اردو ناول کا نو آبادیاتی مطالعہ:ایک تعارف
عبدالعزیز ملک
شعبہ اردو،گورنمنٹ کالج
یونیورسٹی،فیصل آباد
ڈاکٹر ریاض ہمدانی انتظامی عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود علم و ادب سے خصوصی محبت اور دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کی دلچسپی کا دائرہ کارپنجاب کے ثقافتی اور تہذیبی مطالعات ہیں ۔اس کا ثبوت ان کاضلع ساہیوال میں ثقافتی وتہذیبی سرگرمیوں کا فروغ اور علمی و ادبی کانفرنسوں کا اہتمام ہے جو گاہے گاہے ان کے علمی و ادبی ذوق کی غمازی کرتی رہتی ہیں۔
ڈاکٹر ریاض ہمدانی ترقی پسند نقطہ نظر کے حامل نقاد ہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ تصورات کو تاریخی اور سماجی تناظر میں رکھ کر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’اردو ناول کا نو آبادیاتی مطالعہ‘‘ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو سے ڈاکٹر روش ندیم کی زیرِ نگرانی تکمیل پذیر ہوا اور اب کتابی شکل میں فکشن ہاؤس لاہور سے شائع ہوا ہے۔اس مقالے میں بھی انھوں نے ترقی پسند نقطہ نظر اپناتے ہوئے ناولوں کو تاریخی اور سماجی تناظر سے جوڑا ہے اور نوآبادیاتی دور کے رجحانات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
اردو ناول کا نو آبادیاتی مطالعہ ‘‘ فکشن ہاؤس لاہور سے۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی ہے جو چھ ابواب پر مبنی ہے ۔پہلا باب ’’:تصورو تاریخ ‘‘ کے نوآبادیات عنوان سے کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔اس باب میں نو آبادیات کے تاریخی پس منظر کو واضح کرنے کے لیے قبل مسیح دور سے لے کر عہدِ حاضر تک نوآبادیاتی صورتِ حال کو عہد بہ عہد پیش کیا گیا ہے۔برطانیہ میں ہونے والی صنعتی تبدیلیاں کس طرح نوآبادیاتی نظام کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور ان کے کس طرح ہندوستان پر اثرات مرتب ہوئے اس کا پس منظرمذکورہ باب میں کامیابی سے بیان کیا گیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹرریاض ہمدانی لکھتے ہیں :
’’قبل از نو آبادیات ہندو مسلم تضادات جارحانہ نہیں تھے لیکن نو آبادیاتی فکر نے ہندوستان میں ان تضادات کو سامراجی مقاصد کی خاطر ہوا دی ۔ جب دونوں طبقات کے درمیان سیاسی و سماجی اختلاف میں حد درجہ اضافہ ہوا تو سامراجی طاقت کو گول میز کانفرنس کا انعقاد کرنا پڑا کیوں کہ انہیں خطرہ محسوس ہواکہ ہند مسلم تضاداور نفرت جب آخری سطح پر پہنچ گئی تو ایک نہ ایک طبقہ اپنی حیثیت کھو دے گا جو سامراجی مفادات کے لیے نقصان دہ تھا ۔‘‘
برطانوی نو آبادیات کے قیام سے لے کر تقسیمِ ہندوستان تک کے سیاسی اور سماجی حالات کا تجزیہ اس باب میں تاریخی اور سماجی حوالے سے قاری کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔کتاب کا دوسرا باب ’’نو آبادیات اور ہندوستانی تہذیب ‘‘ کا عنوان لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے ثقافت، تہذیب اور تمدن کے مابین فرق کو واضح کیا ہے اس ضمن میں انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا، فیض احمد فیض ،ڈاکٹر جمیل جالبی اور سبطِ حسن کے خیالات کا سہارا لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ ثقافت، تہذیب اورتمدن کی الگ الگ شناخت بناتے وقت اس کے تسلسل کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔اس کے مختلف مدارج اور مراحل ہیں جو ایک ہی زنجیر سے جُڑے ہوئے ہیں ۔ہر ایک کی الگ شناخت بنا کر مباحث کو اورزیادہ پیچیدہ کر دیا گیا ہے۔۔۔لہٰذا اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں جو ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔‘‘نو آبادیات کی وضاحت کے سلسلے میں قدیم ہندوستان کی تہذیبوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جس میں ہڑپہ اور موہنجودڑو کی تہذیبیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آریاؤں کی آمد نے قدیم دراوڑی تہذیب پر جو اثرات مرتب کیے اورجس انداز سے نئے سماج کی بنیاد رکھی اس کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے۔یونانیوں کی آمد ، گوتم بدھ کے اثرات اورموریہ سلطنت کے زمانے کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان ،مغلیہ عہد اور اس کے بعد انگریزدورکے سیاسی و سماجی حالات کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
