تحریکات و تنقیدات پر تحقیق:آزادی کے بعد : ایک تعارف
مصنف : ڈاکٹر سکندر حیات میکن
مبصر: عبدالعزیز ملک
ڈاکٹر سکندر حیات میکن محنتی اور علم دوست انسان ہیں ۔اس کا ثبوت گزشتہ کچھ عرصے سے ان کی متواترچھپنے والی تحقیقی و تنقیدی کتب اور مضامین ہیں ۔مزید براں عصرِ حاضر کے ادبی رسائل ، ادبی محافل اورادبی تنظیموں کے اجلاس بھی ان کی علم و ادب سے محبت کے گواہ ہیں ۔وہ سنجیدہ فکر اور سنجیدہ طبیعت کے حامل انسان ہیں اور شاید یہ سنجیدگی اور متانت ان میں تحقیق و تنقید سے لگن کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔اب تک شائع ہونے والی ان کی نمایاں کتب میں’’ عطاالحق قاسمی :شگفتہ مسافر ‘‘،’’بحرِ ادب کے دو شناور‘‘،’’ اردو میں سوانحی تحقیق‘‘،’’افسانوی نثر پر تحقیق‘‘،’’اردو شاعری پر تحقیق‘‘اور ’’تحریکات و تنقیدات پر تحقیق‘‘ شامل ہیں ۔ ان کتب کے علاوہ ملک کے مؤقر علمی و ادبی رسائل میں ان کے مضامین علم کے پیاسوں کی پیاس بجھاتے رہتے ہیں ۔
’’تحریکات و تنقیدات پر تحقیق‘‘ ۲۰۱۸ء میں مثال پبلیشرز ،فیصل آباد سے شائع ہوئی ہے ۔ زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر سکندر حیات کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ایک حصہ ہے،جو انھوں نے ناصر عباس نیر کی زیرِ نگرانی ۲۰۱۴ء میں مکمل کیا۔زیرِ نظر کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلا باب’’ادبی تاریخوں پر تحقیق‘‘ کے عنوان کے تحت قلم بند کیا گیا ہے۔اردو میں ادبی تاریخ نویسی کی تاریخ خاصی پرانی ہے جس کا آغاز مولانا محمد حسین کی کتاب ’’ آبِ حیات‘‘ ہوا،لیکن مربوط اور اہم ترین کاوش رام بابو سکسینہ کی کتاب ’’تاریخِ ادب اردو‘‘قرار پاتی ہے جو انگریزی میں تحریر کی گئی تھی۔اس کے علاوہ بھی کوشش ہوئیں لیکن ان کا شمار قابلِ قدر اور معیاری کتب میں نہیں ہوتا ۔آزادی کے بعد ادبی تاریخوں کی کیا صورتِ حال رہی ڈاکٹر سکندر کی رائے ملاحظہ ہو:
’’تقسیمِ ہند کے فوراً بعد تحقیق کی بجائے تخلیقی ردِ عمل کا رجحان بڑھا۔ادب کی تاریخ کے حوالے سے ہمارا موضوع ادبی صورتِ حال کے تجزیے کی بجائے تحقیقی سر گرمیوں کے جائزے پر محیط ہے۔تحقیقی سطح پر ادبی تاریخ نویسی اور تحریکات کے مطالعہ کے حوالے سے ہمارے ہاں تین رجحانات ملتے ہیں ۔۱۔ ادبی تاریخ نویسی،۲۔مطالعہ تحریکات،۳۔متفرق موضوعات کا جزوی مطالعہ‘‘
آزادی کے بعد انفرادی سطح پر ڈاکٹر جمیل جالبی (تاریخِ ادب اردو،چار جلدیں)اور تبسم کاشمیری (اردو ادب کی تاریخ،ابتدا سے ۱۸۵۷ تک)کی ادبی تاریخیں قابل قدر ہیں۔پنجاب یونیورسٹی سے اشاعت پذیر ہونے والی ’’ تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند‘‘ جس میں چھٹی سے دسویں جلد تک اردو ادب کو موضوع بنایا گیا ہے،بھی ایک اہم کاوش ہے۔اس کے علاوہ اس باب میں ’’ اردو ادب ۱۹۴۷ء تا ۱۹۶۶ء ‘‘ از ڈاکٹر سید عبد اللہ،’’آج کا اردو ادب‘‘ ازڈاکٹر ابواللیث صدیقی،’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ ازڈاکٹر سلیم اختر،اور’’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘از ڈاکٹر انور سدید کاتعارف بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایسی ادبی تاریخیں جوغیر اہم ہیں ان کی فہرست کو باب کے آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب ’’ ادبی تحریکوں پر تحقیق‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا گیا ہے۔