اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
فاروق طاہر
عیدی بازار،حیدرآباد
,09700122826
انسانی دماغ میں ایک سو ملین سے بھی زیادہ اعصابی خلیے (نیوران) پا ئے جا تے ہیں اور ہر ایک خلیہ ایک سوپر کمپیوٹر سے بھی زیادہ طاقت ور ہو تا ہے۔مشہور و معروف سائنسداں و محقق البرٹ آئنسٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے دماغ کا صرف %17.4 استعمال کیا تھا۔ جس سے اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ عام آدمی اپنے دماغ کا کتنے فیصد حصہ استعمال کرتا ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ قدرت نے ہم کو بہت ہی تیز اور بہتر عضو دماغ فراہم کیا ہے اوریہ ایک لمحہ فکر ہے کہ ہم چاہاکر بھی اس کا صحیح اور بہتر استعمال نہیں کر پاتے ہیں۔ہر انسان اپنی زندگی میں کامیابی و کامرانی کے حصول کے لئے اپنے دما غ کے بہتر استعمال کی سعی و کاوش کر تا ہے لیکن پھربھی وہ اس کو سر انجام نہیں دے پاتا کیونکہ وہ دماغ کے موثر استعمال سے لا علم ہوتا ہے۔انسان کے پا س دماغ کے موثر استعمال کے لئے کوئی مرتب طریقہ کار، رہنمایانہ اصول یا مینول بھی موجود نہیں ہے جس کی بنا پروہ دماغ کے بہتر استعمال سے قاصر ہے ۔ ایک کمپیوٹر کی خریدی ،ٹی وی حتی کہ ایک ادنیٰ کیلکیولیٹر کی خریداری پر بھی اس کے طریقہ استعمال کا کتابچہ (یوزر مینول )مہیا کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ہم کسی دقت اور مشکل کے بغیر ان سے بہتر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ ہم نے اپنے دماغ کے بہتر اور موثر استعمال کے لئے کوئی مینول یا یوزر گائیڈ مرتب نہیں کی ہے۔ سالہا سال کی کو ششوں کے بعد ماہرین نے دماغ کے بہتر استعمال کے لئے موثر حکمت عملیاں اور مفید مشورے وضع کیئے ہیں جن کی روشنی میں ہم اپنی دماغی صلاحیتوں کو پر وان چڑھا سکتے ہیں لیکن ہم اپنی بے بضاعتی اور لاعلمی کی وجہ سے ان تک رسائی سے محروم ہیں یا پھر ان سے بھر پور فا ئدہ اٹھا نہیں پا رہے ہیں۔دماغی قوت کی تسخیر کے لئے لازم ہے کہ ہم خود کو ذہنی تحدیدات و ذہنی غلامی سے آزادکر یں ۔ہم ذہنی تحدیدات کو جب تکختم نہیں کریں گے یہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر راستے پر ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جائیں گے اور نا کامی اور نامرادی ہمارا مقدر بن جا ئے گی۔
پر وفیسروحید الدین سلیم جا معہ عثمانیہ کے شعبہ اردو کے اولین صدرتھے آپ کی علمی اور ادبی خدمات سے کو ئی سر مو ئے انحراف نہیں کر سکتا آپ نہ صرف ایک بہترین استاد نقاد ادیب تھے بلکہ تعلیم و تعلم میں بھی آپ ید طولی کے حامل تھے اپنے ایک مضمون "چڑیا گھر کا ہاتھی” کے ذریعے آپ نے ذہنی غلامی و ذ ہنی تحدیدات پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ اس مضمون میں جر منی کے چڑیا گھر کے ایک ایسے ہاتھی کا واقع بیان کیا گیا ہے جو اپنی وحشت اور ہیبت نا ک حرکا ت کے لئے شہرت پا چکا تھا۔ انسانوں کو روندنا ، مار ڈالنا اس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا اس ہا تھی نے کئی فیل بانوں کو اپنے پیرؤں تلے روند ڈالا تھا۔ متعدد واردات کے وقوع پذیر ہونے پر چڑیا گھر کے کیوریٹر (ناظم ) نے ہاتھی کو زنجیروں میں جکڑ نے کا حکم صادرکیا ۔ہاتھی کو زنجیروں میں جکڑے ہو ئے زما نہ گزرگیا کئی کیوریٹر آئے اور چلے گئے لیکن ہا تھی اسی طرح زنجیروں میں جکڑا رہا ۔