میراںجی شمس العشاق کا سنہ پیدائش و وصال
پروفیسر حبیب نثار
صدر شعبہ اردو ‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد
اردو ادب کی نشوونما میں صوفیا نے اہم حصہ ادا کیا ہے۔ دکن میں خانوادہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کی طرح خانوادہ میراںجی شمس العشاق نے بھی اردو ادب کے فروغ نشر و اشاعت میں غیر معمولی خدمات انجام دیں ہیں۔ میراںجی شمس العشاق اس خاندان کے دکن میں بنیاد گذار کی حیثیت رکھتے ہیں وہ ایک عظیم صوفی، مبلغ اور شاعر تھے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے حالات زندگی کے بارے میں لا علمی کے ساتھ ساتھ غلط فہمیاں بھی رواج پا گئیں ہیں۔ پروفیسر محمد ہاشم علی اس صورت حال کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میرانجی شمس العشاق کا شمار بلا شبہ دکن کے ممتاز صوفیوں میں ہوتا ہے لیکن افسوس ہے کہ بے خبری کے کتنے اندھیرے اور ادھوری اور متضاد معلومات کے کتنے دھندلکے ہیں جو اس عظیم شخصیت کی سوانح حیات پر چھائے ہوئے ہیں۔ حدیہ کہ نہ تو وثوق کے ساتھ یہ بتلایا جا سکتا ہے کہ ان کا جنم کہاں ہوا اور نہ ہی یقین کے ساتھ ان کا سنہ ولادت یا سنہ وفات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔(۱)
استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے بھی حضرت میرانجی شمس العشاق کے سلسلے میں ایسے ہی خیالات کا بیان کیا ہے۔ اقتباس دیکھئے:
’’اردو ادب کی تاریخ میں خواجہ بندہ نواز کے بعد شاہ میراں جی شمس العشاق سب سے بڑے صوفی و درویش ہیں…..افسوس یہ ہے کہ شمس العشاق جیسی درخشندہ ہستی کے حالات زندگی تاریکی میں ہیں ان کے نسب، تاریخ ولادت و تاریخ وفات سب پر اختلاف رائے ہے۔ دراصل متضاد قدیمی بیانات کی وجہ سے یہ مسائل ایسے لایخل ہو گئے ہیں کہ قیا س کا سہارا لیے بغیر چارا نہیں…..مسائل یہ ہیں۔(۲)
استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے اپنے مضمون میں جن مسائل کی جانب اشارہ کیا ہے میری تحقیق کے مطابق ان پانچ مسائل کے مستند تاریخی شواہد حسب ذیل ہیں۔
مسائل – شواہد یا جواب
۱) ان کے والد سید تھے یا مغل – سید تھے
۲) وہ مکہ میں پیدا ہوئے یا بیجاپوریا احمدآباد یا احمد نگر یا دہلی – مکہ میں پیدا ہوئے
۳) ان کا سنہ ولادت کیا ہے – ۹۲۲ ہجری
۴) وہ بیجاپور کب آئے – ۹۶۶ھ بیجاپور تشریف لائے
۵) ان کا سنہ وفات کیا ہے – ۹۹۴ ھ بحوالہ مرثیہ از جانم
تفصیلی مباحث آیندہ صفحات میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ان مسائل پر تحقیق کرنے والوں میں ذیل کے اصحاب ممتاز ہیں۔
