جگر کی ایک غزل
صوفیانہ تشریحات کی روشنی میں
ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985
’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ والی بات، صوفیانہ شاعری کی تحسین و تنقید کے لیے صادق نہیں آسکتی، بلکہ ایک اقداری طریقۂ کار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تشکیلی عناصر کو اُجاگر کرنا پڑتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب نے تو صوفی شاعر کے لیے بہت اعلیٰ معیار رکھا ہے کہ وہ ’’وصول الی اللہ‘‘ کا آرزومند ہونا چاہیے۔ رشید حسن خاں نے بھی بحث چھیڑی تھی ، صوفی شاعر کا عملی طور پر صوفی ہونا از بس ضروری ہے۔ بہرحال خمریات کے حوالہ سے عمر خیام اور حافظ نے اپنے عارفانہ اور صوفیانہ کلام کے وسیلہ سے دھوم مچا دی تھی۔ اسی کا اتباع کرتے ہوئے میر ، درد اور غالب نے کیا تمام اردو شعراء نے اپنے کلام میں ’’خمریات‘‘ کو اِدھر اُدھر جگہ دی۔ اس کا گہرا رنگ ریاض خیرآبادی، اصغر گونڈوی اور کسی قدر منفرد انداز جگر کے یہاں نظر آتا ہے، حالانکہ اصغر اور جگر دونوں کے پیر مغاں (مرشد) حضرت قاضی عبدالغنی منگلوری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
غزل کا مطلع ہے:
نہ حرم میں، نہ کلیسا میں نہ بت خانے میں
چین ملتا ہے تو ساقی تیرے مئے خانے میں
مجازی طور پر بھی ہم اس شعر کا غیرمعمولی مضمون آفرینی کا حظ اٹھا سکتے ہیں اور صوفیانہ سطح پر تو مصرعہ ثانی اس قدر وجدآور اور روح فرسا ہے کہ عارف کی جان پر بن آتی ہے۔ ’’ساقی‘‘ ، ’’مرشد‘‘ یا ’’شیخ‘‘ کی اصطلاح کا آئینہ دار ہے، جب کہ ’’مئے خانہ‘‘ ، ’’جائے پناہ‘‘ یعنی ’’خانقاہ‘‘ کہی جاتی ہے ، جو کوئے یار بھی ہے اور ’’گنج سرمدی‘‘ بھی۔ جب صوفی کے مقامات بلند ہوتے ہیں تو وہ ساقی کے پردہ میں خالق کائنات کے مظاہر دیکھتا ہے اور ’’مئے خانہ‘‘ میں کائنات کی وسعتیں۔ یہ سب کچھ تشنہ لبی بادہ کشاں پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کس درجہ اور کس شدت کے ساتھ اپنے مطلوب و مقصود سے اُنس ، محبت اور عشق کرتا ہے اور بندگی میں کامل سپردگی اختیار کرتا ہے۔
صوفیائے کرام ’’خانقاہ‘‘ کو عالمِ تنزیہ کی علامت بھی سمجھا ہے اور ’’مئے خانہ‘‘ مظہر فیض رحمانی متصور ہوتا ہے اور ’’ساقی‘‘ عارفوں پر حقائق و معارف کے اسرار کھولنے والا ہوتا ہے، جو ’’نغمۂ توحید‘‘ سنا سنا کر مست و بے خود کردیتا ہے، اس لیے ’’ساقی‘‘ کو مطرب بھی کہہ دیا گیا ہے۔ ان ہی علامتوں کو استعمال کرتے ہوئے کس خوبی سے کہا گیا ہے
دوش دیدم کے ملائک در مئے خانہ زدند
گلِ آدم بسر شتند بہ پیمانہ زدند
(میں نے دیکھا کہ کل فرشتوں نے ’’میخانہ‘‘ آباد کیا اور آدم کی مٹی کو گوندھ گوندھ کر پیمانے بنا دیئے۔)
کچھ ایسا ہی خیال خیام کا بھی رہا ہے۔
مئے، قوت بدن، قوتِ جانست مرا
مئے، کاشفِ اسرارِ نہانست مرا
دیگر طلبِ دنیا و عقبیٰ کنید
