کالم : بزمِ درویش – درباری طوطے :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
درباری طوطے

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

الیکشن کا مہینہ آتے ہی گلشن اقتدار کے پھلوں پر نظر رکھنے والے درباری طوطوں کی چونچوں میں پانی بھر آیا ہے ‘ متو قع جیتنے والی پارٹی لیڈر کے گرد انہوں نے منڈلانا شروع کر دیا ہے ‘ اِن کی چونچوں سے مدح سرائی کے شیریں نغمے پھوٹ رہے ہیں ۔

موجودہ دور کے ہر میراثی نما پرندے اقتدار کے کوٹھوں کی منڈھیروں پر پر پھیلائے اُتر رہے ہیں ‘ لفظوں کے سوداگر اپنے لفظوں کے مداری پن کے نقطہ عروج پر ہیں ‘ انہوں نے لیڈروں کے اطراف میں سنہرا جال بن دیا ہے کہ پاکستان کے چپے چپے پر پھیلا کر پشن کا ناسور ‘ قانون کی عمل داری ‘ انصاف کا بو ل با لا ‘ مسائل کی چتا میں جھلستے عوام کا مقدر بدلنے ‘ پاکستان کو تر قی یا فتہ اقوام عالم میں کھڑا کر نے کا سہراصرف اور صرف آپ کے سر بندھنے لگا ہے ‘ پاکستان پر چھا ئی سالہا سال پر محیط سیا ہ رات میں آخری کرن آپ ہی ہیں‘ قوم سالوں سے جس مسیحا عظیم انقلابی لیڈر کی راہ دیکھ رہی تھی وہ آپ ہی ہیں ‘درباری طوطوں کے ہجوم میں گھرے یہ لیڈر بیچارے اِس حقیقت سے بے خبر ہو جا تے ہیں کہ تیسری دنیا کے لیڈروں کو جو چیز بربادی کی طرف لے جاتی ہے وہ ہے اِن درباریوں کے خو شنما خواب ‘جو یہ اِن لیڈروں کو دکھا تے ہیں یہ خواب لیڈروں کو خدا اور عوام دونوں سے دور کر دیتے ہیں ‘ درباری طوطوں کے غو ل کے غول ہر دور میں حکمران کی منڈھیروں پر ڈھیرے ڈالتے نظر آتے ہیں ‘ بادشاہوں کے دور گزر گئے ہیں ہمارے لیڈروں حکمرانوں کو آج بھی دربار سجا کر قصیدے پڑھوانے اور اشرفیاں لٹانے کا بہت شوق ہے اور پھر قافلہ شب و روز جب رنگ بدلتا ہے تو یہی درباری طو طے اگلے دربار میں اِن کے جنا زے گھسیٹتے نظر آتے ہیں تو انہیں پھراپنی اوقات یا د آتی ہے لیکن مجال ہے جو کو ئی تا ریخ سے سبق لے ‘ جس طرح درباری طو طے پھدک پھدک کر لیڈروں کے کندھوں کو بو سے دیتے ہیں اِن کو دیکھ کر وہ مشہور لطیفہ یاد آگیا جو آپ نے بھی سن رکھا ہو گا کسی با دشاہ نے ایک دن بینگن منگوایا دربا ریوں کو دکھا کر پو چھا آپ کی اِس کے بارے میں کیا رائے ہے تو ایک میراثی نما درباری اُٹھا اور بولا عالم پنا ہ بینگن کے کیا کہنے ‘ سبز یوں کا سردار ہے ‘ پکا کر کھاؤ ‘ تل کر کھاؤ یا بھُرتا بناکر اپنا ہی مزا ہے ‘ اِس کا چمک دار رنگ ایسا کہ آنکھوں کو خیرہ کر دے ‘ ہا تھ لگا نے پر نر م و ملا ئم اتنا کہ ہتھیلی سے پھسل پھسل جا ئے ‘ ارباب علم و حکمت نے تو اِسے سو بیما ریوں کے لیے اکسیر کا درجہ دے رکھا ہے ‘ اگلے دن با دشاہ سلامت کا مزاج بگڑا ہوا تھا اُس نے بینگن اُٹھا یا زمین پر مارا اور پھنکارتے ہو ا بولا یہ سبزی ہے کہ زہر ‘ جب سے کھایا