مولوی عبد الحق، ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، ڈاکٹر محمد اکبر الدین صدیقی، ڈاکٹر محمد ہاشم علی،سخاوت مرزا، ڈاکٹر حسینی شاہد، ڈاکٹر جمال شریف اور ڈاکٹر گیان چند جین حقیقت یہ ہے کہ میرانجی شمس العشاق جیسی درخشندہ ہستی کے حالات زندگی نہ تاریکی میں ہیں اور نہ ان کے نسب، تاریخ ولادت و تاریخ وفات میں اختلاف موجود ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے محققین نے سامنے موجود ماخذ کو نظر انداز کرتے ہوئے ثانوی ماخذات پر غور کیا ہے اور قیاسات کا سہارا لیا اس کی شروعات مولوی عبد الحق کے مضمون سے ہوتی ہے۔
مولوی عبد الحق نے رسالہ اردو اورنگ آباد میں’’ قدیم اردو‘ ادب بیجاپور کے اولیاء اللہ کا ایک شاعر خاندان ‘‘کے عنوان سے مضمون لکھا جو اپریل ۱۹۲۷ ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں مولوی عبد الحق نے میرانجی شمس العشاق کے حالات زندگی کا بیان کرتے ہوئے ان کی ہندوستان میں آمد اور سنہ وفات پر اظہار کیا ہے۔اقتباس دیکھئے۔
’’روضتہ الاولیا او رمحبوب ذی المنن تذکرہ اولیائے دکن، دونوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ علی عادل شاہ اول کے ابتدائی عہد میں وارد بیجاپور ہوئے لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے کیوں کہ علی عادل شاہ اول کا عہد سنہ ۹۶۱ھ(کذا ۹۶۵ھ) سے ۸۸۹ ھ تک رہا اور حضرت کی وفات سنہ ۹۰۲ ھ میں واقع ہوئی۔ یہ سلطنت عادل شاہی کے بانی یوسف عادل شاہ کا زمانہ ہوتا ہے۔‘‘(۳)
آپ کی تاریخ ولادت صحیح طور پر معلوم نہیں لیکن آپ کی وفات سنہ۹۰۲ ھ میں ہوئی۔ تذکرہ اولیا دکن میں ان کی تاریخ وفات ۹۱۰ ھ لکھی ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ’’شمس العشاق ‘‘ سے ان کی وفات کی تاریخ نکلتی ہے جو ۹۰۲ ہوتی ہے اور یہ مادہ تاریخ شاہ حسین ذوقی کا کہا ہوا ہے….البتہ مجھے ایک پرانا مرثیہ ملا جو کسی نے حضرت میرانجی کی وفات پر لکھا ہے اس سے ان کی وفات کی تاریخ ۲۵؍ شوال سنہ ۹۰۲ معلوم ہوتی ہے۔‘‘(۴)
مولوی عبد الحق نے یہاں دو حقائق (مولوی صاحب کی نقطہ نظر سے) بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ میرانجی شمس العشاق کا سنہ وفات ۹۰۲ ھ ہے کہ شاہ حسین ذوقی نے تاریخ کہی ہے اور کسی نا معلوم مرثیہ نگار کے مرثیہ سے بھی اسی سنہ کا پتہ چلتا ہے (چوں کہ قطعہ تاریخ کی تصدیق مرثیہ سے ہوتی ہے غالباً اسی لیے مولوی عبد الحق نے اس سنہ کو مستند سمجھا ہے) چوں کہ انھوں نے میرانجی کا سنہ وفات ۹۰۲ ھ تسلیم کیا ہے اسی تاریخی حقیقت کے تناظر میں انہوں نے یوسف عادل شاہ کے عہد حکومت میں میرانجی شمس العشاق کے ہندوستان تشریف لانے کا بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے مولوی عبدالحق کی تحقیق کو رد کیا اوراپنے زیر اشاعت ارشاد نامے کے مقدمہ میں اس اختلاف کو واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں
’’ہمارا خیال ہے کہ ۹۰۲ ھ میراں جی کا سنہ وفات نہیں بلکہ سنہ پیدائش ہے اور ان کا سنہ وفات اصل میں سنہ ۹۷۰ ھ صحیح ہے جیسا کہ تذکرہ اولیائے دکن میں درج ہے…..تمام تذکرے اس امر کے اظہار اس متفق ہیں کہ شاہ میراں جی بیجاپور کو علی عادل شاہ کے عہد میں تشریف لائے۔ علی عاشل شاہ ۹۶۵ ھ میں تخت نشین ہوا اور ۹۸۸ ھ میں فوت۔ اس طرح شاہ میراں جی کا ورود بیجاپور ۹۶۵ھ کے بعد ہوا اور انھوں نے یہاں چند ہی سال قیام کیا تھا کہ وفات پائی۔‘‘(۵)
