سلسلہء مکالمات
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی تہنیتی تقریب
سید معظم راز
حیدرآباد
اک تعلق سا درمیان میں تھا
میں بچھڑ کر بھی کاروان میں تھا
میں نے پانی کی بوند مانگی تھی
کب سمندر مرے گمان میں تھا
ممتاز شاعر اعتماد صدیقی کے درج بالا اشعار قریب دو دہائیوں سے زاید عرصے بعد جدید تکنالوجی کے طفیل دستیاب سماجی رابطے کی شاخوں فیس بک و واٹس ایپ کے ذریعہ شہر دکن حیدرآباد کے ادبی منظر نامے سے دوبارہ جڑنے کے تناظر میں یاد آئے۔ حالیہ دیڑھ دو برس کے عرصے میں فیس بک و واٹس ایپ کے مختلف ادبی گروپوں کے توسط سے اردو دنیا کی سینکڑوں نامور شخصیتوں سے رفاقت نہ صرف مواقع ملے بلکہ نصف ملاقاتوں کا غیر مختتم سا سلسلہ قائم ہوا۔ ساتھ ہی موجودہ سروے ملازمت کی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود شہر میں منعقد ہونے والی ادبی تقاریب، سیمینار وغیرہ میں وقعتاً فوقعتاً شرکت کے دوران مقامی اور ملک و بیرون ملک مختلف مقامات سے آنے والے بیشمار ادیب و شعرأ سے بھی شخصی ملاقاتیں رہیں۔ اردو کے استاد، محقق، نقاد اور ادیب ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، سابق چیرمین بورڈ آف اسٹیڈیز اورینٹل اردو کالج، حمایت نگر ، حیدرآباد بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔بقول شہر یار:
یہ ترے قرب کا اعجاز ہے ورنہ پہلے
طاق اتنے کہاں جینے کے ہنر میں ہم تھے
17 جولائی 2018ء کو ہندوستان کی مرکزی جامعہ، ‘یونیورسٹی آف حیدرآباد’ نے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا اردو ڈپارٹمنٹ میں بحیثیت پروفیسر تقرر عمل میں لایاہے۔ موصوف 18 جولائی کو اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اورینٹل اردو کالج، حمایت نگر ، حیدرآباد میں 16برسوں تک خود کو بحیثیت اردو زبان و ادب کے قابل استاد منوانے کے علاوہ 2014ء سے اپنے ذاتی ویب پورٹل ”جہاںِ اردو” پر اردو ادب کی تقریباً اصناف بشمول نظم و نثر، تحقیق و تنقید اور تبصرہ کتب کے حوالے سے اردو کی ترقی و ترویج کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے ایک مشترکہ رفیق سید وصی اللہ بختیاری نے اس موقع پر بتایا کہ سید فضل اللہ مکرم صاحب نے پہلی مرتبہ 1992ء میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لئے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں درخواست داخل کی تھی اب یہ اللہ کی مصلحت ہیکہ اس نے آج قریب 25 برس بعد انھیں اسی یونیورسٹی میں پروفیسر کے منصب سے سرفرازی بخشی۔ گویا شہر یار ہی کے الفاظ میں:
امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
خاکسار کی ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم سے فیس بک کے توسط سے رفاقت کے کچھ ہی مہینوں بعد اولین شخصی ملاقات 7 فبروری 2017ء کو ہوئی تھی۔ ہمارے موجودہ قدیم بنگلے داؤد منزل میں ملاقات و ہم طعامی کے اس یادگار موقع پر والد ماجد رؤف خلش و برادر کلاں سید مکرم نیاز کے علاوہ ریسرچ اسکالر محسن خان بھی موجود تھے۔ برادر کلاں سید مکرم نیاز نے اس روز بتایا تھا کہ فضل بھائی سے اولین ملاقات کا انھیں کچھ زیادہ یاد نہیں۔ گذشتہ صدی کی آٹھویں دہائی کے شروعات میں ادارہ الحسنات سے شائع ہونے والے بچوں و خواتین کے رسالے نور/بتول میں ہم ساتھ ساتھ لکھا کرتے تھے۔ قارئیں کو یکساں نام کی وجہ سے کنفیوژن ہوتا تھا۔ 1995ء میں بسلسلہ ملازمت سعودی عرب روانگی سے قبل فضل بھائی کی شادی میں شریک ہوا تھا۔ وہی شاید پہلی ملاقات رہی ہو۔ بعد میں سعودی عرب میں قیام کے دوران فیس بک کے ذریعہ ، عرصہ دراز بعد دوبارہ رابطہ ہوا۔ پھر اس کے بعد حیدرآبار کی ہر وزٹ پر ملاقات بھی ہوتی رہی۔