ایک اورکیوریٹر کی جب اسی چڑیا گھر میں تعیناتی عمل میں آئی تو وہ حیران ہو ا کہ ایک بے زبان جانور کو زنجیروں میں با ندھ کرظلم کیا جا رہا ہے۔ اس نے ماجرا دریافت کیا اور تمام حالات سے واقف ہو نے کے بعد ہا تھی کو زنجیروں سے آزاد کر نے کا حکم دیا ۔کیوریٹر کے حکم سے سراسمیگی پھیل گئی اور سبھی نے کیوریٹر کے فیصلے کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ اس کی بر بریت اور درندگی سے واقف نہیں ہے یہ بہت ہی خطرناک جا نور ہے۔لیکن کیوریٹر بضد تھا کہ ہا تھی کو زنجیروں سے آزاد کر دیا جا ئے ۔ملازمین کی لاکھ مخالفت کے باوجو د ہا تھی کو آزاد کر دیا گیا ۔لوگ حیران واچنبھے میں رہ گئے کہ ہا تھی زنجیروں سے رہا ئی پا نے کے با وجود بھی اپنی جگہ پر ساکت و جا مد کھڑا تھا ۔ہا تھی جسمانی غلامی سہتے سہتے ذہنی غلامی کا شکار ہوچکا تھا جس کی بناء پر آزادی حاصل ہونے کے با وجو د وہ آزاد ی کے فیوض و برکا ت سے مستفید ہو نے سے قا صر تھا۔
انسان کی زندگی پر اس کی فکر کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس کی زندگی ،حال و مستقبل کا بھی دارو مدار اس کی سوچ پرمنحصر ہو تا ہے۔ منفی سوچ جب انسانی ذہن میں جگہ بناتی ہے تونہ صرف یہ اس کے ذہن کو آلودہ کر تی ہے بلکہ اس کی زندگی اور مستقبل کے لئے بھی زہر قاتل بن جاتی ہے۔ محققین نے ہا تھی کے بچے کو ابتدائی عمر میں ایک کمزور رسی کے ذریعہ ایک کر سی کے پا ئے سے با ندھ کر ثابت کر دیا کہ کس طرح سے ذہنی تحدید تر قی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑا کر دیتی ہیں۔ ایک عرصے تک ہاتھی کے بچے کے گلے میں رسی ڈال کر ایک کر سی کے پا ئے کو باندھا گیا۔ وقت کے گزر نے کے سا تھ ساتھ اس کا جسم فربہ اور قوی ہوتا گیا اب رسی کی مضبوطی اس کی طاقت کے آگے کو ئی حیثیت کی حامل نہیں تھی لیکن وہ ایک عرصے تک کمزور رسی اور کھوٹے سے بندھا رہنے کی وجہ سے ذہنی انحطاط کا شکار ہوچکاتھا اور طاقت و توانائی کے حصول کے باوجود بھی ایک حقیر کمزور رسی کے پھندے سے خود کو نجات نہیں دلا پایا۔ بالکل اسی طر ح انسان اپنی فر سودہ روایات کی بناء پر قدرت کی طاقتوں کو مسخر کر نے میں نا کام ہو جاتا ہے۔دماغی قوتو ں کی تسخیر کے لئے لازمی ہے کہ انسان پہلے ذہنی تحدیدات اور غلامی سے آزادی حاصل کر ے اور جب تک و ہ مفروضہ تحدیدات کوفنا نہیں کردیتا کامیابی اور ترقی کا حصول اس کے لئے تقریبا نا ممکن ہی ہوتا ہے۔ ذہنی تحدیدات انسان کی زندگی میں ہر موڑ پر اور ہر راستے میں ایک نا قابل عبور رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جا تی ہیں ۔کامیابی کاحصول ذہنی تحدیدات سے آزادی حا صل کیئے بغیر ممکن نہیں ہے۔مثبت فکر ،تخلیقی افکار انسان کو کا میا بیوں کی سمت گامزن کر تے ہیں منفی سوچ انسان میں پائی جا نی والی طاقت کو تباہ و برباد کردیتی ہیں۔تعلیمی اداروں سے وابسطہ حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی ذہنی تر بیت کا سامان بھی فراہم کریں تا کہ مثبت سوچ اور صحت مند نظریا ت کے حا مل شہریوں کی تیاری کو یقینی بنایا جائے ۔مدارس اور جا معات کا مقصد صرف تعلیم یافتہ افراد کی فراہمی ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک ایسی نسل یا کھیپ کی تیاری کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہو تی ہے جو کہ ایک صحت مند ترقی یا فتہ انسان دوست معاشرے کی تشکیل میں اپنا عملی تعاون پیش کر سکے۔
