کالم : بزمِ درویش
خواب اور سیاست
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
میرے عام سے رسمی سوال پر اُس کے چہرے پر شعلے ناچنے لگے ‘منہ سے کف اور آنکھوں سے انگارے برسنے لگے ‘جذبات کی شدت سے فشار خون اِس قدر بڑھا کہ الفاظ پر اُس کی گرفت ختم ہونے لگی ‘اُس کے منہ سے گالیوں کا آبشار اُبل پڑا ‘گالیاں موسلا دھار بارش کی طرح بر س رہی تھیں‘
اب اُس کے الفاظ بے ربط ہونے شروع ہو گئے تھے ‘ردِ عمل اتنا خو فناک ہوگا یہ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھامیں اُس کی مشتعل مزاجی سے سہم سا گیا اُس کو نارمل کر نے کے لیے اُس کی کمر پر مشفقانہ ہاتھ پھیرنے لگا اُسے ٹھنڈا کر نے لگا ۔ خوب بولنے کے بعد اب اُس کے جسم پر لرزا طاری تھا جو اب تھو ڑا کم ہو رہا تھا ۔میں نے اُس سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے صرف اتنا کہا تھاکہ الیکشن آگئے ہیں آپ اِس بار کس کو ووٹ دیں گے تو اُس کی یہ حالت ہو گئی بقول اُس کے اِس وقت پاکستان میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جس کو ووٹ دیا جا سکے اور نہ ہی ایسی کو ئی سیاسی پارٹی ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی تر جما نی کرتی ہو‘ پاکستان کی موجودہ سیاسی پارٹیوں پر قابض ایسے لوگ ہیں جو اقتدار کی راہداریوں میں جانے کے لیے با اثر لوگوں کے جو تے چاٹتے نظر آتے ہیں ‘ شدت جذبات سے اُس کا جسم بھٹیارن کی بھٹی پر مکئی کے دانے جس طرح بھنتے ہیں اُس طرح اچھل کود کر رہا تھا میں نے اب اُس کا اندرونی غبار نکالنے کا فیصلہ کیا اُسے بولنے کا موقع دیا ۔ میرے سامنے تقریبا ساٹھ سالہ شخص بیٹھا تھا ۔ میرے حوصلہ دینے پر اُس نے بو لنا شرو ع کیا جناب ہم پاگل لوگ دن میں اپنی آنکھوں پہ سہانے خواب سجالیتے ہیں جن کا حقیقت سے کو ئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ نیند میں ڈوبے خوابوں کا تعلق کسی حد تک حقیقت اور تعبیر سے ہوتا ہے لیکن ہم بے بس لاچار غریب عوام کش سسٹم میں پھنسے ہوئے لوگ جب جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں تو اُن کا حقیقت سے بلکل بھی تعلق نہیں ہوتا‘ جاگتی آنکھوں کے خواب محرومیوں اور ناکامیوں کے ایسے زخم دے جاتے ہیں جو سالوں نہیں بھرتے ‘پاکستانی معصوم غریب قوم آنکھیں بند کر کے اِن فراڈی لیڈروں پر بھروسہ کر لیتے ہیں اور اِن کے جھوٹے وعدوں پر آنکھیں بند کر کے اپنی تخیلاتی بہشت بنا لیتے ہیں اور پھر جب خواب دیکھتے اِن لوگوں کا پاؤں زمینی حقیقت سے ٹکرا جاتا ہے تو خوابوں سے بھری اِن آنکھوں میں حقیقت کی کرچیاں کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بھر جاتی ہیں یہی کر چیاں پھر اِن کو خون کے آنسو رلاتی ہیں ‘ مایوس عوام کے خوابوں کو تعبیر کے سہانے خواب دکھانے والی ساری پارٹیاں جو اصول اور نظریات کے نعرے مارتی ہیں مسلسل تضادات کا جھولا جھو لتے نظر آتی ہیں ‘کر پشن کے ناسور کو ٹھیک کر نے کے دعوے دار یہ پا رٹی لیڈروں میں اتنا دم خم بھی نہیں ہو تا کہ پارٹی ڈسپلن پر ایکشن لیں ۔ درباری دانشور جب غریب عوام اور پارٹی لیڈر کو یہ خواب دکھا تے ہیں کہ جناب خلفا ء راشدین کا سنہرا دور آپ ہی لے کر آئیں گے عوام میں آپ کی مانگ اِسقدر زیادہ ہے کہ وزرات عظمیٰ لو نڈی کی طرح آپ کی دہلیز پر کھڑی بازیابی کی اجازت مانگ رہی ہے تو لیڈر زمینی حقائق کو بھو ل جاتے ہیں پھر جب حقیقت کا ہما لیہ سامنے آتا ہے تو یہ لیڈر دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں ‘ خواب اور حقیقت کی درمیانی خلیج کو پاٹ لینا ہی عقل مندی ہے لیکن یہ اپنے خواب کو چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ۔