اردو افسانچہ اور ڈاکٹر ایم اے حق
محمد علیم اسماعیل
ناندورہ،مہاراشٹر
جب سے میں نے وہ خبر سنی تب سے ہی بڑی شدت سے انھیں تلاش کر رہا تھا۔ان کا جو موبائل نمبر مجھے ملا تھا وہ مسلسل بند آرہا تھا،پھر میرے دماغ میں ایک دیا روشن ہوا اور میں نے فیس بک پر سرچ کرنا شروع کیااور آخر کار ایک دن تلاش و جستجو اختتام کو پہنچی۔
میں نے ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب کی فیس بک فرینڈ لسٹ میں انھیں تلاش کرلیا تھا،فرینڈ رکوسٹ بھیج کر فیس بک مسنجر پر مسیج سینڈ کیا کہ:
’’السلام علیکم
محترم جناب ایم اے حق صاحب
عرض تحریر یہ ہے کہ آپ کی ادارت میں شائع ہونے والارنگا رنگ ادبی رسالہ عالمی انوارِ تخلیق،رانچی،موسم گرما 2017 کے شمارے میں میرا ایک افسانچہ ’’شرمندگی‘‘ شائع ہوا ہے۔کیا آپ رسالے کی ہارڈ کاپی مجھے ارسال کر سکتے ہیں۔ (محمد علیم اسماعیل،ناندورہ،مہاراشٹر)۔۔۔۔‘‘
دوسرے روز جواب ملا ’’آپ کا موبائل نمبر دیجیے۔‘‘ اور میں نے ایک لمحہ بھی دیر نہ کرتے ہوئے اپنا نمبر مسیج کردیا اس کے بعد موبائل پر گفتگو کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
پہلی بار ایم اے حق صاحب کا فون 24 اگست 2017 کو اس وقت آیا جب میں ایک کام کر کے پوسٹ آفس سے نکلا ہی تھااور مجھے ساڑے دس سے پہلے پہلے اسکول پہنچنا تھا۔میں نے موبائل میں وقت دیکھادس بج رہے تھے، اور اندازہ لگایا کہ بیس منٹ میں اسکول پہنچ ہی جاؤں گا۔موبائل کو جیب میں رکھنے ہی والا تھا کہ کال آگئی،کال ریسوکی،دوسری جانب سے آواز آئی۔۔۔۔۔’’السلام علیکم۔۔۔میں ایم اے حق بول رہا ہوں۔‘‘
میں خوشی سے چہک اٹھا۔چند لمحات یوں ہی گزر گئے پھر سلام کا جواب دینے کے بعد جی سر،یس سر،اچھا سر،اوکے سر،ٹھیک ہے سر۔۔۔۔۔۔جیسے الفاظ سے میں نے گفتگو میں شمولیت حاصل کی۔جب میں نے رسالے کا خریدار بننے کی بات کی تو انھوں نے یہ بات واضح کردی’’خریدار بننا آپ کی تخلیقات شائع ہونے کی گارنٹی نہیں ہوگی اگر آپ کی تخلیق معیار پر اترے گی تو ضرور شائع ہوگی۔‘‘یہ بات مجھے اچھی لگی۔پچیس منٹ کی بات چیت کے بعد میں نے اپنے آپ کوپوسٹ آفس کے احاطہ میں ہی پایا،اس کے بعد مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کی اسکول پہنچنے میں میں لیٹ ہوگیا ہوں۔اسکول پہنچا تو صدر مدرس کی ناراضگی ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی لیکن کام کے شحص کو ہر کوئی برداشت کر ہی لیتا ہے۔
افسانچوں سے مجھے دلی لگاؤ ں ہے۔اس لیے فنِ افسانچہ کی باریکیوں کو جاننے کی خواہش دل میں لیے ہوئے،اپنے تشنہ لبوں کے ساتھ جب پہلی بار میری بات ایم اے حق صاحب سے ہوئی تو میں نے پایا کہ یہ تو افسانچہ نگاری کا ایک سمندر ہے۔جہاں تشنگانِ فن افسانچہ کوثرِ افسانچہ سے سیراب ہوتے ہیں۔وہ افسانچوں میں رہتے ہیں،افسانچوں میں جیتے ہیں اور ان کے چاروں طرف جدھر دیکھوں ادھر افسانچے ہی افسانچے نظر آتے ہیں۔انھوں نے افسانچہ کی ترقی میں ہمیشہ اپنی توانائی صرف کی ہیں۔افسانچوں کو فروغ دینے اور وسعت بخشنے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہیں۔بلکہ عمر عزیز کا ایک حصہ اس کے لیے وقف کر دیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ ’افسانچہ اطفال‘ کے موجد بھی ہیں۔
