کیا تعلیمی اداروں میں تشدد ضروری ہے؟
زبید خان
(انشا اردو گائڈ)
+918875350095
تعلیمی اداروں میں پابندی کے باوجود طلبہ کو جسمانی سزا دینا ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ہمارے استاد رٹا لگواکر بچوں کومضامین یاد کراتے ہیں لیکن وہ ان مضامین میں پنہاں اسباق و فلسفے پر زور نہیں دیتےہیں اور نہ ہی پڑھائی میں بحث و مباحثہ کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ مباحثے سے ان بچوں کو اسباق و فلسفے سے متعلق معلومات ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے
جس سے وہ اپنی دلیل کے لئے الفاظ کا چناؤ ،دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور مباحثے کے دوران لفظوں کی ادائگی میں شائستگی قائم رکھنا سیکھتے ہیں۔روایتی طور پر استاد کی مار کو طالب علموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مگر مغربی ممالک میں یہ تصور بالکل بدل گیا ہے اور بچے کی دماغی اور جسمانی نشونما کے لئے اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ بچوں کوڈرایا دھمکایا نہ جائے بلکہ انھیں خود کچھ کرنے کا موقع دیا جائے۔بیشتر اساتذہ کا خیال ہے کہ پٹائی کے بغیر پڑھائی ممکن ہی نہیں۔جوں ہی ان کے ذہن میں اپنے شاگردوں کا تصور آتاہے وہ سمجھتے ہیں ڈنڈے کے بغیر ان کو پڑھانا ممکن ہی نہیں ہے۔
انگریزی میڈیم اسکولوں کی بات کریں تو یہ ایک غیر فطری رجحان ہے ،ان کے اساتذہ کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے،مضمون انگریزی میں اور انگریزی میں اپنی استعداد واجبی سی،ان کے شاگردوں کا حال اس سے برا،پرنسپل کا کوڑا سر پر اور قدم قدم پر ٹیسٹ اور امتحانات ۔یہ سب مل کر ان کو اس قدر مجبور کر دیتے ہیںکہ بچوں کو پڑھانے کا ان کے نذدیک بس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے بچوں کی خوب پٹائی کی جائے تاکہ وہ سزا کے خوف سے اپنے اسباق کو رٹنے پر مجبور ہو جائیں۔یہ بات بہت ہی جاہلانہ ہے کہ استاد بچے کو مار کر ہی تو تعلیم دیگا ۔جب بھی کوئی استاد طالب علم کی پٹائی کرتا ہے ،اس وقت وہ اپنےعمل سے یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ پڑھانا نہیں جانتا ۔مار مار کرتو گدھےسدھارے جاتے ہیں انسانوں کی تدریس کا عمل توذرا مختلف ہے۔
کچھ مدرسوں میں تو یہ سزائیں وحشیانہ حد تک سخت ہو جاتی ہیں،وہاں پر قرآن پاک کی تعلیم اور حفظ کا سخت ترین سزاؤں کے بغیر تصور ممکن ہی نہیںہے۔بچے اگر شرارت کریں اور پڑھنے کی طرف دھیان نہ دیں تو والد کی اجازت سے استاد کو ہلکی پھلکی پٹائی کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔لیکن اس پر بھی شرط ہے کہ چہرہ پر یا بدن کے نازک حصے پر نہ ماریں۔اس پٹائی کا مقصد صرف اصلاح ہو نہ کہ غصہ اتارنا یا انتقام لینا۔بچوں کی بہت زیادہ پٹائی کرنا یا کسی نازک حصے پر مارناجائز نہیں ہے۔اگر کوئی طالب علم کند ذہن ہونے کی وجہ سے بہت محنت کرنے کے باوجودبھی سبق یاد نہیں کر پاتا تو اس کی پٹائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ اس زمانہ میں تو یہی بہتر ہے کہ بچوں کو مارنے سے مکمل احتیاط کیا جائے،اگر کوئی بچہ بہت زیادہ شرارت کرے یا اسباق یاد کرنے میں کوتاہی کرےتو اس کے والدین کو بلا کرانھیں اس کی حقیقت ِ حال بتا دیا جائے،اگر وہ مناسب سمجھیں تو ہی سزا دیں ۔