عید :
نعمتِ خداوندی کا عظیم ترین دن
محسن رضا ضیائی
(مدیرِ اعلیٰ‘ ماہ نامہ انوارِ ہاشمی ‘بیجاپور)
عید اللہ تعالیٰ کی جانب سے مومنین کے لیے ایک بہترین تحفہ اور نعمت ہے،جو سراپا رحمت وبرکت ہے،مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ،امن و آشتی اور اخوت و محبت کا پیغام لے کر وارد ہوتی ہے۔ہر امیر و غریب،صغیر و کبیر،مفلس و اسیر،گورے و کالے اور جوان و بوڑھے سب کے لیے یکساں مسکراہٹوں،شادمانیوں اور خوشیوں کی بے پناہ سوغات لاتی ہے۔
یقیناً ایک ماہ مسلسل روزوں کی شکل میں بھوک و پیاس کی شدت برداشت کرنے،مہینہ بھر تراویح وغیرتراویح میں قرآن کریم کی سماعت و تلاوت کرنے،اور زکوۃ و صدقات جیسی عبادات سے فارغ ہونے کے بعدجو خوشی میسر آتی وہ عید کہلاتی ہے۔اس خوشی کے صحیح طور پرمستحق و مصداق وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماہِ رمضان میں کثرت سے عبادت وریاضت کیاہو۔اس ماہِ مقدس کی طاق راتوں میں قیام کیا ہواورتمام مالی وبدنی عباددات کو کامل یکسوئی ،خشوع وخضوع اور اخلاص وجذبے کے ساتھ کیا ہو۔اگر عید کو اسلامی نقطۂ نظرسے دیکھا جائے تو یہ دراصل خود احتسابی،تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کا دن ہوتاہے۔عید کے مفہوم کو اس شعر سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے
یلیس العید من لبس الجدید
ولکن العید من خاف الوعد
ترجمہ:عید کا مطلب یہ نہیں کہ نئے کپڑے پہنے جائیں بلکہ عید یہ ہے کہ قیامت کے دن سے ڈرا جائے۔عید بار بار ہمیں اس جانب متوجہ کراتی ہے کہ اپنے ان خوشیوں کے لمحات میں غریبوں، فقیروں ، مسکینوں ،یتیموں، پڑوسیوں ،ہمسائیوں اور رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس خوشی سے محروم رہ جائیں۔
داعی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے ساتھ ساتھ ’’صدقۃ الفطر‘‘ کا بھی حکم فرمایاہے کہ ہر صاحب مال اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی طرف سے گیہوں کی ایک خاص مقدار یا اس کی قیمت اپنے محتاج و مفلس بھائی کو پہنچائے اور عید سے پہلے پہلے پہنچانے کی سعی و کوشش کرے تاکہ معاشرے کے غریب اور پریشان حال لوگ بھی عید کی خوشی میں برابر کے شریک و شامل ہوسکیں۔اسی طرح آپسی اختلاف و انتشار کو ختم کرکے ایک دوسرے سے اخوت و بھائی چارگی کے اظہارکے ساتھ مصافحہ و معانقہ کریں،بغض و کینہ،جلن و حسد اور عداوت و دشمنی کو دل سے باہر نکال پھینکیں اور ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کی ازحد کوشش کریں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عید اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر مسرت وشادمانی اوراس کا شکر واحسان بجالانے کاعظیم ترین دن ہے ،جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرنا چاہیے ،اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ ہوکر صدقِ دل سے توبہ ورجوع کرنا چاہیے۔ماہِ رمضان میں ہم نے جو عبادات وریاضات اور صدقات وخیرات کیے ہیں ان کی قبولیت ومنظوری کے لیے بارگاہِ رب العزت میں عریضہ پیش کرنا چاہیے۔
لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ مذکورہ بالا چیزوں پر عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہے،حال یہ ہے کہ جوں ہی نماز عید سے ہم فارغ ہوتے ہیں پورے طور سے دنیاوی لذتوں،خواہشوں اور طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔شیطان ہم پرپورے طور پر اپنے حربے اور داؤ چلنا شروع کردیتا ہے اور طرح طرح کے ہتھکنڈے اپناتا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح وہ ہم کو اپنے دام تزویر میں پھنسالے،گویا ہر طریقے سے وہ مسلط ہوجاتا ہے،اسی طرح عیدکے دن رقص و سرور کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں،عشق ومستی کا نغمہ چھیڑ جاتا ہے،شراب وجوے کاسما ہوتا ہے،فلم تھیٹر پر بھیڑیں جمع ہوجاتی ہیں، پٹاخوں اور آتش بازیوں کا دور دورہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اب دریچۂ ذہن میں جو سوال سب سے زیادہ گردش کررہاہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری عید کا مقصد وتصور یہی ہے جس انداز وطریقے سے ہم عید مناتے ہیں۔