کشمیر میں اُردو غزل : رجحانات اور امکانات :- بلال احمد میر

Share
بلال احمد میر

کشمیر میں اُردو غزل : رجحانات اور امکانات

بلال احمد میر
یونیورسٹی آف حیدر آباد

کشمیر کے ابتدائی اُردو غزل گو شعرا میں ریختہ کے حوالے سے ملا محسن فانی، میر کمال الد ین حسین رسواؔ ، مرزا عبدالالغنی قبول، محمد حشمت اور مرزا علی نقی محشر وغیرہ ہیں۔کشمیر کی اُردو غزل شروع سے لے کر 1980ء تک ہر اس رنگ کو اپنے اندر سمو بیٹھی جو زمانے کا تقاضا تھا۔

اُس غزل میں کہی غیر ملکی حکمرانوں اور شخصی حکومت کے ظلم و ستم کی داستان اور غلامی سے چھٹکارا پانے کی خواہشوں نے مختلف رنگ و روپ میں شعری تخلیقات میں جگہ پائی۔ اور ابتدائی غزل میں مذہبی موضوعات کا غلبہ پایا جاتا ہے۔1980ء تک کشمیر کی اُردو غزل موضوع، زبان و اسلوب ہر لحاظ سے کامیابی کے افق پر نظر آتی ہے۔ ان شعرا نے اپنے غزلوں میں عالمی تحریکات و رجحانات کو ضرور اپا یا مگر ان کو فیشن کے طور پر نہیں اپنا یا۔ بلکہ عصری مسائل و تقاضے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ لیکن جس دور کے غزل کی بات کی جائے اس دور کی غزل میں کشمیری ثقافت اور تہذیب اور واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۸۰ ء کے بعد کشمیر کی اردو غزل میں احتجاج اور مزاحمت ہر شاعر کے یہاں کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ دیکھا جائے تو سیاست کی گہری چھاپ بھی غزل پر نمایاں ہے۔ جیسے کہ
دیدہ لب سے جو ادا نہ ہوا
لکھ گئے خون شدہ جیوں سے
(حامدی کاشمیری)
لہو لہو تھے مناظر گھروں سے آگے بھی
لٹا چکے تھے بہت کچھ سَروں سے آگے بھی
(خالد بشیر)
سر قلم کرنے کا فرماں واجب توصیف تھا
ایک ایک پل وہ سزائے ناروا دیتے رہے
(حامدی کاشمیری)
اس شہر کے قانون میں یہ مد بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیے
(حکیم منظورؔ )
کھیل اٹھے گا اب کے مقتل میں کوئی منظر نیا
قتل کرنے آرہے ہیں ہاتھ میں ساغر لئے
(مطفر ایرج)
آج کل کے زمانے میں مابعد جدید تنقیدی رویّے نے شعر کے ساتھ مقامیت اور علاقائیت کا رشتہ قائم کرکے اس سے مخصوص سماجی، سیاسی اور تمدّنی آئیڈیا لوجی کے تناظر میں دیکھے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ 1980ء کے بعد کی غزل یہ سارے گھٹن اپنے اندر سمونے میں کامیاب ہوئی۔
مرے بیدزاروں سے واقف کہاں
مزاج ہوا کی سما و اریت
(حکیم منظور)
چنار چہرے میں ان کی کوئی زبان نہیں ہے
سلگ رہیں ہیں کہیں بھی دھواں نہیں ہے
حکیم منظورؔ نے سکوتِ برف بسی، ارض، سیب کی خوشبو، اخروٹ نکلتیں، برف ملبوس، برف کا بستر اور سلگتی برف جیسی ترکیبیں واضع کر کے کشمیر کے ethosکو غزل میں سمونے کی کوشش کی ہے اور اپنی جڑوں سے گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہاں کے مقامیت کو اپنے غزلوں میں استعاروں تو کبھی تشبیہات کا خوبصورت لباس پہنا کر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
برف کے وہ ا شخوانی ہاتھ وہ پاگل ہوا
صبح تک کتنے ہی زندہ شخص دفنائے گئے
(حامدی کاشمیری)
تم کہ برفیلی گپھاؤ میں کہیں بھی نہ ملے