20 اگست 2017 کو نوجوان افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ ممبئی کا واٹس ایپ مسیج آیاتھا ’’مبارک ہو۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کس بات کی؟‘‘ انھوں نے کہا’’آپ کا افسانچہ رسالہ انوارِ تخلیق میں پڑھا،پڑھ کر دادو تحسین واجب محسوس ہوئی۔واقعی یہ ہمارے معاشرے کی سچی تصویر کشی ہے، ایک حقیقت نگاری ہے جسے آپن نے بڑی سنجیدگی سے پینٹ کیا ہے۔دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔‘‘ وسیم عقیل شاہ فیس بک پر ہمیشہ مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کی صحبت میں نظر آتے ہیں۔انھوں نے مزید بتایاکہ ’’یہ رانچی سے نکلتا ہے اور ایک معیاری رسالہ ہے۔اس میں افسانچوں کا معیار بہت اعلی ہوتا ہے کیوں کہ اس کے مدیر ایم اے حق صاحب ایک بہت بڑے افسانچہ نگار ہے۔‘‘ انھوں نے مجھے ایم اے حق صاحب کا موبائل نمبر بھی دیا تھا لیکن وہ نمبر مسلسل بند ہی آرہا تھا۔
اس دنیا میں یوں تو ہر کوئی کسی نہ کسی وقتی ضروریات کے تحت اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زیست کا مقصد منتحب کر لیتے ہیں۔اور اس مقصد کو حق بہ حق پورا کرنے کے لیے الف سے یا تک،جاگنے سے سونے تک،سفر سے حضر تک اور رخصت سے واپسی تک ہمیشہ مصروف نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر ایم اے حق نے اردو افسانچے کو خون جگر سے سینچا ہے۔ان کی شہرت کا دارومدار صرف افسانچہ نگاری پر ہی کھڑا ہے کیوں کہ وہ صرف اور صرف ایک افسا نچہ نگار ہیں۔۔ وہ افسانچہ نگاری میں نقطہ عروج تک پہنچ گئے ہیں۔’’نئی صبح‘‘ ان کا پہلا افسانچوں کا مجموعہ ہے،جسے بہت پسند کیا گیا اور اب وہ اپنے دوسرے افسانچوں کے مجموعہ کی اشاعت میں مشغول ہے۔بہت سے لوگوں نے ان پر تنقید کی اور انھیں مشورے دیے آپ افسانچے کی بجائے اگر افسانے پر اپنی توانائی صرف کریں تو زیادہ بہتر ہوگاکیوں کہ افسانچہ کی صنف، لطیفے کے مترادف ہے۔ لیکن ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائیں، ان حوصلوں کی اڑان انچی تھی اس لیے وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد پر جمے رہے۔رسالہ عالمی انوار تخلیق میں افسانچہ نگاری کو فروغ دے کر وہ اردو افسانچے کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں۔رسالہ عالمی انوارِ تخلیق میں ایک مکتوب کے ردِعمل میں وہ لکھتے ہیں: ’’جہاں تک قربانی دینے کی بات ہے تو ابھی تک میں قربانی ہی دیتا آیا ہوں۔جب آپ نے بات چھیڑی ہے تو سن لیجئے کہ ہر شمارے(رسالہ عالمی انوارِتخلیق،رانچی)میں لگ بھگ بیس ہزار روپے اپنے پینشن کی رقم خرچ کرتا ہوں۔یہاں رانچی میں اِن پیج میں ٹائپ کرنے والوں کا ’’نخرہ‘‘اتنا زیادہ ہے کہ تھک ہار کر میں خود ٹائپ کر لیتا ہوں۔آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ میں جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں بحیثیت ایڈوکیٹ پریکٹس کرتا ہوں۔آپ خود اندازہ لگا لیں کہ وقت کی اہمیت میرے لیے کیا ہے۔کیا یہ اردو کے لئے میری قربانی نہیں ہے؟‘‘
حق صاحب کے فن پر چنداہل قلم ادیب و نقادوں کے رائے ملا خط فرمائیں:
