رود موسیٰ کی طغیانی
امجد حیدرآبادی کی زبانی
از: ڈاکٹر محمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر اردو
شاتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر ۔ تلنگانہ
شہر اردو حیدرآباد دکن ساری دنیا میں جہاں اپنی گنگا جمنی تہذیب عظیم تاریخی عمارات کے سبب جانا جاتا ہے وہیں تاریخی حوالے سے یہ شہر رود موسیٰ کی طغیانی کے سبب بھی جانا جاتا ہے جس کے ہزاروں متاثرین میں ایک دکن کے عظیم رباعی گو شاعر امجد حیدرآبادی بھی تھے۔
موسیٰ ندی کی طغیانی میں ان کی نظروں کے سامنے ان کا سارا خاندان بہہ گیا تھا اور وہ خود کسی طرح بچ گئے تھے۔ ماضی کی حیدرآباد کی یادوں میں حیدرآباد کی طغیانی بھی اکثر یاد کی جاتی ہے جسے دیگر مورخین کے علاوہ خود امجد حیدرآبادی نے بھی اپنی آپ بیتی اور شاعری میں بڑے ہی غمگین اور جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔
اردو شاعری کی تاریخ میں اردو رباعی اور صوفیانہ شاعری کے حوالے سے شہر اردو حیدرآباد دکن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں سے شہرہ آفاق شاعر امجد حیدرآبادی اٹھے جنہوں نے اپنی رباعی گوئی سے اردو ادب میں منفرد شناخت بنائی اور ادب کی تاریخ میں سرمد ثانی کہلائے۔امجد کی رباعیاں زبان زد عام و خاص ہیں ۔ امجد نے یوں کہا تھا
ذرہ ذرہ میں ہے خدائی دیکھو ۔ ہربت میں ہے شان کبریائی دیکھو
اعداد تمام مختلف ہیں باہم ۔ ہر اک میں ہے مگر اکائی دیکھو
اور خود امجد نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ
ضائع فرما نہ سرفروشی کو مری ۔ مٹی میں ملا نہ گرمجوشی کو مری
آیا ہوں کفن پہن کے اے رب غفور ۔ دھبہ نہ لگے سپید پوشی کو مری
سید احمد حسین المتخلص امجد حیدرآبادی حیدرآباد دکن کے ایک صوفی گھرانے میں 1303ہجری مطابق 1878ء پیدا ہوئے۔ ان کے والد صوفی سید رحیم علی اور والدہ صوفیہ صاحبہ نے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی۔ قرآن شریف کی ابتدائی تعلیم کے بعد حیدرآباد دکن کی قدیم درس گاہ جامعہ نظامیہ میں ان کا داخلہ ہوا۔ جہاں وہ چھ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ان کے اساتذہ میں عبدالوہاب باری اور سید علی تھے۔جن کی تربیت میں رہ کر امجدؔ نے اپنے ادبی ذوق کو نکھارا۔ بعد میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے منشی اور فاضل کا امتحان کامیاب کیا۔1903ء میں ان کی شادی شیخ میراں صاحب کی دختر محبوب النساء سے ہوئی جن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیدا ہوئیں دفتر صدر محابسی میں ملازمت کی۔1932ء میں وظیفے پر سبکدوش ہوئے۔1908میں موسیٰ ندی کی طغیانی کا حادثہ پیش آیا۔جس میں آپ کی والدہ صوفیہ صاحبہ،بیوی محبوب النساء اور بیٹی اعظم النساء سیلاب کی نذر ہوگئے۔ لیکن امجد معجزاتی طور پر بچ گئے۔۔اس واقعہ کا امجدؔ کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔اپنی نظم’’ قیامت صغریٰ‘‘ میں انہوں نے اس المناک واقعہ کی تصویر پیش کی۔رودِموسی کی طغیانی کے چھ سال بعد امجد کا عقد ثانی سیدنادرالدین کی بیٹی جمال النساء سے ہوا۔ وہ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کا بھی اعلی ذوق رکھتی تھیں۔امجد نے ان کا نام جمال سلٰمی رکھا۔