محققین نے ذہنی تحدیدات کو کامیابی کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مانا ہے طلبہ کو اگر ذہنی و فکری تحدیدات عائد کرنے والی زہر آلود فضا سے محفوظ کیا جا ئے تو وہ ہر مشکل اور نا ممکن کام کو نہ صرف ممکن بلکہ سہل بھی بنا دیں گے۔ سائنسی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ذہنی تربیت و نشو ونما جس طور پر کی جائے گی انسان بالکل اسی تربیت کے زیر اثر اپنی باقی ماندہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ذہنی غلامی یا فکری تحدیدات کس طرح کامیابی کے حصول میں مانع ہوتی ہے یہ بات مچھلیوں پر کئے گئے سائنسی تجربات کی روشنی میں مزید واضح ہو جاتی ہے۔ایک پانی سے بھرے برتن(Vessel ) میں دو مچھلیوں کو داخل کر نے پر مچھلیاں برتن میں آزادی سے تیرنے لگیں ۔کچھ وقفہ کے بعد دونوں مچھلیوں کو برتن کے بیچوں بیچ ایک کانچ کے ٹکڑے کو حائل کرتے ہوئے جدا کر دیا گیا ۔دونو ں مچھلیوں کے درمیان کا نچ کا ٹکڑا اب ایک حد فاصل کا کام انجام دے رہا تھا۔کچھ دیر تو مچھلیاں تیرتی ہوئی کا نچ کے ٹکڑے سے ٹکراتی اور اپنی سمت کو بدلتیں رہیں لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھا گیا کہ وہ رکاوٹ کی جگہ سے پہلے ہی اپنی سمت کو بدلنے لگیں کیونکہ اب ان میں حائل شدہ رکاوٹ کا خیال پیوست ہوچکا تھا اور وہ رکاوٹ سے ٹکرا کر خود کو گزند پہنچانا نہیں چاہتی تھیں۔چند گھنٹوں بعد جب ان کے درمیان سے رکا وٹ کوہٹا دیا گیا تو ایک حیرت انگیز حقیقت دیکھنے میں آئی کہ مچھلیا ں رکا وٹ کے موجود نہ ہو نے پر بھی رکاوٹ کے مقام سے پہلے ہی اپنی سمت کو بدل رہی تھیں۔ ذہنی تحدیدات انسان میں مزید پیش رفت،اور کامیابی و کامرانی کے امکانا ت کو موہوم کر دیتی ہیں۔اس خامی سے ہم کو عہدہ برا ہونے کے لئے اختراعی انداز فکر ،تخلیقی صلاحیتوں اور مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔اختراعی انداز فکر ،تخلیقی صلاحیت اور مثبت سوچ کی بناء گھر پرپڑتی ہے اس فکر کو پروان چڑھانے میں والدین ،افراد خاندان،اساتذہ اور تعلیمی نصاب اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ تعلیمی نصاب اور اساتذہ ان صلاحیتوں کے پروان چڑھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وضع کردہ تعلیمی مقاصد کا حصول نہ صرف غیر ممکن ہو جاتا ہے بلکہ تعلیم بھی محض ایک تما شے کے علا وہ کچھ نہیں رہتی۔
تعلیم کی موجودہ صورتحال اور تعلیمی اداروں کے سر براہوں پر نظر ڈالی جا ئے تو ملک و قوم کا مستقبل تا ریک اور خطرنا ک معلوم ہو تا ہے۔دانش کدوں سے جہالت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں علم کا نا م ورق گردانی اور حروف شناسی بن کر رہ گیاہے۔تعلیمی پالیسیوں میں جھول او ر نصاب تعلیم کی سماج سے عدم مطابقت کی بناء پر ملک پسماندگی کا شکار ہوچکا ہے۔تعلیم کا مقصد ذہن و نظر کووسعت عطا کرنا ہوتا ہے ۔تعلیم امنگ ،ذوق و جستجو پیدا کر نے کا نام ہے ۔تعلیم مشکل حالات کا نہ صرف سامنا پیدا کرنے کا حوصلہ پیدا کر تی ہے بلکہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا در س بھی دیتی ہے۔تعلیم تقدیر پر تکیہ نہیں کر تی بلکہ اپنا مقدر خود چمکانے کاسبق دیتی ہے۔ پہلے سے ہی کسی کام کو نا ممکن سمجھ لیا جا ئے تو اس کو تکمیل تک پہنچا نا بھی نا ممکن ہو جا تا ہے۔ایک طالب علم جس کی ریاضی میں لیاقت قا بل تر س تھی اور مضمون کو نہ سمجھ پا نے کے سبب وہ دوران درس اکثر سوجایا کرتا تھا۔