ڈاکٹر حلیمہ فردوس
بچوں کی ایک اہم ادیبہ
ڈاکٹر سیّداسرارالحق سبیلی
09346651710
بچوں کے ادب میں خواتین قلم کاروں کی صد سالہ تاریخ ہے،خواجہ حسن نظامی دہلوی کی اہلیہ محترمہ خواجہ لیلےٰ بانو نے۱۹۱۹ ء سب سے پہلے ’’بچوں کی کہانیاں ‘‘ لکھ کر بچوں کے ادب میں خاتونِ اوّل کا مقام حاصل کیا ہے،اس کے بعدحجاب امتیاز علی تاج،صالحہ عابد حسین،بیگم قدسیہ زیدی،رضیہ سجّاد ظہیر،عصمت چغتائی،قرّۃ العین حیدر،عفّت موہانی،شفیقہ فرحت،اشرف صبوحی،ثریّا فرّخ،مسعودہ حیات،اے۔ آر۔خاتون،عطیہ پروین،واجدہ تبسّم،جیلانی بانو،رفیعہ منظورالامین،عابدہ محبوب اور سیّدہ اعجازوغیرہ نے بچوں کے ادب کے گیسو کو تابدار بنانے میں اہم حصّہ ادا کیا ہے۔
حالیہ عرصہ میں بچوں کی قلم کار خواتین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے،ان میں کشور ناہید،عقیلہ بانو،نور جہاں نور،ڈاکٹر بانو سرتاج،مہر رحمٰن،زینب نقوی،شہناز نبی،طیّبہ بیگم،ڈاکٹر عالیہ خان،شاکرہ بیگم،ڈاکٹر فوزیہ چودھری،شاہواربیگم،ڈاکٹرصادقہ نواب سحر اور ڈاکٹرحلیمہ فردوس کی خدمات نہایت وقیع اور ناقابلِ فراموش ہیں،آج ہم بچوں کی ایک اہم ادیبہ ڈاکٹر حلیمہ فردوس کی بچوں کے ادب کے تئیں خدمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
بنگلور سے تعلّق رکھنے والی ڈاکٹر حلیمہ فردوس ریاست کرناٹک میں اپنی ایک ادبی شناخت رکھتی ہیں،بڑوں کے لئے انہوں نے تحقیقی وتنقیدی مضامین اور انشائیے لکھ کر اپنی پہچان بنائی ہے،ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ:’’ ارج‘‘ اور انشائیوں کے مجموعے: ’’ ماشاء اللہ ‘‘ اور ’’بہرکیف‘‘ شائع ہو کر اہلِ علم وادب سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر حلیمہ فردوس پوری عمرِ رفتہ درس وتدریس سے وابستہ رہی ہیں،اور نصابی کتب کی تشکیل وتدوین میں حصّہ لیتی رہی ہیں،اس موقع پر انہوں نے محسوس کیا کہ اردو میں لسانی کھیلوں سے متعلّق کتابیں ناپید ہیں،انہوں نے اپنے اختراعی ذہن سے لسانی کھیلوں پر مشتمل کتاب : ’’ الفاظ کی دنیا ‘‘ ترتیب دی ہے،جس سے اردو زبان وادب کی تدریس کا ایک نیا باب کھلا ہے،جو انوکھا بھی ہے اور اچھوتا بھی،اس میں ذہنی ورزش بھی ہے اور ذہنی تفریح بھی،پروفیسر لئیق صلاح کے بقول: ’’اس طرح کی ذہنی مشقیں،مستقبل کی قلم فرسائیوں کے لئے بنیاد کا کام کرتی ہیں،پروفیسر خالد سعید کا خیال ہے کہ:’’الفاظ کی دنیا ‘‘ میں دقیق نظری کے ساتھ لسانی رموز کو کھیلوں میں پیش کیا گیا ہے،جس کے سبب زبان کی تدریس نہایت آسان ہو گئی ہے۔‘‘