ہم کہ مٹھی میں لئے شمس و قمر آئے تھے
(رفیق راز)
اپنی آنکھوں میں رکھو برف کی قاشیں محفوظ
کہیں رستے میں دہکتا ہوا منظر ہوگا
(سید رضا)
گلوبل وارمنگ جس سے پورا عالم مضطرب و بے چین ہے ۔اس کا ذمہ دار بھی کہیں انسان ہی ہے ۔جس نے لالچ کی بنیاد پر اور گندگی سے پورے ماحولیات میں عدمِ توازن پیدا کیا ہے۔اور یہ ماحول کبھی کبھی انسانیت کے رہنے کے لیے باعث عذاب ثابت ہوتا ہے۔اس موضوع کو بھی کشمیر کی اردو غزل میں مخصوص جگہ مل گئی ہے۔
درختوں سے برے پتّوں کی چادر نوچنے والو
بزرگو ں نے جو بخشی تھیں ردائیں بھول مت جانا
شجر سب کاٹ کر اب پوچھتاہے ہم سے وہ ناداں
جھلستا جا رہا ہوں دھوپ میں کیا کوئی سایہ نہیں
( پرویز مانوسؔ )
اردو غزل میں عاشق اور معشوق ، زاہد اور شیخ، ناصح اور رقیب زندگی اور زمانہ کے حوالے سے راست اور واضح کردار سازی کی روایت رہی ہے۔ یہ کردار عام طور پر شاعر کے تخیل و تصّور کی پیدا وار ہوتے ہیں۔لیکن یہاں کشمیر کی اردو غزل میں عبدل احد کے ساتھ ساتھ فرید پربتیؔ کے یہاں جو کردار سامنے آئے ہیں وہ محض تخیل و تصور کی پیداوار نہیں بلکہ نئے معاشرہ کے مختلف و متضاد حالات و حقائق ، سوچ و فکر اور اعمال اور رویوں کے زائیدہ حقیقی کردار ہیں جو قاری کے اندر عصری زندگی اور زمانہ کے حوالے سے جینے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔
تاریک مناظر کو بدلتا ہوں اکیلا
مرقد کا دیا بن کے میں جلتا ہوں اکیلا
مانا کہ مرے پاؤں لہو رنگ ہوئے ہیں
حالات کے کانٹوں کو مسلتا ہوں اکیلا
(فرید پربتی
اُس کے علاوہ کشمیر کے جدید شعرا میں کئی اہم شاعر ہیں۔ جنہوں نے اپنی شعری تخلیقات میں کشمیر کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کو پیش کیا ہے۔
کشمیر آج جس دور سے گزر رہا ہے اس کا علامتی اظہار بھی آج کے جدید شعرا نے کیا ہے۔ نذیر آزاد، سید رضا، خالد بشیر، فاروق نازکی، فاروق آفاق، نتا نظامی، سیدہ نسرین تقاش وغیرہ وغیرہ کے یہاں ان حادثات و تجربات سے بھر پور زندگی دکھائی دیتے ہے۔ اُن شعرا کی نظر دور دور تک پہنچی ہے۔ اس کے ساتھ ہی نئی جہتوں اور نئے اسالیب اور حالیہ برسوں کی سائنسی ترقی کے اثرات اور زبان پر پوری دسترس پائی جاتی ہے۔ مثلاً
مہ و شان چمن کی بات کرو
زیست کے بانکپن کی بات کرو
(فاروق ناز کی)
اپنی ناگفتہ کہانی کا کوئی لمحہ ہوں میں
تونے کیوں سمجھا کہ تیرے واسطے ٹھہرا ہوں میں
(نذیر آزاد)
وطن سے دور ہو کوئی تو ناگزیر بھی ہے
میں اپنے گھر میں بھٹکتا ہوں اجنبی کی طرح
(فاروق آفاق)
قرارِ جاں کے عوض دل کی وحشتیں بھی گئیں
جنوں کا لطف گیا غم کی لذتیں بھی گئیں
(نسرین نقاشؔ )
1980ء کے بعد کی غزل میں مخصوص تانیثی فکر و فلسفے اور اندازِ بیان کے ساتھ ساتھ مرد اساس معاشرے کے اجبار کے خلاف ایک طرح کا احتجاجی رویہ بھی پایا جاتاہے۔
یہ فرماں ہے اہلِ فکر و نظر کا
محبت کی دولت ہَوس میں نہیں ہے
(نسرین نقاش)
شجر کو دیتی ہوں پانی وہ آگ اگلتا ہے
میں فصل خار کی چنے کو پھول بوتی ہے
(ترنم ریاض)
سانس لیتے ہیں ہم کیسے ماحول میں
جو بھی منظر ہے وہ کربلا سا لگے
(روبینہ میر)