ایک روز استاد نے اسے سخت انتباہ دیا کہ وہ درس کے دوران سوجا نے کی عادت ترک کردے اور اسے آج جو ریاضی کا ہوم ورک دیا جا رہا ہے اسے کسی بھی طور پر مکمل کر کے لائیں ورنہ انجام کے لئے خود کو تیار رکھے۔طالب علم کوشش کر تا رہا کہ کسی طرح مضمون کوسمجھ سکے لیکن ناکامی کے با عث وہ پھر سے دوران در س سو گیا۔جب وہ بیدار ہو ا تو دیکھتا ہے کہ تمام ہم جماعت جا چکے ہیں اور بورڈ پر ہوم ورک کا سوال لکھا ہوا ہے ۔اس نے با دل نخواستہ کاپی میں سوال کو نقل کیا اور گھر روانہ ہو گیا۔استا د کی ڈانٹ اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ جماعت میں شرمندگی سے بچنے کے لئے ہوم ورک میں دیئے گئے سوال کو حل کر نے کی کوشش کر نے لگا۔ کئی گھنٹوں کی لگاتار کوشش کے بعد اس نے وہ سوال حل کر لیا ۔دوسرے روز جب اس نے جواب ، استاد کو دکھایا تو استاد کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ لڑکے نے ایسے الجبراء کے سوال کو حل کر دیا تھا جسے آج تک ریاضی کے ماہرین بھی حل نہیں کر پائے تھے۔
تمام جماعت کے طلبہ کی سوال کو حل کرنے میں ناکامی اور ایک کند ذہن و سست طا لب علم کے سوال کو حل کرنے میں کامیابی کا سبب کیا تھا ۔استاد نے بورڈ پر سوال کو تحریر کرتے وقت طلبہ کو بتایا تھا کہ یہ بہت ہی مشکل سوال ہے جسے آج تک ماہرین ریا ضی بھی حل نہیں کر پائے ہیں ۔استاد جب سوال کے مشکل ہونے کی حوصلہ شکن تقریر طلبہ کے سامنے کر رہا تھا تب یہ سست و کند طالب علم نیند میں تھا اور یہ الفاظ اس تک نہیں پہنچ پائے تھے۔جماعت کے دیگر طلبہ پہلے ہی سے ذہنی تحدید کا شکار ہو چکے تھے اور ہمت ہار چکے تھے وہ بھلا کیسے ایک ایسے سوال کو حل کر سکیں گے جسے ماہرین ریا ضی بھی آج تک حل نہیں کر پا ئے ہیں۔لیکن جماعت میں سوجانے والے طالب علم کو سوال کی مشکل اور دقت کا قطعی علم نہیں تھا اور وہ ذہنی تحدید کا بھی شکا ر نہیں تھا جس کی وجہ سے اس نے ایک ایسا کارنا مہ انجام دیا جس کوماہرین علم ریا ضی بھی انجام نہیں دے سکے۔اگر پہلے ہی سے کوئی فر د ذہنی تحدید کا شکا ر ہو جا ئے تو یہ با ت یقینی ہے کہ اس کا مظاہرہ نہایت ہی ابتر ہو گا ۔ذہنی تحدید انسان کو احساس کمتر ی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ ذہنی تحدید(Mental barier) انسان سے اس کا اعتماد اور یقین چھین لیتی ہے۔تعلیمی تحریک سے جوڑے ہر فرد اساتذہ،کونسلرس،مدارس،کالجس،جامعات اور تعلیمی ادارجات کے ذمہ داران و ایڈمنسٹریٹرس کو چاہیئے کہ وہ طلبہ کی تربیت اس طر یقے سے انجام دیں کہ وہ کسی بھی طرح کی ذہنی تحدید کا شکار نہ ہو نے پائیں۔اگر ذہنی ترقی و نشونماکے زمانے میں طلبہ کسی تحدید ی فکر کے تا بع ہوجا تے ہیں تو آئیندہ بھی ان کا مستقبل معذور و مجروح ہو گا۔تعلیمی میدان میں درس و تدریس کی اہمیت سے کو ئی انکار نہیں کر سکتا ، لیکن یہ بھی ایک نا قابل تر دید حقیقت ہے کہ درس و تدریس بغیر ترغیب و تحریک کے ناکارہ و بے سود ہو جاتی ہے۔طلبہ کی اس طرح سے تربیت کی جائے کہ وہ اپنے دماغ کو کما حقہ استعمال میں لائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ طلبہ میں دائرے سے باہر (خول سے باہر )جھانکنے کی روایات کو فروغ دیں۔اخترع و تخلیق کسی بھی زمرے میں کامیابی کی کلید ہوتی ہے اور اختراع و تخلیق سے آراستہ کر نے کے لئے آدمی کو ذہنی غلامی و ذہنی تحدیدات سے خود کو آزاد کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے،ضمیرکن فکاں ہے زندگی