تعلیم وتدریس سے متعلّق ڈاکٹر فردوس کی دوسری کتاب :’’تعلیم وتدریس کے نئے تناظر ‘‘ہے،جس میں تعلیم و تعلّم سے متعلّق فنّی گفتگو کی گئی ہے، اور اس میں اسکول ،کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر اردو کی تدریس ،نصاب کی تکمیل،طلبہ کی شخصیت کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار،معلّم کی خصوصیات،لڑکیوں کو خود کفیل بنانے والے ادارے اور اساتذہ کی ذمّہ داریاں اور ادبِ اطفال کے تئیں منفی رویّہ پرسیرِ حاصل بحث کی گئی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مصنّفہ کو تدریسی رموز پر اچھی مہارت حاصل ہے ،اور وہ ایک کامیاب،ایمان دار،مخلص،ہم درد اور بابصیرت معلّمہ ہیں،جنہوں نے اپنے پیشے اور فن سے محبّت،لگاؤ اور انصاف کا ثبوت دیا ہے۔
بچّوں سے محبّت کا دوسرا پہلو بچّوں کے لئے ان کی کہانیوں ،ڈراموں اور مضامین کا مجموعہ: ’’بچّوں کی دھنک رنگ دنیا ‘‘ ہے،جو ۲۰۱۶ ء میں چھپ کر منظرِعام پر آیا ہے۔ ڈ اکٹر حلیمہ فردوس صاحبہ نے لسانی کھیلوں کی طرح ایک نئے تکنیکی انداز میں بچّوں کے لئے کہانیاں ترتیب دی ہیں،جن میں بچّوں کی دل چسپی،تفریحِ طبع،شوخی،شرارت،ظرافت اور طنز ومزاح کا بھرپوررکھا گیا ہے،بظاہر ان کی کہانیاں تفریحی نظر آتی ہیں،لیکن ان کے جلو سے تربیتِ اخلاق،انسانی ہم دردی،جانوروں سے محبّت،خدمتِ خلق،ایمان داری،محنت،صبر،اتّحاد،حبِّ وطنی،قومی یک جہتی جیسی اعلیٰ اقدار پر مشتمل بیانات کے علاوہ جدید ٹکنالوجی اور عصری معلومات کے ساتھ،ماحولیّات کا تحفّظ اور شجر کاری جیسے موضوعات مترشّح ہوتے ہیں ،اور بچّوں کو دعوتِ غوروفکروعمل دیتے ہیں۔
’’بچّوں کی دھنک رنگ دنیا‘‘ میں چار مضامین ،دو ڈرامے اورچودہ کہانیاں ہیں، ’’طاقتِ پرواز ‘‘ ،’’پیسے اگلتی مشین‘‘ ، ’’کوہِ پیمائی کا جنون‘‘اور ’’کلام کو سلام‘‘ کا تعلّق مضامین سے ہے،طاقتِ پرواز مس مالتی ہولّا پر لکھی سوانحی کتاب ہے،جس کے مصنّف اننت کرشنا ہیں،مس مالتی ایک معذور لڑکی تھی،جو پولیو کا شکار ہو گئی،اس کے جسم کا نچلا حصّہ بالکل بے کار ہو گیا تھا،اس کے ۳۴ آپریشن ہوئے،لیکن اس نے تعلیم جا ری رکھی، آپریشن سنٹر میں اسے خود اعتمادی کا درس دیا جاتا،اور اپنا کام خود کرنے کی ترغیب دی جاتی،علاج کے طور پر اسے روزانہ وھیل چیر ڈھکیلتے ہوئے آدھا کیلو میٹر طے کرنا پڑتا تھا،اور کاندھوں کو مضبوط کرنے کے لئے شاٹ پٹ کی مشق کرائی جاتی تھی،اسی مشق نے اس کے ارادے مضبوط کئے اور وہ ہر سال ماہ دسمبر میں عالمی یومِ معذورین کے موقع پر شاٹ پٹ کے مقابلہ میں حصّہ لینے لگیں،انہیں انعامات ملنے لگے،جس کے نتیجہ میں انہیں بینک کی ملازمت مل گئی،سال ۱۹۹۶ء انہیں ارجن ایوارڈاور ۲۰۰۱ء میں پدم شری ایوارڈ سے نوازاگیا،’’کوہِ پیمائی کا جنون‘‘خاتون کوہ پیماؤں سے متعلّق مضمون ہے،جیسے:بیچندری لال،ریٹاگامبو،ریکھاشرما،کلپناداس،جنہوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کردنیا کی بلند ترین ایورسٹ کی چوٹی سرکرکے وہاں اپنے ملک کا پرچم لہرائے ہیں۔