تیسرے باب کا عنوان ’’نو آبادیات کا آغاز اور اردو ناول (۱۸۶۹ء تا۱۹۰۰ء)‘‘ ہے جس میں اردو ناول کے آغاز اور نوآبادیات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔اردو میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس کو عمومی طور پراردو کا پہلا ناول خیال کیا جاتا ہے ،اس کا نو آبادیاتی تجزیہ کرنے سے پہلے اس باب میں یورپی ناول کے آغاز و ارتقاکا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ٍڈپٹی نذیر احمد کے جن ناولوں کا نوآبادیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ان میں مراۃ العروس ،بنات النعش،توبتہ النصوح ،فسانہ مبتلااورابن الوقت شامل ہیں۔اس باب میں ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھ رتن ناتھ سرشار کے منتخب ناولوں کا بھی نو آبادیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ان میں’’ فسانہ آزاد‘‘اور’’سیرِ کہسار ‘‘شامل ہیں ۔
باب چہاارم ’’نو آبادیات کا عروج اور اردو ناول‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔اس باب میں مرزا ہادی رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘،’’اختری بیگم‘‘اور’’شریف زادہ ‘‘کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ۔امراؤ جان ادا کے کردار کا نو آبادیاتی تناظر میں تجزیہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’نو آبادیاتی سوچ خاص منصوبہ بندی سے عمل پیرا ہوتی ہے۔امراؤ جان وہ کردار ہے جو سامراج اورسرمایہ دارانہ فکر ایسے مواقع فراہم کررہا ہے کہ نواب اس کے آ سیب سے باہر ہی نہ نکل سکیں ۔ ایسے میں سیاسی اور فوجی معاملات سنبھال لیے ہیں۔امراؤ جان ادا نواب کو مبارک باد کہتی ہے کہ انگریزوں نے فوجی معاملات سنبھال لیے ہیں اورآپ ہر طرف سے فارغ ہو گئے ہیں ۔آرٹ کی ترقی سے مراد کوٹھے کے آرٹ کی ترقی تھی یعنی شراب رقص اور گیت۔‘‘
اسی طرح رسوا کے دوسرے ناول ’’ شریف زادہ‘‘ کا مرکزی کردار عابد حسین خو د کو نو آبادیاتی نظام کی کل کا ایک کار آمد پر زہ بنانے کی کوشش میں مگن ہے۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک انگریز افسر اس سے متاثر ہو کر اس کی سروس بک میں رائے دیتا ہے کہ وہ اپنا کام خوب جانتا ہے اور بڑھئی اور لوہار کا کام اچھی طرح جانتا ہے۔رسوا کے ناول ’’ اختری بیگم ‘‘ کو ڈاکٹر ہمدانی نے جاگیردارانہ سماج کا نمایندہ ناول قرار دیا ہے۔مرزا ہادی رسوا کے علاوہ علامہ راشد الخیری کے ناولوں ’’صبحِ زندگی‘‘ اور ’’شامِ زندگی‘‘کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔مذکورہ ناولوں کا تجزیہ اس بات کا آئینہ دار ہے کہ ان کے ہاں ردِ نو آبادیاتی فکر کا فقدان ہے بلکہ وہ نو آبادیات کے اس پہلو کی حمایت کرتے جس کے ساتھ جاگیرداری نظام جُڑا ہوا ہے۔ان ناول میں کسی بھی طرح علامہ راشد الخیری مغربی تہذیب کے خلاف مزاحمت کے علمبردار بن کر سامنے نہیں آتے بلکہ وہ اقتدار سے دور ہوکر تباہ ہونے والے مغل شہزادوں کے حمایتی ہیں۔ علامہ نیاز فتح پوری کے ناول ’’شہاب کی سر گزشت‘‘کو نو آبادیاتی تجزیے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔یہ ناول رومانویت کی تحریک کا عکاس ہے اوراس میں حقیقت سے زیادہ خیالی دنیا کو پیش کیا گیا ہے۔علامہ نیاز فتح پوری ہمیشہ زمینی حقائق سے نظر چُرا کراپنی ذات کو لطیف جذبات سے مملو کر لیتے ہیں اس ناول میں بھی یہی ہوا ہے۔ منشی پریم چند کے ناولوں میں ’’میدانِ عمل‘‘اور’’گؤدان ‘‘کو نو آبادیاتی تجزیے کے لیے منتخب کیا گیا ہے ۔پریم چند کے ناولوں کے کردارکسی نہ کسی شکل میں سماجی و معاشی مجبوریوں کا شکارہوتے ہیں مذکورہ ناولوں میں بھی یہی رجحان نمایاں ہوا ہے ۔دونوں ناولوں کے کرداروں میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کے عناصر موجود ہیں ۔
