آخری اور چھٹویں قسط
حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز
مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر) الہند
09850331536
پانچویں قسط کے لیے کلک کریں
یقیناً دورِ بادشاہت میں بہت سے اچھے کام بھی ہوئے ہیں لیکن کچھ برے کا م بھی ہوئے ہیں کیونکہ طریقہ بادشاہت ایک نبی کے لئے تو درست ہو سکتا ہے کیونکہ وہ براہ راست اللہ کی نگرانی میں کام انجام دیتا ہے اور اس کا کوئی حکم اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا، لیکن ایک عام انسان کے لئے طریقہ بادشاہت صحیح نہیں ہو سکتا ،
یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہونے کے باوجود آپؐ نے اپنے لئے نہ بادشاہ کہلوانا پسند کیا اور نہ آپؐ نے نبوت کے کاموں کو انجام دینے کے لئے بادشاہت کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ آپؐ نے مشاورت کے طریقہ کو اختیار کیا اور اللہ کی طرف سے بھی آپ کو اسی کا حکم تھا اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلامی اجتماعیت میں نہ تو مطلق العنان بادشاہت ہے اور نہ مطلق العنان جمہوریت ہے بلکہ قرآن و حدیث کی اتباع سے جڑی ہوئی امارت و مشاورت ہے لیکن افسوس ہے کہ آج دنیا میں زیادہ تر اجتماعیتں یا تو بے لگام بادشاہت سے جڑی ہوئی ہے یا بے لگام جمہوریت سے جڑی ہوئی ہے اور ان ہی اجتماعیتوں کے غلط اثرات مسلمانوں کی دینی جماعتوں پر پڑے ہوئے ہیں چنانچہ اسو قت کچھ دینی جماعتیں بے لگام بادشاہت کے طرز پر کام کر رہی ہیں اور کچھ جماعتیں بے لگام جمہوریت کے طرز پر کام کر رہی ہیں اور بہت کم جماعتیں اسلامی امارت و مشاورت کے طرز پر کام کر رہی ہیں۔ ادائیگی نماز میں کسی واجب کے بھول کر چھوٹنے کی صورت میں سجدہ سہو کے ذریعہ تلافی کی بھی صورت رکھی گئی ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیر ہ میں التحیات پڑھنے کے بعد دو سجدے کئے جائے سجدہ سہو کی یہی حقیقت و حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں نماز کو قائم کرنے کے سلسلے میں کوئی بھول ہو جائے تو اس کی تلافی کے لئے اللہ کے سامنے زیادہ جھکا جائے جس طرح سجدہ سہو کے دو زائد سجدے رکھے گئے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کیلئے وضو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے ، وضو میں در اصل بے شمار جسمانی بیماریوں سے بچاؤ ہے ، وضو کی افادیت و حکمت وہ افراد زیادہ سمجھیں گے جن کا ڈاکٹری کے پیشہ سے تعلق ہے اور وضو نماز کے لئے اس لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ چونکہ نماز میں زندگی کے تمام مسائل کا حل ہے اور زندگی کا ایک اہم مسئلہ جسمانی پاکی صفائی اور جسمانی صحت و تندرستی بھی ہے ، چنانچہ جو شخص دن میں پانچ مرتبہ چہرہ اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں تک پانی سے دھوئیگا اور سرو گردن کا مسح کرے گا اسے بے شمار بیماریوں سے خود بخود نجات مل جائیگی اسی طرح نماز کے ارکان کی ادائیگی کا طریقہ کچھ اس طرح رکھاگیا ہے کہ ایک انسان کو جسمانی لحاظ سے تندرست رہنے کے لئے روزانہ جتنی و رزش کی ضرورت ہے وہ نماز کی ادائیگی کے عمل میں خود بخود شامل ہے بشرطیکہ نمازی سنتوں اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے نماز ادا کرے۔