’’کلام کو سلام‘‘بابائے میزائیل اورسابق عوامی صدرجمہوریہ ابوالفاخرزین العابدین عبدالکلام کی جدّوجہد،ریاضت،ایمان داری،رحم دلی اور سادگی پر مشتمل دل چسپ خاکہ ہے۔
’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ اور ’’انمول تحفہ‘‘ ڈرامے ہیں،دونوں ڈرامے بچّے آسانی سے اسٹیج کر سکتے ہیں،پہلے ڈرامہ میں ایکتا کا درس ہے،اس میں ایک فرض شناس اور ہم درد استاد رام ناتھ کا کردار اہم ہے،جس کے رگ رگ میں دیش پریم بسا ہوا ہے،جو اپنے شاگردوں کو بھی دیش سے پریم کا درس دیتے ہیں،انہوں نے اپنے مرنے کے بعد اپنے اعضاء کا عطیہ کر دیاہے،ان کے مر نے کے بعد ان کا قلب سرجری کرکے فرقہ پرست سیاست داں دین دیال کے جسم میں ڈال دیاجاتاہے،تو وہ بھی رام ناتھ کی زبان بولنے لگتا ہے،اور اپنے حمایتی کو نفرت کے بجائے محبت کا پاٹھ پڑھانے لگتا ہے،پریس کے نمائندوں کو حیرت ہوتی ہے کہ دین دیال میں اچانک یہ تبدیلی کیسے ہو گئی ہے،ان کی آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہی ہیں،کل کے دشمن آج کے دوست کیسے بن گئے؟اوردیش کے سولہ کروڑمسلم بھائیوں کو وطن سے باہر کرنے کی سوچ کو غلط بتارہے ہیں ؟مجمع سے ایک جوان جواب دیتا ہے:یہ سب ہمارے ماسٹررام ناتھ جی کے دل کا کرشمہ ہے،ماسٹر جی کے دل کی پیوند کاری سے دین دیال جی بڑے دیالو بن گئے ہیں،ان کے سینے میں بھارت واسیوں کی محبّت کا دریا بہہ رہاہے،آج یہ منظر دیکھ کر ہمارے ماسٹر جی کی روح بہت خوش ہو رہی ہو گی،کاش ہمارے سارے ہی نیتا بھید بھاؤ کو بھول کراسی طرح گلے لگ جائیں توہماری دھرتی سورگ بن جائے گی۔
دوسرا ڈرامہ:’’انمول تحفہ ‘‘میں گرما کی تعطیلات میں بچوں کی شرارت،کھیل،تفریح اور ہنگامے کے بعد اسکول کھلنے کا دن آجاتا ہے،
بچے اپنااپنا بیگ سنبھالے خوشی خوشی اسکول جاتے ہیں،آج انہیں پرانے دوستوں سے مل کر خوب باتیں کرنے کا موقع ملا ہے،بچے اسکول کے گراؤنڈ میں رکھے پودوں کو دیکھ کر حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ،اتنے میں اسمبلی شروع ہو جاتی ہے،پرنسپل صاحب تقریر فرماتے ہیں:پیارے بچو!آج یومِ ماحولیات ہے،ماحول کا تحفّظ ہماری ذمّہ داری ہے،جس طرح تمہارے ہنستے چہروں کو دیکھ کر ہمارا دل کھل اٹھتا ہے،اسی طرح ایک چھوٹے پودے کو پیڑ بنتے دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے،جیسا کہ تم سب جانتے ہو کہ ہمارے شہر کی سڑکوں پر جدھر نگاہ دوڑاؤ بس گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں،ان کی آوازوں اور ان سے