مثنوی ارشاد نامہ کے مقدمہ میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور اس موضوع کے مختلف نکات پر بحث کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں۔
’’غرض شاہ میراں جی کی تاریخ وفات ۹۰۲ کی جگہ ۹۷۰ ھ ہی ماننی پڑے گی اور لقب شمس العشاق مادہ تاریخ پیدائش ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی ہی میں مشہور ہوا ہوگا۔ جس کو شاہ حسین ذوقی اور ان کی تقلید میں مولوی عبد الحق صاحب نے تاریخ وفات سمجھ لیا‘‘۔(۶)
مولوی عبد الحق نے شاہ حسین ذوقی کی تاریخ کی سند پر شاہ میراں جی کا سنہ وفات ۹۰۲ قرار دیا تھا ۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے تذکرہ اولیاء دکن میں دئیے گئے میراں جی کے سنہ وفات کو صحیح تسلیم کیا کہ تذکروں میں میراں جی کے ہندوستان آنے کا سنہ ۹۶۵ ھ کے بعد لکھا ہے اور مولوی عبد الحق کے بیان کردہ سنہ وفات ۹۰۲ کو ڈاکٹر زور نے شاہ حسین ذوقی کی کہی ہوئی تاریخ کے پس منظر میں میراں جی کا سنہ پیدائش قرار دیا ہے۔
۱۹۶۱ ء کے بعد میراں جی پر لکھا گیا مرثیہ موضوع بحث بن جاتا ہے اور اس میں مرثیہ نگارکی بیان کی گئی تاریخیں ہمارے محققین کی ’’مشق سخن‘‘ کی وجہ بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد اکبر الدین صدیقی نے ۱۹۶۱ء میں برہان الدین جانم کی ’’کلمتہ الحقائق‘‘ شائع کی اس کے مقدمہ میں یہ انکشاف کیا کہ مولوی عبد الحق نے میرا ں جی پر لکھے ہوے جس مرثیہ کا تذکرہ کیا ہے وہ شاہ میراں جی شمس العشاق ہی پر لکھا گیا ہے اور لکھنے والے ہیں میراں جی کے صاحبزادہ حضرت برہان الدین جانم ، ڈاکٹر اکبر الدین صدیقی نے اس مرثیہ کی سند پر حضرت میراں جی شمس العشاق کی تاریخ وفات ۲۵؍ شوال ۹۰۲ ھ قرار دیا۔‘‘(۷)
اقتباس دیکھئے۔
’’یہ مرثیہ حضرت میراں جی شمس العشاق کی عالمانہ فضیلت و بزرگی اور صوفیانہ زندگی کا آئینہ ہے اور بیٹے نے باپ کے غم میں اپنی آنکھوں سے جو گنگا جمنا بہاے ہیں وہ آج بھی اسی طرح ہمارے سامنے ہیں۔‘‘(۸)
محمد اکبر الدین صدیقی نے برہان الدین جانم کے مرثیہ’’تاریخ و مقام‘‘ کے تحت حسب ذیل چار شعر لکھے ہیں۔
’’تاریخ حضرت سال نو سو دو اس پر اگلے بھی دو دن مدت وفا شو جے کچ حکم الٰہی کا اربع سوں یو سال ہے ما ہے کوں شوال ہے رحلت کیے اس حال ہے جے کچ حکم الٰہی کا تاریخ بست و پنج بو دبسیار گریاں رنج شد در حال و اصل گنج خود جے کچ حکم الٰہی کا شب پنجشنبہ روشن کیا ہجرت منور پور کیا جیوڑا قبض کر ان لیاجے کچ حکم الٰہی کا۔(۹)
تعجب اس بات پر ہے کہ ان اشعار کو درج کرنے کے بعد محمد اکبر الدین صدیقی نے ان اشعار پر کوئی اظہارخیال نہیں کیا ہے خصوصاً یہاں درج کیے گئے اشعارمیں پہلااور تیسرا مصرع قابل توجہ ہے۔ اسی مصرع کو مولوی عبد الحق نے اس طرح لکھا ہے تاریخ حضرت سال نو سو، اس پر اگلے بھی دو۔
