ماہ رمضان کا بیان رب کائنات کی زبانی :- ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

Share
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی

ماہ رمضان کا بیان رب کائنات کی زبانی

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
Whatsapp: 00966508237446

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِےْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِےْمِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِےْن۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام:(سورۃ البقرہ۔ آیت ۱۸۳ سے ۱۸۷ تک) میں رمضان اور روزے کے متعلق متعدد احکام بیان کئے ہیں، جس کی تفسیر مفسّرقرآن مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں کی ہے۔ اس کا خلاصۂ کلام پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے، خاص کر اس مبارک ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

خلاصۂ تفسیر (آیت نمبر ۱۸۳ اور ۱۸۴): اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ ) متقی بن جاؤ۔ (کیونکہ روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور اسی عادت کی پختگی بنیاد ہے تقویٰ کی، سو) تھوڑے دنوں روزہ رکھ لیا کرو (اور تھوڑے دنوں سے مراد رمضان ہے جیسا اگلی آیت میں آتا ہے) پھر (اس میں اتنی آسانی ہے کہ ) جو شخص تم میں (ایسا ) بیمار ہو (جس کو روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، اور بجائے رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ) ہے اور (دوسری آسانی جو بعد میں منسوخ ہوگئی یہ ہے کہ) جو لوگ روزے کی طاقت رکھتے ہوں (اور پھر روزہ رکھنے کو دل نہ چاہے تو) اُن کے ذمہ (صرف روزے کا) فدیہ (یعنی بدلہ) ہے کہ وہ ایک غریب کا کھانا (کھلادینا یا دیدینا) ہے اور جو شخص خوشی سے (زیادہ) خیر (خیرات) کرے (کہ زیادہ فدیہ دیدے) تو یہ اس شخص کے لئے اور بہتر ہے۔ اور (گوہم نے آسانی کے لئے ان حالتوں میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دیدی ہے، لیکن) تمہارا روزہ رکھنا (اس حالت میں بھی) زیادہ بہتر ہے اگر تم (کچھ روزے کی فضیلت کی) خبر رکھتے ہو۔
صوم (روزہ): صوم کے لفظی معنی امساک یعنی رکنے اور بچنے کے ہیں، اور اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور عورت سے مباشرت کرنے سے رکنے اور باز رہنے کا نام صوم ہے، بشرطیکہ وہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مسلسل رکا رہے، اور نیت روزہ کی بھی ہو، اس لئے اگر غروب آفتاب سے ایک دو منٹ پہلے بھی کچھ کھا پی لیا تو روزہ نہیں ہوا۔ نیت اصل میں دل کے ارادہ کا نام ہے زبان سے کہنا شرط نہیں، بلکہ بہتر ہے۔
پچھلی امتوں میں روزہ کا حکم: روزے کی فرضیت کا حکم مسلمانوں کو ایک خاص مثال سے دیا گیا ہے ، حکم کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہ روزے کی فرضیت کچھ تمہارے ساتھ خاص نہیں، پچھلی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے، اس سے روزے کی خاص اہمیت بھی معلوم ہوئی، اور مسلمانوں کی دلجوئی کا بھی انتظام کیا گیا کہ روزہ اگرچہ مشقت کی چیز ہے، مگر یہ مشقت تم سے پہلے بھی سب لوگ اٹھاتے آئے ہیں۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تقوی کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے، وہی تقوی کی بنیاد ہے۔
مریض کا روزہ: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِےْضاً: مریض سے مراد وہ مریض ہے جس کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت تکلیف پہونچے، یا مرض بڑھ جانے کا قوی اندیشہ ہو، بعد کی آیت وَلاےُرِےْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ میں اسی طرف اشارہ موجود ہے۔ جمہور فقہائے امت کا یہی مسلک ہے۔