امجد کی روحانی ترقی میں جمال سلٰمی نے تحریک کا کام کیا۔ جمال سلٰمی کا بھی انتقال بہت جلد ہوا تو امجد نے”جمال امجد”کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کے ابتدائی حصے میں اپنی زندگی کے سوانح بھی تحریر کی۔امجدؔ کی شاعری کی ابتداء دیوان ناسخ کے مطالعہ کے دوران ہوئی کئی اساتذہ کو اصلاح کے لئے کلام دکھایا۔ اپنے دوست مولوی ظفریاب خان کی فرمائش پر اپنا اولین مجموعہ”رباعیات امجد‘‘ شمسی پریس آگرہ سے شائع کروایا۔ جو اردو ،فارسی کلام پر مشتمل ہے اس مجموعے میں جملہ 125رباعیاں ہیںآپ کے خاندان کے ساتھ’’ رباعیات امجد‘‘ کا نسخہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا،صرف ایک نسخہ ادارہ ادبیات اردو پنچہ گٹہ کے کتب خانے میں موجود ہے۔ اس کے بعد تقریباً20سال کا عرصہ لگ گیااوراس وقت دوبارہ ’’رباعیات امجد اول‘‘ کے نام سے نئی رباعیات شائع کیں اور حصہ اول کی اشاعت کے دس سال بعد”رباعیات امجد”حصہ دوم شائع ہوا۔ وفات سے پانچ چھ سال قبل ’’رباعیات حسن بلال‘‘ کے عنوان سے محمد اکبرالدین صدیق نے 1962 میں حیدرآباد سے شائع کیا۔ امجد کی دیگر نثری اور منظوم تصانیف میں اردو فارسی رباعیات کثرت سے موجود ہیں۔مسلم الاخلاق کے نام سے”اخلاق جلالی” کے لامعہ سوم کا اردو ترجمہ کیا "گلستانِ سعدی”کا گلستانِ امجد کے نام سے ترجمہ کیا۔ جمال امجد،حکایاتِ امجد،پیامِ امجد،ایوب کی کہانی،میاں بیوی کی کہانی،حج امجدآپ کے نثری کارنامے ہیں۔ منظوم تخلیقات میں رباعیات کے علاوہ ریاض امجدحصہ اول اور دوم خرقہء امجد، نذرامجد وغیرہ آپ کی یادگار ہیں۔امجد ؔ کے فن اور شخصیت پر بھی کئی کتابیں شائع ہوئیں ۔1958ء میں ساہتیہ اکیڈیمی آندھرا پردیش نے انہیں اعتراف خدمات کے طور پر پانچ سو روپیہ پیش کیا۔29 مارچ 1961ء کو رات کے ساڑھے بارہ بجے ان کا انتقال ہوا۔ مشہور بزر حضرت عبداللہ شاہ صاحب نقشبندی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔وہ احاطہ درگا شاہ خاموش میں پیوند خاک ہوئے۔
امجد ؔ حیدرآبادی کے ان حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رود موسیٰ کی طغیانی ان کی حیات کا اہم واقعہ تھا جو ان کی شاعری پر بھی اثر انداز رہا۔شہر حیدرآباد کو قطب شاہی فرماں روا محمد قلی قطب شاہ نے بسایا۔ اور اس نے شہر کی بنیاد رکھتے وقت اپنی مناجات میں دعا کی تھی یا اللہ اس شہر کو ایسے آباد رکھ جیسے دریا میں مچھلیاں ہوتی ہیں۔ اللہ نے اس کی دعا قبول کی اور چارمینار کے دامن میں بسا یہ شہر ترقی کرتا گیا۔ بعد میں سلاطین آصفیہ نے موسی ندی کے کنارے بسے اس تاریخی شہر کو ترقی دی۔ اور عثمانیہ دواخانہ‘ ہائی کورٹ‘کتب خانہ آصفیہ ‘سالار جنگ میوزیم‘ دیوان دیوڑھی وغیرہ عمارات سب موسیٰ ندی کے کنارے آباد ہوئیں۔ موسیٰ ندی وقار آباد کی گھاٹی سے شروع ہوتی ہے۔ ندی کے کنارے شہر بسائے جانے کے بارے میں مورخ دکن علامہ اعجاز فرخ لکھتے ہیں:
’’اس شہرِ محبت میں رودِ موسیٰ مختلف حوالوں سے جانی جاتی ہے۔ شہر اس کے کنارے بسایا بھی اسی لئے گیا کہ اس کی فرحت افزا فضاء راس آئے۔ ساتھ ہی دوا خانے بھی اسی کے کنارے تعمیر کئے گئے کہ مریض جلد شفا یاب ہوں۔ یہ تو رودِ موسیٰ کا خوش کْن پہلو رہا لیکن اس کا قہر بھی ناقابل فراموش ہے۔ حیدرآباد کے قیام سے 1908 تک 14 طغیانیوں کی تاریخ ملتی ہے‘‘ ۱
