ایم ۔ مبین کا فن اپنے عہد کا آشوب نامہ
محمد علیم اسماعیل
ناندورہ،مہاراشٹر
08275047415
ایم ۔مبین کا افسانوی فن اپنے عہد کی جیتی جاگتی اور منہ بولتی تصویریں اور آشوب نامہ ہیں۔ ایم ۔مبین گذشتہ 35 برسوں سے افسانے لکھ رہے ہیں اور آج تک ان کا قلم کی کرنیں تنویر فشاں ہیں۔ان کے افسانے پڑھ کر مردہ تن میں حیات کی لہریں دوڑ جاتی ہے۔
وہ دھیرے دھیرے ماحول بنانے لگتے ہیں پھر اضطراب اور کشمکش سر اٹھانے لگتے ہیں اور اسی کشیدنگی میں قاری خود کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ظلم اور بر بریت ،خوف اور دہشت میں جکڑ کر اکثر ادیبوں کے قلم سے لفظ دور کھڑے نظر آتے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ قلم کی روشنائی سوکھ گئی ہو یا قلم کو بانجھ پن نے اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ آج جب ایک ادیب کو سچ بولنے کی سزا ’موت‘مل رہی ہو تب ایسے وقت میں ایم ۔مبین نے اپنے عہد کی خاموشی اور بے زبانی کو زبان عطا کی ہے۔انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ سب بڑی بیباکی سے اپنے افسانوں میں بیان کر دیا۔صاف اور سادہ بیانیہ اسلوب میں اپنے وقت کا المیہ بیان کرنے پروہ قدرت رکھتے ہیں۔وہ صاف صاف لفظوں میں اپنے احتجاج کی آواز بلند کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں اضطراب ،کشمکش ،خوشی،غم ،خوف کی پر اثر منظر کشی ہے ۔اور ان کے کردار آج کی دنیا کے حساس ذہن و گہری سوچ کے مالک ہے۔انھوں نے جو سانحات اور واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اسی کرب اپنے سینے میں محسوس کیااور اسی کرب کو تخلیقی صورت میں پیش کر دیا۔وہ ایک ہی خیال کے زیر اثر مختلف واقعات کو قرطاس پر بکھیر کر ایک تاثر قائم کر دیتے ہیں اور ان کا اسلوب نگارش قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ان کے زیادہ تر افسانے ممبئی کی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ان کے افسانوں میں سماجی،معاشرتی اور اخلاقی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات پر بھی گہری نظر ہوتی ہے۔دنیا میں کہا کیا ہو رہاہے اور کون کیا کر رہا ان تمام باتوں کو وہ ایک حساس ذہن کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ان کا قلم حقیقت نگاری میں غضب کی مہارت رکھتا ہے۔پوری لگن ،محنت اور آب و تاب کے ساتھ اردو کی تعمیر و ترقی میں ان کے کارنامے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو روشنی باٹتے رہے گے۔
بقول ابراہیم اشک’’ عربی زبان کے ایک بڑے نقاد سے کسی نے پوچھا کہ ’’آپ کی نظر میں سب سے اچھا شعر کون سا ہے ؟ ‘‘ نقاد نے جواب دیا ۔ ’’ وہ شعر جسے پڑھنے یا سننے کے بعد ہر کوئی یہ کہنے لگے کہ ایسا تو میں بھی کہہ سکتا ہوں،لیکن جب وہ کہنے کی کوشش کرے تو کہہ نہ پائے۔‘‘ ایم مبین کی کہانیوں پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ان کی کہانیاں بھی اتنی سیدھی اور سرل ہیں کہ پڑھنے والا یہ سوچنے لگتا ہے کہ ایسی کہانیاں تو میں بھی لکھ سکتا ہوں ۔لیکن لاکھ کوششوں کے با وجودبھی وہ ایسی کہانی نہ لکھ سکے۔‘‘
حقّانی القاسمی لکھتے ہیں کہ’’کہانی رات کو اسی لئے سنائی جاتی ہے کہ وقت کٹے اور رات کٹے ۔میں بھی ایک لمبی کالی رات کے بیچ سانس لے رہا ہوں ۔اس رات کا دستہ شہزاد کی راتوں سے ملتا ہے ۔تو گویا اس رات کا بھی تو توڑ یہی ہے کہ کہانی کہی جائے۔جب تک رات چلے کہانی چلے۔ایم ۔مبین کی کہانیاں بھی اسی رات کا توڑہیں اور اسی رات کی اندوہناکی کو انھوں نے اپنی تخلیق کی بنیاد بنایا ہے۔ایم ۔مبین کی کہانیاں آج کی سچویشن کی شاعری ہے اور یہ شاعری اپنی تمام تر اظہار ی قوت کے ساتھ ہمارے عہد کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔یہ اسی نو ع کی پوئٹری ہے جیسی واراینڈ پیش وِدرِنگ ہائٹس اور جین آسٹن کے ہاں ملتی ہے۔‘‘