ڈاکٹر صاحب کے بطور پروفیسر جائزہ لینے کے بعد سے ان ہی کے قائم کردہ واٹس ایپ ادبی گروپ ”اردو کلچر” اور فیس بک گروپ ”ادبی محاذ” کے احباب نے موصوف کے اعزاز میں تہنیتی تقریب کے انعقاد کا ارادہ کیا۔ گروپ کے سب سے فعال و حرکیاتی رکن جناب احمد ارشد حسین نے پہل کرتے ہوئے دیگر احباب سے مشورے کے بعد 28 جولائی 2018ء کی شب آٹھ بجے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کے اعزاز میں تہنیتی تقریب کے انعقاد کا پروگرام ترتیب دیا۔ جبکہ خاکسار نے تقریب کی صدارت کے لئے صاحب طرز ادیب ومورخ تاریخ دکن علامہ اعجاز فرخ صاحب مدظلہ کا نام تجویز کیا۔
ہفتہ، 28 جولائی کی شب منعقدہ اس تقریب کی روداد لکھنے سے قبل مناسب لگتا ہے کہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا ان کے خاندانی و ادبی پس منظر کے حوالے سے تعارف قلمبند کیا جائے:
موصوف کااصل نام: ابوالمکرم سید فضل اللہ، قلمی نام: سید فضل اللہ مکرم، اسم والدین: سید سمیع اللہ صاحب و ممتاز بیگم ہے ۔خاندان کا پشتینی تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ پردادا سید محبوب رضا اور دادا سید محبوب علی دونوں کا تعلق درس و تدریس سے تھا۔ دادا حضرت نے کریم نگر ضلع کے اہم مقام جگتیال کی باغبان برادری کو خصوصی تعلیم و تربیت سے نوازا۔ وہ سرکاری اسکول کے استاد ہونے کے باوجود باغبانوں کی( جو علم دین سے بے بہرہ تھے)خصوصی تربیت فرمائی اور ان کا علحدہ محلہ آباد کیا جو آج بھی جگتیال میں ”مکرم پورہ” کے نام سے مشہور ہے۔ موصوف دعاؤں سے سانپ کاٹے کے مریضوں کا علاج بھی کیا کرتے تھے۔ محض دعاؤںسے کئی لوگوں کو سانپ کے زہر کے اثرات سے آزاد کیا۔جبکہ ان کی دادی گھریلو خاتون تھیں۔ نانا محترم محمد حنیف صاحب بھی سرکاری اسکول کے مدرس تھے اور ان کا تعلق کورٹلہ سے تھا۔اس طرح پیشہ درس و تدریس گویا موصوف کو ددھیال اور ننھیال سے وراثت میں ملا یہی وجہ ہیکہ آج ان کے خاندان کے بیشتر افراد پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں۔
والد سید سمیع اللہ صاحب نے بڑی محنت و مشقت سے تعلیم حاصل کی۔دسویں کامیاب کرتے ہی اسکول کے مدرس بن گئے ساتھ ہی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ایم۔ اے (ہندی ) اور ایم۔ اے (اردو) کامیاب کیا۔ سید سمیع اللہ صاحب کو گرراج کالج، نظام آباد میں شعبہ اردو کے پہلے لیکچرار بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ بعد ازاں انھوں نے ہندی مضمون میں تبادلہ کروالیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج، جگتیال سے بحیثیت پرنسپل 1994ء میں وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوش ہوے ۔والدہ نے مکمل طور پر خاتونِ خانہ کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ وہ گھریلو و خاندانی امور میں ایک بہترین منتطم، معاملہ فہم، شفیق و ملنسار طبیعت کی حامل خاتون رہیں جبکہ والد صاحب محنتی، جد و جہد کے عادی ہونے کے سبب ہمیشہ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے تئیں بہت زیادہ فعال وسنجیدہ رہے اور اپنے بچوں سے بھی ایسی ہی امید رکھی۔