مسافر کا روزہ: اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ یہاں لفظ مسافر کے بجائے عَلیٰ سَفَرٍ کا لفظ اختیار فرماکر کئی اہم مسائل کی طرف اشارہ فرمادیا: مطلقاً لغوی سفر یعنی اپنے گھر یا شہر سے باہر نکل جانا روزہ میں رخصت سفر کے لئے کافی نہیں، بلکہ سفر کچھ طویل ہونا چاہئے، مگر یہ تحدید کہ سفر کتنا طویل ہو، قرآن کریم کے الفاظ میں مذکور نہیں، نبی اکرم ﷺ کے بیان اور صحابہ کے تعامل سے فقہاء نے اس کی مقدار تقریباً ۷۸ کیلومیٹر متعین کی ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی ایک مقام پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے تو وہ بھی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد رخصت سفر کا مستحق نہیں۔
روزہ کی قضا: فَعِدَّۃٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَرَ: مریض ومسافر کو اپنے فوت شدہ روزوں کی تعداد کے مطابق دوسرے دنوں میں روزے رکھنا واجب ہے۔ البتہ اس آیت میں کوئی قید نہیں کہ ترتیب وار رکھے یا غیر مسلسل رکھے، بلکہ عام اختیار ہے کہ ترتیب وار یا متفرق جیسا چاہے فوت شدہ روزوں کی قضا کرلے۔
روزہ کا فدیہ: اس آیت کے بظاہر معنی وہی ہیں جو خلاصہ تفسیر میں لکھے گئے کہ جو لوگ مریض یا مسافر کی طرح روزہ رکھنے سے مجبور نہیں بلکہ روزے کی طاقت تو رکھتے ہیں مگر کسی وجہ سے دل نہیں چاہتا تو ان کے لئے یہ گنجائش ہے وہ روزوں کے بجائے صدقہ ادا کردیں۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا، جب لوگوں کو روزے کا عادی بنانا مقصود تھا، اس کے بعد جو آیت آنے والی ہے، اس سے یہ حکم عام لوگوں کے حق میں منسوخ ہوگیا، صرف ایسے لوگوں کے حق میں باقی رہا جو بہت بوڑھے ہوں یا ایسے بیمار ہوں کہ اب صحت کی امید ہی نہیں رہی۔فدیہ کی مقدار: ایک روزہ کا فدیہ نصف صاع گیہوں (تقریباً دو کیلو) یا اس کی قیمت کسی غریب مسکین کو دینا ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کے سلسلہ میں تین تبدیلیاں ہوئیں: ۱) رسول اللہ ﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین روزے اور ایک روزہ (یوم عاشورہ) یعنی دسویں محرم کا رکھتے تھے۔ ۲) جب رمضان کے روزے کی فرضیت ہوئی تو حکم یہ تھا ہر شخص کو اختیار ہے کہ روزہ رکھ لے یا فدیہ دیدے، البتہ روزہ رکھنا افضل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرمادی ، جس میں صحت مند کے لئے یہ اختیار ختم کرکے صرف روزہ رکھنا لازم کردیا، مگر بہت بوڑھے آدمی کے لئے یہ حکم باقی رہا کہ وہ چاہے تو فدیہ ادا کردے۔ ۳) شروع میں افطار کے بعد کھانے پینے اور اپنی خواہش پورا کرنے کی اجازت صرف اس وقت تک تھی جب تک آدمی سوئے نہیں، جب سوگیا تو دوسرا روزہ شروع ہوگیا، کھانا پینا وغیرہ ممنوع ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت (اُحِلَّ لَکُمْ لَےْلَۃَ الصِّےَامِ الرَّفَث) نازل فرماکر یہ آسانی عطا فرمادی کہ صبح صادق تک کھانا پینا ، صحبت کرنا سب جائز ہے۔
خلاصہ تفسیر (آیت نمبر ۱۸۵):(وہ تھوڑے ایام جن میں روزے کا حکم ہوا ہے)، ماہ رمضان ہے جس میں (ایسی برکت ہے کہ اس کے ایک خاص حصہ یعنی شب قدر میں) قرآن مجید (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) بھیجا گیا ہے، جس کا (ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے (ذریعہ) ہدایت ہے، اور (دوسرا وصف یہ ہے کہ ہدایت کے طریقے بتلانے میں اس کا ایک ایک جز) واضح الدلالہ ہے (اور ان دونوں وصفوں میں) من جملہ ان کتب (سماویہ) کے (ہے) جو کہ (انہی دو وصفوں سے موصوف ہیں یعنی ذریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (وضوحِ دلالت کی وجہ سے حق وباطل کے درمیان) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں۔ سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہئے (اور وہ فدیہ کی اجازت جو اوپر مذکور تھی منسوخ وموقوف ہوئی) اور (مریض اور مسافر کے لئے جو اوپر قانون تھا وہ البتہ اب بھی اسی طرح باقی ہے کہ) جو شخص (ایسا) بیمار ہو (جس میں روزہ رکھنا مشکل یا مضر ہو) یا (شرعی) سفر میں ہو تو (اس کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور بجائے ایام رمضان کے) دوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب ہے)، اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ (احکام میں) آسانی (کی رعایت) کرنا منظور ہے (اس لئے ایسے احکام مقرر کئے جن کو تم آسانی سے بجالاسکو، چنانچہ سفر اور مرض میں کیسا آسان قانون مقرر کردیا) اور تمہارے ساتھ (احکام وقوانین مقرر کرنے میں) دشواری منظور نہیں (کہ سخت احکام تجویز کردیتے) اور (یہ احکام مذکورہ ہم نے خاص خاص مصلحتوں سے مقرر کئے، چنانچہ اولاً روزہ ادارکھنے کا اور کسی شرعی عذر سے رہ جائے تو دوسرے ایام میں قضا کرنے کا حکم تو اسی لئے کیا) تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو، (تاکہ ثواب میں کمی نہ رہے) اور (خود قضا رکھنے کا حکم اس لئے کیا) تاکہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی( اور ثناء) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ا یسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات وثمرات صیام سے محروم نہ رہو، ورنہ اگر قضا واجب نہ ہوتی تو کون اتنے روزے رکھ کر ثواب حاصل کرتا) ، اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لئے دیدی)، تاکہ تم لوگ (اس نعمت آسانی پر اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کیا کرو (ورنہ اگر یہ اجازت نہ ہوتی تو سخت مشقت ہوجاتی)۔
اس آیت میں پچھلی مجمل آیت کا بیان بھی ہے اور ماہ رمضان کی اعلیٰ فضیلت کا ذکر بھی، بیان اس لئے کہ پچھلی آیات میں اَیَّاماً مَعْدُودَاتٍ کا لفظ مجمل ہے، جس کی شرح اس آیت نے کردی کہ وہ پورے ماہِ رمضان کے ایام ہیں، اور فضیلت یہ بیان کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو اپنی وحی اور آسمانی کتابیں نازل کرنے کے لئے منتخب کر رکھا ہے ، چنانچہ قرآن بھی اسی ماہ میں نازل ہوا۔
مَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْےَصُمْہ : جو شخص ماہ رمضان میں حاضر یعنی موجود ہو اس پر لازم ہے کہ پورے مہینے کہ روزے رکھے۔ روزہ کے بجائے فدیہ دینے کا عام اختیار جو اس سے پہلی آیت میں مذکور ہے اس جملے نے منسوخ کرکے روزہ ہی رکھنا لازم کردیاہے۔
مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِےْضاً اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِنْ اَیَّامٍ اُخَر: اس میں مریض اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ اُس وقت روزہ نہ رکھے، تندرستی ہونے اور سفر کے ختم ہونے پر اتنے دنوں کی قضا کرلے، یہ حکم اگرچہ پچھلی آیت میں بھی آچکا تھا، مگر جب اس آیت میں روزہ کے بجائے فدیہ دینے کا اختیار منسوخ کیا گیا ہے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید مریض اور مسافر کی رخصت بھی منسوخ ہوگئی ہو اس لئے دوبارہ اس کا اعادہ کیا گیا۔
خلاصہ تفسیر (آیت نمبر ۱۸۶): پچھلی تین آیتوں میں روزہ اور رمضان کے احکام اور فضائل کا ذکر تھا، اور اس کے بعد بھی ایک طویل آیت میں روزہ اور اعتکاف کے احکام کی تفصیل ہے، درمیان کی اس مختصر آیت میں بندوں کے حال پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ، ان کی دعائیں سننے اور قبول کرنے کا ذکر فرماکر اطاعت احکام کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ روزہ کی عبادت میں رخصتوں اور سہولتوں کے باوجود کسی قدر مشقت ہے، اس کو سہل کرنے کے لئے اپنی مخصوص عنایت کا ذکر فرمایاکہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں جب بھی وہ دعا مانگتے ہیں میں ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں، اور ان کی حاجات کو پورا کرتا ہوں۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ کا بدلہ میں خود ہوں۔روزہ کی حالت خاص کر افطار کے وقت کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا مقبول ہے۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ افطار کے وقت سب گھر والوں کو جمع کرکے دعا کیا کرتے تھے۔
