نغمہ تبسم
ریسرچ اسکالر ۔ گورکھپور
فنون لطیفہ میں شاعری کا مقام
آرٹ یا فن کی تعریف ایسی تعریف متعین کرنا بہت مشکل جو سب کے لئے قابل قبول ہو چونکہ آرٹ یا فن کا تعلق دوسرے کو ائف کی طرح عالم محسوسات سے ہے اور محسوسات سے تعلق رکھنے والے کوائف کے لئے ایسی تعریف ایجاد کر پانا نا ممکن ہے جسے حرف آخر سمجھا جا سکے۔
لیکن علم وفکر کے ذریعے اس کی ماہیت وحقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن کوئی کوشش پوری طرح کا میاب نہیں ہوئی آرٹ یا فن کے متعلق مختلف مفکرین کی بحثوں کا جائزہ لیں تو تقریبا سبھی مفکرین یہاں تک پہنچتے ہیں کہ تخلیق حسن کا دوسرا نام آرٹ ہے۔
آرٹ یا فن کو جب حسن کی تخلیق کا دوسرا نام قرار دیا جاتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسن کیا ہے اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ فن یا حسن کا پیدا ئش یا ظہور کسی خارجی وسیلے کی مدد سے ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حسن یا فن اپنے اظہار کے لئے مادی وسائل کا محتاج ہے۔
حسن پر گفتگو کرتے ہوئے فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ
’’ ایک خیال ہے کہ حسن انتہا کی ذاتی صفت ہے اور ان میں بالذات موجود ہے حسن اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اسے دیکھے اور دیکھنے کے بعد اپنے حسن نظر سے اس کے وجود کا اثبات کرے حسن کا وجود مطلق ہے ولی ازل ہے وہی ابد ہے،وہی نیکی ہے،وہی سچائی ہے،وہی خالق ہے وہی مخلوق ہے دوسرے لفظوں میں حسن خدا اور خدا حسن ہے اور خارج وباطن دونوں میں وہ اسی طرح جاری وساری ہے کسی کا دیکھنا نہ دیکھنا اس لئے کوئی معنی نہیں رکھتا،(نقول آزاد انصاری۔)
’’حسن ہی حسن یہاں حسن کے ماسوا نہیں
حسن اگر خدا نہیں تو پھر کو ئی خدا نہیں
یا اصغر گونڈوی کے لفظوں میں۔
’’کار فرما ہے فقط حسن کا نیرنگ خیال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے‘‘
فطرت کے تمام مناظر کو سبھی حسین وجمیل بتاتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ ان خارجی اشیاء کا ذکر کیا گیا ہے لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن انہیں حسین وجمیل اشیاء کا دوسرا رخ بھی بعض مفکرین وشعراء کے کلام میں ملتا ہے چودہویں کے چاند میں کوئی محبوب کی صورت دیکھتا ہے تو کسی کو روٹیاں نظر آتی ہیں ایک خانہ کش کے لئے روٹی سے بڑھ کر دوسری کوئی حسین شئے نہیں اس کی سب سے بڑی مثال نظیر اکبر آبادی کے اشعار کے ذریعہ دی جاسکتی ہے۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر وماہ حق نے بنائے ہیں کس لئے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں
حسن کی ایسی ہزاروں مثالیں مختلف شعراء کے کلام میں پائی جاتی ہیں کسی کو بجلی کی چمک تو کسی کو بادل کی گرج میں حسن نظر آتا ہے کسی نے محبوب کی مسکراہٹ کی اتنی حسین تصویر پیش کی ہے کہ جو بہترین مثال تسلیم کی جاسکتی ہے ۔
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑگئی (اصغر)
یوں لب کشا ہوا تو گلستاں بنادیا
کچھ بھی ہو برق وباراں ہم تو یہ جانتے ہیں (فانی)
اک بے قرار تڑپا اک بے قرار رویا
اب اگر یا فن پر اس بحث کے بعد حسن جیسے موضوع پر ادب کے حوالے سے نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کے نزدیک شعر کا حسن اس کے ردیف قوافی،پیکر اور
اہمیت میں ہوتا ہے تو بعض مفکرین کے مطابق یہ حسن در اصل شعر کے خیال اور مواد میں ہوتا ہے جبکہ بعض کے مطابق یہ تمام چیزیں ہم آہنگ ہو کر شعر کی تخلیق کرتی ہیں۔
حسن پر اس مختصر گفتگو کے بعد اس امر پر بحث ضروری ہے کہ اقبال کے یہاں اس شعر کے حسن کے مطابق کس قسم کے خیالات ملتے ہیں اقبال کے خیالات کو قریب سے دیکھنے کے لئے ضرب کلیم کے اس شعر کا ذکر یہاں ضروری ہے جس میں اقبال نے واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ در اصل ان کے نزدیک شعر کا حسن کیا ہے؟