نماز کی ادائیگی کے طریقہ سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام مسلمانوں پر نماز فرض قرار دے کر جس طرح ان کی ایمانی صحت و تندرستی کا انتظام کر دیا اسی طرح ان کی جسمانی صحت و تندرستی کا بھی انتظام کر دیا، اس لئے آج کل ہندوستان میں ’’یوگا ‘‘کے نام پر جو ایک غیر اسلامی طریقہ عبادت کو جسمانی ورزش کے طور پر اسکولوں ، کالجوں اور معاشرہ میں حکومتی سطح سے عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مسلمانوں کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ مسلمانوں کے پاس نماز کی ادائیگی کے عمل کے ذریعہ ہزاروں سال سے جسمانی ورزش کا بھی با ضابطہ نظم ہے اور فرض ہے، پھر ہندو مذہب کی تاریخ و تہذیب سے یہ بات واضح ہے کہ ’’یوگا‘‘ صرف ورزش ہی نہیں ہے بلکہ وہ ہندو مذہب کا ایک طریقۂ عبادت ہے اور ایک مسلمان کیلئے کسی بھی دوسرے مذہب کے طریقۂ عبادت کی پیروی جائز نہیں ہے، بلکہ وہ شرک کے درجہ میں آجاتی ہے اور شرک سے بچنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے ، لیکن نماز کی ادائیگی کے عمل سے جسمانی ورزش کا فائدہ اسی وقت حاصل ہوگا ۔جب کہ نماز بہت زیادہ نرم چٹائی اور نرم مصلے پر ادانہ ہو،بلکہ ذرا سخت یا کم نرم چٹائی اور مصلے پر ادا ہو، اسی لئے فقہاء کرام نے نماز میں نرم جگہ پر سجدہ کو مکروہ قرار دیا اور نماز کی ادائیگی کے عمل میں صرف پیشانی ہی سجدہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں جسم کاجو حصہ بھی زمین پرٹکتا ہے وہ سجدہ کا حصہ ہے ، مثلاً دونوں پیر ، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے ، اور ناک، لیکن افسوس ہے کہ آج کل مسجدوں میں بہت زیادہ نرم چٹائیوں اور مصلّوں کو بچھانے کا رواج بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، چنانچہ مسجدوں میں نرم قالین ، غالینچے اور اسپنچ بچھانے کا عام رجحان ہو گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلام دشمنوں کی نمازیوں کو نماز کے جسمانی فوائد سے محروم کرنے کی عالمی سازش ہے ،جس کا مسلمان بڑی آسانی سے شکار ہو گئے ہیں ،اور چند سالوں پہلے تک مسجدوں میں سخت گھانس کے تنوں اور سوت کے موٹے تاگوں کی جو چٹائیاں اور دریاں ہوا کرتی تھیں وہ ناپَید ہو تے جارہی ہیں، مسلمانوں کیلئے یہ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ نمازیوں کا ایک بڑا طبقہ تو نماز کی آیات اور سورتوں کو نہیں سمجھنے کی وجہ سے پہلے ہی سے نماز کے ایمانی و روحانی فائدوں سے محروم ہو چکا ،لیکن اب نماز کے جسمانی فائدوں سے بھی محروم ہوتے جا رہا ہے،ویسے اسلام عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی کو کسی بھی شعبہ میں پسند نہیں کرتا مگر شعبۂ عبادت میں عیش و آرام و تن آسانی اور بھی زیادہ ناپسندیدہ ہے یہی وجہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے اوقات کچھ اسطرح رکھے رکھے گئے ہیں کہ مسلمانوں کے عیش و آرام و تن آسانی پر روک لگے چنانچہ فجر کی نماز ایسے وقت رکھی گئی ہے جب کہ گہر ی اور میٹھی نیند کا وقت ہوتا ہے اور نیند سے بیدار ہونا نفس کیلئے ذرا مشکل ہوتا ہے، اسی طرح ظہر کی نماز ایسے وقت رکھی گئی ہے، جب کہ دھوپ کی شدت بڑھ جاتی ہے، اور کام کا وقت بھی شباب پر ہوتا ہے، اور اس وقت بھی نماز کے لئے وقت نکالنا نفس پر ذرا گراں گزرتا ہے، اسی طرح عصر کا وقت بھی کاروبار اور کام کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے، اسی طرح مغرب اور عشاء کا وقت بھی کھانے پینے اور سونے کا وقت ہوتا ہے، اور نماز کے لئے وقت نکالنا تن آسانی کے خلاف ہوتا ہے، اور صرف نماز ہی نہیں اسلام کی دوسری عبادتوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہ مسلمانوں کو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی سے نکالنے کا ذریعہ ہے، جیسے رمضان کے روزہ ہی کو دیکھ لیا جائے جو سحری سے شروع ہوتا ہے اور افطار پر ختم ہوتا ہے، چنانچہ اس میں جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ ایک روزہ دار کو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی سے نکالنے والی ہیں جیسے کھانے پینے اور مباشرت سے اجتناب ، اسی طرح زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کا عمل ہے۔