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد میں موسی ندی میں پہلی طغیانی 1631 میں اس زور سے آئی کہ اس وقت کے لوگ اسے سب سے بڑی طغیانی کہتے تھے اور برسوں اس طغیانی کا تذکرہ چلتا رہا جس میں پانی پرانے پل کے اوپر سے بہہ رہا تھا اور پرانے پل کا ایک دروازہ ندی میں ایک تنکے کی طرح بہہ گیا۔ اس طغیانی نے نہ صرف آس پاس کے محلّوں کو برباد کیا بلکہ کئی عمارتیں نیست و نابود ہوگئیں۔ ندی کے کنارے آباد کئی دفاتر اس طغیانی میں بہہ گئے۔ ایک اور طغیانی اس کے ٹھیک 200 برس بعد یعنی 1831 میں آئی۔ اس وقت تک شہر بھی وسعت اختیار کرچکا تھا۔ چادر گھاٹ کا پل زیر تعمیر تھا۔ یہ پل بہہ گیا اور پھر اس پل کی از سر نو تعمیر ہوئی۔ اس طغیانی میں عمارتوں سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ اس کے 72 برس بعد 1903 میں رودِ موسیٰ پھر غضبناک ہوئی۔ یہ طغیانی پچھلی طغیانیوں کی بہ نسبت کچھ کم ضرور تھی لیکن پھر بھی 1400 افراد لقمہ اجل ہوئے اور سیکڑوں مکان برباد ہوگئے۔ اس کے بعد حکومت نے ندی کے قریب مکانات تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی۔
حیدرآباد کی تاریخ کی سب سے بھیانک طغیانی 1908 میں آئی۔اس طغیانی کی کہانی بیان کرتے ہوئے علامہ اعجاز فرخ لکھتے ہیں:
’’اتوار کا دن تھا ستمبر کی 27 تاریخ تھی۔ صبح ہی سے گھنگور گھٹا چھائی ہوئی تھی لیکن بارش کچھ ایسی زیادہ نہیں تھی۔ سہ پہر کے بعد بارش تیز ہوگئی گویا جھڑی لگ گئی۔ سواریاں افضل گنج کے پل سے گزر رہی تھیں۔ سطح آب بلند تو تھی لیکن غیر معمولی نہیں تھی۔ رات کوئی ایک بجے مہیب گڑگڑاہٹ کے بعد بادل وسیع رقبے میں پھٹ پڑا۔ بارش یوں تو تیروں کی بوچھار کی مانند تیز تھی ہی بادل پھٹ پڑنے سے ایسا لگا کہ بارش چادروں کی صورت برس رہی ہے۔ نالوں نے ندیوں کی صورت اختیار کرلی۔ تانڈور، وقارآباد، معین آباد اور اطراف کے دیہاتوں کے تالاب جب ان ریلوں کی تاب نہ لاسکے تو ان کے پْشتے ٹوٹ گئے۔ پھر تو دیکھتے دیکھتے پانی اونچا ہوتا چلا گیا۔ افضل گنج کا پل جسے آج نیا پل کہا جاتا ہے، یوں ٹوٹا گویا مٹی کا بنا ہوا تھا۔ سب سے پہلے کولسہ واڑی مکمل بہہ گئی پھر حسینی علم کے علاقے میں پانی در آیا۔ شہید گنج، چار محل، بدری الاوہ، انجی باغ، گھانسی میاں بازار، دارالشفاء ، جامباغ، گولی گوڑہ، افضل گنج کا دواخانہ سب بہہ گئے۔ بہتے ہوئے مریضوں میں سے چند ایک کے ہاتھوں میں دواخانے کے چمن میں ایک درخت کی شاخیں آگئیں تو انہوں نے پیڑ کے اوپر پناہ لی۔ آج بھی یہ درخت اسی چمن میں موجود ہے اور اس طغیانی کا چشم دید گواہ بنا ہوا ہے۔ ندی کے شمالی حصے میں تقریباً ڈھائی کیلو میٹر اور جنوب میں کوئی ڈیڑھ کیلو میٹر تک ندی کا پاٹ بہہ رہا تھا۔ تین ہزار سے زیادہ افراد شہر پناہ کی دیوار کے ساتھ بنے پٹیلہ برج پر پناہ گزیں تھے۔ ندی کے بہاؤ کے ساتھ پٹیلہ برج ریت کے ٹیلے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گیا اور آن واحد میں تین ہزار افراد کی آہ وزاری، چیخ و پکار اٹھی اور بس۔ پھر سناٹا ہوگیا۔ تین ہزار زندہ انسان گرداب کی نظر ہوگئے اور لاشیں بھی میسر نہ آسکیں۔ 19000 سے زیادہ مکانات منہدم ہوگئے۔ 15000 سے زیادہ افراد آن واحد میں لقمہ اجل ہوگئے۔ 80,000 سے زیادہ افراد خانماں برباد ہوگئے۔‘‘۲