سید سمیع اللہ صاحب کے ہاں دس اولادیں ہوئیں، دو لڑکوں کا انتقال کم سنی میں ہوا۔ بقید حیات 5 بھائیوں و 3 بہنوں میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا نمبر دوسرا ہے۔والدین نے سبھی کو اردو میڈیم سے تعلیم دلوائی۔ اسکول اور کالج کی تعلیم جگتیال ، ضلع کریم نگرمیں ہی ہوئی البتہ اول جماعت اور چہارم جماعت ضلع نظام آباد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے ایم ۔اے ، ایم ۔فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی تکمیل کی۔ جبکہ ایم۔ اے میں گولڈ میڈل بھی حاصل ہوا۔ ایم۔ فل میں تحقیقی مقالے کا موضوع ” اردو صحافت اور اداریہ نگاری” اور پی۔ ایچ ۔ڈی کے مقالے کا موضوع” اردو میں فن صحافت سے متعلق کتابوں کا تنقیدی و نظریاتی مطالعہ” رہا۔گویا بقول مغنی تبسم:
بیداری کے خواب گراں ہیں میرے بھی
خوابوں میں آباد جہاں ہیں میرے بھی
میں نے بھی کچھ رنگ بھرے ہیں خاکوں میں
کچھ منظر یاں خاکِ نشاں ہیں میرے بھی
اوائل عمری سے ماہنامہ” نور”رامپور اور روزنامہ”رہنمائے دکن ” کی بدولت لکھنے پڑھنے کا شوق شروع ہوا۔ 1983ء میںپہلی کہانی” انجام” کو ماہنامہ” نور ”رامپورکے انعامی مقابلے میں تیسرا انعام حاصل ہوا ۔یونیورسٹی میں داخلے کے بعد افسانہ نگاری کے بجائے تحقیق و تنقید کی طرف رحجان بڑھا۔اب تک پچاس سے زائد افسانے و ڈرامے اور چالیس سے زائد تحقیقی و تنقیدی مضامین، تیس تبصرے اور پندرہ سے زائد مزاحیہ مضامین ملک و بیرون ملک کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ایک ملاقات میں خود بتایاکہ جب بھی میری کوئی کہانی کہیں شائع ہوتی تو والد صاحب گھر کے تمام افراد اور قریبی رشتہ داروں کو عشاء کے بعد گھر بلاتے اور سب کو کہانی پڑھ کر سناتے۔ جب کہانی میں کوئی جذباتی موڑ آتا تو والد صاحب کی آواز بھرا جاتی اور کبھی کبھی آنسو بھی نکل آتے تو سب رو پڑتے ۔اپنے مزاج کی سادگی، انکساری و مروت کے زیر اثر انھوں نے مزید بتایا کہ میری کہانیاں گوکہ ادب میں کوئی مقام نہیں رکھتیں مگر میرے نزدیک وہی محترم ہیں کیونکہ انہیں پڑھتے ہوے میرے افراد خاندان نے کبھی انہیں پڑھ کر یا سن کر آنسو بہائے تھے ۔میرے اپنوں کا میرے لئے اس بہتر اور کیا خراج ہوسکتا ہے۔
اورینٹل اردو کالج، حمایت نگر، حیدرآباد میں انھیں تقریباً سولہ برس تدریسی خدمات انجام دہی کا موقع نصیب رہا۔ اس دوران وہ چیرمین بورڈ آف اورینٹل اسٹڈیز، جامعہ عثمانیہ بھی رہے۔ موصوف کی نگرانی میں تاحال گیارہ اسکالرز نے پی ۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور چار اسکالرز تحقیق میں مصروف ہیں۔
موجودہ طور پر وہ ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیمات کی تجویز کردہ چھٹی جماعت سے دہم جماعت تک کی اردو (بحیثیت زبان دوم )کی نصابی کتابوں کے چیف ایڈیٹر، انٹرمیڈیٹ کی اردو (بحیثیت زبان دوم )کی درسی کتاب اور ماڈرن لینگویج کی دونوں نصابی کتابوں کے چیف ایڈیٹر ہیں نیزبی۔آر۔ امبیڈکر اوپن یونیورسٹی، حیدرآباد کی پانچ نصابی کتابوں کے بھی وہ چیف ایڈیٹر ہیں۔1987ء میں وہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے بطور طالب علم وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ایم۔اے،ایم۔فل و پی۔ایچ۔ڈی کی تکمیل کی اور قریب ربع صدی بعد بحیثیت پروفیسراسی یونیورسٹی میں ان کا تقرر عمل میں آیاہے ۔گویا حصول و تدریس علم کے ضمن میں بقول رؤف خلش :
وہاں سنا تھا سمندر کی پیاس بجھتی ہے
جو لوٹ آیا تو ہوں پیاس کا سمندر میں !