تانیثی فکر کے علاوہ انہوں نے بھی شعری منظر نامے خاص کر غزل میں تغیر پذیر حالات، ماحول، سماج اور نئے عصری مسائل پر شعری مکالمہ کیا ہے اور بہت حد تک شعر، شعریات کے مقتضیات کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہم عصر غزل پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا سامنا ایسی Imagesسے ہوتا ہے۔ جو معاصر سیاسی، سماجی اور تنقؤ حالات کی عکاسی کی بجائے مناظر کی تعمیر کر کے قارئین کے ذہن پر اپنا تاثر مرتب کرتی ہیں۔
اُن کے باطن میں ہیں ثمر کیا کیا
تخم جو خود ثمر ہیں رہتے ہیں
(پرتپال سنگھ بیتاب)
جس نے طغیانی سے تراشا موجۂ صبر و سکون
جس نے ساحل پر اتارا زورِ طوفان کون تھا
(شیب رضویؔ )
پھر وہی وحشت کا موسم لوٹ کر آیا ہے کیا
اک ہوائے مشکبو آئی ہے ریگستان سے
(رفیق راز)
جسم بھی پگھلیں گے سائے بھی نہ ٹھہریں گے
جانے کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہو جائے گا
(فارق مضطّر)
وہ تو آنکھیں ڈھانپ کر سمبی مسافت پر گئے
کیسے کہہ دیں جاگنے کا فیصلہ کس نے کیا
(پروین راجہ)
علامتوں کا ایسا متنوع استعمال اور اسراری اور پیچیدہ فضائیں خلق کرنے کا ایسا ہی طریقہ ہمیں لیاقت جعفریؔ ، شیخ کرّار، سلیم ساغرؔ ، علمدار، امیر چن شادؔ ، سیطہ رضا، اطہر بشیر، سید مبشیر رفاعی، یخ یخ عارفؔ ، رؤف راحت، اقبال صدیقی، سید لیاقت نیر اور دوسرے جدید ترین شاعروں کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ ان شعرا کے کلام میں ڈرامائیت اور تناؤ قدم قدم پر موجود ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان شعرا نے معاصر ھالات سے لے کر ذات اور کائنات کے اسرار و مروز کو علامتوں میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
وہ جو اترے تھے سرِ شام کبھی آنگن میں
چاندنی رات میں دینے کو صدا ہم ہی تھے
(فاروق ناز کی)
شعر میں ایک ساتھ بصری، سمعی اور لمسی پیکر ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مظفر ایرجؔ ، خالد بشیرؔ ، ایاز رسول نازکیؔ ، اقبال عظیم چودریؔ ، رفیق رازؔ ، حسن النظرؔ ، بشیر داداؔ اور اس قبیل کے دوسرے شعرا کے شعروں میں کئی کئی پیکروں کا اد نمام ہے۔
وہ دکھائی نہیں دیتا اس سے چھولیتے ہیں
نقطہ میں، رنگ میں، خوشبو میں، صدا میں ہم لوگ
(سید رضا)
اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ شاعروں نے اپنی غزلوں میں علاقیت کے پیڑ پودوں اور میوات کو بھی علامت کا روپ دے کر غزل میں برتا ہے جیسے کہ
تمہارے آموں پہ کیا گزرتی ہے جانتا ہوں
لہو ہے میرے اخروٹ موسم کی سازشوں سے
(حکیم منظور)
حکیم منظورؔ نے اپنی غزل میں ثقافت کے ایسے نمونے بھر دیئے ہیں جو ہمیشہ ان کو زندہ رکھی گی۔ اور ان عام الفاظ سے غزل کا رویہ بدل ہی گیا۔
یہاں غزل کی شاعری میں انتخاب لفظ (Poetic Diction) پیکر تراشی اور مرتم بحروں کا استعمال بھی خوب پایا جاتا ہے۔ 1980ء کے بعد کی غزل میں حسی اور بصری پیکروں کے ساتھ ساتھ لمسی پیکر بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ
چاندی بھی یہاں پر ہے جھلسی ہوئی
کسی نے گاڑے یہاں سائباں دھوپ کے
(اشرف عادل)

جب کشمیر میں تبدیلیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے تب کشمیر کا شاعر اپنی غزلوں میں امید و بیم، محرومی و نارسائی کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیر کی غزل میں جذبات و محسوسات کی لسانی تشکیل جو سادہ بیانی سے بیان ہوتی ہیں۔ اور یہ غزلیں اکثر جدیدیت سے مابعد جدیدیت کی جانب جست لگاتی نظر آتی ہیں۔ مزید پربتی ،شفق سو پوری، رخسانہ جبیں، اور نذیر آزاد سے لے کر پرویز مانوس اور لیاقت جعفریؔ تک کی غزلون کے اندر داخل ہوتو معلوم ہوگا کہ کشمیر کی اُردو غزل میں مابعد جدیدیت کے عناصر کی بھی کمی نہیں ۔
کشمیر کا ڈسکورس جبر، محرومی اور نارسائیوں کی زائیدہ ایک مخصوص ڈسکورس ہے۔ جس کا اظہار ریاست کے ہر شاعر کی غزل میں محسو س یا نا محسوس شعوری و لاشعوری طور پر لازماً ہورہا ہے ایسے آپ احتیاطاً ’’آرضیت‘‘ کے زیر سایہ ہی تمام تر فنی و جمالیاتی تازہ کاریوں کے ساتھ بلندیوں کو چوم رہی ہے ۔
1980ء کے بعد کشمیر کی اُردو غزل میں درد و کرب کی و ہ تصویر دکھتی ہے ۔ اور خاص کر غزل کا (Diction)بھی بے حد تبدیل ہوتا گیا اور مابعد جدیدیت کے تصّور کو کسی حد تک اپنے اندر سمونے میں کامیاب ہوگئی۔
سڈ رہے ہیں جیل خانوں میں جواں
لٹ رہا ہے خانماں کشمیر کا
(مشتاق کشمیریؔ )
فضائے گلشن ہستی دہک اٹھی ہے شعلوں سے
وفا میں لالۂ خونین کفن کی آزمایش ہے
(سلطان الحق شہیدیؔ )
یہ غزل عشقیہ فلسفے کو چھوڑ کر حقیقی درد کو سونے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ کشمیرکی جدید غزل کا ڈکشن اس طرح تبدیل ہوا۔ جیسے، سیب، بادام، امیری سیب، آخروٹ، سفیدے، کانگڑی، برفازاروں، خوبانی، فرنن ، پیلٹ ، بلٹ ، چنار ،وغیرہ وغیرہ الفاظ کا سرمایہ غزل میں در آئیں ہیں۔ جس سے غزل کا مزاج بھی منفرد اور الگ دکھائی دیتا ہے۔
کشمیر آج جس دور سے گزر رہا ہے۔ اس کا اثر یہاں کے شعرا پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اس لیے عام طور سے کشمیر کے نئے شعرا کے کلام میں محرومی، بے چارگی، شکستگی، نسائی کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں کبھی کبھی ان کے لہجے میں تلخی، نفرت اور بغاوت کی شعبیگی کا احساس تو ملتا ہے اور بہر حال غزل کا یہ سفر ابھی بھی جاری و ساری ہے
BILAL AHMAD MIR
 Room no : 31, Mens hostel ( J) south campus  
University of Hyderabad  
phone no : 9133096072
emi.

Share
Share
Share