رود موسیٰ کی طغیانی کو حیدرآباد کو بیشتر ادیبوں نے اپنے طور پر بیان کیا ہے۔ نامور عثمانین پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ اس واقعہ کی ہولناکی کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’۲۸/ ستمبر ۱۹۰۸ء کی رات قیامت کی رات تھی۔ تین دن رات کی موسلا دھار بارش نے رود موسیٰ کو اپنے طاس سے باہر کر دیا ۔۔۔ مغرب کے وقت غل مچا کہ سیلاب آیا سیلاب آیا ندی کے دونوں کناروں کے رخ بلکہ دور دور محلوں کے مکانات بھی خالی ہوچکے تھے ۔۔۔ لوگ مال و دولت چھوڑ چھاڑ کر گھروں کو قفل لگا کر جدھر سینگ سمائے بھاگے چلے جاتے تھے۔ امیر اور غریب کا امتیاز باقی نہ رہا پردہ نشین بیگمات جن کی پرچھائیں تک غیروں نے نہ دیکھی بدحواس بے نقاب سر بازار ٹھوکریں کھاتی گرتی پڑتی متاع جان کو سنبھالتے بھاگی چلی جاتی تھیں، ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی۔ قیامت کا سالم تھا۔ نام پلی، لال ٹیکری، فلک نما، غرض کوئی بلند سطح کا محلہ ایسا نہ تھا جہاں تل دھرنے کو جگہ نکل سکے ۔۔۔ پانی تھمتے تھمتے تھما تو نعشیں ریتی، کیچڑ، شہیتروں کے انبار ڈھے ہوئے مکانوں کے نیچے اور اکھڑے ہوئے درختوں کی ٹہنیوں میں پھنسی پڑی تھیں۔ بے نوابے بس، زندوں کی حالت، مردوں سے بھی‘ بدترسینکڑوں ا منھ فق، سینہ شق روتے بلبلاتے پھرتے تھے ۔۔‘‘ ۳
اس وقت کے فرماں رواں میر محبوب علی خان نے اپنا سارا انتظام سلطنت متاثرین کی امداد اور باز آباد کاری کے لئے لگا دیا۔
امجد کا مکان جو موسٰی ندی کے قریب تھا جہاں اب سٹی کالج کی عمارتیں ہیں۔ اس طغیانی میں نہ صرف ان کا مکان تباہ ہوا بلکہ ان کی والدہ، بیوی اور اکلوتی بچی بھی اس طغیانی کی نذر ہوگئیں۔امجد حیدرآبادی نے اس قیامت خیز واقعہ کی روداد خود لکھی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارا مکان ندی سے کوئی ساٹھ گز کے فاصلے پر واقع تھا سلخ شعبان 1326 کی شام ہی سے رودموسی لبریز ہوکر اپنے دونوں ساحلوں کی طرف سیل بلا کی طرح بڑھ رہی تھی، رات کے آٹھ بجے تک ہمارے گھر میں گھٹنوں گھنٹوں پانی چڑھ آیا. ہم نیاس وقت والدہ سے چلنے کے لئے کہا بھی، مگر انہوں نے کمال استقامت سے یہی جواب دیا کہ موت جب آہی گئی ہے تو یہاں اور وہاں سب برابر ہے۔
رات کے دس بجے تک تو بڑھتے ہوئے پانی نے غنیم کی فوج کی طرح چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا اس وقت ہم سب گھبرا کر پاس کے مکان میں جو نہایت مرتفع اور مستحکم تھا اور پہلے بھی ایک بار ندی کے حملے سے بچ چکا تھا، چلے گئے_یہاں ہم سے پہلے ہی محلہ کے اکثر لوگ پناہ لینے کے لئے آگئے تھے _ہم مکان کے دیوان خانے میں ٹھیر گئے تھے_تھوڑی ہی دیر بعد قبلہ رخ کی دیوار شق ہوء، کمرے کے ہال میں پانی دراتا ہوا گھس آیا_ ہم ادھر سے بھاگ کر دوسری طرف جا بیٹھے اْدھر بھی لینے نہ پائے تھے کہ صحن کا پانی دروازے کے راستہ چڑھتا ہوا اوپر آگیا_آخرایک تخت بیچ ڈال کر ہم سب اس پر بیٹھ گئے_…
ہم نے سب سے کہدیا کہ اپنے اپنیگناہوں سے توبہ واستغفار کرلو ایک دوسرے سے معافی چاہ لو_اچھی طرح گلیمل لو، چھت اب گری کہ جب گری_…
اس اضطراب میں یکایک اک ہوک اٹھی. جی میں آء جب مرنا ہی ہے توچھت کے نیچے دب کر اور چورا چورا ہو کر کیوں مریں، میدان میں نکل کر کیوں نہ جان دیں…