اگست 1995ء میں موصوف کی شادی خانہ آبادی جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب، اسسٹنٹ کنٹرولر، لیگل میٹرولوجی(محکمہ اوزان و پیمانہ جات)، حیدرآباد کی سب سے چھوٹی دختر سے ہوئی جن سے انھیں ایک لڑکا و دو لڑکیاں ہیں۔ علم و ادب سے اپنے پشتینی تعلق کے سبب انھوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور آراستہ کرنے میں یقیناً کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ امسال، اکلوتے صاحبزادے اعلیٰ نشانات کے ساتھ بی۔ٹیک(میکانیکل) کامیاب کرنے کے بعد انجنئیرنگ میں پوسٹ گریجویشن کرنے کی تیاریوں میں لگے ہیں جبکہ چھوٹی و بڑی صاحبزادی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ کالجوں سے ایم۔بی۔بی۔ایس کورس کے پہلے و تیسرے سال میں زیر تعلیم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ تینوں بچے نصر اسکول، حیدرآباد کے طالب علم رہے ہیں گو کہ انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کی مگر تینوں نے اردو کو بہ حیثیت اصل زبان (Main Language) کے پڑھا ہے۔
یادش بخیر، نومبر 2016ء میں فیس بک پر میری رفاقت یہیں شہر دکن حیدرآباد میں ہمارے محلے سے متصلہ علاقے قدیم ملک پیٹ کی رہائشی نفسیات کی ڈاکٹر منور فاطمہ افضل (فیس بک نام: منور فضل اللہ قاضی) سے ہوئی۔ خوش نصیبی سے ابتدائی نصف ملاقاتوں کے دوران ہی پتہ چلا کہ وہ اوائل عمری میں، ملک پیٹ ہی میں قائم قدیم مدرسے ادارے ملیہ کی طالبہ رہی ہیں اور ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی شریک حیات ہیں۔ ہرچند وہ مجھ سے کچھ برس سینئر رہیں لیکن اس مدرسہ میں ہمارے اساتذہ کرام مشترکہ رہے۔ طرز حیات کے بیشتر امور میں مشترکہ پسند ناپسند اور دیگر علمی و ادبی یکساں مشاغل کے سبب میں جلد ہی ان کے چھوٹے بھائی کا رتبہ پانے میں کامیاب رہا۔ ایک سگھڑخانہ دار خاتون اور نفسیاتی امراض کے علاج و کاؤنسلنگ کے حامل ایک چھوٹے و خوبصورت کلینک کی ذمہ دار معالج ہونے کے باوجود وہ فیس بک پر ادبی گروپ ”میری بیاض” اور ”زندہ دلان ورلڈ وائیڈ” کی مشترکہ ایڈمن بھی ہیں۔ کوشش رہے گی کہ ڈاکٹر منور فاطمہ کے مفصل تعارف اور بطور معالج و بحیثیت ایک ادیب ان کی خدمات پر مشتمل موجودہ تحاریر کے سلسلے کی ایک علحدہ قسط قارئین کے لئے جلد پیش کروں۔ویسے خورشید احمد جامی کہہ گئے ہیں:
یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا
ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے
28 جولائی 2018ء کی شب آٹھ بجے میں اپنے چھوٹے بہنوئی شیخ انعام الرحمٰن(لکچرارانڈین اسکول، مسقط)کے ہمراہ تہنیتی تقریب میں نوبل ہال، مصطفیٰ ٹاورز پہنچا تو شرکاء کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ صاحب تہنیت ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم اور صدر محفل علامہ اعجاز فرخ صاحب کی آمد کے ساتھ ہی نوجوان صحافی و ریسرچ اسکالر محسن خان نے اپنی نظامت میں قاری اسلم کی قرأت سے تقریب کا آغاز کیا۔ تب تک ہال، سید فضل اللہ مکرم کے شاگردوں اور بہی خواہوں کے علاوہ ادبی گروپس ”اردو کلچر” و ”ادبی محاذ ”میں سماج کے مختلف طبقوں سے وابستہ اراکین یعنی صحافیوں، سماجی جہد کاروں، اساتذہ و ریسرچ اسکالرز کی کافی تعداد سے بھر چکا تھا۔ داعی محفل احمد ارشد حسین بانی نوبل انفو ٹیک، نے افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس تہنیتی تقریب کا مقصد ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کی بحیثیت پروفیسر یونیورسٹی آف حیدرآباد میں تقرر پر سماجی رابطے کی شاخوں فیس بک و واٹس ایپ کے مختلف ادبی گروپوں جیسے”اردو کلچر”، ”ادبی محاذ” سے وابستہ احباب کی جانب سے تہنیت کی پیشکشی کے ساتھ موصوف کی خدمات سے اردو دنیا کو واقف کروانا ہے ۔ انہوں نے علامہ اعجاز فرخ کا شکریہ ادا کیا کہ موصوف نے اپنی شرکت سے تقریب کو رونق بخشنے کے علاوہ سب کی حوصلہ افزائی کی۔
