سعدئ ہند : مولانا الطا ف حسین حالی
جاگیردار عذرا شیریں
جز وقتی لکچرر ٗ شعبۂ اردو
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر
مشہور ناقد’ امرسن ‘خوابوں اور تصورات کی دنیا کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔اس نے الہامی طور پریہ سمجھ لیا تھا کہ دنیا کس منزل کی طرف جارہی ہے اور اس کی جلد ہی کیا شکل ہونے والی ہے ۔’ایڈسن‘ بھی سہانے خوابوں کا عادی تھا ۔خوابوں کی دنیا بے حد حسین اور دلکش ہوتی ہے اور ادب اسی خواب آوارسہاروں سے ابھرتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔
شمس العلما الطاف حسین حالی نے بھی ایک بڑا خواب دیکھا تھا ۔ قوم کی اصلاح و فلاح کا خواب !وہ تمام عمر اس کی تعبیر میں مصروف رہے۔کبھی نثار و شاعر کی حیثیت سے تو کبھی محقق و نقاد کے روپ میں ۔حالی رسمی شاعر نہ تھے ۔قافیہ پیمائی ان کا مطمحِ نظر نہ تھا ۔وہ عمل کے خوگر تھے ۔ قومی خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنا ان کا مقصدِ حیات بن گیا تھا۔وہ ادب میں اصلیت و سادگی کی شمولیت کے شدید خواہش مند تھے۔انہی ارفع و اعلی ٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے حالی نے شدید نا موافق حالات کا سامنا کیا ۔مشکلات کے بھنور میں گھر کر بھی ٗمصائب کو جھیل کر بھی وہ ہمیشہ مسکراتے رہے ٗ انہوں نے نا کامی پر کبھی اشک نہیں بہایا۔مبالغہ ،صنائع بدائع ،لغویات سے احتراز کلی کیا۔ان کی غیر معمولی کاوشوں اور خدمتِ قوم کے جذبے نے انہیں قومی و اصلاحی شاعر کا مقام دلوایا۔
حالی محض کسی ایک شخصیت کا نام نہیں ہے،بلکہ ،قومی مزاج ،عقیدے اور عہد کا نام ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مسلسل اہلِ اردو کی زبانوں پرجاری وساری ہے۔حالی فخرِ مشرق تھے۔وہ کسی دیس ،دیار و امصار یا ایک زمانے کے شاعر نہیں بلکہ ہردور میں انہیں پڑھا جاتا ہے۔ان کی شاعری زماں و مکاں کی پابند نہیں ،ان کے ادبی اقدار دائمی ہیں اوشاعری زندگی کا آفاقی پیام ۔
حالی نے پانی پت کے ایک غیور اور شریف خانوادہ 1837مطابق ھ1253میں آنکھیں کھولیں ۔ان کے والدِ ماجد کا اسمِ گرامی خواجہ ایزد بخش کا شجرہ صحابی رسول حضرت ایوب انصاری سے جا ملتا ہے ۔اور والدہ سادات گھرانے کی سید زادی تھیں۔زمانہ کی مشکلات اور میعشت گوناگوں مسائل نے حالی کی والدہ کے نازک دماغ کو ماوف کر دیا تھااور صغر سنی ہی میں والدِ مرحو م کی شفقت نے بھی سات چھوڑدیا۔اس وقت حالی کا سن نو برس کا تھا۔خواجہ امداد حسین اور بہنوں نے کم سن بھائی کی پر ورش کی ۔تعلیم کا فطری شوق تھا لیکن ظاہری سامان کا فقدان تھا۔قصبہ کے مدرسوں ،خانقاہوں کے مقدس بزرگوں اور اساتذہ کی صحبتِ صالحہ سے درسِ نظامیہ حاصل کیا۔کلامِ پاک کے حفظ کرنے کی سعادت بہت کم عمری میں حاصل کی۔حالی بچپن ہی سے سیماب صفت واقع ہوئے تھے۔ابتدا میں کچھ صرف و نحو اور منطق کی کتابوں کا درس حاصل کیا ،ابھی تشنگئی علم باقی تھا کہ بھائی امداد حسین کے اسرار پر شادی طئے کر دی گئی ۔بظاہر ترقی کی شاہراہ رک گئی ۔لیکن حالی کے خالص جذبہ علم نے ہار نہ مانی اور دلی روانہ ہوگئے۔اس ہجرت سے زمانہ بدل گیا۔اندازِ فکر میں تبدیلی آئی اور ارادوں میں رفعت و عظمت پیدا ہوئی۔شفیق اساتذہ کی فکر و نظر کی گہرائی کے آثار اب ان میں ابھرنے لگے اور بچپن کے خواب نئی تخلیق کی دستک دینے لگے۔سماجی شعور کی گہرائی اور فکری و فنی رعنائی کا ناقابلِ تردید ثبوت ان کے کلام سے ملنے لگا۔شیفتہ، غالب ،صہبائی ،آزاد کی صحبت رنگ لائی۔ حالی کی تخلیقی قوت تیزی سے ابھرنے لگی۔روایتی اور عشقیہ شاعری کے پر خچے حالی نے اڑائے اور شاعری کو اخلاقی پیام کا وسیلہ بنایا۔بتایا کہ وہ قوموں کو جگا بھی سکتی ہے اور سلا بھی سکتی ہے ۔وہ اقوامِ عالم کی انفرادی سیرتیں بگاڑ بھی سکتی ہے اور بنا بھی سکتی ہے۔واقعیت اور اصلیت کو حالی نے کبھی نظر ں انداز نہیں کیا۔یہی حالی کا کمال تھا جس سے انکار مشکل ہے۔ (2)