اردو ادب میں تحریکوں کا آغاز شروع میں ہی ہو گیا تھا ،لیکن بیسویں صدی کے شروع میں ان میں تیزی آگئی ۔اس کی بنیادی وجہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سیاسی و اقتصادی تبدیلیاں تھیں جن سے اردو ادب اثرپذیر ہو رہا تھا۔اس باب میں آزادی کے بعد شائع ہونے والی تحریکوں پر تنقید اور تحقیق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان تحقیقی کتب میں ’’اردوادب میں رومانوی تحریک ‘‘ از ڈاکٹر محمد حسن،’’اردو ادب اور اسلام ‘‘ ازپروفیسر ہارون الرشید،’’تحریکِ آزادی میں اردو کا حصہ‘‘ از ڈاکٹر معین الدین عقیل،’’فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات‘‘از عبیدہ بیگم،’’اردو ادب کی تحریکیں ‘‘ از انور سدید،’’ترقی پسند ادب ‘‘ از عزیز احمد،’’فورٹ ولیم کالج،تحریک اور تاریخ ‘‘ از سید وقار عظیم ،’’اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک ‘‘ از ڈاکٹر ملک حسن اختر،’’علی گڑھ تحریک ‘‘ مظہر حسین ،’’حلقہ اربابِ ذوق کی تحریک ‘‘ازڈاکٹر یونس جاوید ،اور’’اردو میں اسلامی ادب کی تاریخ ‘‘ از مہر اختر وہاب پر تبصرے شامل ہیں۔مزید کتب جو رہ گئی تھیں وہ متفرقات کی ذیل میں مذکور ہیں۔ باب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہیں :
’’آزاد ی کے بعد اردو تحریکوں کی تحقیق کے جائزے کے بعد یہ بات روشن ہوئی ہے کہ تحریکوں کے حوالے سے تحقیقی کام تیز رفتاری سے نہیں لیکن جاری ضرور رہا ہے اور اٹھنے والی ادبی تحریکوں کے حوالے سے چند اہم کوششیں زیرِ بحث لائی گئی ہیں ۔تحریکوں کے ادبی میدان میں وسعت کے حوالے سے غور کریں تو یہ تحقیقی کام ان کی خدمات کے بدلے میں کم ہے۔‘‘
کتاب کا تیسرا باب’’ اردو تذکروں پر تحقیق ‘‘ کے نام سے تحریر کیا گیا ہے۔تذکروں کی روایت اُردو کی تنقیدی و تحقیقی روایت سے بھی پرانی ہے۔ ابتدا میں جو تذکرے تحریر ہوئے انھوں نے فارسی ادب سے اثرات قبول کیے۔ اردو میں تذکرہ نگاری کی روایت کا آغاز میر تقی میر کے تذکرہ ’’ نکات الشعرا‘‘ سے ہواجو ڈیڑھ صدی تک محمد حسین آزاد کی کتاب ’’ آبِ حیات ‘‘ تک قائم رہا۔اردو تذکروں پر تحقیق کا سلسلہ گار ساں دتاسی کی کاوشوں سے شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ آزادی کے بعد تذکروں پر جو تحقیق ہوئی اس میں ’’شعرائے اردو کے تذکرے اور تذکرہ نگاری کا فن ‘‘ از ڈاکٹر سید عبداللہ،’’اردو تذکروں میں نکات الشعرا کی اہمیت‘‘ ازایم کے فاروقی،’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘از ڈاکٹر فرمان فتح پوری،’’شعرائے اردو کے تذکرے‘‘از حنیف نقوی ،اور’’ شعرا کے تذکرے ‘‘ قاضی عبدالودودنمایاں ہیں ۔اس باب میں ان کتب پر مربوط تبصرے رقم کیے گئے ہیں۔بقول ڈاکٹر سکندر حیات میکن آزادی کے بعد تذکروں کی تحقیق پر توجہ کی گئی لیکن مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے یہ تحقیق تشنہ ہے۔چند اہم کاوشوں کو چھوڑ کر تذکروں پر تحقیقی کاوشیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
