21 گرام :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

21 گرام

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

خالقِ کائنات نے اِس خو بصورت رنگوں اور روشنیوں سے بھر پور کا ئنات کو سجا کر آخر اپنی شاہکار تخلیق حضرت انسان کو اپنا نا ئب بنا کر اِس جہان رنگ وبو میں بھیجا ۔ رب ذوالجلال نے انسان کو فہم و آگہی بصیرت سے روشناس کرا یا اِس کے اندر نیکی و بدی اچھا ئی برائی کا تصور قائم کیا پتھر کے دور سے لے کر آج تک اولاد آدم امن اور سکون کی تلاش میں لگی رہی مختلف خوفوں سے جان چھڑانے کی سعی کرتی رہی انسان نیکی پر آئے تو دشمن کو دودھ کا پیالہ پیش کر کے قاتل کو اپنے ہی گھر میں پناہ دے کر فرشتوں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے-

لیکن جب شر پر آتا ہے تو اپنے ہی بھا ئی کی آنکھوں میں آگ برساتی سلا ئیاں پھیر کر اس سے بینا ئی چھین لیتا ہے اپنے ہی خون سے زمین کو رنگین کر دیتا ہے اگر ہم تاریخ انسانی کا بغور مشاہدہ کر یں تو یہ اٹل حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کا ویری اصل میں انسان ہی رہا ہے اِس میں کو ئی شک نہیں کہ مو سمی طو فان بستیاں اجا ڑگکئے سیلا بی مو جوں نے آبا دیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا زلزلے شہروں کو کھنڈرات میں بدل گئے وبائیں زندگیاں چاٹ گئیں وحشی درندوں نے انسانوں کا قیمہ بنا دیا لیکن انسان نے اپنا تسلط دوسروں پرقائم کر نے کے لیے بے شمار جنگیں لڑیں ہیں سچ تو یہ ہے کہ صرف ایک عالمی جنگ میں اتنے انسان صفحہ ہستی سے مٹ گئے کہ شمار کر نا مشکل ہے ۔ انسان کے اندر دوسروں پر غلبہ پا نے کا مرض اتنا خو فناک ہے کہ دوسروں کو فنا کر نے میں ہی اپنی بقا سمجھتا ہے انسان کسی کو محکوم بنا نے میں ہی اپنی سربلندی کیوں سمجھتا ہے ۔ وہ اپنے عیش کدے کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کے گھروں کو کیوں ما تم کدے بنا تا ہے اپنی بلندی اور دوسروں کو نیچا دکھا نا ایسا زہر ہے جس نے روز اول سے انسانوں کو انسانوں کا قاتل بنا رکھا ہے اگر ہم انسان کی اِس جبلت پر غور کریں تو ایک ہی بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ ہر انسان خو د کو ضرور ی ا ور اہم خیال کر تا ہے اب یہ حقیقت ہے جو شخص خو د کو ضروری سمجھے گا وہ دوسروں کو فالتو اور حقیر جا نے گا ۔اپنی ذات کی نمو کے لیے پھر حضرت انسان دوسرے انسانوں سے متصادم ہو جا تا ہے اپنی ذات کی کشش خدائے بزرگ وبرتر نے اِس بزم جہاں کی رونقیں بڑھا نے کے لیے رکھی ہے تا کہ انسان زندگی سے بو ر نہ ہو جا ئے خا لقِ کائنات نے یہ جذبہ ہر ذی شعور میں ودیعت کر دیا ہے اِسی جذبے کی بدولت بزمِ جہاں کی رونقیں قائم و دائم ہیں مگر نظامِ قدرت کی خوبصورتی کی داد دینی پڑتی ہے کہ قدرت نے زندگی کی چولی کے ساتھ مو ت کا دامن لگا کر خو د ہی ضروری اور اہم کے غبا رے سے ہو ا نکال دی ہے خو د کو ضروری اور