ہے میرے منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا ہے تو وہی درباری پھر اٹھا ‘ جھک کر سلام عرض کیا اور بو لا حضور اگر مجھے معلوم ہو تا تو اُس کا جاکر سر ناریل کی طرح توڑ دیتا جس نے بینگن کو سبزیوں میں شما ر کیا ہے ‘ جناب اِس مر دود کو تو جانور بھی منہ نہیں لگا تے اِس کی بد شکل وضع قطع تو دیکھیں جسے دیکھ کر ہی نفرت ہو جا تی ہے ہا تھ لگا نے سے گھن آتی ہے جب درباری میراثی بن کرکھل کر ریکارڈ بنا چکا تو بادشاہ نے دھا ڑتے ہو ئے کہا تم کتنے جا ہل بے شرم ہو ‘ کل تو تم اِسے سبزیوں کا بادشاہ اور امر ت دھا را قرار دے رہے تھے آج کیا بکواس کر رہے ہو تو دربا ری نے بادشاہ کے قدموں کو بو سا دیتے ہو ئے کہا حضور جان کی امان پا ؤں تو عرض ہے کہ جناب میں آپ کا خادم ہوں اِس بد شکل بینگن کا نہیں ۔ محترم قارئین ہے تو یہ لطیفہ لیکن آپ ہر دور میں اقتدار کی راہداریوں میں حکمرانوں کے پا ؤں کی مٹی چاٹتے‘ حکمرانو ں کے دستر خوان کی جھوٹی ہڈیاں چوستے انہی حشرات الارض کو دیکھیں گے جو مزاج یار کو دیکھ کر سرتسلیم خم کر دیتے ہیں آجکل چونکہ الیکڑانک میڈیا کا دور ہے تو آپ کو ہر چینل پر انہی درباریوں کا قبضہ نظر آتا ہے جو اپنے لیڈر کی مدح سرا ئی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا نے کے لیے تما م اخلاقی معا شرتی اور مذہبی اقدار و روایات کو پا ؤں تلے کچلتے نظر آتے ہیں ‘ بڑے سے بڑا جرم ‘گنا ہ ‘ اخلا قی معا شرتی برا ئی کا یہ جس طرح دفاع کر تے ہیں کہ سر پھٹنے لگتا ہے آپ اِن درباریوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو حیرت کدہ کھلتا چلا جاتا ہے کہ برسوں پچھلے حکمرانوں کی محفلوں میں قصیدوں کے انبار لگا نے والے نئے متوقع لیڈر کی کس ڈھٹائی سے قصیدہ گو ئی کر رہے ہیں اگر اِن کا لیڈر بھا رت کی کسی پا رٹی کا ٹکٹ لے کر الیکشن لڑے یا نبو ت کا دعویٰ کر دے یا خدا کو ماننے سے انکا ر کر دے تو پھر بھی یہ الفاظ کی جا دوگری کر تے نظر آتے ہیں جھوٹ کوہر معا شرے اورمذہب میں جھوٹ کہا جاتا ہے لیکن یہ جھوٹ کی کالک غازہ سمجھ کر منہ پر مل کر اپنے لیڈر کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں اِن کا لیڈر گناہ کر ے ‘جرم کرے ‘زنا کر ے ‘شراب نشے کی لعنت میں مبتلا ہو انہیں اِس سے کوئی غرض نہیں ہے ‘ لیڈر یوٹرن لے کر بینکوں کے بینک ڈکار جائے ‘اخلا قیات مذہبی اقدارکو پا ؤں تلے کُچلے ‘ انہیں اِس سے کو ئی غر ض نہیں ہے اِن درباریوں نے تو اِس کام سے باز آنا نہیں کیونکہ اِن کی بقا ء اور نموہی میراثیت کے خون سے ہو ئی ہے لیکن جو لیڈر آجکل اِن کی گرفت میں ہیں ان سے گزارش ہے کہ ایک بار ما ضی کے اوراق دیکھ کر عبرت حاصل کریں جہاں آپ سے بھی بڑے لیڈر اِن کی باتوں میں آکر کو چہ خار دار سیاست میں اُتر ے