ایم ۔مبین کہتے ہیں ’’ دنیا میں بے شمار تبدیلیاں آئیں اور ایسے واقعات پیش آئے ہیں ،جس نے تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۱۱ ستمبر کا بم بلاسٹ ،گجرات کا خوں ریز فساد ،افغانستان اور عراق پر امریکی فوج کشی،اسرائیل کا فلسطینیوں پر بڑھتا جبر و ظلم ،ملک میں ہندتوا کے نام پر مرکزی حکومت کی زیر سر پرستی بڑھتا فاشٹ طاقتوں کا زور ، کنزیومر کلچر کا بڑھاوا،الیکٹرانک میڈیاکا تیزی سے پھیلتا تسلط ،سچ اور جھوٹ کے معیار کو طے کرنے کے میزان ،اقدار کا ٹوٹنا اور اخلاقیات کی پامالی۔میرے خیال میں آج کے ادیب پر یہ ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کر کے عوام کو اصلیت سے آگاہ کرے۔‘‘
ایم ۔مبین کا پہلا افسانوی مجموعہ ’ٹوٹی چھت کا مکان ‘ 2000 میں منظر آم پر آیا ۔دوسرا افسانوی مجموعہ ’نئی صدی کا عذاب‘ 2003میں شائع ہوکر خوب مقبولیت حاصل کی جس میں کل 17 افسانے شامل ہیں، جسے مہاراشٹر اردو اکادمی نے ایوارڈ سے نوازہے۔افسانوی مجموعہ ’زندگی الرٹ ‘ 2013 میں شائع ہوا ،جس میں کل 16 افسانے ہیں۔افسانوی مجموعہ ’ دکھ کا گاؤں‘ 2016 میں شائع ہوا جس میں 16 افسانے ہیں ۔انھوں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب میں بھی خوب کام کیا ہیں۔بچوں کے لیے ناول ،کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ادب اطفال میں ان کی تصنیفات ،مال مفت (ڈرامے)،چھنگا پہلوان نے کرکٹ کھیلا(مزاحیہ کہانیاں)،رانگ نمبر ( ڈرامے ) ان تینوں تصنیفات کو مہاراشٹر راجیہ اردو ساہتیہ اکادمی کا ادب اطفال ایوارد سے سر فراز کیا ہے۔وہ اردو کے علاوہ ہندی کے بھی ایک اچھے ادیب ہیں ۔ان کا ہندی افسانوی مجوعہ ’ یاتنا کا ایک دن ‘ کو مرکزی حکومت سے غیر ہندی داں ادیبوں کا ’’ نیشنل ایوارڈ ‘‘ بدست وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سند ،ٹرافی اور رقم پچاس ہزار بطور انعام سے نوازا گیا ہے۔ان کا قلم بڑا زرخیز ہے اور آج بھی کا قلم و قرطاس کا سفر جاری ہے۔
افسانہ ’ وراثت ‘ ایک بہترین افسانہ ہے ،جس میں ایک تخلیق کارکی گذشتہ تیس چالیس سالوں میں جمع کی گئی کتابیں ، جنھوں نے اپنی جان سے زیادہ ان کتابو ں کی حفاطت کی تھی اگر گھر کا کوئی فرد کسی کتاب کو اِدھر اُدھر رکھ دیتا تو اس کی شامت آجاتی ،وہ بھڑک اٹھتے اور گھر میں ایک تنازعہ پیدا ہو جاتا تھا لیکن آج وہ اپنی زندگی کا یہ انمول سرمایا ایک ردّی والے کو فرخت کر رہے ہیں۔اس افسانے میں ایک تخلیق کارکا درد کو نہایت ہی پر اثر انداز میں بیان ہوا ہے۔
افسانہ ’زندگی الرٹ‘میں اپنی زمہ داریوں کو نبھاتے قرض کے بوجھ تلے دبے انسانوں کی داستان بیان کی ہے۔مہینے کی پہلی تاریخ کو انزل کی تنخواہ جمع ہوتی ہے۔ پھر ایک کے بعد ایک ہاؤسنگ لون ہفتہ ،ڈیبٹ کارڈ خریدی بل ،موٹر سائیکل لون ہفتہ ، بیمہ پالیسی ہفتہ اور چیک رٹرن چارج کی رقم کٹ جانے کے میسج آتے ہیں ۔ اسی وقت بیوی کا فون آتا ہے اور وہ کہتی ہے ’’ آج ایک تاریخ ہے ۔۔۔تمھاری تنخواہ کا دن ۔۔۔کیوں نہ ہم آج رات کا کھانا کسی ہوٹل میں کھائیں ۔گھر والوں کے لیے بھی پارسل لے آئیں گے۔‘‘ اور اس کی جیب میں صرف 300 سو روپئے اور اکاؤنٹ میں 135 روپئے ہی بچے ہیں۔