جناب مکرم نیاز نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم سے اپنی دیرینہ رفاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کا رجحان ابتدأ ہی سے تحقیقی ادب کی طرف رہا ہے۔ اس زمانے میں بھی وہ کہانیاں لکھتے تھے۔ اصل میں ہوتا یہی ہے کہ فنکار اپنے لڑکپن ہی سے جھلکنے لگتا ہے۔ فضل اللہ مکرم صاحب خوش قسمت رہے ہیں کہ ان کے تعلیمی مواقع اور پیشہ ان کے ذوق سے ہم آہنگ رہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہیکہ ذوق اور پیشے میں مطابقت نہیں پائی جاتی۔ تب انسان اندر سے تقسیم ہوجاتا ہے اور اسے یکسوئی نہیں مل پاتی۔ پیشہ دراصل اس کی ضرورت ہوتا ہے اور ذوق اس کی تسکین۔ فضل اللہ مکرم درس و تدریس سے وابستہ رہے اس سے انھیں تسکین ذوق کا نہ صرف سامان فراہم ہوا بلکہ انھیں وسیع مطالعہ کے مواقع بھی ملے۔ ان کا ذوق ِنقد و نظر اسی مطالعے کا حاصل ہے۔ان کے تنقیدی مضامین کی کتاب ”سنگ و ثمر” کے مطالعے سے ان کی عمیق نظر کا پتہ چلتا ہے۔
مکرم نیاز نے پروفیسر فضل اللہ مکرم کو ان کی یونیورسٹی آف حیدرآباد میں تقرری کو ”حق بہ حق دار رسید” قرار دیتے ہوئے دلی مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ مستقبل کے لیے بھی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ روایتی تقریر سے گریز کرتے ہوئے علمی و ادبی دنیا میں پروفیسر صاحب کے مقام سے حاضرین کو واقف کرانا چاہیں گے ، چونکہ وہ پروفیسر فضل اللہ مکرم کو بحیثیت قلمکار ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں۔ آپ کی اب تک 8 علمی و تحقیقی کتب منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں سے ایک حالیہ کتاب ”سنگ و ثمر” کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر مکرم نیاز نے "سنگ و ثمر” کے مختلف مضامین سے چند منتخب اقتباسات پیش کیے۔ سامعین نے ”تخلیق سے تنقید تک” کے درج ذیل اقتباس پر کافی داد دی:
”تنقید جانچنے اور پرکھنے کا نام ہے ۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کا نام ہے ۔ یہ ایک کسوٹی ہے ، ایک پرکھ ہے ۔ ہم جذبات کی رو میں بہہ کر ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ اقبال اردو کا بڑا شاعر ہے یا انیس بڑا شاعر ہے ۔ اور نہ ہی غالب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر اس کے دیوان کو دیوانِ مقدس کہہ سکتے ہیں۔ یہ تنقید ہرگز نہیں ہے ۔ تنقید یہ ہے کہ ہم ان شاعروں یا کسی اور شاعر کی خوبیوں یا خامیوں کو واضح طور پر بے کم و کاست بیان کریں، اگر ہم صرف ان کی خامیاں بیان کریں گے تو یہ ناانصافی ہوگی یا پھر خامیوں سے چشم پوشی کر کے صرف خوبیوں کو بھی اچھالیں گے تو یہ بددیانتی ہے ۔”
مکرم نیاز نے آخر میں حاضرین کو یاددہانی کروائی کہ فن کو جاننے اور فنکار کو سمجھنے کے لیے اس کی کتب کا مطالعہ ناگزیر ہے ، اور ہمیں کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا چاہیے ۔