اٹھنے والے دھوئیں کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم پودے لگا کر اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں،درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں بدلنے والی فیاکٹری ہیں،تمہیں یہ سن کر تعجّب ہوگا کہ بعض درختوں میں شور کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے،بچے پرنسپل صاحب کی دل نشیں تقریر سے متاثّر ہو کر اسکول کے میدان میں پودے لگاتے ہیں،انہیں پانی دیتے ہیں،پرنسپل بچوں کو گھر میں لگانے کے لئے ایک ایک پودا تحفے میں دیتے ہیں،بچے گھر پہنچ کر اپنے والدین سے کہتے ہیں:آج ہمیں اسکول سے ایک انمول تحفہ ملا ہے،ہم اس انمول تحفے کی حفاظت کریں گے،ہم اپنا ماحول بچائیں گے،آئیے اب ہم اپنے گھر کے سامنے اس پودے کو لگائیں گے۔
اس طرح مصنّفہ نے ڈرامہ اور تفریح کے پیرایہ میں بچوں کو ماحولیاتی مطالعہ Environmental Educationکا دل چسپ سبق پڑھایا ہے،اس کی اہمیت کو ان کے دلوں میں اجاگر کرایا ہے،اور عملی مشق کراکے انہیں ایک ذمّہ دار شہری کی طرح جینا سکھایا ہے۔
چودہ کہانیوں میں:گھونگے میاں کی شرارت اور ببّن میاں کے کارنامے خا لص مزاحیہ اور تفریحی کہانیاں ہیں،لوٹ کے بدّھو گھر کو آیا مزاح آمیز کہانی ہے،ہیلو بی بندریا! مزاح،تفریح،اور معلومات کا مجموعہ ہے،’’روبی کا پومی‘‘روبوٹ سے متعلق دل چسپ ومفید معلومات کہانی کے انداز میں پیش کی گئی ہے،۰۰۰۰کی گزارش میں ربر کی اہمیت کو دل چسپ کہانی کی شکل دی گئی ہے،اسی طرح کہانی :’’میری سہیلی‘‘یعنی کتاب پر مضمون کو کمالِ فن کے ساتھ کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے،’’فر ماں بردار چھتری‘‘بھی ایک تمثیلی کہانی ہے۔
’’تتلی اڑی‘‘فنتاسی کہانی ہے،جس میں سماجی برائیاں اور فضائی آلودگی کو بڑے سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے،’’رانی اور رام سنگھ‘‘جانوروں سے محبّت کی ایک اہم کہانی ہے،’’مس روزی‘‘بچوں کی ہم درد اور شفیق ایک ٹیچر کی کہانی ہے،جنھوں نے اپنے پیار بھرے اندازاور بچوں کی نفسیات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے بچوں کی اصلاح و تربیت اور بچوں میں اتّحاد ومحبّت اور مل جل کر کام کرنے کی عمدہ مثال قائم کی ہے۔
’’محبت کا صلہ‘‘رحیم چاچا کی محبت،ہم دردی،صبر،محنت اور وفاداری کے صلہ میں ملی درد بھری کہانی ہے،بیوی کی جدائی،بیٹے کی خود غرضی وبے مروّتی،مالکن بیگم ناہید کی ناقدری اور بد گمانی نے کہانی کو نہایت المیہ بنا دیا ہے۔
