب جالب۔ (۱۲) پھر نظر میں پھول مہکے۔ (۱۳) حبیب النساء بیگم۔ (۱۴) یار عزیز۔ شاذ تمکنت۔ (۱۵) سلیمان خطیب۔ (۱۶) مسیح انجم۔(۱۷) چھوٹی آپا۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے حیدرآباد کی اہم شخصیات پر خاکے لکھ کر ان کے حالات کو محفوظ کردیا۔ڈاکٹر زور کے خاکے میں زور صاحب کی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پروفیسر سلیمان اطہر جاوید جذباتی انداز میں لکھتے ہیں:
’’گذشتہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ میں حیدرآباد کی اردو کی تہذیبی تاریخ میں زورؔ صاحب نے ہیرو کا کردار اداکیا ہے۔ اردو اور اردو والوں پر زورؔ صاحب کے احسانات کی فہرست طویل ہے۔ اتنی طویل کہ نہ تیار کی گئی ہے اور نہ شائد تیار کی جاسکے۔ اقبال کا شعر۔
نظر بلند‘ سخن دلنواز‘ جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
زور صاحب پر پوری طرح صادق آتاہے…… آج ادارہ ادبیات اردو حیران و پریشان ہے کہ اس کا والی کہاں ہے! قلعہ گولکنڈہ کے کھنڈر سربگریباں ہیں کہ ان کے شاہوں کو بعد از موت ’’زندگی‘‘ دینے والا آج خود موت سے ہمکنار ہوچکا ہے۔ ادارہ ادبیات اردو کے مخطوطات اس کا قیمتی کتب خانہ ایوان اردو اور اردو میوزیم۔ زورؔ صاحب اگر ایک لفظ بھی تحریر نہ کرتے تب بھی یہ کارنامے زورؔ صاحب کے نام کوحیات و دوام عطا کرنے کیلئے کافی تھے۔ زورؔ صاحب کو جنوبی ہند میں وہی مرتبہ حاصل تھا ہے اور رہے گا جو سرسید کو شمالی ہند میں حاصل تھا ہے اور رہے گا۔‘‘(۱۷۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ’’چہرہ چہرہ داستان‘‘۔ص:۱۸۔۲۰۔ حیدرآباد ۱۹۸۸ء)
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی خاکہ نگاری کا خاص وصف یہ ہے کہ وہ شخصیت کے ساتھ اپنے تعلقات و روابط ‘ ملاقاتوں ‘ یادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حالات لکھتے ہیں اور بعض دفعہ خاکہ میں بیان کردہ شخصیت سے زیادہ اپنی شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں ۔ ان کے لکھے ہوئے خاکے حیدرآباد کی نمایاں شخصیات کی زندگیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور یہ خاکے حیدرآباد کی ادبی زندگی کی تاریخی دستاویز ہیں ۔تحقیق ‘تنقید‘سوانح نگار ی اور خاکہ نگاری کے علاوہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے کئی ادیبوں کے کتابوں کے پیش لفظ لکھے۔ اردو کی بے شمار کتابوں کا تعارف اور تبصرہ لکھا۔ ادبی ڈائری کے عنوا ن سے روزنامہ سیاست میں کئی سال تک ادبی محافل کی رپورٹ پر مبنی مضامین لکھے۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے شاعری بھی کی ان کا ایک شعری مجموعی ’’ آنگن آنگن دکھ کے پیڑ ‘‘ کے نام سے‘ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوا ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید بنیادی طور پر محقق اور نقاد ہیں ۔ لیکن ان کی شاعری میں بھی فنی خوبیاں اور پختگی پائی جاتی ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام میں ۲۸ نظمیں اور ۳۰ سے زیادہ غزلیں ہیں ۔وفیسر سلیمان اطہر جاوید بنیادی طور پر نظم اور غزل کے شاعر ہیں اور وہ صرف شوقیہ شاعری کرتے ہیں ۔ مشاعرے پڑھنا یا اپنی شعری تخلیقات اردو جرائد میں چپھوانا ان کا شوق نہیں ’’ آنگن آنگن دکھ کے پیڑ ‘’ مجموعہ میں شامل نظموں کے عنوانات یہ ہیں ۔ (۱) بسم اللہ الرحمن الرحیم (۲) حمد (۳) محمد ﷺ (۴) نعت شریف (۵) لاموجود (۶) شہر نغمہ جل گیا (۷) دوست دشمن (۸) خون کا شہر (۹) اذا زلزلت الارض (۱۰) ایک مرثیہ (۱۱) سورج گرہن (۱۲) ٹوٹے چہرے بکھرے لوگ (۱۳) الفاظ کا المیہ (۱۴) چہرے کا المیہ (۱۵) سمندر بے وفا ہے (۱۶) حسن دل آراء (۱۷) بازدید (۱۸) پتھروں کا دیس (۱۹) نوحہ (۲۰) بن باس (۲۱) سزاء (۲۲) آگہی (۲۳) درد شب گرداں (۲۴) دوسرے جنم کا انتظار (۲۵) رانگ نمبر(۲۶) حیدرآباد (۲۷) ڈاکٹر زورؔ (۲۸) سروری صاحب ۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کی غزلوں میں ردیف الف کی ۹ غزلیں ردیف ی کی ۱۰ غزلیں ، ردیف کی ۴ غزلیں اور ردیف ، ح ، ج ، ت ، ص ، ل ، ر ، و ، د وغیرہ کی چند ایک غزلیں ہیں ۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے کلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ واردات قلبی کو بیان کرتے ہیں ۔ دبستان دہلی کے شعراء کی طرح ان کی شاعری بھی داخلی شاعری ہے ۔ زندگی کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خیالات کو اشعار میں ڈھالا ہے ۔ ان کی غزلوں میں عشق کے روایتی مضامین کے علاوہ زندگی کے مسائل کا اظہار ملتا ہے ان کے چند اشعار اس طرح ہیں ۔
ایک جھلک ہی اتنی دلکش
اس کا سراپا کیسا ہوگا
کتاب زندگی پر نام اپنا
جو اندر دیکھتے ابواب اس کے
یہ کم نہیں کہ زمانے کو روشنی دی
تمام عمر میاں ! ہم جلے دیوں کی طرح
پھر آج شہر میں ہنگامہ مچ گیا یارو
جو سرغنہ تھا وہی بچ گیا یارو
اس نے پوچھی جو کیفیت میری
ہاتھ میں اس کے دے دیا اخبار
تارا ٹوٹا ٹوٹا دیکھو
آنسو تیرا ڈھلکا ہوگا
ان اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا کلام سہل متمنع ہے ۔ سیدھے سادھے الفاظ میں انہوں نے دل کی کیفیت بیان کردی ہے ۔ مجموعی طور پر پروفیسر سلیمان اطہر جاوید اردو کے نامور محقق ‘نقاد‘ادیب اور شاعر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن رہے ۔ اپنے علمی و ادبی کارناموں کا فیض کئی اداروں کو پہونچایا۔ وہ حسب ذیل اداروں کے رکن رہے۔
رکن : اکیڈیمک کونسل ایس وی یونیورسٹی تروپتی‘ ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۸ء
رکن : اکیڈیمک کونسل ایس وی یونیورسٹی تروپتی ۱۹۹۲ء تا۱۹۹۶ء
رکن : بورڈ آف گورنرس اردواکیڈیمی آندھراپردیش حیدرآباد ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۲
رکن : مجلس عاملہ بورڈ آف گورنرس آندھراپردیش اردو اکیڈیمی حیدرآباد ۱۹۸۵ء تا۱۹۸۸ء
رکن : کمیٹی برائے اصلاحات علم حیوانات ترقی اردو بیورو۔ دہلی ۱۹۷۸ء تا ۱۹۸۴ء۔
رکن : پیانل آف اردو لینگویج‘ لٹریچر اینڈ لنگویسٹ ترقی اردو بیورو‘ دہل۔ ۱۹۸۶ء تا حال۔
رکن : لینگویج ایڈوائزری کمیٹی‘ بھارتیہ گیان پیٹھ دہلی۔ ۱۹۸۵ء تا۱۹۹۰ء۔
رکن : اردو لینگویج اڈوائزری بورڈ‘ ساہتیہ اکاڈمی دہلی۔
* شریک مدیر ’فکر نور ‘‘ چادر گھاٹ کالج میگزین‘ حیدرآباد۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کو ان کی تصانیف پر حسب ذیل اداروں کی جانب سے ایوارڈ بھی ملے۔
* آندھراپردیش اردواکیڈیمی ایوارڈ ۱۹۷۵ء (برائے تصنیف ادب میں ابہام اور اس کے مسائل)
* اترپردیش اردواکیڈیمی ایوارڈ ۱۹۷۷ء (برائے تصنیف’’تنقیدی افکار‘‘)
* اترپردیش اردو اکیڈیمی ایوار۱۹۸۶ء (برائے تصنیف’’چہرہ چہرہ داستان‘‘)
* پنچاب اسوسی ایشن اور کمال اردو اکیڈیمی مدراس کی طرف سے ۲۰۰۰ء کا بسٹ پوئیٹ ایوارڈ۔
* مغربی بنگال اردو اکیڈیمی ایوارڈ۱۹۹۲ء (برائے تصنیف شعری مجموعہ’’آنگن آنگن دکھ کے پیڑ‘‘)
مندرجہ بالا ایوارڈز کے علاوہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کو ان کی اردو خدمات کیلئے تلگو یونیورسٹی سے بھی ایوارڈز ملے۔ انہیں اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ۱۹۹۱ء میں ممتاز استاذ کا اور ۲۰۰۲ء میں مجموعی خدمات پر ایوارڈ دیا۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کے کارنامے اردو کے آنے والے محققین اور ادیبوں کے لئے ضرور مشعل راہ ثابت ہون گے۔
گزشتہ کئی دنوں کی علالت کے بعد آج پندرہ اگسٹ ۲۰۱۸ کو دوپہر میں پروفیسر سلیمان اطہر جاوید کا انتقال ہوگیا ۔ نماز جنازہ اور تدفین سولہ اگسٹ ۲۰۱۸ کو عمل میں آے گی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
————–
One thought on “دکن کے نامور ادیب ‘محقق و نقاد – پروفیسر سلیمان اطہر جاوید :- ڈاکٹر محمد ابرارالباقی”
Suleman Ather Javed ka bharpoor taaruf hai