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبرئیل ہے یا بانگ سرافیل
ہاں اقبال کے متعلق یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان کے ذہنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کا تصور فن بھی بدلتا رہا۔اور آخری وقت میں یہ تصور مغرب اور مشرق سے بالکل مختلف شکل اختیار کر گیا یعنی جمال کی جگہ اقبال کے یہاں جلال اور قوت نے لے لی جو ان کے نزدیک جمال سے بڑھ کر ہیں۔
اقبال کے ذہنی ارتقاء میں ان خارجی حالات کا کردار تھا جنہیں ہم ماحول یا فضا کہتے ہیں اور اسی فضا میں کسی شاعر یا مفکر کے فکر تخیل وتصورات کی تشکیل ہوتی ہے۔’’ان میں شعر وشاعری،موسیقی،مصوری،تصوف وتفکر سب میں حسن کے وہی نظریات کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتے ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں ہوتا ہو چکا ہے۔اور اگر شاعر مفکر کے تصورات پر ہمیں خارجی حالات یا ماحول کا اثر دکھائی دیتا ہے تو یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔
اقبال کی اس موضوع پر سب سے خوبصورت نظم ہے حقیقت حسن ۔جس میں انہوں نے اپنے پرانے تصور حسن پر خود سوال وجواب کے ذریعے طنز کرتے ہیں۔اس نظم کے بعد اقبال کی شاعری وذہنی ارتقاء کا وہ دور آتا ہے جب وہ خودی اور بے خودی یعنی اپنے فلسفہء حیات کی تخلیق کرتے ہیں۔اقبال کے نزدیک قوت اور عمل ہی زندگی کا سر چشمہ ہیں اور فلسفہ تصوف وفنون لطیفہ کااصل مقصد انہیں کا حصول ہے۔
اور اپنے انہیں تصورات کے زیر اثر انہوں نے فنون لطیفہ کے مضمرات تک رسائی حاصل کی انہوں نے اس دور کے ادیب اور شاعروں کو اسلامی اور غیر اسلامی فنون لطیفہ میں امتیاز کرنا سکھایا فن لطیف کے دیگر نمائندوں کو غیرت دلائی اور اپنے فن کے ذریعے قوم وملت کی ضرورتوں وتقاضوں کو ہم آہنگ کرنے کا پیغام دیا۔ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی جیسے تصور پر اظہار خیال کیا زمانے کو مقصدی ادب کی اہمیت وافادیت بتائی اور زوال آمادہ معاشرے کو عمل کا پیغام دیا۔
فن شاعری پر مزید گفتگو کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کے فن پر غور کرنا،اور اردو میں فن کے بارے میں کوئی واضح تصور رکھنے اور اس کی روشنی میں بے قاعدہ اور غیر منظم طریقہ سلسلہ غالب سے اور منظم اور باقاعدہ شاعری کے متعلق اقبال سے شروع ہوتا ہے۔فن یا آرٹ اور خاص طور سے شاعری کے متعلق اقبال کی رائے ہے کہ اسے با مقصد ہونا چاہئے اور ان کے اسی خیال کا اثر ان کی تمام تر شاعری میں نظر آتا ہے اسی کی تصویر ہمیں ان کے فلسفہء حیات میں بھی دکھائی دیتی ہے اور اس طرح ادب برائے ادب کے نظریے کی اقبال کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔وہ فنون لطیفہ کو محض دل بہلانے کا مشغلہ نہیں بلکہ زندگی کی تعمیر وتزئین کا بے خود معبر وسیلہ مانتے ہیں۔
ان کے نزدیک شاعری کارزار حیات میں علم وحکمت سے زیادہ کارگر ہے۔ان کے خیال میں شاعری انسان کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بلکہ حقیقت کا آئینہ ہے اسی لئے انہوں نے جہاں کہیں بھی شاعری وفلسفے پر اظہار خیال کیا ہے ہمیشہ شاعر کو فلسفی پر ترجیح دی ہے۔
’’اقبال کہتے ہیں کہ فلسفہ بوڑھا بنا دیتا ہے اور شاعری تجدید شباب کرتی ہے‘‘ ( شرافت فکر اقبال ص ۔۵۹)
فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری اقبال کے نزدیک لطیف ترین ہے۔ہاں لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی تخلیق میں سوز دل،اور سچے جذبات سے کا م لیا گیا ہوشاعری کی طرح اقبال کی نظر میں وہ شاعر کا مقام بھی انتہائی بلند تر ہے شاعر کے بغیر ملت کا کوئی وجود نہیں وہ محض مٹی کا ڈھیر ہے ان کا ماننا ہے کہ شاعری کا مقصود آدم گری ہونا چاہئے۔ان کے نزدیک سچا شاعر یا آرٹسٹ وہ ہے کہ جو اپنے کمال کو بنی نوع انسانی کی
بہتری کے لئے وقف کردے۔
اقبال کے مطابق سائنس،فلسفہ،مذہب ان سب کی حدیں متعین صرف فن ہی لا محدود ہے‘‘