محمد ہاشم علی نے ۱۹۶۲ ء میں مغز مرغوب اور چہار شہادت، میراں جی شمس العشاق کے دو رسالے بازیافت کیے اس کے مقدمہ میں میراں جی کے سنہ پیدائش و وفات پر روشنی ڈالی ہے۔ انھیں کتب خانہ گچی محل میں اس مرثیہ کے پانچ شعر دستیاب ہوے جن کے مطالعہ کے بعد مندرجہ بالا دو مصرعوں کی قرأت انہو ں نے اس طرح کی ہے۔
تاریخ حضرت سال نو سو دو، اس پر اگلے بھی دو(۱۰)
اربع تسوں یو سال ہے ماہ کوں شوال ہے۔(۱۱)
محمد ہاشم علی نے دوسرے مصرعے کے دوسرے لفظ کو ’’تسعون‘‘ قرار دیا جس سے مصرع کی معنویت مکمل ہوتی ہے کہ ’’اربع تسعوں‘ سے ۹۴(چورانوے) سال مراد ہے۔محمد ہاشم علی نے لکھا ہے کہ’’وفات کے وقت حضرت کی عمر ۹۴ سال تھی‘‘۔
ڈاکٹر محمد ہاشم علی نے اپنی تحقیق سے میراں جی شمس العشاق کی تاریخ پیدائش اور وفات کے سلسلے میں دو نکات کا اضافہ کیا کہ مرثیہ میں ۹۰۴ ھ کا ذکر ہے اور میراں جی شمس العشاق کی عمر ۹۴ سال تھی۔
مولوی سخاوت مرزا نے اپنے مضمون’’حضرت میراں جی شمس العشاق کی تاریخ وصال‘‘ میں حضرت میراں جی شمس العشاق کے ورود بیجاپور کا سنہ بساتین سلاطین کے حوالے سے ۹۶۶ ھ اور بناء شاہ پور ۹۶۷ ھ لکھا ہے اور ڈاکٹر سید محی الدین قادری نے میراں جی کی جو تاریخ وصال ۹۷۰ لکھی ہے اسی کو تسلیم کیا ہے۔(۱۱)
ڈاکٹر حسینی شاہد نے اپنی تصنیف’’سید شاہ امین الدین علی اعلیٰ حیات اور کارنامے میں میراں جی شمس العشاق پر لکھے گئے مرثیہ کے حوالے سے سنہ وفات’’نوسو دو اس پر اگلے بھی دو‘‘ کی بنا پر ۹۲۲ ھ قرار دیا ہے۔(۱۳)
ڈاکٹر جمال شریف اپنی تصنیف’’دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے‘‘ میں حضرت میرا ں جی شمس العشاق کی تاریخ وصال ڈاکٹر زور سے اتفاق کرتے ہوئے ۹۷۰ ھ تسلیم کرتے ہیں۔ اور ۹۰۲ ھ کو تاریخ بیعت قرار دیتے ہیں۔(۱۴)
پروفیسر گیا ن چند جین میرا ں جی شمس العشاق کی تاریخ پیدائش ۹۰۲ یا ۹۰۴ھ تسلیم کرتے ہیں اور ڈاکٹر حسینی شاہد کی بیان کردہ تاریخ وفات ۹۲۲ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور’’ نوسو دو اس پر اگلے بھی دو‘‘ سے وہ ۹۰۲۲ بتاتے ہیں۔(۱۵)
یہاں استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے ڈاکٹر حسینی شاہد کے ساتھ زیادتی کی ہے دراصل دکن میں تاریخ چاہے نثر میں لکھی جا رہی ہو کہ منظوم تعداد کے ساتھ’’پر‘‘لکھنے کا رواج تھا یہ دراوڈی زبانوں کی دین ہے تلگو اور کنڑ میں یہی طریقہ رائج ہے کہ پہلے سیکڑا کی تعداد پھر دہائی اور پھر اکائی کی تعداد لکھی جاتی ہے حضرت برہان الدین جانم نے اسی گنتیfigureکو الفاظ میں لکھ دیا ہے اور ان کی مراد سیدھے سیدھے نوسو بائیس ہی ہے جیسا کہ حسینی شاہد نے اخذ کیا ہے یہاں مثلاً چند تاریخیں درج کی جاتی ہیں۔
ہجرت تھے دس سو سال ہے چالیس پر بھی پانچ تھے
تب یو مرتب سب ہوا تحفہ سو دکھتی نامور ’تحفتہ النصائح ۱۰۴۵ ھ