یک جرعہ پُر از ہر دو جہانست مرا
(مرے لیے ’’مئے‘‘ قوتِ جاں ہے ، وہی رازدروں کو کھولنے والی شئے بھی ہے، جب کہ ساغر میں دونوں جہاں کے جلوے نظر آتے ہیں تو دنیا و عقبیٰ کی تلاش کیا معنی؟)
اسی غزل کا شعر ہے
میں کوئی رِند نہیں، اس لیے پیتا ہوں شراب
تری تصویر نظر آتی ہے پیمانے میں
(جگرؔ )
یہ شعر بھی بڑا غضب ڈھاتا ہے ، جس میں جگرؔ نے صوفیانہ خمریات کی علامتوں جیسے ’’رند‘‘ ، ’’شراب‘‘ ، ’’تصویر‘‘ اور ’’پیمانہ‘‘ سے معنوں کا ایک جہاں آباد کردیا ہے اور شعرکے مفہوم کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ دعویٰ بھی خود کرتے ہیں اور دلیل بھی خود ہی پیش کرتے ہیں۔ دل کو مسرور بھی کیا اور دل کو لوٹا بھی ہے۔ ’’تصورِ شیخ‘‘ کی جلوہ سامانیوں کو خوب نکھارا ہے۔ صوفیائے کرام ’’پیمانہ‘‘ کو ’’حب ربانی‘‘ کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ’’تصورِ شیخ‘‘ کی شدت اور تڑپ نے ’’پیمانہ‘‘ میں ’’روئے یار‘‘ دیکھا اور شوقِ نیازمندی کا تقاضہ تھا کہ ’’پیمانہ‘‘ چوم لیا جاتا کہ ’’عشق مجازی‘‘ کی وساطت سے ’’عشق حقیقی‘‘ تک رسائی حاصل ہوتی کہ یہی سکونِ قلب کا سامان ہوتا ہے دیوانے کے پاس۔ ’’پیمانہ‘‘ کو ’’انوارِ غیبی‘‘ کا آئینہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ’’ساغر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ’’رند‘‘ درند بدمست نہیں بلکہ درند خوش اوقات ہے، جو اذکار و مشاغل میں منہمک و مستغرق رہتا ہے۔ اسمائے حسنیٰ کے صفات کو وجدانی سطح پر محسوس کرتے ہوئے اُس کو تنویر سے الوہی قرب حاصل کی خوبصورت کوشش کرتا ہے، چنانچہ اصغر گونڈوی اسی بات کو ذرا کھول کر کہتے ہوئے بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں
ہر موج کی وہ شان ہے جامِ شراب میں
برقِ فضائے وادئ سینا کہیں جسے
یہاں ’’پیمانہ‘‘ کی وہ سرمستی جو ذکر ’’اللہ ہو‘‘ کے سبب پیدا ہوتی ہے اور ’’انوارِ الٰہی‘‘ کا نزول اسی طرح ہونے لگتا ہے جیسے ’’وادئ سینا‘‘ کی تجلی میں ہوا تھا، لیکن اصغر احتیاط برتنے کا انتباہ بھی دیتے ہیں
اصغر نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
رازِ حیاتِ ساغر و مینا کہیں جسے
اور حضرت حافظ نے بڑے والہانہ انداز میں فرمایا اور ’’تصویر یار‘‘ پر مہر ثبت فرمادی
چو دیدم روئے خویش سجدہ کردم
بحمد اللہ نکوکر دارم اِمشب
(فضل باری ہے آج کی شب کہ روئے یار کا دیدار ہوگیا اور میں سجدہ ریز ہوگیا)
جگر کہتے ہیں:
دفن کرنا مری میت کو بھی مئے خانے میں
تاکہ مئے خانے کی مٹی رہے مئے خانے میں
اس شعر سے ’’فنا الفناء‘‘ کا نظریہ متشرح ہوتا ہے، جہاں ’’فرع‘‘ کو اصل سے وابستہ کردیا گیا ہے، جو شدتِ تمنائے بقاء کو اور ’’شور انگیز‘‘ کردیتا ہے ، گویا فنا فی اللہ باقی باللہ شاہد و مشہود کے درمیان حائل پردہ کو اٹھا دیتا ہے ۔ روحانی ارتفاع (Sublimatian) کے تئیں خود کو اس درجہ فنا کرلینا کہ ’’وجود‘‘ مطلب کے سوا کچھ نہ ہو ، بس ’’اصل الاصول‘‘ سے وابستگی ہو، اس لیے اصغر نے کہا