’’دعاؤں کا تمغہ‘‘ ایک اہم کہانی ہے،اس کہانی میں دانش اور نازش کی امّی کا کردار بہت اہم ہے،نازش کو ہمیشہ کھیل کے مقابلوں میں تمغے حاصل ہوئے،وہ اپنے والدین اور دوستوں کے سامنے اپنے جیتے ہوئے میڈلس کی نہ صرف نمائش کرتا،بلکہ بڑے بھائی دانش کی کھِلّی بھی اڑاتاتھا،اس کے والد نازش کی پیٹھ ٹھوک کر کہتے:میرا بیٹا تو مجھ پر گیا ہے،دیکھنا یہ بڑا ہو کر کھیل کی دنیا میں بڑا نام کمائے گا، بڑے بڑے انعامات و اعزازات حاصل کرے گا،بابا کے تعریفی کلمات سن کر نازش کا سینہ فخر سے پھول جاتااور بے چارا دانش اپنا سا منھ لے کر رہ جاتا،مگر اس کی ممی ہمیشہ اسے تسلّی دیتیں اور ہمّت بندھاتے ہوئے کہتیں :بیٹا،اللہ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے،تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو،جس طرح تم اپنی کلاس میں اوّل آتے ہو،رینک حاصل کرتے ہو،یہ سب نازش کی قسمت میں کہاں،تم دیکھنا ایک دن آئے گا جب ہر طرف تمہارے نام کے چرچے ہوں گے،تمہارے سینے پر کئی تمغے سجے ہوں گے۔
چنان چہ وہ دن بھی آیا کہ ایک طرف نازش میٹرک کے امتحان میں فیل ہو گیا،اور کسی طرح فوج میں بھرتی ہو گیا،دوسری طرف دانش نے اسکول کی پڑھائی ختم کرکے کالج میں قدم رکھا،امتیازی نمبرات سے کامیاب ہونے کا اس کا ریکارڈ برقرار رہااور وہ ڈگری حاصل کرکے ایماندار پولیس آفیسر بن گیا،اس نے اپنی ایمانداری اور دیانت داری سے علاقوں کے مظلوم افراد کی داد رسی کی،علاقے کے سارے لوگ دانش کے قصیدے پڑھنے لگے،ہر طرف دانش کی ایمان داری اور فرض شناسی کے چرچے ہونے لگے،چھبیس جنوری کے دن اسے حکومت کی جانب سے اس کی ایمانداری اور فرض شناسی پر انعام سے نوازاگیا،جیسے ہی وہ اعزاز حاصل کرکے اسٹیج سے نیچے اترا،تھورے ہی فاصلہ پر اس کا چھوتا بھائی نازش اورممی کو دیکھ کر حیران ہو گیا،نازش اس سے لپٹ کر کہنے لگا:بھائی جان! آج آپ جیت گئے اور میں ہار گیا،بچپن مین جو تمغے میں نے حاصل کئے تھے آج وہ بے وقعت ہیں،ان تمغوں نے مجھے بگاڑ دیا،جب کہ آپ کا یہ تمغہ آپ کی کامیاب زندگی کا اعلان ہے،آپ کو یہ اعزاز بہت بہت مبارک ہو۔
غرض ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے ایک نئے اور منفرد انداز میں بچوں کو کہانیوں سے متعارف کرایا ہے،انہوں نے اصلاحی،تربیتی اور معلوماتی مواد کوکہانی کے فن اور سانچے میں ڈھال کر بچوں کے لئے دل چسپ اور پر کشش بنا دیا ہے،اور بچوں کے ادب کی تاریخ میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے،ڈاکٹر حلیمہ فردوس بچوں کی کہانیوں ،ڈرامے اور مضامین میں اپنے منفرد،اختراعی و تکنیکی اندازو اسلوب کی بدولت بچوں کے ادب میں مدّتوں یاد رکھی جائیں گی۔
——
ڈاکٹر سیّداسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسروصدرشعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج
سدّی پیٹ ۔۵۰۲۱۰۳ تلنگانہ