یوگا مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول کیوں؟ :- مولانا سید احمد ومیض ندوی

Share

چوتھا عالمی یومِ یوگا
یوگا مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول کیوں؟

مولانا سید احمد ومیض ندوی
استاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد

گزشتہ جمعرات کو ۲۱؍جون کی تاریخ گزری اس تاریخ کو دنیا بھر میں چوتھا عالمی یومِ یوگا منایا گیا وزیر اعظم نریندر مودی نے اترکھنڈ کے دارالحکومت دھرہ دون کے فاریسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (FRI) میں تقریبا پچاس ہزار رضاکاروں کے ساتھ یوگا کیا ،

مسٹر مودی کے ساتھ نوجوانوں بوڑھوں اور سیکوریٹی کے جوانوں نے بھی یوگا میں حصہ لیا، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج دنیا کا ہر ملک اور ہر شہری یوگا کو اپنانے لگا ہے ، ہم ہندوستانیوں کے لیے بڑا پیغام یہ ہے کہ ہم اس روایت کے امین ہے ، اگر ہم اپنے ثقافتی ورثہ پر فخر کرنا شروع کردیں تو دنیا بھی فخر کرنے میں پیچھے نہیں رہے گی ، ہندوستان میں خود کو یوگا سے منسلک کیا تو دنیا بھی یوگا سے جڑ گئی ، مودی نے یوگا کے فوائد کو شمار کرتے ہوئے کہا کہ یوگا ہمیں متحد کرتا ہے یہ ہر شخص کو سکون فراہم کرتا ہے ، دشمنی کو فروغ دینے کے بجائے یوگا ہمیں جوڑتا ہے ۔
اس مرتبہ اولین یومِ یوگا منانے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں زائد از ۱۰۰؍افراد بشمول سفارت کاروں اور اقوام متحدہ ارکان عملہ نے یوگا کیا خود اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یوگا عوام میں یکجہتی اور ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دے گا اور سب کی زندگی کو با وقار بنائے گا ، ہر سال یوم یوگ کے لیے ایک تھیم ہوتا ہے ، ۲۰۱۷ء کا تھیم امن اور ہم آہنگی تھا ، اس سال یوگ کے دن کا تھیم ’’امن کے لیے یوگ‘‘ ہے ۔
۲۰۱۴ء میں جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو اسے عالمی سطح پر ایک بڑی کامیابی یہ ملی کہ اس نے اقوام متحدہ سے ۲۱؍جون کو عالمی یومِ یوگا کے طور پر منظور کرالیا ، چنانچہ گزشتہ جمعرات کو چوتھا عالمی یومِ یوگا منایا گیا ، بی جے پی برہمن ازم اور ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والے اس خالص مذہبی عمل کو ساری دنیا میں رائج کرنا چاہتی ہے اسی لیے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یوگا کا کسی خاص مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صحتِ جسمانی کے لیے اپنائی جانے والی ایک جسمانی ریاضت ہے جسے ہر مذہب کا انسان اپنا سکتا ہے جبکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا اصل مقصود یوگا کو ہندوتوا کے ایجنڈہ کے طور پر ملک کے مسلمانوں پر زبردستی لاگو کرنا ہے ،
اس وقت پورے ملک میں حکومتی سطح پر یوگا کے حق میں مہم چلائی جارہی ہے ، اسکولی بچوں اور عام مسلمانوں کو یوگا سے قریب کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ، عام طور پر یوگا کو ایک کھیل اوربدنی ریاضت کی مشق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یوگا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ محض ریاضت کی ایک شکل ہے جس سے سکون قلب اور صحت جسمانی کی دولت حاصل ہو تی ہے؛جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، ہندوتوا کے حامی یوگا کو زندہ طلسمات کی طرح ہر مرض کی دوا قرار دیتے ہیں ، یوگا کا آغاز کب ہوا قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا؛ البتہ اتنی بات ہے کہ یہ علم سادھو سنتوں پر تپسیا کے دوران منکشف ہوا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وادی سندھ میں کھدائی کے دوران کچھ مہرے حاصل ہوئے جس پر انسان کی عجیب