بعد ازاں ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل، ڈاکٹر مختار احمد فردین، جناب علی مصری، جناب شیخ سلیم، ڈاکٹر اسلم فاروقی، جناب ساجد معراج، ڈاکٹر ناظم علی و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا اور ڈاکٹرفضل اللہ کی خدمات کوخراج تحسین پیش کیااورکہاکہ موصوف ہمیشہ اپنے شاگردوں سے مشفقانہ انداز میں پیش آتے رہے ہیں۔ آپ ایک اچھے ادیب واستاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص انسان اور ملت کا درد رکھنے والی شخصیت ہیں۔
صاحب تہنیتی تقریب ڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے تقریب کے شرکأ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عام طور پر تہنیتی تقاریب میں شرکت سے گریز کرتے ہیں اور اس سے قبل بھی ان کے لیے ایک تہنیتی پروگرام منعقد ہوا تھا لیکن انہوں نے اس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ وہ اپنے آپ کو ہنوز ایک طالب علم سمجھتے ہیں اور ہمیشہ طالب علم رہنا پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعی محفل احمد ارشد حسین کے بیحد اصرار اور فیس بک گروپ” ادبی محاذ ”و واٹس ایپ گروپ ”اردو کلچر”جس کے وہ ایڈمین ہیں، سے منسلک سماج کے مختلف مکاتب فکر کے حامل اصحاب کی محبت میں وہ اس محفل میں آئے ہیں۔ انہوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے اپنی جدوجہد سے حاضرین محفل کو واقف کروایا ۔ اورینٹل کالج ، حمایت نگرمیں طویل عرصے تک بحیثیت ایک استادان کی وابستگی نے ان کو اس مقام تک لانے میں اہم رول ادا کیا۔ وہ آگے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے فروغ کے لیے دن رات محنت کریں گے ۔ اس موقع پروہ اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہا کہ آج علامہ اعجاز فرخ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں جس سے انہیں اپنے بازو والد کی موجودگی کا احساس ہورہا ہے۔
علامہ اعجاز فرخ نے اپنی صدارتی خطاب میں تمام حاضرین کی تقاریر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں آدمی تو ہوتے ہی ہیں لیکن انسان ملنا بہت مشکل ہے۔ بقول غالب:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انھوں نے کہا کہ” اچھے اور برے انسان”کی اصطلاح ایک حرف ہے ورنہ آدمی کو انسانیت کی صف میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔ علامہ نے کہا دوستی، مروت، ہمدردی، گداز قلب، نرم گفتاری، بغض و حسد سے دوری، کینہ وکپٹ سے عار، خود غرضی اور خود پرستی سے پرے علم، تدبر، اخلاق و وضع داری ، فراست، عقل و دانش انسانی خمیر کے عناصر ہیں اور یہ تمام صفات ڈاکٹر فضل اللہ مکرم میں کمال پر ہیں۔
علامہ اعجاز فرخ نے مکرم نیاز کی تقریر کو کشید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اعلیٰ افکار پائی جاتی ہیں ان میں غیر جانبدارانہ طرز میں جانچنے، پرکھنے اور عام کرنے کی خواہش کا نام تنقید ہے۔ مواد اور حیثیت پر غور کئے بغیر ادیب کی شخصیت پر فیصلہ کرنا اصول تنقید کے منافی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ تاثراتی تنقید کہا جاسکتا ہے۔ جس میں فن سے زیادہ نقاد کے مزاج کو دخل ہوتا ہے۔ تنقید نگار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تخلیق کار کے معاشرے، ماحول، واقعات، حالات اور نفسیات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے تنقید کرے تب وہ فن کار کی ساتھ انصاف کر پائے گا۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کا شعور ہر نوع تنقید کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ فن پارے کے اعتبار سے وہ اپنی نظر کو جمالیاتی تنقید سے کچھ سواء اسلوبیاتی تنقید اور ساختیاتی تنقید پر بھی نگاہ کرتے ہیں۔چونکہ میں سائنٹیفک تنقید کا قائل نہیں ہوں اس لئے یہ زاویہ میری نظر سے اوجھل ہے۔ادنیٰ تنقید ایک فن ہے اور سائنس ہنر ہے اگر سائنس سے مدد لی بھی جائے تو یہ فن کو بہتر سمجھنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مقصد نہیں۔