حج کی ادائیگی کے عمل میں تو عیش و آرام و تن آسانی کی زندگی کی تمام چیزوں کو قربان کر دینے کی اعلیٰ صفات رکھ دی گئی ہیں ، مثلاً اپنے مال کی ایک بڑی مقدار کا خرچ احرام جیسے سادہ لباس میں اپنے آپ کو ملبوس رکھنا ، حالت احرام میں بعض حلال چیزوں سے بھی پرہیز ، میدان عرفات اور منیٰ میں بغیر مکان کے قیام اور اس کے علاوہ سفر کی بہت سی مشکلات و پریشانیوں کو برداشت کرنا، مذکورہ اسلامی عبادات کے طریقوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کس طرح کا نظام زندگی دینا چاہتا ہے لیکن افسوس ہے کہ جس دین نے اپنے ماننے والوں کو اپنی عبادات کے ذریعہ اللہ کی رضا کی خاطر محنت و مشقت برداشت کرنے اور عیش و آرام کی زندگی کو قربان کرنے کی تعلیم دی ہے آج اسی دین کے نام لیوا عیش و آرام کی زندگی کے عادی ہو گئے ہیں۔یہاں تک کہ نماز کی ادائیگی کے طریقہ میں بھی عیش و آرام کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ چنانچہ اس طرز فکر و عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔یہی وجہ ہے آنحضورﷺ نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری اور عیش و آرام کی زندگی کو کبھی اپنے لئے پسند نہیں کیا چنانچہ شمائل ترمذی میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اسی طرح شمائل ترمذی ہی میں روایت ہے کہ حضرت حفصہؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں نبیﷺ کا بستر کیسا تھا؟ فرمایا ایک ٹاٹ تھا جس کو دہرا کر کے ہم نبیﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے ایک روز مجھے خیال آیا کہ اگر اس کو چوہرا کرکے بچھا دیاجائے تو زیادہ نرم ہو جائے گا، چنانچہ میں نے اس کو چوہرا کرکے بچھا دیا، صبح کو آپؐ نے پوچھا رات میں میرے نیچے کیا چیز بچھائی تھی، میں نے کہا وہی ٹاٹ کا بستر تھا، البتہ آج رات میں نے اس کوچوہرا کرکے بچھا دیا تھا کہ کچھ نرم ہو جائے ، نبی ﷺ نے فرمایا اس کو دہرا ہی رہنے دیا کرو، رات بستر کی نرمی تہجد کے لئے اٹھنے میں رکاوٹ بنی۔ شمائل ترمذی ہی میں اسی سلسلہ کی ایک اور روایت حضرت عائشہؓ سے مروی ہے فرماتی ہے کہ ایک مرتبہ ایک انصاری خاتون ہمارے گھر آئی اور اس نے نبی ﷺ کا بستر دیکھا، گھر جاکر اس خاتون نے اُون سے بھر کر ایک بستر تیار کیا اور نبیﷺ کے لئے بھیجا، جب آپؐ گھر تشریف لائے اورنرم بستر دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ ایک انصاری خاتون نے آپؐ کے لئے بھیجا ہے آپؐ نے فرمایا کہ اسے واپس کردو، حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ وہ بستر مجھے بہت پسند تھا لیکن آپؐ نے واپس کرنے پر اتنا اصرار کیا کہ مجھے واپس کرنا ہی پڑا۔ مذکورہ روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ؐ عیش و آرام کی زندگی سے کتنا زیادہ پرہیز کرتے تھے ۔ علامہ اقبالؒ نے بھی امت مسلمہ کو اور خصوصاً نوجوانوں کو اسلام کی اسی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین اور عیش و آرام کی زندگی سے بچنے کی تلقین اپنے چند اشعار سے کی ہے ۔ فرماتے ہیں۔
تیرے صوفے ہیں افرنگی تیری قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جو انوں کی تن آسانی
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ائے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
خلاصہ کلام یہ ہے کہ معاشرہ میں فہم نماز اور پیغام نماز کی تحریک زور و شور سے چلائی جائے تاکہ نمازیوں کا اپنی نمازوں سے علمی و عملی تعلق قائم ہو۔ اس کے لئے مسجدوں میں جگہ جگہ نماز فہمی اور قرآن فہمی کے حلقے قائم کئے جائیں۔