لیکن مرقع عبرت بن گئے ‘ائیر ما رشل نو رخان کے کر دار کی قسمیں مخالفین آج بھی کھا تے ہیں لیکن جب وہ اِس کو چہ ء ملامت میںآئے تو روشنی تو درکنار ایک جگنو جیسی روشنی بھی پیدا نہ کر سکے ‘جنرل اسلم بیگ بھی انہی درباریوں کے دھو کے میں آکر جماعت بنا بیٹھے جس کا حال اہل وطن نے خوب دیکھا اور تو اور شیخ الاسلام طاہر القادری جن کی شعلہ بیا نی سے بڑے بڑے گراؤ نڈ چشم زن میں بھر جا یا کر تے تھے بار بار انتخاب کے عمل سے گزرنے کے باوجود نشان شکست بنے نظر آتے ہیں ‘ پرویز مشرف کو جب اِن درباریوں کی وجہ سے دورہ پڑا تو اُس نے بھی پیسے کے زور پر ایک جماعت بنا لی آج جس طرح بھگوڑا بن چکا ہے سب عبرت پکڑتے ہیں اور تو اور قائداعظم کے بعد جس انسان کو کروڑوں انسانوں نے اپنے من میں ہیرو کی جگہ دی ‘ کروڑوں دل جس کے نام سے دھڑکتے ہیں جو واقعی ہی پاکستانی قوم کا مسیحا ہے ہزاروں سلام اُس کی عظمت کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان درباریوں کے اکسانے پر وہ بھی کو چہ خار زار میں آکودے ‘ آگے کی کہانی آپ خوب جانتے ہیں الیکشن کمیشن میں اِس وقت ڈھائی سو سے زیادہ سیاسی جما عتیں رجسٹرڈ ہیں آپ کتنوں کو جانتے ہیں ‘ تا ریخ کے طالب علم خو ب جانتے ہیں کس طرح اِن درباریوں نے غلام محمد اور ایوب خان کو شہر کے آسمان پر بٹھایا اور پھر اُن کی طرف مُڑ کر بھی نہ دیکھا ‘ ذولفقار بھٹو نے سو یلین ما رشل لگا یا تو درباریوں نے عوامی مارشل کا نعرہ لگا دیا ‘ جنرل ضیاء الحق نے ما رشل لگا یا تو یہی درباری پکار اُٹھے کہ پہلا مار شل لا تو خود حضرت ابو بکر صدیقؓ نے لگا یاتھا جواکیلے ہی فتنہ ارتداد کی سر کو بی کو نکل پڑے تھے ۔ بے نظیر بھٹو کو مشرقی دانش و حکمت کا مرقع قرار دیا پھر اُن کا جو حال کیا وہ سب جانتے ہیں پھر نواز شریف جو شریف سادہ انسان تھے انہوں نے اُن کو قائداعظم ثانی اور مفکر بنا دیا آج انہیں درباریوں کی حما قتوں کی وجہ سے نواز شریف جیل کی سلا خوں کے پیچھے اِن درباریوں کو ڈھونڈ رہے ہیں ‘ خدارا لیڈران اِن درباریوں کے چنگل سے نکلیں اور ماضی سے روشنی لیں کیا تاریخ کے سب سے بڑے حکمران حضر ت عمرؓ کے پاس درباریوں کے ایسے لوٹے تھے یا نہیں ‘ جدید دور کے ذرائع ابلاغ کی سہولت موجود تھی وہ ریڈیو ٹی وی لا ؤ ڈ اسپیکر سے محروم تھے لیکن ان کے اقدامات آج کی جدید سوسائٹی کے لیے ر اہبر کا درجہ رکھتے ہیں یو رپ اور مغرب کے مثالی معا شروں اور حکومتوں میں حضرت عمرؓ کے اقدامات کو قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے ‘ ویسے یہ درباری طو طے بھی عجیب مخلوق ہیں اِن کی چونچوں پر پچھلے حکمرانوں کی جھو ٹی ہڈیاں چوسنے کے نشانات ابھی باقی ہو تے ہیں کہ یہ متو قع آنے والے حکمرانوں کی مدح خوانی شروع کر دیتے ہیں ۔

Share
Share
Share