خاک کردیں تپش عشق ساری ہستی
پھر اسی خاک کو خاکِ درِ جاناں کردیں
عمر خیام نے تو بڑے بلند علائم استعمال کیے ہیں اور ’’مئے ناب‘‘ سے نہلانے کی بات کی ہے اور تلقین کی ہے کہ ’’مئے و جام‘‘ سے گرمایا جائے اور اگر کسی کو ان سے محشر میں ملنے کی تمنا ہو تو ’’مئے خانہ‘‘ کی مٹی کی خوشبو سے مشام جاں معطر کرلیں
چوں فوت شوَم بہ بادہ شوئید مرا
تلقین ز شراب و جام گوئید مرا
خوابید کہ روزِ حشر یا بید مرا
از خاکِ در میکدہ بوئید مرا
(خیام)
حافظ نے بھی خاک مئے خانہ کا بھرم رکھا ہے
ز عطر حور بہشت آں زماں برآید بوئی
کہ خاک میکدۂ ما عبیر جیب کند
عارفوں کی قسمتیں ’’فیض رحمانی‘‘ کی تلاش میں ’’خرابات‘‘ ہی کے حوالے ہوگئی ہیں
قسمت حوالتم بہ خرابات می کند
غزل کا مقطع ہے
کون کہتا ہے جگر ایسی عبادت ہے حرام
آؤ سجدہ کریں اللہ کو مئے خانہ میں
یہ نازک شعر نہیں بڑا صاف و شفاف شعر ہے۔ یہاں ’’وحدت الوجود‘‘ کے نظریہ کو پیش کرنے کے لیے ’’خمریات‘‘ کا سہارا لیا گیا ہے اور یہ روایت حافظؔ ، رومیؔ ، خیامؔ ، خسروؔ سے لے کر غالبؔ ، دردؔ ، میرؔ اور خواجہؔ حبیب سب ہی کے پاس نظر آتی ہے۔ مولانا روم کی پوری مثنوی وحدت الوجود کی بنیاد ہی پر کھڑی ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو کہ ’’وحدت الوجود‘‘ کوئی عقیدہ نہیں، بلکہ عارف کی ایک وجدانی کیفیت یا حالت ہے، جو ہر جگہ ، ہر مقام پر ’’حق‘‘ کا جمال دیکھتی ہے اور سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ بمصداق
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
غالبؔ نے بھی منصورؔ کی طرح نعرۂ حق بلند کیا ، لیکن بڑی احتیاط برتی ہے
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تنک ظرفئ منصور نہیں
اصغر نے بھی ’’ردائے گل‘‘ اور ’’پردہ مہ و انجم‘‘ جیسی خوبصورت لفظیات کے وسیلہ سے ’’وحدت الوجود‘‘ کے پردے اٹھائے ہیں اور دلِ حیرت اثر کا حظ اٹھایا ہے
ردائے لالہ و گل، پردۂ مہ و انجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے
حافظ نے اسی بندگی اور شوق نیاز مندی کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ لفظِ بیان کی لذت کے ساتھ پیش کیا
باز آئی ساقیا کہ ہوا خواہ خدمتم
مشتاق بندگی و دعائے گوئے دوستم
(تو آ اے ساقی کہ میں تری خدمت کا آرزومند ہوں اور تری عبادت کا اشتیاق رکھتا ہوں اور تری صحبت کی دولت کا دعا گو ہوں۔)
الغرض جگر نے ’’سرِ دلبراں ‘‘ کو براندازِ ’’حدیثِ دیگراں‘‘ پیش کیا ہے
خوشتر آں باشد کہ سرِ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں
(رومیؔ )
لیکن اس ’’حدیث دیگراں‘‘ کا فہم کیسے ہو کہ
’’آں قدح بہ شکست و آں ساقی نماند‘‘ یعنی ’’مگر اک آن جو پہلے تھی کہاں ہے ساقی‘‘ !؟
(جگرؔ )
—-