سنہ یک ہزار ہور ستر یوسات
لکھیا تھا اوسی سال یو نکات۔۱۰۷۷ احکام الصلوٰۃ مخطوطہ ۳۴۹۲ فقہ حنفی، آصفیہ
اگیارا سو پہ تھا سن ساٹ ہو رسات
کہ بھی رمضان کی تھی گیارھویں رات، ۱۱۶۷ھ ترجمہ سراج المومنین ،مخطوطہ نمبر ۱۱۶
ہزار و دو صداوس پہ چالیس و چار
جب ہجری سے گزرے لکھا یہ بچار،۱۲۴۴ھ رسالہ بدعت شکن ،مخطوطہ نمبر ۲۴۳ ،آصفیہ
گیان چند جین نے ۹۰۲ ہی تسلیم کیا ہے اور ایسے میراں جی شمس العشاق کی تاریخ پیدائش قرار دیا ہے۔ محمد ہاشم علی نے’’اربع تسعون‘‘ تجویز کرنے کے بعد اسے حضرت میراں جی کی عمر قرار دیا ہے میراں جی کی اس عمر کی گیان چند جین باوجود اختلاف رکھنے کے تسلیم کرتے ہیں۔ اسی لیے برہان الدین جانم کے مرثیہ کا زمانہ تخلیق ۹۹۶ ھ قرار دیتے ہیں۔ ۹۰۲+۹۴=۹۹۶اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حضرت میراں جی شمس العشاق کا سنہ وصال ۹۹۴ ھ ہے۔(۱۶)
راقم الحروف نے اس مضمون کی ابتدا میں لکھا ہے کہ میراں جی شمس العشاق کے حالات زندگی کے بنیادی ماخذ موجود ہیں لیکن ہمارے محققین نے ثانوی ماخذات کو ترجیح دی اور قیاس سے کام لے کر ایک سیدھی سادی حقیقت کو پیچیدہ مسئلہ بنا دیا ہے۔ میراں جی شمس العشاق کا نام ’’ولدیت‘‘ تاریخ پیدائش مقام پیدائش اور تاریخ وصال کے سلسلے میں خودنوشت، بساتین السلاطین، اور مرثیہ بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خود نوشت نسب نامہ کا مخطوطہ کتب خانہ ادارۂ ادبیات اردو میں موجود ہے جو صرف دو صفحات پر مشتمل ہے یہ فارسی میں ہے۔ ڈاکٹر حسینی شاہد نے اپنی تصنیف’’سید شاہ امین الدین علی اعلیٰ‘‘ میں خود نوشت نقل کرنے کے بعد ان سے جو اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں انھیں گیارہ نکات کے طور پر درج کیا ہے۔ان میں سے چھ نکات ہمارے موضوع سے متعلق ہیں جن سے میراں جی شمس العشاق کا نام، ولدیت، وطن او رمقام پیدائش کا علم ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
۱) میراں جی سادات زیدی سے تھے
۲) ان کا نام امیر الدین اور عرف میراں جی تھا
۳) ان کے والد کا نام حاجی شریف دوام الدین تھا اور وہ مکی تھے
۴) حاجی شریف دوام الدین شادی کی غرض سے ہندوستان آئے
اور چغتائی خاندان میں بیاہ کر کے وطن لوٹ گئے۔
۵) ان کا آبائی مکان ابوبکر بن قحافہ کے گھر کے برابر محلہ قریشہ میں
واقع تھا۔
۶) میرا ں جی اپنے آبائی مکان میں پیدا ہوئے(۱۷)
(حسینی شاہد نے عین خود نوشت کے مطابق یہ نکات لکھے ہیں جو کہ فارسی میں ہے اور کتب خانہ ادارۂ ادبیات ارد و، مخطوطہ ۸۶۲ میں دیکھا جا سکتا ہے)
میراں جی شمس العشاق کے نام ، عرفیت، ولادت، مقام پیدائش اور وطن کے سلسلے میں یہ ایک اہم سند اور ماخذ ہے جیسے ہمارے محققین نے نظر انداز کرتے ہوئے بیسویں صدی کے تذکروں او رمحققین کی آرا پر صاد کیا ہے جس کی وجہ سے آپ کے سلسلے میں غلط فہمیاں راہ پا گئی ہیں۔
