تدریس میں بنیادی عناصر کی اہمیت
محمد قمر سلیم
موبائل۔09322645061
آزادی کے بعد مختلف تعلیمی کمیشنوں کاقیام عمل میں آیا۔ہر کمیشن نے عام طورسے ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور خاص طور سے ہر بچے کی شخصیت سازی کی بات کی۔ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے نئے نئے طریقوں کی وکالت کی گئی تاکہ طلبا تعلیم میں دلچسپی لیں اور تعلیمی معیار کو بلند کریں۔
بچوں کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مادری زبان میں تعلیم دینے پر زور دیا گیا۔باوجود تمام کوششوں کے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ کمیشنوں کے ذریعے بتائی گئی باتوں کو ہم اپنانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ موجودہ دور میں ہر شخص مادری زبان کو چھوڑ کر انگریزی کی طرف دوڑ رہا ہے شاید اس کی ایک وجہ انگریزی کی تعلیم کا بڑھتا ہوا رجحان اور دوسری وجہ ہمارے اساتذہ تدریس کے مختلف نئے طریقوں کو استعمال کرنے کے بجائے وہی فرسودہ طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں جن سے طلبا میں عدم دلچسپی کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ تدریس کے مختلف طریقے ہونے کے باوجود ہمارے اساتذہ ان سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا ان کو اپنانے سے قاصر ہیں۔
آزادی کے بعد کچھ سالوں تک ہم آزادی کے گن گاتے رہے۔ آہستہ آہستہ ہمارے طلباآزادی کی جدّو جہد سے پوری طرح ناواقف ہو گئے ۔ کبھی ہم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں اختلافات میں اتّحاد ہے لیکن آج ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں، ایک ذات سے دوسری ذات میں، امیر اور غریب میں زبردست خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ پالیسی بنانے والوں کی اسے دوراندیشی ہی کہا جائے گا کہ اب سے ۳۲ سال پہلے نئی تعلیمی پالیسی میں بنیادی عناصر کے تصور کوشامل کرکے اس خلیج کو پُر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس وقت یہ محسوس کیا گیا تھاکہ طلبا میں ہندوستانی آئین کے عین مطابق ہندوستانی جمہوریت کو سمجھنے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ملک سے محبت کے جذبے اور ہندوستانی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ ثقافتی ورثے کی حفاظت کی جائے اور آنے والی نسل کو ہندوستانی تاریخ سے روشناس کرایا جائے۔ انھیں باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے۱۹۸۶ کی تعلیمی پالیسی میں چند بنیادی عناصرکو شامل کیا گیا تھا۔ ان بنیادی عناصر کو شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ طالب علم ملک کے قیمتی اثاثے سے روشناس ہو اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس اثاثے کو شامل کرے اور اس پر فخر کرے۔اس کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ استاد ان بنیادی عناصر کو جماعت میں عملی جامہ پہنائے مگر افسوس ہم آج تک ان بنیادی عناصر کو نہ تو سمجھ سکیں ہیں اور نہ ہی ان کا اطلاق کر سکے ہیں۔اگر ہم ان بنیادی عناصر کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے ہوتے تو شایدہندوستان کے عوام میں اتنی دوریاں اور نفرت نہیں ہوتی۔ افسوس ! ہماری لا علمی کی حد تو یہ ہے کہ ان بنیادی عناصر کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے تو ہمارے اساتذہ حیران و پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ کون سی مصیبت ہے جبکہ ان بنیادی عناصر کی تعلیم و تدریس میں اہمیت مسلم ہے۔یہ بنیادی عناصر مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی تاریخ:
آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے طلبا ہندوستان کی تحریکِ آزادی سے ہی واقف نہیں ہیں۔ان کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ تحریکِ آزادی کب شروع ہوئی اور اس میں کن کن ہستیوں نے حصّہ لیا۔حد تو یہ ہے کہ انھیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ مہاتما گاندھی ، سبھاش چندر بوس ، علی برادران وغیرہ نے آزادی کی تحریک میں کیا رول ادا کیا تھا اس لیے ضروری ہے کہ استاد طلبا کو تحریکِ آزادی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرے۔