جوگندر پال ۔ ۔ ۔ ’’مجھے یقین ہے کہ حق کی تخلیقی بے چینیوں کے اسباب ہمیں سدا اسی مانند متجسس کرتے رہیں گے اور وہ اپنے پر گو اور ذومعنی اختصار کو کام میں لا لا کر اپنی افسانچہ نگاری کے باب میں فکر و فن کے اور بھی کئی نازک مقام سر کرتے چلے جائیں گے ۔‘‘
پروفیسر وہاب اشرفی ۔ ۔ ۔’’ ڈاکٹر ایم اے حق اپنی نگارشات کے ذریعہ پڑھنے والوں کی حسیات پر قابض ہونا چاہتے ہیں ۔ اور اس مقصد میں وہ انتہائی کامیاب ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی ۔ ۔ ۔’’ ڈاکٹر ایم اے حق افسانچوں اور افسانوں میں نئی تخلیقیت فنی اقدار کے پس منظر میں رونما ہوتی ہے اور وسیع منظر نامے کو سامنے لاتی ہے ۔‘‘
رتن سنگھ ۔ ۔ ۔ ’’زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کو عام آدمی نظر انداز کردیتا ہے وہ ایم اے حق کے یہاں کہانی کے سانچے میں ڈھل کر دلکش بن جاتے ہیں انہیں پڑھ کر سن کر قاری محظوظ ہوتا ہے ۔‘‘
رونق جمال ۔ ۔ ۔ ’’حق صاحب نے ‘نئی صبح’ میں پچپن (55) افسانچے اور مختصر افسانوں کو شامل کیا ہے۔ان کے تمام افسانچوں کی یہ خوبی ہے کہ ان میں کہیں بھی فلسفے، تیرونشتر اور کہاوتوں کو افسانچے کے نام پر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ تمام افسانچے حق صاحب کے قلم کے شہکار ہیں۔‘‘
نورالحسنین ۔ ۔ ۔ ’’ایم اے حق کے افسانچوں کی خاص خوبی یہ ہے کہ نہایت مختصر ہونے کے باوجود ان کا کلائمکس نہ صرف قاری کی توقعات سے مختلف ہوتا ہے بلکہ ایک ایسا انہونا نشتر لگاتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
مشرف عالم ذوقی ۔ ۔ ۔ ’’لفظ لفظ میں آپ کی کہانیاں مجھے پسند آئیں۔ یہ افسانچوں کا نیا موڑ ہے جہاں عہد حاضر کا منٹو ایک نئی فضا میں سانس لیتا ہے۔‘‘
محمد بشیر مالیرکوٹلوی ۔ ۔ ۔ ’’حق صاحب کا افسانوی اور افسانچوی مجموعہ نئی صبح کے مطالعہ سے محسوس ہوا کہ حق صاحب نے زندگی کو بہت قریب سے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے۔‘‘
قاضی مشتاق احمد ۔ ۔ ۔ ’’ ایم اے حق کے افسانوں میں گھن گرج ہے اور نہ شور شرابا۔ البتہ پس منظر سے طمانچوں کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نظیر فتح پوری ۔ ۔ ۔ ’’ حق صاحب زندگی کے بہت قریب سے گزرے ہیں ۔ان کے مشاہدے کی آنکھیں روشن ہیں ۔‘‘
ایم اے حق صاحب کا ایک افسا نچہ اور اس تجزیہ پیش خدمت ہے:
مجرم
’’میری بیٹی ٹرین کے باتھ روم سے وا پس آتے ہی بولی
’’پا پا آپ ابھی تک غلط ہندی لکھتے ہیں۔‘‘ اور میں دوہری شرم سے گڑ گیا۔‘‘
ڈاکٹر ایم اے حق صاحب کا افسانچہ مجرم، نہایت ہی مختصراور تمام لوازمات کو اپنے اندر سمائے ہوئے ایک مکمل افسانچہ ہے۔اس میں
پلاٹ،کہانی پن،کردار،مکالمے،کلائمیکس سب کچھ ہیں۔ٹرینوں میں باتھ روم کی دیواروں پر فحش نگاری کس نے نہ دیکھی ہو!!! ہر کوئی اس سے واقف ہے۔اس افسانچے میں ایک جملہ ’’اور میں دوہری شرم سے گڑ گیا۔‘‘ اپنے دوہرے معنی لیے ہوئے ہے۔اگر باہر کا کوئی انجان شخص اس کی اس حرکت کو بے نقاب کرتا تو شاید اسے شرمندگی نہ ہوتی لیکن یہاں اس کی اپنی بیٹی نے ہی اسے بے نقاب کیا ہے۔ایک تو ٹرین کے باتھ روم کے فحش نگاری پکڑے جانے کی شرمندگی اور دوسرے اپنی بیٹی کی نظروں میں گر جانے کی شرمندگی۔اس طرح وہ دوہری شرم سے گڑ گیا۔جو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افسانچہ کیسا ہوتا ہے ان کے لیے افسانچہ ’’مجرم‘‘ ایک مثال ہے۔