بے بس ارب پتی :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

بے بس ارب پتی

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

دنیا کی مہنگی ترین جہازی سائز کی نہایت پر کشش سیاہ رنگ کی جیپ روشنیوں میں ڈوبے شہر لاہور کی سڑکوں پر سبک رفتاری سے روا ں دواں تھی ‘رات کا پہلا پہر سڑکو ں پر ٹریفک کا اژدھام تھامیرامیزبان اپنی امارت کے دیومالائی قصے لہک لہک کر سنارہا تھا اُس کی باتوں اور رویے سے لگ رہا تھا کہ اُس کا انگ انگ دولت کے نشے میں جھوم رہا ہے

اگر آپ دولت مندوں کی نفسیات کا مطالعہ کریں تو جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ احساس برتری اور خود کو خلائی مخلوق سمجھنا اِن کی باتوں اور حرکات و سکنات سے واضح طو ر پر لگتا ہے کہ جیسے یہ دنیا بنائی ہی اِن لوگوں کے لیے ہے ‘دولت کے نشے میں غرق یہ لوگ خود کو خدا کی پسندیدہ ترین قوم سمجھتے ہیں ٹیکس بچانے اور معاشرے میں سخاوت کی شہر ت ماتھے پر لگانے کے لیے انہوں نے بہت سار ے ہسپتال خیرات خانے یتیم خانے اور سکول بنا رکھے ہو تے ہیں ‘اپنی اِس سخاوت یا خدمت خلق کو یہ اشتہار کے طور پر استعما ل کر تے ہیں اب میرا میزبان جس کی عمر تقریباً پینتالیس سال کے لگ بھگ تھی اپنی دولت کے معرکے بتانے کے بعد سخاوت کے بازار میںآگیا تھا جب میں اُس کی دولت سے مرعوب نہ ہوا تو اُس نے اپنے تر کش کاآخری تیر میرے اوپر داغنا شروع کیا اُسے سو فیصد یقین تھا کہ اُس کا یہ وار خالی نہیں جا ئے گا ‘اب اُس نے سخاوت اور خدمت خلق کے قصے سنانے شروع کر دئیے کہ کس طرح اُس کا خاندان غریب پر وری کے تمام ریکارڈ تو ڑ رہا ہے ‘کتنے یتیم لاوارث بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا رہا ہے کتنی یتیم بچیوں کی پڑھائی لکھا ئی کے بعد اُن کی شادیاں اور ہسپتالوں میں کھانے سے ادویات تک وہ خود کو حاتم طائی کا حقیقی جانشین ثابت کر نے پر اُترا ہوا تھا ‘ ساتھ ہی لنگر خانے لوگوں کو فری کھانے کی داستان شروع کر دی آخر میں میرے اوپر سنہری جال پھینکا کہ میں ماڈرن طرز کا یتیم خانہ پلس تعلیمی ادارہ بنا نا چاہتا ہوں جہاں پر یتیم بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ انہیں ماڈرن سائنسی بنیادوں پر جدید تعلیم دی جائے گی ‘ذہین بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک اعلیٰ یو نیورسٹیوں میں بھیجا جائے گا یہ سب کچھ بتانے کے بعد اُس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہو ئے کہا لیکن سر اِس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مجھے آپ جیسے نیک انسان کی ضرورت ہے اگر اُس نہایت جدید تعلیمی ادارے کی صدارت آپ سنبھال لیں تو میری پریشانی دور ہو جائے گی ‘ میں اعتماد سے بڑی رقم اِس عظیم فلاحی مشن پر لگا سکتا ہوں اسے اُس کے اِس وار کا بخو بی یقین تھا کہ میں جو بے نیازی سے اُس کے ساتھ بیٹھا تھااب بے نیازی کے خو ل کو تو ڑ کر میراثی بن کر اُس کی خو شامد میں لگ جاؤں گا ‘ دن رات اُس کی چاکری کروں گا اُس کی مداح سرائی کروں گا اُس کے قصیدے پڑھوں گا اُس کے غلاموں میں ایک اور غلام کا اضافہ ہو جائے گا ۔ لیکن جب میری آنکھوں اور چہرے پر خو شامد کے رنگ نہ آئے تو وہ تھوڑا سا پریشان نظر آنے لگا اب اُس نے اگلا پتہ پھینکا پروفیسر صاحب اِس کام میںآپ کو مکمل آزادی ہوگی کوئی آپ کو روکنے ٹو کنے والا نہیں ہوگا آپ مکمل با اختیار ہونگے جو مرضی سیا ہی سفیدی کر یں کو ئی آپ کے کام میں دخل اندازی نہیں کر ے گا ‘میرا سپا ٹ اور بے رنگ چہر ہ اُس کو پریشان کر رہا تھا اُس نے بے پناہ دولت کے بل بوتے پر غلاموں کی ایک بڑی فوج اکٹھی کر رکھی تھی اب وہ اپنی غلاموں کی فوج میں مجھے بھر تی کر نے پر تُلا ہواتھا ‘میں نے اپنا مو بائل دیکھنا شروع کردیا اور لوگوں کے پیغامات کا جواب دینا شروع کر دیا اُس کی طرف دیکھے بغیر کہا میرا مزاج ایسے کاموں کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی میں اتنا باصلاحیت ہوں کہ اتنے بڑے ادارے کی ذمہ داری نبھا سکوں آپ کسی قابل بندے کو تلاش کریں جو یہ کام احسن طریقے سے کر سکے مجھے معاف کر دیں امیر زادے کو میراجواب اور سپا ٹ لہجہ تو ہین آمیز لگا ‘غصے کا سایہ اُس کے چہرے پر لہرا کر چلا گیا ۔ اِس امیر زادے کا باپ کسی پر اسرار بیما ری میں کئی سال سے مبتلا تھا یہ کئی با ر اپنے نوکروں کو میرے پاس بھیج چکا تھا‘ ساتھ پیسوں کا لفافہ بھی کہ میں اِس کے دولت کدے پر جاکر اُس کے باپ کا روحانی علاج کروں میں نے جب لفافہ لینے سے انکار کیا اور جانے سے بھی انکار کیا تو یہ خود دو تین بار میرے پاس آیا پھر بھی میں نہ مانا ‘ میرے دوست کا تعلق نکال کر میرے پاس آیا کہ میرا باپ شدید بیمار ہے چل پھر نہیں سکتا آپ پلیز میرے ساتھ چل کراُسے دیکھ لیں ‘ اُس کی کئی کو ششوں پر بھی میں اِس کے ساتھ نہ گیا تو شاید اِسے اپنی تو ہین کا احساس ہوا آج جب میں دوست کے کہنے پر اِس کے ساتھ جا رہا تھا تو یہ میری قیمت پر قیمت لگارہا تھا ‘شاید مجھے اپنے غلاموں میں شامل کر کے یہ مجھے سزایا اپنی تسکین چاہتا تھا ۔ ایسے امیر زادے بڑے تیز ہوتے ہیں اِن کا سب سے کامیاب وار عمرہ یا حج ہوتا ہے جس سے یہ بڑے بڑوں کو ذبح کر ڈالتے ہیں ‘ عمرے یا حج پر جانا ہر مسلمان کی اولین خواہش ہوتی ہے ‘میں نے بڑے بڑوں کو اِس جال میں پھنستے دیکھا ہے یا پھر یہ زکوۃ کی شکل میں بڑی رقم دیتے ہیں کہ جنا ب آپ یہ رقم مستحق افراد میں تقسیم کر دیں اِس وار سے بھی میں نے کسی کو بچتے نہیں دیکھا ۔ چالاک دولت مند اپنے دولت کے سنہری جال میں معاشرے کے تمام با اثر افراد کو قید رکھتے ہیں کسی کو عمرہ حج کسی کآ اپریشن کسی کو گاڑی بچوں کی شادی کا اہتمام ‘ گھر انعام میں دے دینا میں نے بڑے بڑے نام نہاد متو کل انسانوں کو اِن میراثیوں کی فوج کی اگلی صف میں دیکھا ہے یہ متوکل چہرو ں پرخو شامد کا ماسک چڑھائے دن رات اِن کی مداح سرائی کرتے ہیں اِن دولت مند انسانوں کو سرکاری افسروں اوربااثر افراد کو خریدنے کے طریقے آتے ہیں ‘اپنے پر آسائش فارم ہاؤس یہ ایسے ہی کاموں کے لیے استعمال کر تے ہیں جہاں شراب وکباب کااہتمام سر عام کیا جاتا ہے بڑے بڑے سرکاری افسر نشے میں دھت ایسے فارم ہاؤسوں پر میراثی بنے نظر آتے ہیں‘ انہی سوچوں میں غرق پتہ ہی نہ چلا جب ہم لاہور کے مہنگے ترین علاقے کے محل نما بنگلے میں داخل ہو ئے ‘بڑا جہازی گیٹ غلاموں کی وردیاں وسیع و عریض لان پھل دار ‘پھول دار پودے ‘ریشمی گھاس کے فرش ‘دولت مندی بارش کی طرح بنگلے کے درو دیوار سے ٹپک رہی تھی گا ڑی سے اُتر کر ہم آگے بڑھے غلام بادشاہ سلامت کی طرف عقیدت کے بت بنے نظر آئے آخر ہم تہہ خانے کی طرف بڑھے جہاں پر والد صاحب لیٹے تھے ہمیں آتا دیکھ کروالد صاحب کو ملازمین نے اٹھا کر بٹھا دیا باپ اٹھ تو گیا لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ وہ چھت کی طرف مسلسل دیکھے جارہا تھا میں حیران پاس جاکر کھڑا ہو گیا وہ مسلسل اکڑی گردن کے ساتھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اُس نے لکھا ہوا کاغذ میری طرف بڑھا یا جس پر لکھا تھا میری گردن کے پچھلے پٹھے اکڑ چکے ہیں اب میں سامنے نہیں دیکھ سکتا میں دنیا جہاں کی لیبارٹریاں ہسپتال اورڈاکٹروں کے چکر لگا چکا ہوں ‘میری گر دن نیچے نہیں آتی لوہے کا شکنجہ ہے جو میری کمر گر دن پر چڑھا دیا جاتا ہے سکریو دبانے سے وقتی طو رپر گردن سامنے آتی ہے شکنجہ اٹھاتے ہی گردن پھر آسمان کی طرف ہوجاتی ہے‘ میں سامنے اوردائیں بائیں نہیں دیکھ سکتا میری زبان بھی اکڑی ہو ئی ہے نہ میں بو ل سکتا ہوں نہ ہی گردن ہلا سکتا ہوں ‘میں دولت کے نشے میں دھت غریبوں پر تھوک دیا کر تا تھا ‘ٹھو کروں سے ما رتا تھا گالیاں دیتا تھا ‘ایک دن ایک بے گنا ہ کو جب خوب ذلیل کیا تو اُسے کہا میرے سامنے گردن جھکاکر کھڑے ہو جا ؤ اُس نے گردن جھکا ئی ہو ئی تھی لیکن میری طرف دیکھا تو میں نے غصے سے پاگل ہو کر اُس کی گردن تو ڑ دی وہ چند دن بیمار رہ کر مرگیا اُس کے گھر والوں کو میں نے پیسے دے دیئے لیکن ایک دن سو کر اٹھا تو میری گردن اکڑ چکی تھی مجھے غریب کی آہ لگ چکی تھی ‘پرو فیسر صاحب نو ٹوں کی بو ریا ں بھر کر لے جائیں لیکن میری گردن کو صرف سیدھا کر دیں ‘نو کر زبردستی اُس کی گردن سیدھی کرتے لیکن گردن سپرنگ کی طرح آسمان کی طرف ہو جاتی اُس کی معافی کا دروازہ بند ہوچکا تھا اُسکا بیٹا میری طرف دیکھ رہا تھا میں نے اُ سکی آنکھوں میں دیکھا اور کہا حقیقی معنوں میں غریب پر وری کرو تو شائد خدا کو تم اور تمہارے والد پر رحم آئے میں نے رحم بھری نظروں سے بے بس ارب پتی کو دیکھا اور واپس آگیا ۔

Share
Share
Share