کالم : بزمِ درویش
حقیقی آزادی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
اگست کا مہینہ دنیا جہاں کے کالے سیاہ بادل شہر لاہور پر آنکھ مچولی کر تے نظرآرہے تھے ‘ بادلوں کا رنگ ‘گھن گرج ‘مست ہواؤں کی آندھی جیسی تیز مو جیں بتا رہی تھیں کہ آج برکھا خوب برسے گی ‘ شدید حبس تیز گرمی کےستائے ہوئے لا ہورئیے موسم کو انجوائے کرنے سڑکوں پر نکل آئے تھے ‘
سڑکوں پر رنگ برنگی گاڑیوں کا سیلاب آیا ہوا تھا ‘ عوام اور ٹریفک کا اژدھام دیکھ کر لگ رہا تھا آج سارا شہر سڑکوں پر نکل آیا ہے بے پناہ ٹریفک کی وجہ سے ہم چیونٹی کی رفتار سے گھرکی طرف رواں دواں تھے ‘ اب ہم لاہور کی مشہور بیکری کے سامنے آگئے تھے جہاں تقریبا ٹریفک جام ہو چکی تھی لوگ موسم سے لطف اٹھانے کے لیے گرما گرم سموسے کھا رہے تھے گاہکوں کے رش اور گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک جام تھی ‘ لوگ جس رغبت سے سموسے کھا رہے تھے مجھے بھی اپنی با رہ سالا بیٹی یاد آگئی جو سمو سے دیکھ کر خوشی سے پاگل ہوجاتی ہے وہ پچھلے کئی سالوں سے تقریبا روزانہ سموسے کھا رہی تھی ہما رے منع کر نے کے باوجود وہ چوری چھپے اپنا یہ شوق ضرور پو را کر تی ‘ اُس کا معصوم شوخ چہرہ یادآتے ہی میرے دل میں محبت اورلاڈ کا چشمہ پھو ٹ پڑا ‘ میں نے دوست سے کہا جا کرسموسے لے آؤ میں جا کر اپنی لاڈلی بیٹی کو خو شگوار سر پرائز دوں گا کیونکہ سموسے دیکھ کر اُس کے رخساروں کی لالی میں قوس قزح کے رنگ بکھر جا تے ہیںآنکھوں میں ہزاروں ستا رے چھلکنے لگتے ‘ اُس کے چہرے کے رنگ اور آنکھوں کی چمک دار روشنی مجھے دنیا ما فیا سے بے خبر کردیتی ‘ اب ہم گرما گرم سمو سے لے کر گھر کی طرف جارہے تھے خو شی میری رگوں میں فراٹے بھر رہی تھی ‘ میں نے بیٹی کی خو شی کے لیے جلدی گھر جانا چا ہا تھا میری اِس کیفیت کو سارے باپ بہتر محسوس کر سکتے ہیں جو ایسی ننھی پر یاں رکھتے ہیں جن کے آنگن اِن کی معصوم مسکراہٹوں اور اداؤں سے دن رات مہکتے ہیں انہی سو چوں میں گم میں گھر تک آگیا اب میں نے حسبِ معمول ڈور بیل پر انگلی رکھی اور معمول کا انتظار کرنے لگا کہ ابھی دروازہ کھول دے گی اُس کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ جب میں ڈور بیل بجا تا ہو ں تو وہ پہلے سے تیار ہو تی ہے پھر دروازے کے پیچھے اُس کے نرم و نازک ننھے پاؤں کی آہٹ سنا ئی دیتی ہے وہ اپنی ماں سے ہزار بار ڈانٹ کھا چکی ہے کہ ننگے پاؤں فرش پر نہیں چلتے لیکن میرے انتظار کے بعد وہ بے قراری کی آخری حدوں پر ہو نے کی وجہ سے جو تے پہنے بغیر ہی ننگے پا ؤں دوڑتی چلی آتی ہے ‘ میں اُس کے پاؤں کی آہٹ سے بخوبی واقف ہوں اس کے بعد وہ اکثر عجیب شرارت آمیز مذاق کرتی ہے کہ آہستہ سے کنڈی کھول کر جاکر کہیں چھپ جاتی ہے میں اُس کی شرارت کا