و غریب شکلیں کھدی ہوئی تھیں، ممکن ہے کہ یہ یوگا کے ابتدائی شکلیں ہوں ، جو تین ہزار سال قبل مسیح سے متعلق رکھتی ہیں، ویدوں میں بھی یوگا کا ذکر ملتا ہے ، اپنشدوں میں یوگا کا تفصیلی ذکر موجود ہے، رامائن ، مہا بھارت اور بھگوت گیتا کے مطابق برہما جو کائنات کی اصل ہے وہ خود کرشن کے روپ میں عالم میں آئے اور اپنے زمانے کے ماہر جنگجوار جن کو یوگا کے گر سکھائے ، یوگا کی مشہور قسم راجا یوگا ہے، جس کا بنیادی خاکہ پتنجلی کے یوگا سوترا میں بیان کیا گیا ہے ، لفظ کا انتخاب اس تصور کے ساتھ کیا گیا ہے کہ یوگا اس کے حامیوں کے خیال میں مخلوق کو خالق (برہما) کی ذات میں مدغم کر نے کا ذریعہ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر یہ تناسخ یوگا کا بنیادی جز ہے ، بھگوت گیتا میں یوگا کی چار قسمیں مذکور ہیں، جن کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی جڑیں ہندوؤں کے قدیم یومالائی قصوں اور ان کی مقدس کتابوں میں پیوست ہیں،یہ خالص ہندوانہ مذہبی عمل ہے جس کی بنیاد کفر و شرک پر ہے ، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ بھگوت گیتا میں یوگا کی سند موجود ہے، نیز یوگا میں پڑھے جانے والے سنسکرت کے اشلوک بھی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، خالق کائنات کے انکار خودی، زندگی، عبادت ، وجود اور کون و مکان کے انکار اور انسانی خداؤں کے اقرار سب یوگا میں شامل ہے، یوگا کے متعلق ارجن و سری کرشنا نے یہ تعلیم دی کہ روحانی ارتقاء اور خواہشات سے چھٹکارا و آزادی کے لیے یوگا ضروری ہے ۔ یوگا کی ورزش صرف تندرستی کے لیے نہیں کی جاتی ؛ بلکہ اس کا مقصد روحانی اور ہندوتہذیب کو پروان چڑھانا ہے، یوگا کی تمام مبادیات اسلامی عقائد سے راست ٹکراتی ہے، یہ در اصل کفر و شرک کے علمبردار عمل ہے، یوگا میں توحید، رسالت ،کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار ہے، نیز اس میں مخلوق کے خالق میں حلول کر جانے کا عقیدہ ہے، یہ نظریۂتناسخ سے ہم آہنگ ہے نیز یوگا کے نتیجہ میں آدمی کو ہندو مذہبی کتابوں اور انسانی خداؤں کے ارشادات کی اطاعت ضروری ہو جاتی ہے ، یوگا میں ہندو مذہبی کتابوں اور انسانی خداؤں کے ارشادات کی اطاعت ضروری ہو جاتی ہے، یوگا میں ہندو عقائد کے مطابق روحانی و جسمانی تربیت دی جاتی ہے، یوگا کی کسرت کا اصل مقصد پر ماتما(خالق) کی ذات میں اپنے کو ضم کر دینا ہے، یوگا کے متعلق ہندو مذہبی کتابوں میں جوکچھ لکھا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سراسر کفر و شرک تک پہونچانے والا عمل ہے ، تا نتریکا میں لکھا ہے ،:’’ شیوا ہنوستان کے جنگلوں میں یوگا کی حیثیت سے رہا کر تا تھا، وہ یوگا کی مشق کر تے کر تے کائنات کا عظیم خدا گیا،(تانتریکا ص :۵) شنکر آچاریا اور یوگی یوگا کے دوران سنسکرت کی جن گیتوں کو لازم قرار دیتے ہیں، وہ بھی سرا سر اسلامی عقائد و ایمانیات کے منافی ہیں، جو خالق و مخلوق کی تفریق کو مٹاتی ہیں، یوگا اصل میں ویدک اور ہندو جسے سناتن دھرم کہتے ہیں اس کی تہذیب کا خاص حصہ ہے، ہندو روایات کے مطابق یہ ایک خاص جسمانی و روحانی ورزش ہے جو ہندوستا ن میں شروع ہوئی ، اور اس کا عملی اظہار اسے خطے کے مذاہب ہندومت ، بدھ مت اور جین مت میں نظر آتا ہے، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ کی اکثر مورتیاں سی یوگ کی حالت میں نظر آتی ہیں، یوگا دراصل ہندو ازم کا ایک فلسفہ ہے ، جس میں آتما(روح) پر ماتما(بھگوان )شریر(جسم ) کو مراقبہ کے ذریعہ ایک ساتھ مربوط کر نے کی کوشش کی جاتی ہے ، یوگا کا پہلا طریقہ بھگوان شنکر نے ایجاد کیا تھا، اور دوسرا پتنجلی نا کے یوگ گرون شرع کیا تھا، یوگا کے حوالہ سے ان ساری تفصیلات کو روشنی میں یہ بات بلا ترد د کہی جاسکتی ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یوگا جیسی کسی ریاضت کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔
سوریہ نمسکار۔:
یوگا کا ایک اہم ترین حصہ سوریہ نمسکار ہے، یوگی کے لے ضروری ہے کہ یوگا مشق کی ابتدا اور اس کے اختتام پر مشرق کی جانب آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سوریہ نمسکار کر ے ، جو کہ سورج کی پرستش ہی کی ایک شکل ہے ، ہندوؤں کے یہاں سورج کو سوریہ بھگوان کہا جاتا ہے، مشرق کی طرف رخ کر کے آلتی پالتی بیٹھ کر سور ج کے لیے سلام و آداب بجا لانا سوریہ نمسکار ہے جس کی اسلا م میں کوئی گنجائش نہیں ہے، بی کے ایس انگر نے ویدوں کے حوالہ سے اس کی تعریف میں لکھا ہے کہ پرانا ما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہوتی ہے اور مقدس آگ کے شعلے انہیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کر دیتے ہیں تب ایک شخص دھرانا اور دھیانا کے قابل ہو جاتا ہے، اس مقام تک پہونچنے کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے، حیدرآباد کے ایک دانشور جناب ابو العزم نے سوریہ نمسکار کا ہندو مذہب سے کس قدر گہرا تعلق ہے اس پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:’’ ہندو مذہب کے عقائد میں سوریہ پوجا کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، زند گی کے بیشتر کام طلوع شمس کے رخ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں، ہر روز سورج کی پوجا و پرستش کی جاتی ہے، تمام ہندوؤں کے دروازے مشرق کی طرف کھلتے ہیں ، سورج یا خدا کی کسی بھی مخلوق کو خدا کا درجہ دینا صریح شرک ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بحر وبر ، ارض و سماء اور شمس و قمر کو حضرت انسان کے خادم کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور اس نے تمہارے لیے رات و دن اور سورج و چاند کو کام میں لگا رکھا ہے اس کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں ، دوسری جگہ ارشاد :۔ اور ان سورج و چاند کو مسخر کیا ، ہر ایک تعین مدت تک کے لئے کام میں لگا ہے، قرآن مجید میں صاف طور پر سورج و چاند کی پرستش سے روکا گیا ہے ، ارشاد ربانی ہے :تم نہ سورج کو سجدہ کر و اور نہ چاند کو ، بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو ۔
یو گیا کیا ہے ؟:یوگ سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ملانے اور جوڑنے کے آتے ہیں، یوگا وہ عمل ہے جو ملانے اور جوڑنے کا کام کر ے اور یوگی وہ شخص ہے جو اس کام کو انجام دے ، برہمنی دھرم کی اصطلاح میں انسان اس کی روح اور پر ماتما کے جوڑ کو یوگ کہتے ہیں، ودِّ وانوں (ماہرین) کی رائے ہے کہ ’’ جیو، آتما پر ماتما کے مل جانے کو یوگ کہتے ہیں‘‘ شری کر شن جی نے ارجن جی کو یوگ کی تعلیم دی ، بھاگوت گیتا کا چھٹا باب یوگا پر مشتمل ہے اب باب کا نام بھی یوگا ہے ساڑھے تین سو صفحہ کی کتاب بھاگوت گیتا میں تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر چھٹا باب مشتمل ہے کر شن جی نے ارجن جی کو جہاں یوگا کی تعلیم دی وہیں یہ نصیحت بھی کی کہ ’’یوگا کرمسو کو شیلم‘‘ کر م (عبادت) کو مہارت کے ساتھ کر نا یوگا ہے ،کرشن جی کی اس نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ یوگی کا یوگا یوگ اس وقت بنتا ہے جب اس میں مہارت ہو ، بر ہمنی دھرم میں شروع زمانے سے یوگا کو بہت اہم مقام حاصل ہے، شیو جی کو یوگا کر تے دکھایا گیا ہے اگیتا مہا بھارت اپنشد وید جیسی بنیادی دھارمک کتابوں میں یوگا کی اہمیت کوبہت مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے ، پتنجلی نے یوگا کو ایک فن کی حیثیت دی اور ا س کے بڑے فوائد گنائے ہیں، یوگا کی بڑی اہم خصوصیت یہ بیان کی گی