نا گزیر سمجھنے کے زہر نے کرہ ارض کو جہنم بنا رکھا ہے اگر یہاں پر آنے والا ہر انسان اِس حقیقت کو پا ئے کہ جو بھی یہا ں آیا اس نے اپنا وقت گزار کر آخر کار یہاں سے چلے جانا ہے یہاں پر ہر گز رتا لمحہ فنا کے سمندر میں اترتا جا رہا ہے ہر گزرنے والا سیکنڈ آپ کی زندگی کو کم کرتا جا رہا ہے ہر دن آپ کو موت کے قریب لے کر جا رہا ہے اگر ہر انسان اِس حقیقت کو سمجھ لے تو یہ بزم دنیا کبھی بھی ما تم کدہ نہ رہے اور نہ ہی انسان کے ذہن میں کو ئی فتنہ جنم لے سکے جس نے پو ری دنیا کو عذاب مسلسل میں جھونک رکھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی روح قفس انسانی سے آزاد ہو تی ہے انسانی جسم مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتا ہے آپ اِس کو جلا دیں کا ٹ دیں ہسپتالوں کے مرد ہ خانوں میں جا کر دیکھیں کس طرح انسانی لا شوں کو ٹھنڈے ڈبوں میں بند کر کے نمبر لگا کر رکھ دیا جا تا ہے اب انسان برف کی مانند بے جان گو شت کا ٹکڑا ہے یا پوسٹ مارٹم کے دوران آپ دیکھ لیں کس کس طرح سرجن ڈاکٹر انسانی جسم کی چیڑ پھاڑ کر تے ہیں انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے لیکن یہی انسان جب اِس کے پھیپھڑوں کے اندر ہوا کی چند سانسیں ہو تی ہیں تو یہ خود کو دھرتی کا واحد مالک سمجھتا ہے تا ریخ انسانی میں ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک ظالم جابر اور طاقت ور پیدا ہوتا رہا ہے لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رگوں میں دوڑتا گرم خون ٹھنڈا ہو تا ہے تو انسان اپنے غرور بھرے جسم پر قابو بھی نہیں رکھ سکتا جوانی میں جو انسان دوسروں کو چیرنے پھا ڑنے پر تیار رہتا ہے زمین پر اکڑ کر چلتا ہے بڑھا پے میں اپنے ہی جسم پر اختیار نہیں ایسا رعشہ لرزتا انسان اور بیماریوں کی قیام گاہ انسان کو اپنی اوقات یاد آجاتی ہے زندہ اور مردہ انسان میں فرق جان کر آپ بھی بہت حیران ہو نگے چند سال پہلے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے اِس پر تجربات کئے لاس اینجلس کے ڈاکٹر ابرا ہام نے ایک انتہائی حساس ترازو بنایا وہ مر ض الموت میں مبتلا مریضوں کو اس ترازو پر لٹاتا مریض کے پھیپھڑوں میں مو جو د اکسیجن کا وزن کرتا اور پھر مرنے والے کی مو ت کا انتظار کرتا ڈاکٹر اپنی اِس تحقیق میں لگا رہا اس نے انسانو ں پر سینکڑوں تجربات کئے اور پھر یہ اعلان کیا کہ زندہ اور مر دہ انسان میں فرق صرف 21گرام کا ہے یعنی انسا نی روح 21 گرام کی ہے ڈاکٹر صاحب کے بقول انسا نی روح اس آکسیجن کا نام ہے جو انسان کے پھیپھڑوں میں چھپی ہوتی ہے جب کسی انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو موت اس پر وار کر تی ہے اب موت پھیپھڑوں کے کونوں کھدروں میں پھنسی ہو ئی 21 گرام آکسیجن کو زبردستی با ہر نکال دیتی ہے جیسے ہی یہ 21 گرام آکسیجن پھیپھڑوں سے با ہر دھکیل دی جا تی ہے تو انسان کی مو ت کا سفر جا ری