۲۔ آئینی پابندیاں :
ہمار ا آئین وسیع ترین آئین ہے جس میں تفصیل کے ساتھ ہر پہلو پر غور و خوض کیا گیا ہے۔زندگی کے ہر شعبہ کے لیے کچھ نمائندہ اصول بنائے گئے اور انھیں لکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے آئین نے ہمیں بہت سے اختیارات دئے
ہیں اور کچھ ذمے داریاں بھی دی ہیں۔ ان اختیارات کو حاصل کرنا اور ذمے داریوں کی پابندی کرنا ہمارا فرض ہے۔ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبا کو تمام آئینی پابندیوں سے روشناس کرائے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرے۔
۳۔ قومی پہچان کی تعلیم کے لیے ضروری متن:
ہندوستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے ۔ یہاں ہر عقیدے اور مذہب کے ماننے والے افراد رہتے ہیں۔ آپسی میل ملاپ، سماجی شراکت، ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہونا،بنا مذہب و ملت ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھنا ہندوستانی سماج اور قوم کی پہچان ہے۔متن تیار کرنے والے ماہرین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہندوستانی سماج اور قوم کی پہچان کرانے والا ضروری متن تیار کریں اور اسے نصاب میں شامل کریں تاکہ طلبا کو احساس ہو کہ اس کی پہچان اس کے ملک و قوم سے ہے نہ کہ ذاتی طور پر۔ استاد کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ طلبا میں قوم اور ملک سے محبت کا جذبہ پیدا کرے تاکہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو مضبوطی فراہم کی جا سکے۔
۴۔ ہندوستان کی عام ثقافتی میراث:
ہمارے ملک کی تہذیب گنگا جمنی تہذیب ہے یعنی ہمارے ملک میں مختلف مذاہب، ذاتوں، ثقافتوں کو ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور ہر کوئی اپنی تہذیب، اپنے ثقافتی ورثے کے مطابق زندگی گذار تا ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود ایک بنیادی ہم آہنگی ہے یعنی اختلافات میں ہم آہنگی۔یہی ہماری ثقافتی میراث ہے اس لیے استاد کو چاہیے کہ طلبا کو محبت و اخوت، بھائی چارہ،اتحاد ،وغیرہ کی تعلیم دے اور ہندوستانی ثقافت کی مثالیں پیش کرے۔
۵۔ مساواتیت، جمہوریت اور سیکولرازم:
ہم ایک آزاد ملک میں رہ رہے ہیں۔ مساوات،جمہوری طرزِ حکومت اور سیکیولر قدریں اس ملک کے نظام کے اوصاف ہیں۔ہمارے آئین نے ہر مر ود عورت، چھوٹے بڑے، ا علیٰ و ادنیٰ کو برابری کا حق دیا ہے۔اسی طرح جمہوریت ہونے کی وجہ سے ہر شہری کو کچھ اختیارات اور ذمے داریاں دی گئی ہیں اور یہ بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ ملک کی حکومتیں کسی بھی مذہب میں مداخلت نہیں کریں گی اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو کسی ایک خاص مذہب سے وابستہ کریں گی۔استاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلبا میں مساواتیت کا جذبہ پیدا کرے اور ان کے ساتھ مساوی طور پرپیش آئے۔طلبا کو جمہوریت کی بنیادی باتوں سے روشناس کرانا چاہئے۔طلبا کو اس بات کا علم بھی دینا چاہئے کہ نہ تو وہ اور نہ ہی دوسرے لوگ، حکومتیں وغیرہ، ان کے مذاہب، رسم و رواج ، تہذیبی اقدار میں مداخلت کریں سوائے اس کے کہ ان سے انسانیت کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔
۶۔ جنسی مساوات :
ہر سماج اور ملک میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے اسی لیے ہندوستانی آئین نے ہر مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے ہیں اور ان حقوق کو چھیننے والوں کے خلاف قانون بھی بنائے گئے ہیں۔یہ حکومت کا کام ہے کہ جنسی مساوات کو یقینی بنائے اور کسی بھی بنا پر کسی مرد یا عورت کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔استاد کو تمام طلبا کو ایک نظر سے دیکھنا چاہیے اور طلبا میں برابری کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے۔انھیں جنسی مساوات کے بارے میں بتانا چاہئے اور جنسی مساوات کی قانونی حیثیت سے بھی روشناس کرانا چاہئے۔