افسانہ ’اسکول ‘ اور ’دکھ کا گاؤں‘ پر اثر اور با مقصد افسانے ہیں جس میں سماجی مسائل کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اور معاشرتی برائیوں سے نقاب ہٹایا گیا ہے۔
افسانہ ’ مسیحائی ‘ میں بڑے بڑے اسپتالوں میں مریض کے ٹیسٹ کروانا ، ایڈمٹ کرنا اور خوب پیسہ وصول کرنے والے ڈاکٹروں کا گھنا ؤنا چہرا اور مریض کے رشتہ داروں کی بے بسی کو بیان کیا گیا ہے۔
افسانہ ’اذان ‘میں رام بھائی کو اذان کی آواز سن کر ایک قلبی سکون ملتا تھا ۔ لیکن اذان دینے والا اس کا دوست اللہ بخش اب اس گاؤں میں نہیں ہے ، وہ اپنے بچے ہوئے خاندان کے ساتھ گاؤں چھوڑ کر جا چکا ہے۔ کیوں کہ اسی گاؤں نے اللہ بخش کے بڑے بیٹے کو چھین لیا،چھوٹے بیٹے کو اپاہج کر دیا ،تر شولوں سے وار کیا گیا،کھیت جلا کر راکھ کر دیا گیا،مسجد کو توڑ کر اس میں مورتیاں رکھ دی گئی،بہو بیٹیوں کی طرف ہوسناک ہاتھ بڑے تھے۔ وحشیت و بر بریت کا ننگا ناچ ہوا اور بلوائیوں نے سب کچھ برباد کر دیا۔ آج رام بھائی اسی قلبی سکون کی تلاش میں ہے لیکن گاؤں میں ازان دینے والا کوئی نہیں۔
ایم ۔ مبین کے افسانے ’ قاتلوں کے درمیان، دہشت کا ایک دن ،بوڑھا بیمار ہے،کاروائی،دکھ کا گاؤں ، برف نہیں پگھلی وغیرہ اورحال ہی میں شائع ’ اچھے دن کی آس ‘(ڈراموں کا مجموعہ 2017 )، ’گونگا سچ‘(ڈراموں کا مجموعہ 2017 ) موجودہ عہد کی منہ بولتی تصویریں و آشوب نامہ ہیں۔
افسانہ ’ سمینٹ میں دفن آدمی ‘ ایک ایسے غریب ،لاچار ،بے بس انسان کی کہانی جس کے سامنے فرائض اور ضرورتوں کا ایک ایسا پہاڑ لگا ہوا ہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والاہے۔یوں بھی انسان کی خواہشات اور تمناوٗں کا خاتمہ تو کبھی ہوتا ہی نہیں۔ ایک کے بعد ایک نئی نئی خواہشات نے اس کی نیند اڑا رکھی ہیں۔اس نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں کوشش کیں اور اپنی زندگی کو بشتر حصہ گھر سے دور ،اپنوں سے دور گزارا لیکن وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر سب سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ اسلم کا جسم کے ساتھ ساتھ اس کی تمام خواہشات بھی اس کے ساتھ سمینٹ میں دفن ہو جاتی ہیں۔اسلم کی کہانی کروڑوں غریب انسانوں کی کہانی ہے۔جو گھر سے دورگھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ تلے دب کر پردیس میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
افسانہ عام فہم زبان، سادہ بیانیہ میں قاری پر دیر پا تاثر قائم کرتا ہے۔اسلم کے ساتھ ساتھ جاوید کا کردار بھی اہم ہے ، جسے اپنے جگری دوست کی موت کا ہر گز یقین نہیں اور دل ہی دل میں دعا کرتا ہے کہ اسلم اس سمینٹ کے ڈھیر سے زندہ نکل آئے۔
فسانے سے ایک اقتباس :
’’ اے رک جا ۔۔۔۔کیا نام ہے ؟‘‘
’’ عبدالرحیم!‘‘
’’پکڑلو اسے یہ کوئی دہشت گرد لگتا ہے۔اس کی دھاڑھی اس بات کا ثبوت ہے۔‘‘
’’ نہیں صاحب میں دہشت گرد نہیں ہوں۔میں تو ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہوں۔‘‘
تعلیم یافتہ نوجوان ہی آج کل ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔جب تم پر پو ٹالگایاجائے گا اور کئی سالوں تک جب تم جیل میں سڑوگے تو اگر تم دہشت گرد نہیں بھی ہو تو دہشت گرد بن جاؤگے۔‘‘
افسانہ ’نئی صدی کا عذاب‘ میں ایم مبین نے بڑی ہی جرات مندی سے موجودہ عہد کے ظالموں کو بے نقاب کیا ہے اور معاشرے میں ہو رہے حادثات و واقعات کی ہوبہوتصویر کھینچ دی ہے۔ہر طرف مسلم نشانے پر ہیں۔اور امن وانسانیت کے ٹھیکیدار محو تماشہ ہیں۔نہ انصاف مل رہا ہے اور نہ ہی ظلم و ستم کا خاتمہ ہورہا ہے۔
Mohd Alim Ismail Nandura
(Maharashtra)
Mobile No. 08275047415
——