کالم – بزمِ درویش : روحانی ڈرامہ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
روحانی ڈرامہ

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

باباجی کے چہرے پر پھیلی فاتحانہ مسکراہٹ کا رنگ اور بھی گہرا ہو گیا تھا بلکہ اب مسکراہٹ فاتحانہ قہقہوں میں بدل گئی تھی ‘اب باباجی نے متکبرانہ قہقہے لگانے شروع کر دئیے تھے ‘اب باباجی نے چاروں طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھنا شروع کیا ۔ کمرہ بابا جی کے مریدین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا یہ واقعہ میرے تلاش حق کے ابتدائی دنوں کا ہے

مجھے جہاں بھی کسی صاحب کرامت یا روحانی بابے کاپتہ چلتا تو میں دیوانہ وار وہاں چلا جاتا ۔ مجھے میرے دوست نے کہا کہ فلاں شہر سے مشہور و معروف گدی وسجادہ نشین آئے ہیں کیونکہ آپ کو روحانی بابوں سے ملنے کا بہت شوق ہے اس لیے اگر آپ اپنی روحانی تشنگی بجھانا چاہتے ہیں تو آپ بھی آجائیں جب ہم اُس گھر پہنچے جہاں پر بابا جی جلو ہ افروز تھے تو ہال نما کمرہ پہلے سے ہی بابا جی کے دیوانوں سے بھرا ہوا تھا میں اور میرا دوست بھی ایک کو نے میں لگ کر کھڑے ہو گئے ‘ بابا جی زرین نقش و نگار سے مزین شاہی کر سی پر جلو ہ افروزتھے ‘ اب باری باری مرید جا تے جا کر بابا جی کے قدموں یا گھٹنوں کو چھوتے چومتے بابا جی اُن کی کمر پر ہاتھ پھیرتے دعا دیتے مرید اپنا دامن نام نہاد روحانیت سے بھر کر آگے بڑھ جاتے‘ بابا جی نے سنہری کڑھائی والا عبا یا ‘ سنہرا چولا نما لباس پہنا ہواتھا سر پر مہنگی خو بصورت تاج نما ٹو پی ‘ گلے میں بڑے بڑے قیمتی منکوں کا ہا ر ‘ ہاتھوں میں سونے چاندی کی قیمتی نگینوں سے سجی انگوٹھیاں ‘ کلائی پر مہنگی ترین گھڑی ‘ سونے چاندی کے منکوں سے بنی مہنگی ترین تسبیح ‘ عطریات سے لُتھر ے ہو ئے کپڑے ‘ سنہری تاروں سے بنا ہوا کھُسہ اُن کے پا ؤں میں تھا ‘ بابا جی سر سے پاؤں تک رنگ و نور اور خوشبو میں مہکے ہو ئے بیٹھے تھے چہرے پر سفید داڑھی نے نو رانی حسن کو چار چاند لگا رکھے تھے جو بھی بابا جی کو ایک نظر دیکھتا باباجی کی روحانیت کا اسیر ہو کر رہ جاتا ۔ لوگ بابا جی کے با طن روحانی تصرف اور مقام سے بے خبر غلاموں کی طرح بابا جی کے سامنے ماتھا ٹیک رہے تھے ‘ باری باری مرید باباجی سے روحانی فیض لے رہے تھے کہ ایک مرید سامنے آیا تو باباجی نے نعرہ مارا تم نے نماز میں سستی کر دی ہے ‘ اب تمہا را نماز پڑھنے کو دل نہیں کر تااب تم ہما رے آستانے پر بھی حاضری نہیں دیتے ‘ شیطان نے تمہارے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا ہے ‘ تمہا رادل گناہوں کی سیا ہی سے کالا ہو گیا ہے ‘ تم سیدھے راستے پر آجا ؤ ورنہ ہم تمہیں اپنے مریدوں کی لسٹ سے خا رج کر دیں گے ۔ باباجی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ مرید کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسے ‘ مرید نے اقرار جرم کیا جی سرکار آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ‘ آپ سب کچھ جانتے ہیں آپ کی نظروں سے کچھ بھی پو شیدہ نہیں ہے ‘ میرا ما ضی حال مستقبل آ پ کے سامنے آئینے کی طرح ہے ‘ بابا جی نے جب دیکھا کہ اُن کا تُکا لگ گیا ہے تو اب وہ فاتحانہ قہقہے لگا رہے تھے ‘ اب وہ چاروں طرف دیکھ رہے تھے ‘ پر جلال آواز میں بو لے آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ لوگوں سے بے خبر ہو گئے ہیں بلکل نہیں ‘ پو ری کائنات ہما ری ہتھیلی میں نظر آتی ہے ہم آپ سب کے شب و روز سے واقف ہیں ‘ پر دہ داری کے لیے آپ لوگوں کے گناہوں کو لوگوں کے سامنے نہیں لا تے ‘ مشرق مغرب شمال جنوب ہم زمین کے چپے چپے کی خبر رکھتے ہیں زمین تو کیا ہمارا روحانی تصرف سمندری تہوں اور افلاک کی بلندیوں تک ہے ہم جب چاہیں پو ری کائنات اپنی ہتھیلی میں دیکھ سکتے ہیں ۔ بابا جی کی زندہ کرامت سے تمام کمرے والے مریدین سہم گئے تھے بلکہ گردن تک بابا جی کے ادب و احترام سے لبالب بھر گئے تھے اپنی قسمت پر ناز کر رہے تھے کہ اپنی جاگتی آنکھوں سے وہ زمین کے سب سے بڑے ولی کا نظارہ کر رہے ہیں ۔ مریدوں کے چہرے عقیدت کی آنچ سے گلنار ہو رہے تھے ‘ گردنیں غلاموں کی طرح جھکی تھیں بابا جی کے چہرے پر پھیلی فاتحانہ ‘شریری ‘مغرور مسکراہٹ سے پتہ چل رہا تھا کہ بابا جی حقیقی ولی نہیں ہیں بلکہ تُکا لگنے پر اپنی کرامت کی موسلا دھا ر بار ش کر رہے ہیں اب کمرہ بابا جی کے نعروں سے گو نج رہا تھا جوشیلے مرید حق باباجی کے نعرے لگا رہے تھے ‘میرے تجسس اور بغاوت کی حس انگڑائیاں لے رہی تھی میں نے اپنے دوست کے کان میں کچھ کہا اُسے طریقہ واردات سمجھا دیا اب ہم بھی باری والی قطار میں لگ گئے ‘ آہستہ آہستہ ہم بابا جی کی طرف سرک رہے تھے آخر کار ہم بابا جی کے قریب آگئے ‘ بابا جی کے جسم سے عطریات کے جھو نکے آرہے تھے پلان کے تحت میرے دوست نے بابا جی کے گھٹنے پکڑے بابا جی کا دھیان میرے دوست کی طرف تھا میں نے سامنے بابا جی کے مو بائل کو اٹھا یا آف کیا اور سامنے پڑے ہو ئے ٹیشو پیپر کے ڈبے میں ڈال دیا یہ سارا کام میں نے انتہائی مہا رت سے کیا تا کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے ۔ اب میری باری آئی تو میں نے ڈرامہ کرتے ہو ئے کہا بابا جی ایک بہت بڑی محفل کا ارادہ ہے جس میں ہم سارے گلی والے آپ کے مرید ہو نا چاہتے ہیں ‘ شاندار کھانا ہو گا آپ برائے مہربانی وقت دیں اور اپنا مو بائل نمبر بھی تاکہ آپ سے رابطہ کیا جا سکے ‘ بابا جی کو لگا نئی مرغیاں پھنسنے والی ہیں خو شی سے اپنا مو بائل نمبر دیا تو میں نے نمبر لے کر ڈائل کیا اور کہا آپ کا فون تو آف جارہا ہے ‘ اب بابا جی نے میز پر پڑے مو بائل کو تلاش کر نا شروع کر دیا مو بائل میز پر نہیں تھا ‘ بابا جی کو پریشان دیکھ کر مریدین بھی تلاش میں لگ گئے میز کے اوپر نیچے سب کچھ دیکھ لیا لیکن مو بائل نظر نہیں آیا جو میز پر پڑے ٹیشو پیپر کے ڈبے میں سما یا ہو اتھا اب کمرے میں افراتفری مچ چکی تھی ‘ سارے مرید ادھر اُدھر مو بائل کو ڈھونڈ رہے تھے تھے اِسی دوران بابا جی کی گرجدار آواز گونجی کمرے کا دروازہ بند کر دیا جائے ‘ اب کمرے سے باہر کو ئی نہیں جا ئیگا اب تمام لوگوں کی تلا شی ہو گی چور کو بھر پور سزا دی جا ئے گی ‘ باباجی کے حکم پر دروازے کولاک کر دیا گیا۔ بابا جی زمین آسمان کے چپے چپے سے واقف تھے جن کے سامنے ساری کائنات ہتھیلی کی طرح تھی جو ہزاروں مریدوں کے ماضی حال مستقبل سے واقف تھے وہ اپنے سامنے ایک فٹ قریب پڑے ٹشو پیپر کے ڈبے میں مو جو د اپنے مو بائل سے بے خبر تھے ۔ اب بابا جی نے اپنے ساتھ آئے ہوئے میا ں بیوی کی ڈیوٹی لگا ئی کہ مردوں عورتوں کی اچھی طرح تلاشی لے کرانہیں کمرے سے با ہر نکالا جائے ۔ اب میں باباجی کے سامنے گیا اور بولا بابا جی میں بتا سکتا ہوں آپ کا موبائل کہاں ہے وہ بابا جی فوری بو لے بتاؤ کدھر ہے تو میں ادب سے بولا بابا جی موبائل فون آپ سے ایک فٹ دور ہے آپ مریدوں کے احوال سے سینکڑوں میل دور واقف ہیں ماضی حال مستقبل جانتے ہیں چند انچوں کی دوری پر مو بائل فون سے بے خبر ہیں اب بابا جی دھاڑتے ہو ئے بو لے تم جھوٹ بو ل رہے ہو مو بائل ادھر نہیں بلکہ کسی مرید کی جیب میں ہے جس نے بھی میرا مو بائل چرایا ہے میں اُسے جلا کر بھسم کر دوں گا ‘ یہ لوگ میرے جلال اور روحانی مقام سے واقف نہیں ہیں ‘ اب بابا جی نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں ‘ بابا جی کے منہ سے غصے سے جھا گ نکل رہی تھی میں نے باباجی کو کندھے سے پکڑا اور کہا ٹھنڈے ہو جائیں ‘ میں بتاتا ہوں اب میں نے کمرے والے مریدوں کو مخاطب کیا اور بو لا یہ سارا واقعہ آپ لوگوں کے عقیدے کی درستگی کے لیے ہوا ہے ایک مرید سے کہا اِس ٹشو پیپر کے ڈبے کو اٹھا ؤ اِس کے اندر مو بائل موجود ہے ‘ مرید نے ڈبے کے اندر سے مو بائل نکالا تو باباجی شرمندگی کے پسینے میں غو طے لگا تے نظر آئے ‘ اب میں نے بابا جی کی آنکھوں میں گھو را اور کہاعلم غیب کے ڈرامے نہ کرو ریا ضت مجاہدہ عبادت کر کے کسی مقام کو حاصل کر و اپنی آخر ت خراب نہ کر و ورنہ روز محشر سب مریدوں کے سامنے ذلیل ہو گے ۔ یہ کہا اور میں دوست کے ساتھ باہر آگیا ‘ محترم قارئین اِس میں کوئی شک نہیں کہ علم غیب قوت مکا شفہ حق تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے جب کوئی سالک تزکیہ نفس کے پل صراط سے گزر کر شیشہ قلب کی گندگی دھو ڈالتا ہے تو زمین وآسمان کی خبریں روحانی وائرلیس کی طرح دل پر اترتی ہیں‘ خدا اپنے نیک بندوں کے پردے اٹھا دیتا ہے جو لوح محفوظ کو پڑھتے بھی ہیں اللہ اپنے بندوں کو یہ طاقت بھی دیتا ہے جو تقدیر کے لکھے کو مٹا کر نیا لکھ دیتے ہیں اور خدا اُن کی بات مان لیتا ہے لیکن یہ مقام اللہ اپنے خاص بندوں کو عطا کر تا ہے روحانی ڈرامہ با زوں کو نہیں ۔

Share
Share
Share