ان بچوں پر تشدد کا برا اثر اگر فوری نظر نہیں آتا تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچے درس و تدریس کا یہ عمل ترک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جن اساتذہ نے اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھایا ہے ان کے شاگرد بھی آخری دم تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔
استاد وہ نہیںجو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہو جاتا ہے۔استاد تو وہ ہے جو اپنے شاگردوں کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور انہیں شعور اور ادارک،علم و آگہی نیز فکرو نظر کی دولت سے مالا مال کردے۔رابرٹ فراسٹ نے کتنی خوبصورت بات کہی کہ "میں اپنے شاگردوں کو پڑھاتا تھوڑے ہی ہوں میں تو ان کو جگاتا ہوں” ۔میرے لیے استاد محض کلاس روم میں نصاب کی تقفیم کرنے والے شخص کا نام نہیں۔میرے لیے سب سے اچھے استاد وہ لوگ رہے ہیں جنہوں نے کبھی بھی کلاس روم میں ایک لفظ بھی نہیں پڑھایا، مگر جس کی صحبت میں رہ کر ہر لمحہ کئی کلاسوں پہ بھاری ہوتا ہے۔جس کےصرف الفاظ ہی نہیں تحریر سے ،اس کے طرزِ عمل سے،رویے سے،بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہےاصل معنی میں وہی استاد ہے۔
کلاس روم وہ قلعہ ہے جہاں بچے نہ صرف بنا خوف و ڈر کے ان تمام فرقوں اور طبقات کے درمیان رہ کر ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ،تبادلہ خیال کرتے ہیں ،ایک دوسرے کی تہذیب و روایت کو سمجھتے ہیںبلکہ وہ بھائی چارہ ،یکجہتی ،عدم مساوات کے در سے بھی بندھ جاتے ہیں۔میں جب تعلیم کوسوچتا ہوں تو میرے ذہن میں میری ماں آجاتی ہے (مائیں سب ایک سی ہی ہوتی ہیں)جس نے اپنے چار بچوں کو تعلیم کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچایا،سخت سزا تو دور کبھی ان کو ایک تھپڑ تک نہ لگایا۔ماؤںکے طریقۂ تدریس کو میں فطری طریقہ سمجھتا ہوں۔آپ سب یاد کریں مائیں اپنے بچوںکو کچھ سکھاتے وقت کس قد برداشت سے کام لیتی ہیں،وہ بار بار سمجھاتی ہیں اور سکھاتی ہیں۔اس سکھانے میںغصے اور جھنجلاہٹ سے کہیںزیادہ پیار،نرمی اور ترغیب شامل ہوتی ہے۔پہروں یہ عمل چلتا رہتا ہے مگر ان کی وہ نرمی ختم نہیں ہوتی نہ پیار ،نہ غصہ قریب آتا ہے، نہ تھکن ،نہ جھنجلاہٹ،پیار ہی پیار میں ،کھیل کود میں بچے کو کتنا کچھ سکھا دیا جاتا ہے۔
تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔تعلیم سے انسان کی شخصیت اور روحانیت کی منزل طے ہوتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ”اگر دنیا میںحقیقی امن پر پہنچنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کرانی ہوگی "۔ تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں۔تعلیم کا سب سے فطری طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنی مادری زبان یا قومی زبان میں ہی دی جائے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے انہیں مارنا ضروری ہے ۔کیا سختی کے ذریعے بہتر طالب علم پیدا کئے جا سکتے ہیں؟
آپ کی کیا رائے ہے؟ اپنی رائےضرور دیں۔