ہے اس میں دھیان کے ذریعہ گیا ان کی پراپتی ہوتی ہے اور منو ش اپنی آتما اور اپنے اندر چھپے ہوئے پر ماتما کو پالیتاہے اس میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ غیب کی چیزوں کو جان لے یوگا کا ایک بڑا مقصد دنیا کی تمام تکلیفوں اور آسائشوں سے الگ ہو جانا اور پیدائش اور موت کے چکر سے چھٹکارا پالینا بھی ہے،مہا بھارت میں یوگ کے مقصد کی وضاحت کر تے ہوئے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ منوش برہما کی دنیا میں پرورش کر سکتا ہے (داخل ہو سکتا ہے) یوگا کے جو فوائد بنیادی دھارک کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ روح کو پاک کر تاہے یوگی کی روحانی ہدایت حاصل ہوتی ہے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے پرماتما خوش ہو تا ہے یوگی میں ایک غیبی طاقت سما جاتی ہے، یوگی آگ پانی ہوا پر کنٹرول کر سکتا ہے ، یوگی کو پچھلے جنموں کی باتوں کا پتہ چل جاتا ہے ، اور وقت سے پہلے ہو نے والے واقعات کا علم ہو جاتا ہے، یوگی کو اپنی موت کے وقت کی خبر ہو جاتی ہے یہ ساری خصوصیتیں جو یوگ کی بیان کی گئیں ان کا اثر عقیدہ اور عمل پر پڑتا ہے۔(بحوالہ روزنامہ سالار)
یوگا میں کیا پڑھا جاتا ہے ؟:
لفظ ’’اوم‘‘ سے یوگا کی ابتدا ہوتی ہے اور ہر ہر مرحلے میں ’’اوم‘‘ کا جاپ ہوتا ہے لفظ اوم برہمنی عقدیہ کے مطابق پرمیشور (برہما وشنومہیش) کو پکارنے کے لیے بولا جاتا ہے ، یوگا کا پہلا آسن سوریہ آسن ہے جس میں سورج کو نمشکار کیا جاتا ہے اس کی ابتداء بھی اوم سے ہوتی ہے اور پہر اوم آدتیائے نمہ۔ اوم ساوترائے نمہ ۔ اوم آرکائے نمہ ۔ اوم بھاسکریائے نمہ۔ کا جاپ کیا جاتا ہے (ترجمہ نمسکار اس کو جو آدیتی کا بیٹا ہے ، نمسکار اسکو جو زندگی کا مالک ہے ، نمسکار اس کو جو تعریفوں کا حقدار ہے، نمسکار اس کو جو تقدیر اور عقل کا دینے والا ہے) اور یہ بھی پڑھاجاتا ہے ‘ اوم گرور برہمہ اوم گرورویشنو اوم گرو شیو ہے میں ان گرؤں کے آگے جھکتا ہوں۔
بھونما یہ منتر اسمدرا وسنے دیوی پرورتھنہ تمستھو ہیوم پدشپرسم کشماوسم۔ (یعنی بھودیوی آپ کا لباس سمندر ہے پہاڑ آپ کا سینہ ہے میں آپ کے آگے جھکتا ہوں میرے گناہوں کو معاف کردیجیے) اتنے سارے منتر اور جاپ صرف سوریہ آسن کے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی جاپ ہیں جو سوریہ آسن میں پڑھے جاتے ہیں تب کہیں جاکر سوریہ آسن کا عمل پورا ہوتا ہے۔ یوگ کے بہت سے آسن ہیں اور ہر آسن میں مختصر یا طویل جاپ ہیں تب یوگا مکمل ہوتا ہے ، اس طرح یوگا ایک مکمل مذہبی عمل اور ایک طریقہ عبادت اور بھکتی کی راہ ہے ، یوگ کی بنیاد میں کہیں بھی صحت اور حفظانِ صحت کی بات نہیں کی گئی ہے اور نہ دھارمک کتابوں میں یوگا کو صحت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ ویدک عہد سے پہلے ہی یوگ کا عمل جاری تھا اور ویدک ور میں یہ ویدک کلچر کا بھی حصہ بن گیا پرانی مورتیاں موہن جوداڑو اور ہڑپا کے نقش و نگار بھی یوگ کے شہادت دیتے ہیں اور یوگ کے ایک اہم حصہ جنسیات کے آثار بھے مورتیوں اور نقش و نگار کی شکل میں ملتے ہیں ، اس طرح برہمنی دھرم کا اثر کلچر اور تہذیب پر نمایا رہا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ یوگ برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا اہم حصہ ہے۔ آئین ہند کی رو سے حکومت ہند کا کوئی مذیب نہیں ہے اور نہ حکومت کسی مذہب یا تہذیب کی اشاعت کرسکتی ہے۔ اس لیے آئین ہند کے پیشِ نظر یوم کی سرکاری سرپرستی غلط ہے اور سرکاری تعلیم گاہوں میں رائج کرنا نصابی کتابوں میں شامل اس کے لیے ٹیچر بحال کرنا اسکی حوصلہ افزائی کے لیے حکومتی سطح پر انعامات دینا ہندوستان کے آئین کے خلاف اقدامات ہیں۔ (بحوالہ روزنامہ سالار)

Share
Share
Share