علامہ اعجاز فرخ نے کہا کہ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم لفظ و آہنگ کے نہ صرف مزاج آشنا ہیں بلکہ نسب شناس ہیں۔انھیں اندازہ ہے کہ ترسیل خیال میں لفظ اتنا اہم کردار نہیں ادا کرتا جتنا ایک لفظ اور دوسرے لفظ کے درمیان کی خاموشی کا آہنگ ادا کرتا ہے۔ وہ آوازوں کے سناٹوں اور خاموشی کی آواز کو پرکھنے کا فن جانتے ہیں۔ علامہ اعجاز فرخ نے اپنی صدارتی تقریر کے اختتام پر ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کو مبارکباد دینے کے ساتھ کہا کہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم ، ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری، سید مکرم نیاز، احمد ارشد حسین، سید معظم راز ، یحییٰ خان اور ان تمام ہم عمر جنھیں وہ جانتے ہیں اور ان کے رابطے میں ہیں انھیں اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے ہیں اور یہی محبت ان کا سرمایہ ہے۔بقول پروفیسر مغنی تبسم:
منظر ٹھہر گیا ہے کوئی دل میں آن کر
دنیا کے ساتھ اس کو بدلنا نہیں ہے
ادبی گروپ ”اردو کلچر” کے دیگر دو مشترکہ ایڈمن جناب یحییٰ خان، تانڈور اور ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری، کڑپہ بوجہ ناگریز وجوہات تقریب میں شرکت سے محروم رہے۔ دونوں اصحاب کے بشمول مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب اسلم پرویز ، ڈاکٹرعابد معز(کنسلٹنٹ مانو)، جناب علی نثار،(ونڈسر،کینڈا) ، جاوید نہال حثمی(کولکتہ)، ڈاکٹر نورالامین(دہلی)، ڈاکٹر بی۔ داؤد محسن، جناب اسحاق مرزا بیگ(نظام آباد) کے ساتھ ادبی گروپس ”اردو کلچر” و ”ادبی محاذ” سے وابستہ ملک و بیرون ملک مقیم تقریباً احباب نے دوران تقریب اپنے پیغامات کے ذریعہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کو تہنیت و مبارکباد پیش کی۔
تقریب میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کے 1987ء میں یونیورسٹی آف حیدرآباد میں ایم۔اے کے رفقاء ڈاکٹر شیخ سلیم، سابق صدر شعبہ اردو انوارالعلوم پی جی اینڈ ڈگری کالج’ علی مصری(صدر شعبہ اردو انڈین اسکول جدہ) نے بطور خاص شرکت کی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ناظم سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج (مورتار، نظام آباد)’ ڈاکٹر عظمت اللہ صدر شعبہ اردو، ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج’ڈاکٹر محامد ہلال اعظمی(مدیر صدائے شبلی)، صحافی برادری سے محمد نعیم(صدرسوٹا)’ شجاع الدین افتخاری، اطہرمعین، نعیم،نواب ابراراللہ وغیرہ، شعرأ ڈاکٹر جہانگیر احساسؔ اور جہانگیرقیاس، الیاس شمسی، مجیب خان لکھنوی، ابوالخیرصدیقی’ ڈاکٹرغوثیہ بانو(اکیڈیمی کنلسٹنٹ)ریسرچ اسکالرز احتشام حسین الحسن، ابوہریرہ، زبیربن نصراللہ’ محمد تحسین’ خواجہ شبیر علی تاج’ عبدالعزیز، ظہیر الدین اور محمد زاہد وغیرہ شریک محفل رہے۔
ڈاکٹرفضل اللہ مکرم کی اس موقع پر اردو کے اساتذہ’ محبان اردو’ صحافیوں’ شعراء’ ریسرچ اسکالرز اور دیگر کی جانب سے کثرت سے گلپوشی اور شال پوشی کی گئی۔پرتکلف عشائیہ پر اس یادگار تہنیتی تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