لیکن حقیقت وواقعیت کی روشنی میں دیکھیں تو مذہب اسلام میں اس کاکچھ بھی تصور نہیں۔اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مسلمانانِ امت عید کا حقیقی مفہوم اور اس کا اسلامی تصور سمجھنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عید کا مقدس دن بھی خرافات و بے ہودگی،عریانیت و فحاشیت اور ہر قسم کے گناہ کے نام رہاجس نے مسلم معاشرے سے عید کی حقیقی خوشیوں ،شادمانیوں اور پر مسرت لمحات کاجنازہ نکال کرمعاشرے میں ان گنت برائیوں کو جنم دیا۔ یہ ایسی برائیاں ہیں جس کی جڑیں مسلم معاشرے میں اپنا مضبوط و مستحکم مقام بناچکی ہیں جن کو ختم کرنا نہایت ہی ضروری ہوچکا ہے۔
اب اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاریخی ،سماجی اوراصلاحی کارنامے کو بھی ملاحظہ کریں جب آپ نے مسلمانوں کو حقیقی خوشیوں کا بیش بہا تحفہ عطا فرمایا تھا۔چنانچہ ابوداؤد کی صحیح حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ یہاں کے لوگ سال میں دو دن لہو و لعب، ماتم و آتش بازی اور ہر طرح کی خوشی میں گزارتے ہیں،اس پر آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں ؟ان لوگوں نے عرض کیاکہ ان دنوں میں ہم لوگ زمانۂ جاہلیت کے اندر خوشی مناتے اور کھیل کود کرتے تھے،تو آپ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دنوں کو ان سے بہتر دنوں میں تبدیل فرمادیا ہے ان میں سے ایک دن ’’عید الفطر‘‘ اور دوسرا ’’عید الاضحی‘‘ ہے۔(ابوداؤد)
مذکورہ بالا حدیث سے یہ اچھی طرح ظاہر و باہر ہوگیا کہ لہو ولعب ،مستی و ماتم اور خرافات و بے ہودگی کا نام عید نہیں ہے اور یہ شعائرِ اسلام سے بھی نہیں ہے،بلکہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد مخصوص ایام میں کیے جانے والے انہی افعال شنیعہ و اعمال قبیحہ سے بچنے ،رکنے اور اس کے سد باب کی تلقین و تاکید فرماکر مسلمانوں کو ان سے بہتر دنوں کی بشارت و نوید سنائی تھی۔
لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر ایسا لگنے لگا ہے کہ ہم پھر سے زمانۂ جاہلیت کی طرف عود کرتے جارہے ہیں،جہاں خاص طور پر ان ایام میں بے پناہ خرافات و بے ہودگیاں سرانجام پاتی تھیں ،وہیں آج کے ہمارے اس تعلیم یافتہ،تہذیب پسند اور تیزرفتار ترقیوں کے دور میں ان ہی مخصوص ایام میں عید کے نام پر وہیں برائیاں سرانجام پارہی ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ شریعت کے تمام اصول و احکام ،سنت نبوی کے تمام تقاضوں اور اسلاف و اکابر کی سیرت و زندگی کے مطابق گزارنے کا نام صحیح معنوں میں عید ہے ورنہ تو پھر وہی ہمارے لیے وعید ہے۔
اخیر میں عرض ہے کہ گذشتہ عید کا ہم ازسر نو جائزہ لیں،خود احتسابی کا مظاہرہ کریں اور اپنے گریبان میں جھاک کردیکھیں کیا ہم نے واقعی ان ہی اصول و احکام پر کاربند رہ کر ’’یوم عید ‘‘ منایا جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا وخوشنودی شامل ہے۔اسلامی اقداروروایات اور شرعی حدودوقوانین کی بندشیں موجود ہیں،سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابندہ نقوش کی جھلک ہے۔اگر واقعی ہم نے اس طریقے سے عید کا دن منایاہے تو ہم قابلِ مبارکباد ہیں اور اگر ہم نے عید کو اس کے تمام تقاضوں اور اصولوں سے ہٹ کر منایا ہے تو یہ ہمارے لیے باعث افسوس ہے۔یاد رکھوکہ عید نعمتِ خداوندی کا عظیم ترین دن ہے۔ہم اس دن کو عبادت وریاضت،صدقات وخیرات اور زہدوتقویٰ کے ساتھ گزاریں۔
*****