حصے دار بن جاتا ہو ں جان بوجھ کر تھوڑے تو قف کے بعد دروازہ کھولتا ہوں لیٹ اندر داخل ہو تا ہوں تاکہ اُسے چھپنے کا موقع مل سکے جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ جا چکی ہے تو اندر آتا ہوں پھر میں اندر جاکر جان بو جھ کر انجان بن جاتاہوں اور کہتا ہوں میری ننھی پری مینا کدھر ہے اُس کے بہن بھائی مجھے اشارے بھی کر تے ہیں کہ باباوہ اُس کو نے میں چھپی ہے لیکن میں جان بوجھ کر اُس کونے میں نہیں جاتا سارے گھر میں آواز یں دیتا ہوں جان پدر میری بیٹی تم کدھر ہو اِسے اپنی فتح اور میری شکست سمجھ کر خوب انجوائے کرتی ہے میں جان بوجھ کر ہار کے اُس کو خو شی دیتا ہوں اور پھر اِسی دوران وہ میرے پیچھے سے آکر میری کمر سے لپٹ جاتی ہے باباآپ ہار گئے میں جیت گئی اور پھر میں اُسے وفور جذبات سے گلے سے لگا لیتا ہوں اور میرے دل و دماغ اور ہونٹوں سے دعاؤں کے پھول جھڑنے لگتے ہیں میں کچھ دیر اُسے اپنے ساتھ لگا ئے رہتا ہوں جس سے مجھے اور اُسے قلبی سکون ملتا ہے پھر وہ مجھے چھو ڑ کر تیزی سے پانی کا گلاس اور گھر کا جوتا لاتی ہے اور پھر میرے پاس بیٹھ کر سکول اور گھر کی ساری باتیں کرتی ہے اُس کے چہرے پر حضرت مریم ؑ کی پوترتا اور فرشتوں کا نور ہلکورے لے رہا ہو تا ہے ‘چاند رنگ نور خوبصورتی معصومیت کا حسین امتزاج جو میرے سارے دن کی تھکن لمحوں میں دور کر دیتا ہے لیکن آج جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ گئی نہیں اور نہ ہی چھپی بلکہ سامنے کھڑی تھی اب میں نے اُسے خو ش کر نے کے لیے گرم سمو سوں کا لفافہ اُس کی طرف بڑھا یا تو اُس نے بالکل غیر متوقع طور پر کسی قسم کی خو شی کا اظہار نہیں کیا جو میرے لیے حیران کن تھا وہ تو سموسوں کے نام سے ہی ناچنے لگتی تھی لیکن آج سپا ٹ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور بولی بابا میں نے رات آپ سے کہا تھا جشن آزادی کا مہینہ آگیا ہے ‘ بڑا جھنڈا جھنڈیاں لا ئیٹیں لا نی ہیں وہ کدھر ہیں اور ہاں بابا اِس بار آپ نے قائداعظم محمد علی جناح کی بڑی تصویر بھی لانی ہے جس کو ہم لا ئیٹوں سے سجا ئیں گے میں نے اپنی دوست کے گھر دیکھا ہے انہوں نے قائداعظم کی تصویر کو اِسی طرح سجایا ہوا ہے میں نے اُس سے سوری کی کہ بھو ل گیا اور وعدہ کیا کہ ابھی جا کر لا ؤں گا میں آکر بیٹھ گیا لیکن اُس کی بات میرے اندر سوچ کے دریچے کھو لتی چلی گئی آج پاکستان اکہتر برس کا ہو گیا چشمِ تصور نے مجھے اکہتر سال پیچھے پھینک دیا میری نظروں کے سامنے فلم سی چلنا شروع ہو گئی جب برصغیر پاک و ہند کے مسلمان غفلت کی نیند سے بیدار ہو تے ہیں اُن کے اندر ایک جنون بھر جاتا ہے دلوں میں آزادی کی آگ کے شعلے دہکنے لگتے ہیں مسلمان جو آوارہ لشکر کی طرح بھٹک رہے تھے جنون نے انہیں ایک لڑی میں پرویا ‘ ایسا جنون ایسی امنگ ایسا جذبہ آزادی جس نے بکھرے ہو ئے زخمی گروہ کو پر عزم لشکر میں بدل دیا یہ جنون کس نے ابھا را ‘بجھی ہو ئی راکھ میں دبی ہو ئی چنگا ریوں کو کس نے آگ کے شعلوں میں تبدیل کیا وہ عظیم پر عزم راست باز لیڈر محمد علی جناح تھے ایسا مر دِ حق جس کے پاس نہ کو ئی تلوار نہ بندوق لیکن ارادہ تھا جذبہ جنون تھا پھر وہ ارادے اصول نظرئیے اور کردار کی پختگی کے بل بو تے پر تاریخ اور جغرافیے کے خدوخال بدل کر رکھ دیتا ہے ‘ شاعر مشرق علامہ اقبال کا خواب اور پھر قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت جس نے دنیا کے نقشے پر مملکت پاکستان کو ابھارا ‘ ایسا ملک جو دو قومی نظرئیے اور اسلام پر قائم ہوا پھر میں دیکھتا ہوں علا مہ اقبال اور قائداعظم کی روحیں جو بہشت کے مرغزاروں سے کبھی کبھی اگر مو جودہ پاکستان کو دیکھتی ہو ں گی تو سوچتی ہو نگی کہ یہ جو اکیس کروڑ عوام اور اِن کے فراڈی لیڈر ٹی وی اخبارات میں رٹی رٹائی تقریریں تو کرتے ہیں لیکن انہوں نے اِس ملک کے ساتھ کیا کیا ظلم نہیں کیا ‘ وطن عزیز کے دامان تار تار میں کس کس نے گھناؤنا کردار ادا کیا ہے ‘ کو ن بنکوں کے بنک ڈکار کر بھی آزاد پھر رہا ہے کون ہے جو جمہوریت پر شب خون مار کر بھی مو ج مستی میں مصروف ہے ‘ کس کس نے اِس ملک کو بار بار لو ٹا ہے اِس وطن کے تار تاردامن کی بخیہ گر ی کو ئی کیوں نہیں کررہا ‘ کیا جو خواب اور تعبیر اِن عظیم لیڈروں اور آزادی کے گمنام ہیروز نے کی وہ پاکستان آج وہی ہے یہ وہی منزلِ مراد ہے جس کی آرزو قائداعظم نے کی تھی مسلمانوں نے تقسیم کے وقت لاکھوں جانیں اور فرشتوں جیسی بیٹیوں نے اپنی عزتوں کے نذرانے اِسی لیے دئیے تھے قیام پاکستان کی بنیا دوں میں لاکھوں آزادی کے متوالوں کی قربانیاں دفن ہیں کیا یہ خطہ اِسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ بار بار مارشل لاء لگاکر عوام کو زنجیروں میں جکڑا جا سکے کرپٹ سیاستدان لوٹ مار کے ریکارڈ بناسکیں کر پشن کا ناسور جڑوں تک اتر جا ئے ہر کو ئی اپنی باری پر لوٹ مار کرکے ہمالیہ سر کر ے ‘ میرا سانس گھٹنے لگتاہے میں باہر آتا ہوں تو بارش خوب بر س رہی تھی ‘گھٹا ئیں خوب گرج برس رہی تھیں میں بادلوں میں گھرے آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور خدائے لازوال سے عرض کر تا ہوں کب علامہ اقبال کی فکر ‘ قائد اعظم کے نظریات ‘ شہدائے آزادی کے خوابوں اور امنگوں کا پاکستان بنے گا ‘ حقیقی آزادی کا وہ سورج کب طلوع ہوگا جس کی روشنی میں حقیقی پاکستان ہوگا جہاں کر پشن لوٹ مار نہیں ہو گی اُس دن عوام کو حقیقی آزادی نصیب ہوگی اُس دن قائداعظم اور علامہ اقبال کی روحیں عوام کے ساتھ مل کر جشن طرب منائیں گی وہ دن اب دور نہیں اب حقیقی آزادی کا دن آنے والا ہے ۔