فوراً ماں کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے_ماں کے ساتھ بیوی، بیوی کے گود میں بچی،… شق شدہ دیوار کی درز سے قبلہ رخ گلی میں اترنے کے لئے تیار ہو گیا_… ہمارا قدم ایک گرے ہوئے مکان کے ملبے پر پڑا. ہمارے بعد والدہ اور بیوی بھی مکان سے باہر ہو کر ملبے پر کھڑی ہو گئیں، اْدھر ہم باہر ہوے اْدھر چھت بیٹھ گء، گھبرا کر آگے بڑھ گئے،…
اندھیری رات میں، پانی کے اندر ہی اندر پاؤں سے راستہ ٹٹو لتے ملبوں پر پاؤں رکھتے کودتے پھاندتے جانب جنوب ایک مثلث وضع چبوترے تک پہنچ گئے_
جب ہم اس چبوترے پر آے تھے پانی اس کی منڑیر سے نیچے تھا. لیکن جوں جوں ندی چڑھتی گئی. چبوترے سے پانی اونچا ہوتا چلا. رات کیدوبجیتک تو پانی چبوترے سے چڑھتا ہوا پاؤں سے ٹخنوں، ٹخنوں سے پنڈلیوں، پنڈلیوں سے گھٹنوں، گھٹنوں سے کمر، کمر سے گلے تک آپہنچا. ہم لوگ اس خیال سے کہ بہیں تو ایک ساتھ بہیں، ڈوبیں تو ایک ساتھ ڈوبیں، ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام کر ڈو بنے سے بچنے کے لئے چبوترے سے آگے بڑھے. چبوترے سے آگے بڑھنا ہی تھا کہ سب کہ سب غڑاپ سے پانی میں ڈوب گئے…اس جگہ بھی قدرت کا کرشمہ دیکھنے کے قابل ہے ہمارا قدم ڈوبنے کے بعد زمین کی سطح کی جگہ گھاس کے چھپر پر جا پڑا_… ہم چھپر کے ذریعہ خود بخود پھر سطح آب پر برآمد ہوگئے، والدہ، بیوی، بچی، ہمارے قریب ہی غوطے کھارہی تھیں. یکے بعد دیگرہرایک کو پانی سے نکال نکال کر چھپر پرچڑھا لیا… اسی طرح کچھ وقت اس چھپر پر بھی گزر گیا… یہاں تک صبح کا ذب نمودار ہوگئی_…
ہم سمجھے کہ اندھیری رات تو جوں توں کٹ گئی_اب صبح ہو چلی ہے. دن کے اْجالے میں کوئی نہ کوئی بچاؤ کی صورت نکل ہی آئے گی،… صبح کے وقت ندی کی زدسے فصیل شہر کا ایک حصہ گرپڑا فصیل گرنے کی وجہ سے اس کا سمٹا ہوازور دور دور پھیل کر ہماری طرف بھی منتقل ہوگیا اب تک پانی میں صرف بڑھاؤ تھا بہاؤ نہ تھا. مگر فصیل گرنے کے بعد پانی اپنی اصلیت (یعنی روانی) پر آگیا، اور ہمارا چھپر جس پر ہم اب تک جان مٹھی میں لئے بیٹھے ہوئے تھے. طوفانی کشتی کی طرح ڈگمگا نے لگا، بچی ابا ابا کہہ کر گلے سے لپٹ گئی. ہم نے اس معصوم سے کہا! بیٹی رونہیں سو جا، ہمیشہ کے لئے سوجا. ہمارے ہوش وحواس اس وقت بھی قابل تعریف تھے کہ ہم نے بیوی سے مہر معاف کرالیا اور ماں کے قدموں پر جھکا کر اپنی گزشتہ نافرمانیوں وغیرہ کی معافی مانگ لی، اب چھپر آہستہ آہستہ دہارے کے ساتھ سطح آب پربہنے لگا جانیں، جسموں سے نکلنے کے قریب ہو گئیں…
والدہ نے ایک تختہ کی طرف اشارہ کیا جو بہتا ہوا ہماری ہی طرف آرہا تھا جب بالکل ہی قریب آگیا_. ہم تختہ کے شوق میں بغیر اس خیال کے کہ بچی کاندھے پر بیٹھی ہوئی ہے پانی میں کود پڑے _والدہ نے بچی کو فوراً اٹھا لیا ہم تختہ کی طرف بڑھے چلے گئے تختہ لانے کو چلے تھے، پانی کا دہاراہم کوبہالے چلا۔
