علماء کرام کے نام – – -! :- انوارالحق مغل

Share
انوارالحق مغل

علماء کرام کے نام – – – !

انوارالحق مغل

شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی اچھے اور تجربہ کار صحافی کی خوبیوں میں ایک اہم بات یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایشو کریٹ( Issue Create )کر سکتا ہو یعنی کسی بھی بات کو مسئلہ بنانا جانتا ہو یہی وجہ ہے بعض مرتبہ ایک چھوٹی اور عام سی بات ہوتی ہے لیکن اس کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے

گویا دوسرا مسئلہ کشمیر کھڑا ہوگیا ہے۔جبکہ یہ خوبی ایک اینکر پرسن کیلئے حددرجے لازمی سمجھی جاتی ہے۔اس کو آپ چینل یا پروگرام کی ریٹنگ اور اشتہارات کا مسئلہ کہہ لیں یا پھر اینکرپرسن کی نوکری کا مسئلہ کہہ لیں، ان میں سے تقریبا ہر ایک چیز ہی پیش نظر ہوتی ہے۔ترش اور سخت سوالات کے ذریعے یا پھر بناوٹی انداز کے ذریعے پروگرام میں آنے والے مہمان کو جوش دلانے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے جس کا نقد فائدہ چینل کو اشتہارات کی صورت میں ہوتا ہے کہ جب دو مہمان آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو بریک کا کہہ کر اشتہار چلا دیا جاتا ہے، دوسرا فائدہ ٹی وی چینلز کو یہ ہوتا ہے کہ اس چینل کے اور اس پر نشر ہونے والے پرگروام کے چرچے ہونے لگتے ہیں حافظ حمداللہ اور شیری رحمان اور حال ہی میں نعیم الحق اور دانیال چوہدری کے درمیان ہونے والے جھگڑوں سے نام کمانے والے پروگرامات سر فہرست ہیں، تیسرا فائدہ تلخی کی فضاء بنانے والے اینکرکو ہوتا ہے کہ اس کی مانگ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے پھر جب کوئی نیا چینل منظر عام پر آنے لگتا ہے تو چینل انتظامیہ کیلئے نئے اینکرز کے بجائے ایسے افراد قابل ترجیح ہوتے ہیں ۔
یہی کچھ جمعرات کے روز ایک ٹی وی چینل کے رمضان ٹرانسمیشن پروگرام میں اس وقت ہوا جب پروگرام میں سکائپ کے ذریعے بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک سائل نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بابت سوال کردیا۔جس کو سننا تھاکہ مذکورہ پروگرام کا اینکر پرسن آپے سے باہر ہوگیا اور بجائے اس سوال کو سوال کی حد تک رکھنے کے سائل کو ہی طعن وتشنیع کرنے لگا اور کال منقطع کردی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا یہ سوال کرنا جرم تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلافت ملی تھی؟ سوال تو کوئی بھی کیا جاسکتا ہے ہاں جواب اگر آپ کے علم میں ہو تو بتائیے ورنہ معذرت کرلیں لیکن سائل پر جرح شروع کر دینا یہ کس مذہب یا تہذیب کا طریقہ ہے؟ اگر سوال بزعم میزبان غلط بھی تھا تو اس کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں تھا کہ وہ علماء کرام کی موجودگی میں اپنی طرف سے فتوی بازی کرے۔دوسرا یہ کہ سائل کا سوال تھا تو اس بات کواسی تک محدود رکھنا چاہیے تھا۔ انڈیا کے ایک بڑے مذہبی سکالر کو اس کی وجہ سے کیونکر تختہ مشق بنا دیا گیا جس کا اس پروگرام میں کسی طرح بھی کوئی عمل دخل نہیں تھا اور مزید ہوشیاری اینکر پرسن نے یہ دکھائی بات کابتنگر بنانے کیلئے ایک اختلافی مسئلہ جو اس وقت موضوع ہی نہیں تھا نہ ہی ضمنا اس پر بات کی جاسکتی تھی اس کو بیچ میں لاکر پروگرام میں آئے ایک عالم دین کو بری طرح تنقید کا نشانہ بناڈالا۔اس پروگرام میں جہاں علماء کرام کی بے تکریمی اور تذلیل کی گئی وہیں چندماہ پہلے پیغام پاکستان کے عنوان سے صدارتی سطح پر ’’مذہبی منافرت کے خاتمے‘‘تیارہونے والی دستاویز کی بھی کھلے عام دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔
خالص فرقہ ورایت پر مبنی اس پروگرام کے حوالے سے آنے والے عوام کے شدید رد عمل کے بعد جمعہ کے روزپاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولرٹی (پیمرا) نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے اس پروگرام کے میزبان پر مذکورہ پروگرام سمیت کسی بھی ٹی وی چینل پر آن ایئرہونے پر پابندی عائد کردی گئی۔
اس سارے قضیے میں گلہ اس اینکر سے بالکل نہیں ہے کیونکہ اس کا ماضی ہی ایسی ڈھونگی حرکات پر گواہ ہے اس نے توہمیشہ کی طرح اس جملے پر عمل کیا کہ’’ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ لیکن افسوس تو ان سادہ لوح علماء کرام پر ہوتا ہے جو جانتے ہیں حالات کا تقاضہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ باتیں اور اختلافی مسائل کو یوں عوامی سطح پر بیان کیا جائے۔آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی پستی اورذلت آمیز زندگی کا ایک بڑا سبب بھی باہمی اختلافات میں تشدد اور تعصب ہے۔
اختلافات کابالکلیہ خاتمہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ ’’اختلاف ‘‘ایک ایسی چیز ہے جو انسانیت کی ابتداء سے انسانوں کے درمیان پیدا ہوناشروع ہوا اور جب تک دنیا پر دو انسان موجود ہیں تب تک اختلافات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔اختلاف خواہ دینی حوالے سے ہو یا دنیاوی جب اختلاف کا خاتمہ ناممکن ہے تو پھر کیوں ان اختلافات کی وجہ سے علماء کرام ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
علماء کرام سے اپیل ہے کہ خدا کیلئے آپ کو خدا نے دین کی خدمت کیلئے چنا ہے تو خدارا وہ طریقہ اور طرز اختیار کریں جو دین کی خدمت میں شامل ہو نا کہ ذات کی تسکین یا پھر دنیاوی لالچ کی خاطرایسی باتیں کر جو دین اور دینی طبقات کی تحقیر اور بے توقیری کا سبب بنیں،کہیں ایسا نہ ہوآپ کے جابجا اختلافات اورکیمروں کے سامنے ہونے والی یہ ’’تو تو ،میں میں‘‘ ایک عام مسلمان کیلئے مایوسی کا سبب بننے لگے اس لئے علماء کرام ان شاطر لوگوں کی چالوں کو سمجھیں کہیں یہ آپ کو شہ دے کر ایسی باتیں بیان کرواکر اپنے مذموم مقاصد کا حصول نہ کر رہے ہوں۔

Share
Share
Share