آخری باب’’نو آبادیات کا عہدِ آخر اور اردو ناول(۱۹۳۶ تا۱۹۴۷ء)‘‘کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔اس باب میں اس دور کے چار اہم ناول نگارسجاد ظہیر،عصمت چغتائی ،کرشن چندراور عزیز احمد کے ناولوں کا نو آبادیاتی تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔سجاد ظہیر کا تعلق کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور ترقی پسند مصنفین سے تھا۔ اشتمالی فکر سے متاثر تھے اسی لیے ان کی تحریروں میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کا رویہ موجود ہے ۔ ’’ لندن کی ایک رات‘‘ میں بھی یہی رجحان سامنے آیاہے۔وہ نوجوان نسل کو سستی، کاہلی اور بے کرداری کا احساس دلا کر ان میں جدو جہد اورمعاشرتی تبدیلی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عصمت چغتائی کے ناولوں ’’ ضدی‘‘ اور ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ میں نوآباادیاتی نظام کے خلاف یا اس کے حق میں کو ئی خاص رویہ سامنے نہیں آتا ۔سماجی اورمعاشی مسائل سے زیادہ اس میں نفسیاتی صورتِ حال کو بیان کیا گیا ہے۔کرشن چندرکے ناول’’ شکست ‘‘میں اشارتاًترقی پسند نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔کرشن چندر کا سماجی شعورہم عصر ناول نگاروں کی نسبت گہرا ہے وہ کسان اور مزدور کے ریاستی اور معاشرتی استحصال کے خلاف ردِ عمل ظاہرکرتے ہیں ۔ عزیر احمد کے ناول ’’گریز‘‘میں مشرقی اور مغربی تہذیب کی کشمکش کو مہارت سے بیان کیا گیا ہے اس ناول میں وہ قاری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستانیوں کوانگریزیت میں بہہ کر اپنی شناخت اور پہچان گم نہیں کر دینی چاہیے۔عزیز احمد کا ناول’’گریز‘‘ہندوستانیوں کے نو آبادیاتی تمدن کی جانب رجحان کے خلاف اشارہ ہے جو نعیم کے کردار کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ان کے ایک اورناول’’آگ‘‘میں کشمیر کی کرپشن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ڈاکٹر ریاض ہمدانی کے مطابق اس ناول کی کوئی واضح کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ایک پینو راما ہے۔ یہ ایک تصویری سیریز چلاتا ہے جس میں نہ تو کوئی ہیرو ہے اور نہ کوئی ہیروئن ہے۔ان کے دوسرے ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘کو اشرافیہ طبقے کے مال و دولت کو مدِ نظر رکھ کر تحریر کیا گیا ہے جس میں مجموعی طور پراشرافیہ کی پستی کو بیان کیا گیا ہے۔جس طرح اودھ کے حکمرانوں نے ریاستی امور انگریز کے حوالے کر کے عیش پسندی کو اپنا شعار بنا لیا تھا اسی طرح حیدر آباد دکن کے حکمرانوں نے نو آبادیاتی ساخت کو قبول کر لیا ہے۔ نوآبادیاتی تہذیب و تمدن نے ہندوستان میں ایسااشرافیہ طبقہ پیدا کر دیاجنھوں نے انگریزی معاشرت کو مکمل طور پر اپنا لیا تھا ۔عزیز احمد نے ان کرداروں کو اس ناول میں سامراج کی کٹھ پتلیاں ظاہر کیا ہے جس کا تجزیہ ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے اس کتاب میں عمدگی سے کیا ہے ۔
جامعات میں ہونے والی سندی تحقیق کا جو حال ہے اس پر اظہارِ خیال کرنے کی ضرورت نہیں۔جامعات میں کم مقالات ایسے ہوتے ہیں جنھیں معیاری تحقیقی مقالات کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ’’اردو ناول کا نو آبادیاتی مطالعہ ‘‘ ایسا مقالہ ہے جسے معیاری مقالات میں شامل کیا جا سکتا ہے جواب کتابی شکل میں شائع ہو کر اردو تنقید میں اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگا۔ کتاب میں پروف خوانی کی غلطیاں موجود ہیں جسے امید ہے آیندہ ایڈیشن میں درست کر لیا جائے گا ۔مزید براں اتنی طویل بحث کے بعدکتاب کے آخر میں مجموعی جائزہ بھی پیش کر دیا جاتا تو انسب تھاتاکہ مصنف کا نقطہ نظر قاری پرنمایاں ہوجاتا۔مجموعی طور پرمذکورہ کتاب عمدہ کتاب ہے جس کی اشاعت پر ڈاکٹر ریاض ہمدانی کو مبارک باد۔