تقدیر میں جب تک ماں بیوی کا ساتھ دینا لکھا تھا ساتھ دے چکے۔ اب ماں دیکھ رہی ہے بیٹا بہا چلا جا رہا ہے اور جانا بھی کیسا جیسے کڑی کمان سے تیر نکلتا ہے یہاں تک کہ بہتے بہتے ایک درخت کے قریب پہنچ کر اس کی جھکی ہوئی ڈالی پکڑلی اور ساتھ ہی پلٹ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ ہم اس وقت اپنے ساتھیوں سے سو گز دور ہوگئے تھے۔ ہم نے وہیں سے چلا کر آواز دی کہ بچی کو کسی بہتے ہوے صندوق میں بند کر کے بہادو۔ ممکن ہو تو میں اس طرف نکال لوں گا۔ اور تم بھی کسی تختے کا سہارا لے کر اپنے آپ کو دریا کی موجوں کے حوالے کردو۔حضرت کن فیکون کے تماشے دیکھتے جائیں۔ اس کہنے کے بعد ہی والدہ کے سامنے مختلف سامانوں کے ساتھ ٹین کا ایک صندوق بھی بہتا ہوا آگیا والدہ نے اس کو پکڑ بھی لیا اور چاہا کہ موسٰی علیہ السلام کی طرح بچی کو صندوق میں بند کرکے بہادیں مگر قسمت کی بات صندوق مقفل نکلا۔ والدہ نے مایوسی کے ساتھ پھر مجھے پکار کر کہا بیٹا صندوق کو قفل لگا ہے اور پھر صندوق کو چھوڑ کر ایک بڑی شہتیر پکڑلی اور اپنی بہو کو بھی اس کے تھام لینے کی ہدایت کرکے اپنے آپ کو دریا کے حوالے کر دیا۔ یہ ہولناک راستہ چند قدم ہی طے ہوا تھا کہ بیوی کے ہاتھ سے شہتیر نکل گیا پھر پتہ نہ چلا کہ کیا ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد والدہ بھی نہ سنبھل سکیں شہتیر سے دور جا پڑیں۔ کبھی ڈوبتی ہیں۔ کبھی اچھلتی ہیں۔ کبھی صرف سر کے بال نظر آتے ہیں۔ کبھی زور کر کے ابھرتی ہیں تو کچھ صورت بھی نظر آجاتی ہے مگر پلک جھپکنے تک پھر ڈوب جاتی ہیں آہ آہ ان تمام طوفانی مناظر میں یہ منظر جو کچھ تھا اس کا اندازہ ہمارے سواے شائد ہی کوئی کرسکے۔ہم درخت سے یہ سب حالات دیکھ رہے ہیں ہر وقت قصد ہوتا ہے کہ پانی میں کود پڑوں ماں تک پہنچ جاؤں مگر دھارے کی مخالف سمت کچھ زور نہیں چل سکتا۔خدا کی قدرت والدہ خود بخود بہتی ہوئیں ایک درخت کے قریب پہنچ گئیں جو ہم سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ ہم نے فوراً آواز دی ماں تم درخت تک پہنچ گئی ہو تمہارے سر پر ڈالیاں جھکی ہوء ہیں فوراً کسی ڈالی کو پکڑ لو۔ماں نے بیٹے کی آواز سن لی اسی بدحواسی میں ہاتھ بڑھاکر ایک پتلی سی ڈالی پکڑ لی اور ہماری طرف دیکھ کر کہا ’’ ہائے بیٹا میرے دونوں چاند ڈوب گئے (یعنی بہو اور پوتی ) ہم نے کہا خیر جو ہوا ہوا تم کسی طرح بچ جاؤ’’ماں نے کہا بچی کمر سے بندھی ہوئی ہے جو پانی میں لٹک گئی ہے جس کی وجہ سے میں اوپر ابھر نہیں سکتی۔ ہماری والدہ کی یہی ایک آخری بات تھی جو ہمارے کانوں تک پہنچی۔
اب معلوم ہوا کہ والدہ نے اپنا دوپٹہ نکال کر نصف اپنی اور نصف بچی کی کمر سے باندھ لیا تھا کہ بچی کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔ انہوں نے بچی کی جان بچانی چاہی مگر بچی پتھر بن کر ان کو ڈبو رہی ہے اب تک تو وہ بچی کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اب بچی ان کو نہیں چھوڑنا چاہتی ہے ہماری شان بھی اس وقت تصویر لینے کے قابل تھی۔جس درخت پر ہم چڑھے ہوے تھے اس کو ایک لمبی ڈالی کے سوائے جو بہت اونچی چلی گئی تھی کوئی اور ٹہنی یا ڈالی نہ تھی جس سے ہماری طرح کئی سانپ اور کنکھجورے لپٹے ہوے تھے ہم اس وقت اس ڈالی پر تکیہ کئے ہوے اپنی ماں سے گفتگو کر رہے تھے۔والدہ کی مذکور الصدر آخری بات سننے کے بعد وہ ڈالی جو ہماری پشت بان تھی تڑ ک کر ٹوٹ گئی ہم الٹ کر پانی میں گرے۔ گر کر پھر جو ابھرے بے ساختہ ہماری زبان سے نکل گیا "اماں میں تو چلا’’ کاش ہماری زبان بند ہوجاتی۔ ہمارا حلق بیٹھ جاتا کیونکہ اس آواز کے ساتھ ہی گھبرا کر انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور وہ پتلی سی ڈالی بھی ہاتھ سے چھوٹ گئی ماں کے دو چاندوں کی طرح ہمارا ایک چاند بھی پانی میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ہم ننگِ خاندان۔ خاندان کو ڈبو کر ڈوبتے تیرتے ندی کے زبردست دھارے میں بہے چلے جارہے تھے۔ دور سے اس قسم کی دو دھاریں نظر آئیں۔ سیدھے خط کی زبردست دھار بخطِ مستقیم نئے پل میں پہنچ کر ہر بہنے والے کو ٹھیک موت کے گھاٹ اتارہی تھی۔ دوسری کمانی شکل کی کمزور دھار زنانہ ہسپتال کے جنوبی جانب سے ہوتی ہوئی نئے پل تک جارہی تھی۔ ہم بہتے بہتے ان دونوں دھاروں کو دیکھتے اور سوچتے جارہے تھے کہ اگر سیدھے خط میں جا پڑیں تو ٹھیک موت کے منہہ میں پہنچ جائیں گے اگر دوسری کمانی دھار سے گزرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بچنے کی امید ہوسکتی ہے مگر دونوں صورتیں اپنے اختیار سے باہراور امکان سے دور تھیں۔ بارہ گھنٹے پانی میں رہتے رہتے غوطے کھاتے کھاتے ہاتھ پاؤں شل ہو گئے تھے جسم کی طاقت بھی دریا برد ہوگئی تھی۔ اسی سوچ سوچ میں بجلی کی رفتار سے محل تقاطع لا تک پہنچ گئے اور وہی ہوا جس کا کھٹکا لگا ہوی تھا۔ یعنی سیدھی دھار میں بہتے چلے۔ موت کا یقین قطعی ہوگیا اِناللہ کہہ کر آنکھیں بند کرلیں ایسے وقت میں خیال آیا کہ نہ معلوم ہماری لاش کدھر بہے؟ کہاں نکلے ؟ کون نکالے؟ ہمارے ویسٹ کوٹ کی جیب میں پاکٹ ہے۔ پاکٹ میں کچھ روپیہ ہے۔ ہم سے مرنے والے کوروپیہ جیب میں رکھ کر مرنا بڑی شرمناک بات ہے لوگ ہماری جیب ٹٹولیں گے۔ روپیہ نکالیں گے ہماری خساست پر نفرت کے ساتھ لعن و طعن کریں گے یہ خیال لفظوں میں بہت دیر میں ادا کیا گیا مگر تصور میں ایک بجلی کی چمک سے زیادہ وقفہ نہ ہوا۔ خیال کے ساتھ ہی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ پاکٹ بھی کچھ جیب سے نکلی ہوئی گویا نکلنے کو تیارہی بیٹھی ہوئی تھی فوراً ہاتھ آگئی۔ چھوٹی سی سیاہ پاکٹ کو ہاتھ میں لیکر اس زور اور نفرت سے پانی میں پھینکا جس طرح کوئی طاعونی چوہے کو پھینکتا ہو۔ بچانے والا پاکٹ اندازی کی آڑ میں سب کچھ کر گیا بظاہر ہم اپنے اسی زور کی زد سے اس خوفناک دھارے سے نکل کر دوسری کمزوردھار میں آپڑے اور اسی دھار میں کچھ دور بہنے اور زنانہ ہسپتال کے محاذ میں آنے کے بعد ہسپتال کی بیمار عورتوں نے ہمت کرکے ڈوبتے کو بچالیا۔ دریا نے بھی روپیہ لے کر جان چھوڑدی خدا کرے کہ ملک الموت جان لیکر ایمان چھوڑدے۔ ہماری طرح صد ہاجوان ،بچے ،بوڑھے، مرد ،عورتیں کچھ ہم سے دور کچھ نزدیک بہے جارہے تھے۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ نہ معلوم ہم میں کیا سرخاب کا پر لگا تھا اور ہماری زندگی کی ایسی کیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ بچائے گئے۔ خدا اس بچنے سے بچائے۔
بے غیرت کی بلا دور۔ ننگ خاندان۔ خاندان کو ڈبوکر۔ عزیزوں کو کھو کر۔ ننگے دھڑنگے۔ بھیانک صورت۔ ڈراؤناچہرہ لئے جل مانس بنے ہوے کنارے تو لگ گئے۔بہنے والے تو بہہ گئے۔ڈوبنے والے ڈوب گئے۔گئے اور ایسے گئے کہ لاشوں تک کا پتہ نہ چلا۔۴
