کالم : بزمِ درویش
بنتِ حوا
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
اُس نے میری طرف غور سے دیکھا کچھ دیر گہری نظروں سے تکتی رہی پھر اُس نے پٹاخہ چھو ڑ دیا جو میری سما عتوں کو چیرتا ہوا میرے دماغ میں جا کر پھٹا اور گو شت اور ہڈیوں سے بنا میرے جسم کا ڈھانچہ غصے سے تڑخنے لگا ۔ میں غصے اور بے یقینی سے اُس کی طرف دیکھنے لگا تصدیق چاہتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا کہ آپ واقعی سچ کہہ رہی ہیں ۔
میں اُس کی جرات اور بے باکی پر ششدر تھا ایسی بات کہنے کے لیے ہمالیہ جیسا حوصلہ چاہیے اور اُس نے کتنے آرام سے مجھے کہہ دیا تھا کہ وہ ’’جسم فروش ‘‘ ہے جسم بیچ کر گزارہ کر تی ہے اب اُس نے مزید بو لنا شروع کیا ‘سر میں زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کے لیے اپنا جسم بیچتی ہوں میں برائے فروخت ہوں مجھے کو ئی بھی پیسے دے کر خرید لیتا ہے حیرت اور غصہ میری رگوں میں رینگنے لگا ۔ لیکن جلدی میں نے غصے پر قابو پاتے ہو ئے کہا میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں جب کہ آپ خوبصورت اورجوان ہیں آپ کا حسن بتا رہا ہے کہ آپ کو پرستاروں گاہکوں کی کمی نہیں ہے تو مجھ فقیر تک آپ کیوں آگئیں میرا جلا کٹا جملہ سن کر اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ آنکھیں جھکا کر بو لی سر آپ مولوی نہ بنیں ‘ میں آپ کو درویش اور اللہ کا بندہ سمجھ کر آئی ہوں ‘ گنا ہ سے نفرت کریں گناہ گار سے نہیں ‘ اُس نے میرا قبلہ درست کرنے کی بھر پور اورکامیاب کو شش کی ‘ مجھے بھی جلدی اپنی حماقت اور تلخ روئیے کا شدت سے احساس ہوا ‘ میں معذرت خواہانہ لہجے میں بو لا نہیں میں آپ پر طنز یا غصہ نہیں کر رہا بلکہ پو چھ رہا ہوں کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ۔ میرے سامنے تقریبا تیس سالہ بھر پو رجوان عورت بیٹھی تھی جس کا جسم اور چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اپنا خیال رکھتی ہے ‘ سر آپ جاننا چاہیں گے کہ میں اِس جہنم میں کیوں ہوں ‘ میں شرابی کبابی اوباش درندہ صفت انسانوں کے ہا تھوں چینی کھلونا کیوں بنی ہوئی ہوں ‘ کیا میں اپنی خوشی سے اِس دھندے میں آئی ہوں یا معاشرے کی بے حسی نے مجھے اِس دلدل میں دھنسا دیا ہے ‘ سر ہمارا معاشرہ بنجر اور تھور زدہ ہوچکا ہے ہر گلی میں زینب اکیلی کھڑی مدد مدد پکار رہی ہے لیکن تمام عالم اسلام کوفہ بن چکا ہے بے حس درندے جن کو اپنی پڑی ہے ‘وحشت انسانوں کے چہروں پر برستی نظر آتی ہے ۔ آپ لوگوں کو دیکھیں جو خود سے باتیں کرتے ہیں کو ئی کسی گہری سوچ میں بیٹھا خو دسے یا آسمان سے باتیں کر رہا ہے ‘سڑک پر ایک دوسرے سے جانوروں کی طرح آگے بڑھتے ہیں ‘لوٹ مار کر کے کاٹ گزرتے ہیں ‘ بازار میں دوکاندار سے گاہک الجھ رہا ہے ‘ڈرائیور سواری سے ‘ افسر ماتحت پر برس رہا ہے ۔ طالب علم فیل ہونے پر ‘نوجوان پسند کی شادی نہ ہونے پر زہر پی رہے ہیں ۔ بچوں کی لڑائی پر روزانہ محلے پانی پت کا میدان بن جاتے ہیں حسد اور بغض کے زہروں نے ہمیں اتنا زہر آلودہ کر دیا ہے کہ ہم حسد اور بغض کے زہر سے دوسروں کو ڈنگ مار کر خوش ہو تے ہیں کسی کی ناکامی یا موت سے خوش ہوتے ہیں کہ شکر ہے یہ میں نہیں ہوں اذانیں دینے ‘تقریریں کر نے ‘استنجا خانے استعمال کرنے ‘نعتیں پڑھنے ‘رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی مدح سرائی پر دہشت گردی شروع کر دیتے ہیں گاڑی محلے میں تیزی سے گزارنے اور اونچی آواز میں گانا سننے پر قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے دوسروں کا بچہ پڑھ لکھ جائے اچھی جاب مل جائے تو ہمارے گھر ماتم کدے بن جاتے ہیں کہ میرا بچہ اُس پو سٹ پر کیوں نہیں ‘ کسی کے خاوند کو اچھی پوسٹنگ مل جائے تو ہم ڈپریشن کے ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے ہیں آپ کسی سے بات کریں ‘ شکوے شکایت کے اشتہار ابل پڑتے ہیں ‘ ہر انسان مایوسی نفرت میں غرق ہے ‘ پتہ نہیں وہ سورج کب طلوع ہو گا جو امید کی روشنی رواداری کی روشنی اور حقیقی خوشی کا نور لوگوں کو عطا کرے ‘ شدید گھٹن کے اِس ماحول میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کا سالو ں انتظار کر نا پڑتا ہے ‘ آپ اِس معاشرے کی بات کرتے ہیں جہاں زینب جیسی معصوم کلیوں کودرندے آتے اور کچلتے ہیں لیکن معاشرے کی عظیم عمارت کی ایک اینٹ بھی نہیں سر کتی ‘ اِس مردہ بانجھ معاشرے کی میں پیداوار ہوں ۔ میں پندرہ سال کی تھی تو غریب بیوہ ماں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے مزدور پلمبر سے میری شادی کر دی ‘ بیس سال کی عمر تک میں پانچ بچوں کی ماں بن چکی تھی میرا میاں مزدور تھا جس کی روزی ہوائی تھی ‘ کام مل جاتا تھا تو آٹا لے آتا ورنہ ہم سب روزہ رکھ لیتے ‘ ہم نے کبھی پیٹ بھر کر کھا نا نہ کھایا ‘ گزارہ ہورہا تھا لیکن قسمت نے ابھی اور امتحان لینے تھے ‘ میری بڑی بیٹی کو یرقان نے پکڑ لیا ابھی ہم دیسی ٹوٹکوں پر چل رہے تھے کہ بیٹا بھی پیلا ہو نا شروع ہو گیا ‘ میرا بندہ مزدوری کر تا ‘ میں پلو میں چند روپے باندھ کر علا ج کے لیے عطا ئی ڈاکٹر کے پاس دھکے کھا تی ‘ ابھی بڑے دو بچوں کی صحت واپس نہ آئی تھی کہ یکے بعد دیگرے باقی تین بچے بھی بیما ری کی لپیٹ میں آگئے اب میں سارا دن رشتہ داروں کے در پر مدد کی بھیک مانگتی یا بچوں کے سرہانے بیٹھ کر روتی رہتی ‘ اب ہما رے گھر میں چارپائیاں تین تھی اور مریض پانچ ‘ میں دن رات دعائیں مانگتی اور روتی رہتی لیکن رونا مسائل کا حل نہیں ہے اب سب سے خطرناک بم پھٹا میرا میاں بھی ہیپاٹائیٹس کا مریض بن کر لیٹ گیا ‘ اب میری بھاگ دوڑ بہت زیادہ ہو گئی تھی جس بھی در پر جاتی چند روپے ملتے جب کہ علاج کے لیے زیادہ پیسہ درکار تھا اب میں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی ‘ جاکر اپنا گردہ بیچ دیا تا کہ میرے سر کا سائیں بچ جائے لیکن میرا گردہ بھی میرے خاوند کی صحت واپس نہ لا سکا آخر قدرت نے میرے میاں کو مجھ سے چھین لیا اور میں بیس سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی ۔ پا نچ بچے اور میں اب چاروں طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ میں بے یارو مدد گار تھی اور مر دہ معا شرہ میری سننے والا نہیں تھا ۔ اب میں نے نو کر ی کی کو شش کی ‘ پڑھی لکھی نہیں تھی اِس لیے لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیا ۔ یہاں میری خو بصورتی ہی میری دشمن بن گئی میں نوکری کے لیے جاتی تو مالکن کہتی تم خو بصورت ہو مجھے اپنے خا وند پر بھروسہ نہیں کسی اور جگہ جاؤ‘ رشتہ داروں نے مجھے دیکھ کر دروازے بند کر نا شروع کر دئیے جاننے والوں نے دیکھ کر منہ پھیرنے شروع کر دئیے ۔ میں نے اِس معاشرے کو زندہ کر نے کی پو ری کو شش کی ‘ اپنی بے بسی مجبوری کے رونے روئے لیکن کسی نے بھی میری نہ سنی بلکہ مجھے کہا جاتا کہ کیوں اپنا اور ہما را وقت بر باد کر تی ہو ‘ اللہ نے تمہیں حسن کی دولت دی ہے اِس کو لٹاو اور کماؤ میں نے پوری کو شش کی کہ اِس دوزخ میں نہ جلوں لیکن جب سارے دروازے بند ہو گئے تو بچوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے اور زندگی کی سانسیں قائم رکھنے کے لیے جسم فروشی کے بارے میں سوچنا شروع کیا لیکن اِس سے پہلے میں نے ایک اور کوشش کی ‘ شادی گھروں کے باہر جا کر بیٹھ جا تی جو کھا نا بچ جاتا اُسے اپنے اوربچوں کے لیے گھر لے جا تی ‘ یہاں بھی کبھی کھانا مل جاتا کبھی دھکے دے کر بھگا دیا جاتا۔اب میں حرام حلال کی تمیز سے آزاد ہوچکی تھی ایک دن شادی ہال کے رحم دل بیرے نے مجھے کھا نا دیا جس کا پتہ مالک کو لگ گیا۔ اُس نے مُجھ پر چوری کا الزام لگا دیا کہ میں شادی ہال سے کھا نا چرا کر لے جاتی ہوں ‘میری خو ب بے عزتی کی اب جب رزق کے سارے دھندے بند ہوگئے تو میں نے خو د کو جسم فروشی کے دھندے کے حوالے کر دیا میں نے حرام کھانا شروع کر دیا کیونکہ مرتے ہوئے شخص پر حرام بھی حلال ہو جاتا ہے ۔