شمع اسلام بجھانے کی ناکام کوشش
عظمت علی
جب اس عالم مادہ میں نور اول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدہو ئی تو نگاہوں کو خیرہ کردینے والے بہت سے واقعات رونما ہوئے جو فطرت انسانی سے بالاتر تھے ۔قصر کسریٰ کے چودہ کنگوروں کازمیں بوس ہوجانا ،آتش کدہ فارس کاگل ہوجانااوردریائے ساوہ کاخشک ہوجانا وغیرہ۔
اس ذات مقدس نےایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں جہالت کا دور دورہ تھا ،بتوں کی پرستش کی جاتی ،ذرا ذراسی باتوں پر چالیس چالیس برس جنگ ہواکرتی ،جگر کے ٹکڑوں کوزندہ درگور کیاجاتا،اپنے علاوہ سب کو عجم (گونگا) سمجھاجاتا اور ایسے غیر انسانی افعال انجام دئے جاتے کہ اللہ کی پناہ !
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام بعثت سے پہلے عرب کےحالات کویوں بیان فرماتے ہیں: لوگ ایسے فتنوں میں مبتلاتھے جہاں دین کے بندھن شکستہ ،یقین کے ستون متزلزل ،اصول مختلف اور حالات پراکندہ تھے،نکلنےکی راہیں تنگ اورتاریک تھیں۔ہدایت گمنام اورضلالت ہمہ گیر تھی ۔(کھلے خزانوں )اللہ کی مخالفت اور شیطان کی مدد کی جاتی تھی ۔ایمان بےسہارا تھا ۔چنانچہ اس کے ستون گر گئے ۔اس کےنشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے ۔اس کے راستہ مٹ گئے اورشاہراہیں اجڑ گئیں تھیں ۔وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے ۔انہیں کی وجہ سےان کے پھریرے ہر جگہ لہرانے لگے تھے ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سمو روندتے اور اپنے کھروں کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھےتو لوگ ان میں حیران و سرگرداں ،جاہل وفریب خوردہ تھے ۔ایک ایساگھر جو اچھا مگر اس کے بسنے والے برے تھے ۔جہاں نیند کے بجائے بیداری اورسرمہ کی جگہ آنسو تھے ۔اس سرزمین پر عالم کےمنھ میں لگام تھی اور جاہل معزز اور سرفراز تھا۔۔۔(نہج البلاغہ خطبہ 2 ترجمہ مفتی جعفر حسین (
ایسے ناگفتہ حالات میں آپ نے دین الٰہی کی عملی تبلیغ کرنا شروع کی ،لوگوں کو دعوت حق دی اور اعلان نبوت بھی کیا۔یہ خبر بجلی کی رفتار سے اور جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اورگردو نواح میں بسنے والے افراد کے کا نوں سے جاٹکرائی ۔پہلے پہل تولوگ آپ کی دعوت کتراتے لیکن جب آپ کوحقیقی نجات دہند ہ پایا تو پہلے تھوڑے تھوڑے اور پھر فوج در فوج دائرہ اسلام میں پناہ لینے لگے اور کارواں بنتاگیا ۔
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتاگیا
ادھر وحدانیت کےمنکرین کے دلوں میں آگ بھڑک اٹھی ۔وہ قریش کے سردار جناب ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا:اے ابوطالب ! آپ محمد کومنع کر دیجئے کہ وہ ہمارے خداؤں ,ہمارے دین اور ہمارے آبا ءواجداد کو برانہ کہیں اور وہ اپنی تبلیغ سےدستبردار ہوجائیں ۔
جنا ب ابوطالب نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوبلایا اور ساری روداد بیان کردی ۔اس پر آنحضرت نے اپنے چچا سے فرمایا:خد اکی قسم !اگر یہ لوگ میرے داہنےہاتھ پر سورج اوربائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اسلام کی تبلیغ سےدستبردار نہیں ہوں گا۔یہاں تک کہ اس راہ میں اپنی جان قربان کردو یا پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ ں ۔
یہ فرماکر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ،حضرت ابو طالب نے بھتیجےکوآوازدی ،واپس بلایا اور فرمایا:خداکی قسم ! میں تمہاری حمایت سے ہرگزدستبردار نہیں ہوں گااور میں ان لوگوں کومہلت نہیں دوں گا کہ وہ تمہاری طرف انگلی اٹھاسکیں۔تمہارا دل جو چاہے کہو۔(سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 265اور 266طبع :1375ھ )