امجد کی اس روداد نویسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی ان پر ایک قیامت گزری تھی۔ یہی وجہہ ہے کہ بعد میں اس واقعہ کے تعلق سے انہوں نے ایک نظم ’’ قیامت صغریٰ ‘‘ بھی لکھی ۔ جس میں انہوں نے رود موسیٰ کی طغیانی کو منظوم طور پر پیش کیا۔ امجد کی نظم ’’ قیامت صٖغری‘‘ ریاض امجد حصہ اول میں شامل ہے۔ اس نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور دکنی محقق نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’اس نظم کا ہر شعر سوز و گداز سے درد و الم کا دریا ہے حرف نہیں نشتر ہیں۔ناوک ہیں جو دل کو چھلنی کئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ کونسادل ہے جو اس نظم کے پڑھنے کے بعد چاک نہیں ہوجاتا۔وہ کونسی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں ہوجاتی۔ تاریکی کی حالت ‘بارش کی کیفیت‘مخلوق کی بے چینی‘مکانوں کا گرنا‘لوگوں کا چیخنا‘پانی کا گھٹنوں سے کمر‘کمر سے سینہ ‘سینہ سے حلق تک پہنچنا‘ پانی میں شب بھر رہنا‘صبح صبح تارے کی طرح ڈوب جانا‘اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے دیکھنا اور امداد نہ کرسکنا‘حسرت کے ساتھ دیکھتے رہ جانا۔ ان تمام واقعات سے عینی تصویر سامنے آجاتی ہے۔‘‘ ۵
نظم کے کچھ بند بہ طور انتخاب پیش ہیں تاکہ اندازہوکہ نثر کی طرح امجد نے بھی اپنی زندگی میں گزری قیامت صٖغری کی کس طرح منظر کشی کی ہے۔
نظم’’ قیامت صغری‘‘ سے انتخاب
وہ رات کا سناٹا وہ گھنگھور گھٹائیں ۔ بارش کی لگاتار جھڑی سرد ہوائیں
گرنا وہ مکانوں کا وہ چیخوں کی صدائیں۔ وہ مانگنا ہر ایک کا رو رو کے دعائیں
تاریکی میں دریا نے اک اندھیر مچایا ۔ سیلاب فنا بن کے کیا سب کا صفایا
پاؤں سے گزرتاہوا پھر سینہ تک آیا ۔ آگے جو بڑھا موت نے بس حلق دبایا
مادر کہیں اور میں کہیں بادیدہ پرنم ۔ بی بی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم
عالم میں نظر آتا تھا تاریکی کا عالم ۔ کیوں رات نہ ہو ڈوب گئی نیر اعظم
بیٹی نہ تجھے باپ نے افسوس بچایا ۔ دست ستم سیل فنا سے نہ چھڑایا
دریا نے ترے حال پہ کچھ رحم نہ کھایا ۔ کیا پھول سی صورت پہ اسے رحم نہ آیا
للہ یہ بگڑی ہوئی تقدیر بنالو ۔ میں خاک پہ گرنے کو ہوں لو جلد سنبھا لو
امجد کو بھی اعظم کی طرح پاس بلالو ۔ اک بار ذرا پھر مجھے چھاتی سے لگا لو
دل میں مرے اب صبر کی طاقت نہیں اماں
دنیا میں بغیر آپ کے راحت نہیں اماں ۶
مجموعی طور پر رود موسیٰ کی طغیانی کا واقعہ امجد حیدرآبادی کی زندگی کا ایک المناک باب ہے۔ جسے ان کے منفرد نثری اور شعری انداز بیان نے متاثر کن بنادیا۔ جب بھی کسی بڑے سیلاب کا ذکر لیا جاتا ہے اس وقت اہلیان حیدرآباد رود موسیٰ کی طغیانی اور اسی حوالے سے امجدؔ حیدر آبادی کو ضرور یاد کرلیتے ہیں۔
——
حواشی
۱ علامہ اعجاز فرخ۔ مضمون۔رود موسیٰ کی طغیانیاں۔میر محبوب علی خان کی رعایا پرسی۔ جہان اردو ویب سائٹ۔ 13ستمبر 2017
۲ علامہ اعجاز فرخ۔ مضمون۔رود موسیٰ کی طغیانیاں۔میر محبوب علی خان کی رعایا پرسی۔ جہان اردو ویب سائٹ۔ 13ستمبر 2017
۳ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ ’’عزیز مرزا شخصیت، حیات اور کارنامے‘‘ حیدرآباد ۱۹۸۷ء، ص: ۶
۴ امجد حیدرآبادی۔جمال امجد۔ص۔ ۱۰۰۔۹۰۔ حیدرآباد
۵ نصیر الدین ہاشمی ۔ حضرت امجد کی شاعری ۔ حیدرآباد۔ 1934ء ۔ص۔۱۶۔۱۵
۶ بہ حوالہ ۔ حضرت امجد کی شاعری ۔از نصیر الدین ہاشمی ۔ص۔۱۶۔۱۵