ہو جا تا ہے انسانی جسم کے اعضا ٹھنڈے پڑنا شروع ہو جا تے ہیں رگوں میں دوڑتا خو ن جمنا شروع ہو جاتا ہے سارے سیل مر جا تے ہیں اور انسان مو ت کے اندھے غار میں اتر جا تا ہے اب یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ حضرت انسان کو زندہ رکھنے والی زندگی یا آکسیجن کا وزن صرف 21 گرام ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ زندہ اور مر دہ میں فرق جو 21 گرام ہیں اِس میں ہوا کے ساتھ ساتھ ہما رے ارادوں خواہشوں تکبر غرور انا خودی کا وزن کتنا شامل ہے ہما رے وجود میں شامل غصہ تکبر غرور شہوت لالچ ظلم دوسروں پر غلبہ پا نے کا رجحان دوسروں کو نیست و نا بود کر نے کا زہر ہما رے ڈرامے فراڈ جھوٹ چالاکیاں سازشیں اور قیامت تک زند ہ رہنے کی خواہش ، ہم سارا دن انسانوں سے فراڈ اور جھوٹ بو لتے ہیں اپنے ضمیر کا سودا کر تے ہیں دنیا وی جھوٹے خدا ں کے تلوے چاٹتے ہیں معاشرے کے با اثر افسروں سیاستدانوں دولت مندوں کے سامنے میراثی بن کر خو شامدوں کے ریکارڈ توڑتے ہیں کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اِن 21 گراموں میں ہما ری اکٹر تکبر غرور اور خدا کی نا فرمانی کا بو جھ کتنا ہے ہم ما لک کا ئنات کی نا فرما نی 21 گراموں کے بل بو تے پر کتنی دیر کر سکتے ہیں جب ہماری اوقات ہی21 گرام ہے تو ہم کتنی دیر تک وقت کے گزرتے لمحوں سے خود کو بچا سکتے ہیں گردش لیل و نہار کے غبارسے ہم 21 گرام کو کتنی دیر بچا سکتے ہیں ہم کتنی دیر تک خالق کائنات کی نافرما نی کر سکتے ہیں حیرت ہو تی ہے جب 21 گرام کا انسان خدا بن کر بولتا ہے دوسروں پر ظلم کرتا ہے دوسروں کا خدا بن کر تقدیر کے فیصلے کر نے کی کو شش کرتا ہے انسان یہ بھول جاتا ہے کہ 21 گرام محض ایک سانس ہے ایک آخری ہچکی ایک جھٹکا یا چھینک سے ہمارے جسم میں ایک منٹ میں 87 کروڑ حرکتیں ظہور پذیر ہو تی ہیں ہمارے دماغ میں اربوں خیالات آتے ہیں ایک لمحے میں ہم ہزاروں منصوبے خیالات بناتے ہیں 21 گرام کو اگلے لمحے کا پتہ نہیں ہوتا 21 گرام کی اوقات پانچ ٹشو پیپر ہے ہما ری اوقات 21 گرام کا انسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کا مالک سمجھنا شروع ہو جاتا ہے وقت اور زمانے کو پاں کی ٹھوکر سمجھنا شروع ہو جاتا ہے کروڑوں انسانوں کا مالک سمجھنا شروع کردیتا ہے 21 گرام کا انسان یہ بھول جاتا ہے کہ فرعون جیسا ظالم نیل کے پانی میں بتاشے کی طرح گھل گیا تو تیری کیا اوقات ہے آج تو مرے گا تو کل 21 گرام کا ایک خدا تیری جگہ لے لے گا کسی قبرستان جاکر دیکھ جن کے غبا روں سے 21 گرام آکسیجن نکلی تو انہیں منوں مٹی کے نیچے دبا کر واپس آگئے 21 گرام کے غبا رے کس جھوٹی شان کے ساتھ کرہ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے ہی کسی غبارے کی ہوا نکلتی ہے تو اس کو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اس غبارے کی جگہ نیا غبارہ لے لیتا ہے ۔

Share
Share
Share