خلاصہ تفسیر (آیت نمبر ۱۸۷): اس آیت میں روزہ کے بقیہ احکام کی کچھ تفسیر مذکور ہے، تم لوگوں کے واسطے روزہ کی شب میں اپنی بیویوں سے مشغول ہونا (صحبت کرنا) حلال کردیا گیا ہے (اور پہلے جو اس سے ممانعت تھی وہ موقوف کی گئی) کیونکہ (بوجہ قرب واتصال کے) وہ تمہارے (لئے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (لئے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم (اس حکم الہی میں ) خیانت (کر) کے گناہ میں اپنے کو مبتلا کررہے تھے، (مگر) خیر (جب تم معذرت سے پیش آئے تو) اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو دھو دیا، سو (جب اجازت ہوگئی تو ) اب ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) ملو ملاؤ۔ اور جو تمہارے لئے اللہ نے لکھ دیا ہے اس کو طلب کرو۔ اور (جس طرح شب صیام میں بیوی سے ہمبستری کی اجازت ہے) اسی طرح یہ بھی اجازت ہے کہ تمام رات میں جب چاہو) کھاؤ (بھی) اور پیو (بھی) اس وقت تک کہ تم کو سفید خط صبح (صادق کی روشنی) کا متمیز ہوجائے سیاہ خط سے (یعنی رات کی تاریکی سے) تو پھر (صبح صادق سے) رات (آنے) تک روزہ کو پورا کیا کرو۔
اور ان بیویوں (کے بدن) سے اپنا بدن بھی (شہوت کے ساتھ) مت ملنے دو جس زمانے میں کہ تم لوگ اعتکاف والے ہو، (جو کہ) مسجدوں میں (ہوا کرتا ہے)۔ یہ (سب احکام مذکورہ) خداوندی ضابطے ہیں، سو ان (ضابطوں) سے (نکلنا تو کیسا) نکلنے کے نزدیک بھی مت ہونا (اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام بیان کئے ہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے (اور) احکام (بھی) لوگوں (کی اصلاح) کے واسطے بیان فرمایا کرتے ہیں، اس امید پر کہ وہ لوگ (احکام پر مطلع ہوکر ان احکام کے خلاف کرنے سے ) پرہیز رکھیں۔
ابتداء میں جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیبیوں کے ساتھ اختلاط کی صرف اُس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جائے، سوجانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہوجاتی تھیں۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں پہلا حکم منسوخ کرکے غروب آفتاب کے بعد سے طلوع صبح صادق تک پوری رات میں کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دیدی گئی۔
اعتکاف اور اس کے مسائل:اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں، اور اصطلاح قرآن وسنت میں خاص شرائط کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے اور قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے۔ رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ آخری عشرہ کے اعتکاف کے لئے بیس رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا ضروری ہے۔ حالت اعتکاف میں رات کو کھانے پینے کا تو وہی حکم ہے جو سب کے لئے ہے، مگر بیوی کے ساتھ مباشرت وغیرہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اعتکاف میں مسجد سے نکلنا بغیر حاجت طبعی یا شرعی کے جائز نہیں ہے۔
سحری کھانے کا آخری وقت: احادیث میں رات کے آخری وقت میں سحری کھانے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، لیکن جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہوا کہ روزہ میں کھانے پینے اور مباشرت کی جو ممانعت ہے، یہ اللہ کی حدود ہیں، اور ان کے قریب بھی مت جاؤ، کیونکہ قریب جانے سے حد شکنی کا احتمال ہے، اسی لئے روزہ کی حالت میں کلی کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے ، جس سے پانی اندر جانے کا خطرہ ہے۔ بیوی سے بوس وکنار مکروہ ہے، اسی طرح سحری کھانے میں احتیاط سے کام لیں، اور سحری کا وقت ختم ہونے سے ایک دو منٹ قبل سحری کھانے سے فارغ ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ما ہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(www.najeebqasmi.com)

Share
Share
Share