آپ اِن ساری سیاسی جماعتوں کا اگر بغور مطالعہ کریں تو سب کی سب اِس بات کی دعوے دار ہیں کہ اسٹیٹس کو کے حامیوں کو پا رٹی میں جگہ نہیں دی جائے گی لیکن جب بھی انتخابات کی بساط بچھائی جاتی ہے تو اسٹیٹس کو کے علمبردار ہمیں بساط پر مہروں کی جگہ نظر آتے ہیں ۔ ساری پارٹیاں دعوی ٰ کر تی ہیں کہ ہم دین دار ‘با کردار افراد کو پارٹی ٹکٹ دیں گے لیکن جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو یہ دین دار کا فرمان جاری ہو تا ہے کہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں ۔ ہر پا رٹی یہ خواب عوام کو دکھا تی ہے کہ وہ اندرونی انتخاب کر کے جمہوری کلچر کو فروغ دے گی لیکن یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو تا ‘ کہا یہ جاتا تھا کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی ٹکٹوں کے لیے پا رٹی کے منتخب عہدے داروں کی سفارش پر ٹکٹ دئیے جائیں گے جب کہ پا رٹی عہدے داروں کی کسی نے نہ سنی‘ انتخابات میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے جس طرح تجو ریوں کے منہ کھول دئیے جاتے ہیں اِس سے کو ئی واقف نہیں ہے ‘ خواب یہ دکھا یا جاتا ہے عوام کا سونامی دوسری پارٹیوں کو تنکوں کی طرح بہاکر لے جا ئے گا لیکن الیکشن کے بعد انتخابی نتا ئج منہ چڑا تے نظر آتے ہیں ‘ہر پارٹی یہ نعرہ مارتی ہے کہ ہم موروثی سیاست کے خلاف ہیں ۔ سیاست نسل در نسل کسی کی گدی نہیں ہے لیکن الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم میں جس طرح ایک ہی خاندان میں پا نچ پانچ ٹکٹیں بانٹی جا تی ہیں یہ تما شہ بھی اہل وطن نے خوب دیکھا پھر خواتین کی مخصوص سیٹوں کی بند ربانٹ جس طرح اپنی بہنوں ‘ بیٹیوں ‘ بیویوں ‘ بھا نجیوں میں کی گئی یہ تما شہ بھی اہل وطن انگلیاں دانتوں تلے دبائے دیکھتے ہیں کہا جاتا ہے اقتدار میں آکر 90دنوں میں حالات جنت نظیر بنا دیں گے ‘گورنر ہاؤس ‘صدر ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس کو تعلیمی اداروں میں بدل دیا جائے گا ‘ صدر وزیر اعظم وزیر اعلی گورنر ہاؤس کا خرچہ کم کر دیا جائے گا لیکن پھر وہی کا غذی لیڈر گو رنر ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس کے سبزہ زاروں میں چہل قدمی اور دعوتیں اڑاتے نظر آتے ہیں ‘ ساری پارٹیاں نعرے مارتی ہیں کہ ہم سیاسی لوٹوں کو اپنی چھت پر نہیں بیٹھنے دیں گے بلکہ پارٹی کے مخلص ورکروں کو ٹکٹ دیں گے برس ہا برس سے اپنا خون پسینہ بہا نے والے جیل کی کوٹھڑیوں میں اپنی جوانی گزارنے والے ورکروں کو ٹکٹ دیں گے لیکن جب مو سم الیکشن آتا ہے تو یہ ورکر پھٹی نظروں سے عجیب نظارا دیکھتے ہیں کہ ہواؤں کا رخ دیکھ کر اقتدار راہداریوں میں حکمرانوں کے پاؤں کی مٹی چاٹتے ہیں حکمرانوں کی جھوٹھی ہڈیاں چوستے یہ حشرات الارض کس طرح متوقع حکمران پا رٹی میں مو سلا دھار بر کھا کی طرح بر ستے ہیں جو سالوں حکمران پارٹیوں کے مو رچوں پر فتوحات کے پر چم گا ڑتے ہیں ہر حکمران کے پاؤں کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں ‘نئی پا رٹی میں لینڈ کر تے ہیں ان کااِس نعرے کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے کہ پا رٹی کو ایسے منتخب افراد کی شدت سے ضرورت ہے اب الیکشن میں ٹکٹ ہو لڈروں کا تجزیہ کریں اِن کے ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو آپ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ۹۹ فیصدلو گ تو وہی ہیں جو گھاٹ گھاٹ کا پا نی پی کر آرہے ہیں جن کے کچے گھر سینکڑوں ایکڑ محلات میں کر پشن کی وجہ سے تبدیل ہو گئے ہیں اِن ہڈیوں میں حرام خو ری کا گو دا اور رگوں میں دوڑتا خون غریبوں کا نچوڑا ہوا ہوتا ہے ‘میں نے سامنے بیٹھے شخص کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا برادر دعا ہے کہ کب خدائے لازوال کو ہم پر ترس آئے گا اور وہ کب ہمیں مخلص لیڈر کی نعمت سے سرفراز کر ے گا کب تک موجودہ سیاسی گدھیں ہم ہی کو مردار سمجھ کر کھاتی رہیں گی ۔