ان دونوں شخصیتوں کےجواب سے مشرکین ،قریش سے مکمل طورپر مایوس اور ناامیدہوچکے تھے کہ یہ حضرات تبلیغ دین میں ایک دقیقہ بھی کوتاہی نہیں برتیں گے ۔لہٰذا انہوں نے رسول اسلام اور نو مسلمانو ں کوطرح طرح سے اذیتیں دینا شروع کردیں؛آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ،شاعر ،مجنون اورساحر کےنام پکاراگیا ۔ ۔ڈھیلے پتھر سےجسارت کی گئی ۔راستہ میں کانٹے بچھائے گئے اور ایذارسانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مگر اہل ایمان پہاڑوں کی طرح ثابت قدم اورمستحکم رہے اور اپنے مقصد سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے ۔مشرکین عرب کاظلم وستم بڑھتا رہا لیکن تادم حیات ان کے پائہ استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور بڑی ہی امانت داری کےساتھ اسلام کونسل جدید کےسپر د کردیا ۔یوں یہ حق وصداقت کاکارواں بڑھتاگیا۔لیکن افسوس کہ درمیان راہ کچھ دو چہروں والے افراد جڑ گئے۔
ایسے ہی بہروپیا صفت انسانوں نے دین اسلام کے صاف و شفاف دامن پر بدنمادھبہ لگا دیا ہے ۔دہشت گردی بنام جہاد کاسہارا لے کر کبھی شام کی مقدس سرزمین کو خون آلودہ کیا ،کبھی غزہ سرزمین کو لہو لہان کیا ،کبھی عرا ق میں خون کی ندیاں بہا دیں ،کبھی پاکستان کی سرزمین کو لاشوں سے پاٹ دیا ۔غرض کہ مظلوموں کے لہو سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور اس میں شریک وہ افراد ہیں جنہوں نے صرف طوطے کی طرح کلمہ توحید و رسالت رٹ لیا ہے اور معنی ومفاہیم سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں اور اسلام اورانسانیت تو انہیں چھوکر بھی نہیں گزری ہے ۔
کیا یہ خون خرابہ بس یوں ہی ہورہاہے ؟!
نہیں ! بالکل ایسا نہیں ۔ بلکہ سکوں کی جھنکار سے مسلمانوں کےخون سے خود مسلمانو ں کاہاتھ رنگین کرایا جارہاہے ۔مگر ایک سوال کہ یہ سب مسلمان سے ہی کیوں !؟کیا دشمنان اسلام کے پاس افراد ،طاقت ،اسلحہ اور دولت کی کمی ہےکیا؟!
نہیں ۔۔۔!!!
مسلمانوں کو اپنی سازش کا آلہ کار بنانا شاید دو اسباب کے تحت ہو۔
(1)دورحاضرمیں امت مسلمہ عالم انسانیت کی دوسری سب سے بڑی تعداد شمار کی جاتی ہےاور ساتھ ساتھ ہی لوگوں کاجوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہو نا،یہ سبب بن رہاہے کہ مستقبل میں یہ امت صف اول میں شمارہونے لگے گی ۔لہٰذ ا! سامراجیت اوردشمن عناصر کو اس با ت کاخدشہ ہےکہ کہیں یہ قوم ہم پر سبقت نہ لے جائے ۔
(2)آج عیسائیت اپنے مذہب کی ترویج میں ایڑی چوٹی کازور لگا رہی ہے اور مذہب کو قبول کرنے پر خوش حال زندگی کی ضمانت بھی لے رہی ہے کہ اس میں صلح و آشتی ہے اور قتل و خوں ریزی کاگزر نہیں ۔
ادھر مسلمان اہل اسلام کاخاتمہ کررہا ہے اور دین اسلام کاکردار بھی داغدار ہوا جارہاہے۔اسی طرح بڑھتی ہوئی طاقت کوبھی کمزور کیاجارہاہے اور آنے والی نسل کواسلام سے دور بھی ۔
یہ بھی کوئی مذہب ہےجس میں خو د ایک بھائی اپنے دوسرے برادر دینی کاقتل کرے ۔یہ تو درندگی کا مذہب ہے اور بس!!لہٰذا ،ایسے مذہب کے دامن میں پناہ لوجو صلح و امن کادعویدار ہے۔
کل دشمن کھلے عام دشمن تھےلیکن آج دوستی اورہمدردی کاروپ دھار لیاہے ۔کل دشمن دین اسلام کو جڑ سےاکھاڑ پھیکنے کی کوشش میں تھا لیکن جب اس میں ناکام رہاتو آج اس کےاصول وضوابط چہرہ مسخ کرنے کےدرپے ہے ۔لیکن
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا۔