اور یہی انفرادیت ایم اے حق صاحب کے افسانچوں میں نظر آتی ہے اور ان کے افسانچے ایک مکمل فن پارہ ہوتے ہیں۔مجرم ایک ایسا افسانچہ ہے جسے پڑھنے کے بعد ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع ہو جاتی ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر عظیم راہی نے اپنی کتاب ’’اردو میں افسانچہ کی روایت:تنقیدی مطالعہ‘‘ میں افسانچے کی تعریف کی ہے’’افسانچہ زندگی کے کسی چھوٹے سے لمحے کی تصویر دکھا کر ایک مکمل کہانی قاری کے ذہن میں شروع کردینے کا نام ہے۔‘‘
ایم اے حق صاحب سے موبائل پر دوران گفتگو میں افسانچہ کے فن پر کرید کرید کر سوالات کرتا رہااور انھوں نے بھی ہر بار بڑے اچھے طریقے سے مجھے ہر سوال کا جواب سمجھایااور میری الجھنیں دور کی۔واٹس ایپ پر میرے افسانچوں کی کھلے دل سے رائے دی ورنہ آج کل کے بڑے ادیب نئے لکھنے والوں سے بات کرنا بھی کہا پسند نہیں کرتے ہیں۔وہ ادب کے معیار سے کبھی سمجھوتا نہیں کرتے،جب جب وقت آیا انھونے خود پر بھی تنقید کی ہیں۔وہ ایک بیباک اور مخلص انسان ہیں۔ایم اے حق صاحب سے افسانچے کے فن کے متعلق کیئے گئے سوالات کے جوابات کا نچوڑ اس طرح ہے :
’’اختصار افسانچے کی خوبی ، طوالت افسانچے کی موت اور منظر کشی افسانچے کی دشمن ہے۔افسانچے کی شروعات ایسی ہو کہ قاری مطالعہ کرنے کے لیے مجبور ہوجائے۔الفاظ جملے اور مکالموں کی تکرار نہ ہو بلکہ یہ نپے تلے ہو۔اختصار اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ ابہام پیدا ہوجائے۔اور طوالت اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ ہر بات کھل کر بیان کردی جائے۔ گھسے پٹے واقعات سے دامن بچانا بھی ضروری ہے۔ عنوانات دور حاضر کے مسائل اور حالات زندگی پر مبنی ہو۔عنوان سے کلائمکس کا پتہ نہ چلنے پائے۔اختتام و کلائمکس چونکا دینے والا ہو۔لو گوں میں ذہانت کی سطح کافی اونچی ہوتی جارہی ہے اور ایک مشہور کہاوت ہے کہ عقلمند کو اشارہ کافی ہے اور اشارہ ہمیشہ مختصر ہوتا ہے۔فرض کیجیے آپ ٹرین میں سفر کر رہے ہے۔آپ کے پاس افسانوں کی کتاب ہے۔آپ کے مقابل میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جو ادب سے و مطالعے سے بے بہرا ہے۔وہ شحص کتاب اٹھائے گا،دس پیج کے ایک افسانے پر نظر دوڑائے گا اور واپس رکھ دے گا۔اس کے بر عکس اگر آپ کے پاس افسانچوں کی کتاب ہوگی تو وہ اسی وقت دو تین افسانچے پڑھ ہی لے گا،پڑھ کر لطف اندوز ہوگا،دھیرے دھیرے مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا اور وہ افسانوں کی طرف راغب ہوگا۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ افسانچے ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، نہیں تو ادبی ذوق والے حضرات تو ادب کے مطالعہ سے اپنی پیاس بجھا ہی رہے ہیں۔افسانچہ دراصل افسانے کی بونسائی (Bonsai) شکل ہے۔پلاٹ،کردار،مکالمے،کلائمکس،پیغام وغیرہ اجزائے ترکیبی کو افسانچے میں بڑی مہارت کیساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔آج افسانچہ وقت کی ضرورت ہے اور یہ صنف دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔‘‘
——
MOHD ALIM ISMAIL
NANDURA(MAHARASHTRA)
MO.8275047415