۷۔ ماحول کی حفاظت:
آج پوری دنیا ماحولیات کی بگڑتی ہوئی حالت سے جوجھ رہی ہے۔ہمارا ملک بھی اس سے مستثنا نہیں ہے۔ ہر شخص ماحول کی آلودگی کی وجہ سے پریشان ہے ۔ ہم طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار ہیں۔ آلودگی کی وجہ سے نہ تو ہمیں صاف شفاف ہوا نصیب ہوتی ہے نہ ہی صحیح پانی اور غذا نصیب ہوتی ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اطراف کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں کیوں کہ ماحول کی حفاظت کرنا ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ استاد کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ طلبا میں بچپن سے ہی ماحول کی حفاظت کرنے کی عادت کو فروغ دے اور انھیں ماحول کی اہمیت سے روشناس کرائے۔
۸۔ سماجی رکاوٹوں کو دور کرنا:
آج بھی ہما رے ہندوستانی سماج میں دقیانوسی خیالات کا بول بالا ہے۔جیسے لڑکی کی پیدائش کو برا سمجھنا، چھوٹی عمر میں شادی کرنے کے رجحانات، لڑکیوں کو نا پڑھانا، چھوٹی ذات کے لوگوں کو حقیر سمجھنا، اپنی پسند کی شادی کو مایوب سمجھنا ، ایک ذات کا دوسری ذات سے شادی نہ کرنا، بیوہ کو زندگی کی تمام خوشیوں سے محروم کر دینا یا ستی کر دینا، طلاق کا عام ہو جانا۔ یہ اور دوسرے کچھ ایسے مسئلے ہیں جو سماج کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سماج کا ایک فرد ہونے کے ناتے استاد کا کام ہے کہ وہ طلبا کو ان لازمی برائیوں کے بارے میں نہ صرف بتائے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب بھی دے۔
۹۔ چھوٹے خاندان کے اصولوں پر چلنا:
دنیا میں آبادی کے حساب سے ہمارا ملک چین کے بعددوسرے نمبر پر ہے۔ آبادی کے بڑھنے سے ہم مختلف مسائل سے دو چار ہوتے ہیں۔ہماری آبادی زیادہ ہے اور ذرائع کم ہیں اور ملک کو عوام کی
ضروریات کو پورا کرنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ آبادی سے ملک کو ہونے والے نقصانات کے بارے میں طلبا کو روشناس کرایا جائے او رچھوٹے خاندان کے فوائد بتائے جائیں تاکہ آبادی کے مسئلے سے نپٹا جا سکے۔
۱۰۔سائنسی رجحانات کی شمولیت:
آج کا دور سائنس کا دور ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے لوگوں کے نظریات کا سائینٹیفک ہونا بہت ضروری ہے۔ہمیں بچپن سے ہی اپنے طلبا میں سائینسی رجحانات کو شامل کرنا چاہیے۔ یہاں سائینسی رجحانات سے مطلب یہ ہے کہ دقیانوسی باتوں اورتوہمات پر یقین نہ رکھنا جیسے چھینک آنے پر رک جانا، بلی کے راستہ کانٹنے پر کام پر نہ جانا یا جادو ٹونوں پر یقین رکھنا وغیرہ۔استاد کو شروع سے ہی سائنسی اصولوں پر طلبا کی نشوونما کرنا چاہیے تاکہ سائنسی رجحان ان کی شخصیت کا اہم جز بن جائے۔
ان بنیادی عناصر کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسکول کی تدرسیاتی اور نصابی سر گرمیوں کے ذریعے ایک بچے کو سماج کے لیے موثر انسان بنا نے کی کوشش کی جائے اور سماج سے تعلق رکھنے والی اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ بچے کی صحیح طرح سے سماجی نشوونما ہو سکے۔ان بنیادی عناصر کو اسکول کے نصاب کا ایک اٹوٹ حصہ بنانا چاہیے اور انھیں تدریس کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔اب تک ہم ان بنیادی عناصر کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ان بنیادی عناصر کو ’تدریس‘ کے درمیان پڑھائے جانے والے اسباق کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تب ہی آئین کی عظمت اور برتری کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
——
حواشی:
National Policy on Education 1986. Part III, National System of Education, 3.4, Retrieved on 30.03.2018 from www. ncert.nic.in ,oth_anoun, pdf86
——
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061