باب چہارم میں ’’اردو تنقید پر تحقیق‘‘ کو موضوع بنایا گیا ہے۔اردو تنقید کے ابتدائی نمونے تذکروں اور بیاضوں میں موجود ہیں ،لیکن مربوط حالت میں اس کا آغاز محمد حسین آزاد سے ہوتا ہے ۔ وزیرآغا کے بقول انھوں نے مقدمہ شعرو شاعری سے چھبیس برس قبل انجمنِ پنجاب کے جلسوں سے اس کا آغاز کر دیا تھا ۔بہر حال نظری تنقید کے حوالے سے اولیت حالی ہی کو حاصل ہے ۔حالی کے بعد شبلی نعمانی ، مولوی عبدالحق،آل احمد سرور، اختر حسین رائے پوری،مجنوں گورکھ پوری ،احتشام حسین ،کلیم الدین احمد ایسے ناقدین نے اسے پروان چڑھایا۔اردو تنقید نے جہاں مشرقی روایت سے استفادہ کیا وہیں اس نے مغربی خیالات سے بھی اثرات قبول کیے ۔ آزادی کے بعد بھی یہ تسلسل جاری رہا اور اردو تنقید کے دامن میں وسعت پیدا ہوئی ۔اس حوالے سے سکندر حیات میکن لکھتے ہیں :
’’اُردو ادب میں تنقید اپنے پورے وجود کو ثابت کرچکی ہے اور ادب کے وجود کا انحصار بھی تنقید کے وجود کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے ۔نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے لیے بھی تنقید کا وجود ناگزیر ہوتا ہے اور یہی تنقید معاشروں اور قوموں میں ادبی وقار و معیار کو زندہ بھی رکھتی ہے۔‘‘
آزادی کے بعد اردو تنقید پر جو کتب شائع ہوئیں اس باب میں ان کتب کا تعار ف پیش کیا گیا ہے۔ان کتب میں ’’ اردو تنقید کا ارتقا‘‘ از عبادت بریلوی،’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ از کلیم الدین احمد ،’’اردو میں تنقید ‘‘ ازڈاکٹر محمد احسن فاروقی،’’نفسیاتی تنقید ‘‘ از ڈاکٹر سلیم اختر،’’جدید اردو تنقید پر مغرب کے اثرات‘‘ از علی حماد عباسی ،’’تنقید اور جدید اردو تنقید ‘‘ از ڈاکٹر وزیر آغا،’’مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت‘‘از ابولکلام قاسمی،’’اردو فکشن کی تنقید ‘‘ از ارتضیٰ کریم ،’’پاکستان میں اردو تنقید کے پچاس سال ‘‘از شہزاد منظر،’’تاریخِ نقد‘‘ سید وقار احمد رضوی ،’’اردو تنقید حالی سے کلیم تک‘‘ازسید محمد نواب کلیم ،’’جدید اور مابعد جدید تنقید ‘‘ از ڈاکٹر ناصر عباس نیر ،اور ’’اردو تنقید کا اصلی چہرہ‘‘ از عارفہ خان نمایاں ہیں ۔ان کے علاوہ بھی اردو تنقید پر کتب اشاعت پذیر ہوئیں ان کو اس باب کے متفرقات میں شامل کیا گیا ہے ۔ آزادی کے بعد اردو تنقید کی مجموعی صورتِ حال اطمینان بخش رہی ہے اور ناقدین کی معیاری اور قابلِ ذکر کتب سامنے آئی ہیں ۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی کتاب ’’ تحریکات و تنقیدات پر تحقیق‘‘ ایک اہم علمی و ادبی کاوش ہے جو نئے محققین کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گی ۔ اس کتاب میں ۲۰۱۲ء تک کی کتب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مقالہ نگار نے کوشش کی ہے کہ جامعیت کی حامل تنقیدی و تحقیقی کاوشیں زیرِ بحث آئیں ، کتاب میں مقدمے اورتنقیدی مضامین کو شامل نہیں کیا گیا۔اس کی وضاحت ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے دیباچے میں کر دی ہے ۔کیوں کہ اس حد بندی کے بغیر تنقیدی کتب کی وسعت کو زیرِ بحث لانا ممکن نہ تھا۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن کو اس تحقیقی کاوش پر ڈھیروں مبارک باد ۔امید ہے کہ مستقبل میں بھی وہ اس طرح کے کام منظرِ عام پر لاتے رہیں گے ۔
—-