فنون لطیفہ دراصل شروع سے ہی ہر مذہب کے ساتھ وابستہ رہے اور مذہب کے تصورات میں بھی فن لطیف موجود ہے۔اقبال کا نظریہ حیات اسلامی ہے اقبال نے اپنے کلام میں جہاں کہیں بھی فنون لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اپنے تمام خیالات کو اسلامی نظریہ ء حیات سے وابستہ کیا ہے ایسا کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال شاعر ہونے کے علاوہ حکیم بھی تھے اور فن لطیف کے ماخذ اور مقصود پر حکیمانہ نظر بھی ڈال سکتے تھے بیشتر شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنے فن میں بھی کامل تھے مگر اقبال نے ان کی ماہیت کے متعلق کچھ نہیں کہا۔
فنون لطیفہ اور اقبال کے خیالات پر روشنی ڈالتے ہوئے خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں کہ
’’کہ انسان کے تمام مشاغل،تمام تصورات تمام اداروں کی نہ میں خودی کا لال بے بہا پوشیدہ ہے اسی گوہر کے متعلق اقبال کاایک شعرہے‘‘۔
گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے
بند ش اگرچہ مست ہے مضموں بلند ہے
مندرجہ صدر چار اشعار میں اقبال نے فنون لطیفہ کے ساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کرکے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کی نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہو تو یہ سب عین حیات ہیں اور ادب دین وسیاست اگر انسان کو تخریب اور پستی کی طرف لائیں تو سب ڈھکوسلا رہ جاتا ہے اورامتیں اس سے ذلیل وخوار ہو جاتی ہیں۔‘‘
ضرب کلیم میں اقبال نے ادبیات،فنون لطیفہ کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے جس میں انہوں نے دین وہنر،تخلیق،جنون اپنے شعر سے پیرس کی مسجد،ادبیات گنگاہ،مسجد قوت الاسلام اور تیاتر کے عنوان سے نظمین لکھی ہیں اور ان نظموں نے انہوں نے نہ صرف ادبیات بلکہ فنون لطیفہ پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔اس میں اپنی نظم تیاتر میں وہ خودی کی صفات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
بلند تر مہ پروین سے ہے اسی کا مقام
اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات وصفات
یعنی خودی کے نور سے آدمی کی ذات اور اس کی صفات کے جوہر نمایاں ہوئے ہیں اور جب یہ جوہر نمایاں ہوتے ہیں یا یہ جوہر کسی انسان میں پیدا ہوجائیں تو اس کا مرتبہ چاند اور ثریا سے بھی بلند ہوجاتا ہے۔
اسی باب کی ایک نظم ادبیات میں اقبال شعر وشاعری نثر وڈرامہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’عشق اب پیروی عقل خود ادا کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے۔‘‘ ضرب کلیم
آج کل کے ادب کے متعلق اقبال یہ رائے دیتے ہیں کہ یہ عشق سے یعنی سوز و جذبے سے بالکل خالی ہے حالانکہ یہ ادب کے دو بنیادی وصف ہیں آج کل کے ادیب عشق کے بجائے عقل کے غلام ہیں اور معشوق کی گلی میں جاکر اپنی عزت برباد نہیں کرنا چاہتے یعنی وہ جذبے اور عشق سے جو ادب وشاعری کی روح میں پوری طرح خالی ہیں،
اقبال شعراء کی راہ نمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کے ادیبوں کو جدید راہ چھوڑ کر پرانی شاعری میں جان ڈالیں اور انہیں آدمیت انسانیت اور قومی و وطنی ترقی جیسے موضوعات سے آشنا کریں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پرانی شاعر ی ء طرزکو ہی اپنا ئیں اور اس میں نئے نئے اسا لیب پیدا کریں جن کا تعلق انسانیت سے ہو،
اقبال کے حوالے سے شاعری پر اس طویل بحث کے بعد نتیجتا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال ادب برائے ادب کے نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔
۔۔۔۔
Nagma Tabassum
Research Scholar
Department of urdu
Deendayal Upadhyay Gorakhpur University Gorakhpur U.P.
One thought on “فنون لطیفہ میں شاعری کا مقام :- نغمہ تبسم”
بہت عمدہ تحریر ہے۔کافی کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔شکریہ