اسلام میں جہاد کا صحیح تصور :- عظمت علی

Share
عظمت علی

اسلام میں جہاد کا صحیح تصور

عظمت علی

مگردشمنوں کی شاطرانہ چال میں آکر بعض کم فہم مسلمان بھی ان کے شانہ سے شانہ ملا کر اسلام پر کاری ضرب لگا رہے ہیں اور خود رسوائے زمانہ ہوئے جارہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ مسلمان اپنے کردار کی بناء پر فخر سے سر اونچاکر کے چلتا۔لیکن آج امت مسلمہ کف افسوس مل رہی ہے۔

آج نام نہاد مسلمان جہاد کےنام پر دنیا کے گوشہ و کنار میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔اسی باعث غیر مسلمین نے یہ کہنا شروع کردیاہے کہ اسلام نےجہاد کوقانونی حیثیت دے کر مسلمانوں کو جارحیت کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔لہذا،و ہ طاقت کے بل بوتے پر ہر ایک کواسلام قبول کرنے پرمجبور کررہے ہیں ۔جبکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اس کا حقانیت سے کوئی سروکا ر نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے مذہب کے قوانین اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر ایک طائرانہ ہی نگاہ ڈالیں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ کہیں بھی جارحیت کی طرفداری نہیں پائی جاتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کھلا اعلان ہے "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔”
جوشخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا ۔(سورہ مائدہ 32)
آپ پوری تاریخ اسلام کابغور مطالعہ کرلیں مگر انبیا ء ،ائمہ اور علماء علیہم السلام کے کردار سے قتل و غارت گری کی بو تک نہیں آتی ملے گی ۔سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کا حرف بحرف اور باربار مطالعہ فرمالیں ۔انہوں نے "بہ ہیچ وجہ ” کسی بھی کافر ومشرک پر حملہ کرنےکا حکم نافذ نہیں کیا ۔مگر آغاز مد مقابل سے ہو ۔
تاریخ اسلام نے اس بات کو بڑے ہی جلی حروف میں لکھا ہے کہ ایک مرد شامی امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کچھ تلک آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا اورجب اس کے ناشائستہ الفاظ ،جملات اور ترکیبات کی لغت میں کچھ بھی کہنے کو باقی نہ رہا تب وہ خاموش ہوگیا۔
امام حسن علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:ایسامحسوس ہورہا ہے کہ اجنبی ہو!
اگرکپڑا ،مکان اور خوردو نوش یاکسی کی ضرورت ہوتو میں حاضرہو ں۔
جب اس نے امام علیہ السلام کایہ اخلاق دیکھاتو ہکا بکارہ گیا ،آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور منھ کھلا ہی کھلا رہ گیا۔جب اس کے حواس یکجا ہوئے تو زبان کھولی اور اما م کی تعریف کےسواکچھ ادا نہ ہوا۔
ہادیان برحق کی زندگی میں جتنی بھی جنگیں آئیں ۔اگر آپ ان سب پر صرف ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ انہوں نے ہمیشہ اپنا اوراپنے مقدسات کا دفاع ہی کیا ہے !
اگر دشمن جنگ کرنے پر مصر ہے تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے جان و مال اور عزت وآبر و کے دفاع میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں ۔
مذکورہ نظریہ کی تائید دنیا کا ہر صاحب و فکر ونظر کرتارہے گا۔چاہے وہ جس قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو۔کیوں کہ حق کادفاع بہر حال ضروری ہے ۔اسی باعث دنیا کا ہرملک اپنی خاص دفاعی فوج اور کچھ اہم افراد رکھتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرتاہے۔ وگرنہ ہر کس و ناکس فرعون زمانہ ہوتا۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین لاشوں سے پٹ جاتی اور جنازے زیادہ اور زندہ آدمی کم ہوتے !
دین اسلام کسی بھی مخلوق کو اذیت پہونچانے سے منع کرتا ہے چہ برسد کہ خون بہانے کی اجازت دیدے۔۔۔! لیکن اگر ظلم کا چلن ہوہی جائے تو "ردو الحجر من حیث جاء "

Share
Share
Share