مولوی عبد الحق نے میراں جی شمس العشاق کا سنہ وصال ۹۰۲قرار دیا ہے دلیل یہ دی ہے کہ شمس العشاق سے یہ سنہ برآمد ہوتا ہے اور دکنی کے ایک شاعر شاہ حسین ذوقی نے یہ تاریخ نکالی ہے جب کہ بساتین السلاطین میں علی عادل شاہ اول کے عہد کے اہم واقعات میں میراں جی شمس العشاق کی بیجاپور آمد اور شاہ پور میں سکونت اختیار کرنے کا تذکرہ موجود ہے۔(۹۶۶ ھ میں) بساتین السلاطین ایک اہم تاریخی کتاب ہے اور ہم اس ماخذ کو نظر انداز نہیں کرسکتے مزید براں میراں جی شمس العشاق نے اپنی خود نوشت میں عہد علی عادل شاہ اول میں بیجاپور آنے کا ذکر کیا ہے۔
خود نوشت اور بساتین السلاطین کی سند سے پتہ چلتا ہے کہ ۹۶۶ ھ کے بعد میراں جی شمس العشاق ہندوستان آئے ہیں اس حقیقت کی موجودگی میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ مولوی عبد الحق کی بیان کردہ تاریخ وفات ۹۰۲ ھ کہ یکسر نظر انداز کر دیا جاتا لیکن ہمارے محققین نے حقیقت پر قیاس کو ترجیح دی ہے۔
اگر ۹۶۶ ھ کے بعد میرا ں جی شمس العشاق ہندوستان آئے ہیں اور اسی کے بعد مرشد کے حکم پر انہوں نے بھنگار(گجرات) جا کر شادی کی ہے ور۹۷۲ ھ میں انہیں پہلی اولاد سے اللہ نے نوازا جنھیں ہم برہان الدین جانم کے نام سے جانتے ہیں۔ تو اس صورت میں ۹۰۲ ھ میں وفات کا مفروضہ خود بخودرد ہو جاتا ہے۔
اب مسئلہ رہ جاتا ہے میراں جی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کا اس سلسلے میں حضرت برہان الدین جانم کا کہا ہوا مرثیہ ہماری دستگیری کے لیے موجود ہے۔ حضرت جانم نے اپنے مرثیہ میں میراں جی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لکھی ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ مرتبہ حضرت برہان الدین جانم کی تخلیق ہے اور اس کا قدیم ترین نسخہ۱۰۶۸ ھ کا ملتا ہے۔ متعلقہ دو شعر حسب ذیل ہیں۔
تاریخ حضرت سال نو سو دو اس پر اگلے بھی دو
ویں مدت وفات یو سنو جے کچ حکم الٰہی کا
اربع تسعون یوسال ہے ما ہے کوں شوال ہے
رحلت کیے اس حال ہے جسے کچ حکم الٰہی کا
گیان چند جین پہلے مصرع کے بارے میں لکھتے ہیں’’تاریخ حضرت سال نو سو دو اس پر اگلے بھی دو‘‘ سے مراد تاریخ ولادت حضرت ہے۔‘‘(۱۸) گیان چند جین نے ’’نو سو دو اس پر اگلے بھی دو‘‘ میں ۹۰۲ اور ۹۰۴ھ دونوں مراد لیا ہے۔ڈاکٹر زورؔ ، ڈاکٹر محمد ہاشم علی اور ڈاکٹراکبر الدین صدیقی نے اس سے ۹۰۴ ھ اخذ کیا ہے البتہ ڈاکٹر حسینی شاہد نے اس سے ۹۲۲ھ برآمد ہونے کی تصدیق کی ہے۔ یہ تاریخ حقیقتاً ۹۲۲ھ ہی ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں راقم وضاحت کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت میراں جی کی تاریخ پیدائش ۹۲۲ھ ہے۔ اس کو سچ تسلیم کرنے کا جواز بھی ہے۔بساتین سلاطین میں لکھا ہے کہ میرا ں جی ۹۶۶ ھ میں بیجاپور تشریف لائے ہیں۔ خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’’وبعد از بیست و دوسال یک طرف حال پیدا شد‘‘ یعنی ۲۲ برس بعد ان پر ایک کیفیت پیدا ہوئی،یہ کیفیت کتنے عرصہ تک رہی معلوم نہیں، ہمارے محققین نے اس تحریر سے ۲۲ واں برس مراد لیا ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ’’بعد ازبیست ودو‘‘ سے ۲۲ ویں برسی کے بعد ایک کیفیت کے طاری ہونے کا ذکر ہے ہم اس کیفیت کی مدت دس برس مراد لیتے ہیں اور اب حضرت میراں جی شمس العشاق کی عمر کا حاصل یوں گا۔ ۹۲۲+۲۲+۱۰=۹۵۴ھ اس کیفیت طاری ہونے کے بعد آپ بارہ برس تک مدینہ منورہ میں متمکن رہے یعنی ۹۵۴+۱۲=۹۶۶ھ اور یہ وہ تاریخ ہے جس کا دکر بساتین السلاطین میں ملتا ہے۔ اس حساب سے ہمیں میراں جی شمس العشاق کی تاریخ پیداش ۹۲۲ ھ تسلیم کرنا ہوگا جسے خود ان کے فرزند اور خلیفہ حضرت برہان الدین جانم نے بیان کیاہے۔
میراں جی شمس العشاق کی تارخ وفات کا تعین استاد محترم پروفیسر گیان چند جین نے کیا ہے جوبرہان الدین جانم کے مرثیہ میں دی ہوئی تاریخ ہے کہ ۹۹۴ ھ شوال کی ۲۵ تاریخ اور شب پنچ شنبہ کو آپ کا وصال ہوا۔ یعنی میراں جی شمس العشاق کی تاریخ پیدائش ۹۲۲ ھ اور تاریخ وصال ۹۹۴ ھ ہے۔ یعنی
ع تاریخ حضرت سال نو سو دو اس پر اگلے بھی دو=۹۲۲ھ
ع اربع تسعون یو سال ہے ما ہے کوں شوال ہے=۹۹۴ ھ
——-
حوالے:
۱) پروفیسر محمد ہاشم علی’’اردو شاری، عادل شاہی دور میں‘‘ مضمون مشمولہ تاریخ ادب اردو کرناٹک، مرتب و ناشر کرناٹک اردو اکیڈیمی، ۱۹۹۴ء،ص۲۰۰
۲) پروفیسر گیان چند جین’’اردو نثر۱۶۰۰ تک‘‘ باب ششم مشمولہ تاریخ ادب اردو جلد دوم ،ص۳۲۶
۳،۴) مولوی عبد الحق’’قدیم اردو ادب بیجاپور کے اولیا اللہ کا ایک شاعر خاندان‘‘ مضمون مطبوعہ رسالہ اردو ، اورنگ آباد ،
اپریل ۱۹۲۷ء ، ص۱۷۲
۵) ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ’’ارشاد نامہ‘ ‘ مقدمہ مخزونہ کتب خانہ ادارۂ ادبیات اردو، ص ۲۰
۶) ایضاً ص ۲۵
۷) ڈاکٹر محمد اکبر الدین صدیقی’’ کلمتہ الحقائق‘‘ مقدمہ جولائی ۱۹۶۱ء ص ۴
۸) ایضاً ص ۶
۹) ایضاً، ص ۵
۱۰) محمد ہاشم علی’’مغز مرغوب و چہار شہادت، مقدمہ ۱۹۶۲، ص ۲۸
۱۱) ایضاً ص ۱۵ محمد ہاشم علی’’اردو شاعری، عادل شاہی دور میں‘‘ص ۲۰۱
۱۲) مولوی سخاوت مرزا، حضرت میراں جی شمس العشاق کی تاریخ و وصال‘‘ مضمون مطبوعہ رسالہ اردو نامہ ،کراچی، جنوری ۱۹۶۸ھ، ص ۴۰ و ۴۱
۱۳) ڈاکٹر حسینی شاہد، ’’سید شاہ امین الدین علی اعلیٰ حیات اور کارنامے‘‘۱۹۷۳ء،ص۹۷
۱۴) ڈاکٹر محمد جمال شریف’’دکن میں اردو شاعری ولی سے پہلے‘‘ ۲۰۰۴، ص۱۴۱
۱۵) پروفیسر گیان چند جین، تاریخ ادب اردو جلد دوم ،ص۳۴۳
۱۶) ایضاً ،ص ۳۴۷،۳۴۹
۱۷) ڈاکٹر حسینی شاہد’’سید شاہ امین الدین علی اعلیٰ حیات اور کارنامے‘‘ ص۷۵
۱۸) پروفیسر گیان چند جین ایضاً ، ص ۳۴۷
۔۔۔۔۔۔
( ماہنامہ سب رس حیدرآباد ‘ مئی 2018 )
One thought on “میراںجی شمس العشاق کا سنہ پیدائش و وصال :- پروفیسر حبیب نثار”
عمدہ کاوش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ آپ کو سلامت رکھے