قیامِ لاہور کے دوران مشہور تذکرہ نگار محمد حسین آزاد سے حالی کا تعارف ہوا۔آزاد کے ساتھ حالی نے نظمِ جدید کی شاعری کو رواج دینے میں کوششیں کیں ۔اس جدید حلقہۂفکر و اد ب کی چار نشستوں میں حالی نے مسلسل چار نظمیں بعنوان برکھا رت ، تعصب ،انصاف اور حبِ وطن لکھیں ۔یہ نظمیں دلچسپ ،دلکش اور شیریں تھیں ۔حالی کی مقبولیت پہلے نوا ح ہند اور بعد میں پوری اردو دنیا میں پھیلنے لگی اور جدید شاعری کے اولین معماروں میں حالی کا نام مشہور ہو گیا۔اسی اثنا میں سر سید سے حالی کی ملاقات ہوئی ۔اور جلد ہی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ حالی سر سید کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ پروانہ وار اس شمع ادب کے گرد طواف کرنا فرضِ منصبی سمجھنے لگے۔سر سید کی تحریک نے حالی کو بے حد متاثر کیا اور سر سید کے مشورے پر ہی انہوں نے مسدسِ حالی کی عظیم پیشکشی کی ۔ مسدس حالی نے دنیائے ادب میں انہیں وہ مقام عطا کیا جو کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔
مسدس مسلمانوں کے روشن ماضی اورخستہ حال سمندرکے جوار بھاٹوں کا کھلا مرقع تھا۔اس نظم میں حالی نے مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالات کا نقشہ اس انداز سے کھینچاکہ عقل والوں کے لئے عبرت و عمل کے دروازے کھلے اور نادانوں کے لئے تنقیص و تقریض کے ۔نوجوانوں کے لئے یہ نظم اخلاقی صحیفہ ثابت ہوئی اور دماغی و قلبی مریضوں کے لئے نسخہ کیمیا ۔سر سید کو اس نظم کی تاثیر نے یہ کہلوایا کہ
’’جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا؟ میں کہوں گا حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں اور کچھ نہیں‘‘ (1)
اک طرف مسدس کی دھوم پورے برِصغیر میں مچی تھی تو دوسری طرف علماء اور شعرا اسکی تردید کے درپے تھے۔ چوں کہ،حالی نے امراء و حکام کی شہرت پرستی ،تصنع سے پر شعرا اور کاہلی و بدعات میں گری عوام کی سچی تصویر کشی کی تھی۔غرض ہر کس و ناکس نے مسدس کو اپنے اپنے نظریات کے مطابق جانچا اور پرکھا اور وہ وقت بھی جلدی آیاکہ باطل پرستی اور اقتدار پرستی کی فضا چھٹی،آفتابِ حقیقت چمکا اور بقول ڈاکٹر صالحہ عابد حسین ’’سید احمد کی بدولت قوم کو شاعر مل گیا اور شاعر کو قوم ۔‘‘
وقت کے بہتے دھاروں کے ساتھ معاشرے کی صورتِ حال بگڑتی جارہی تھی ۔ان حالات میں ملک کے دو مشہور مصلحین نے مسلمانوں کا ہاتھ تھاما۔سر سید نے قوم کے دامن پر انگریزوں کا لگایا ہوا غداری کا داغ دھویا اور حالی نے مسدس کے ذریعے عوام کو خوابِ غفلت سے جگایا۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ
’’ظاہر ہے کہ جس نظم نے سات کروڑ آدمیوں کی قسمت بدل دی ہو اس کی اہمیت کس قدر ہوگی اور اس میں شک نہیں کہ مسدس دنیا کی پانچ سات اہم ترین طویل نظموں میں سے ہے ۔حالی اگر قوم کا یہ مرثیہ لکھ دیتے اور اس کے علاوہ کچھ نہ کرتے تب بھی قوم کے محسنوں میں ان کا شمار سر سید اور محسن الملک کے ساتھ ہوتا۔‘‘(2)
قومی اصلاح کا کام سر سید کے لیے آ ندھی میں چراغ جلانے کا کام تھا ٗ تاہم اس چراغ کی حفاظت میں کئی پروانے سامنے آئے ۔جس وقت تجدیدِ ملت کی تحریک شروع ہوئی ۔مخالفت اور موافقت کا طوفان امڈآیا ۔سر سید کے مختلف رفقا و انصار بھی شاملِ تحریک ہوئے،گو طعنۂ اغیار سہتے رہے لیکن کسی کی جبین شوق پر مطلق بل نہ آیا۔حالی نے اس تحریک کو بہت غور و فکر اور فہم و بصیرت کے ساتھ ملا حظہ کیا اور تحریک کے نصب العین کو دیرینہ خوابوں کی تعبیر کہا ۔
قومی تہذیب و تمدن کے تارو پود کو مرتب کرنے میں حالی نے عملی حیثیت سے مفید اور دیر پا خدمات انجام دیں ۔مسلمان قوم کو سید احمد کے عزائم میں اپنے ما ضی کی عظمت نظر آئی اور حالی کو شفیق خضرِ راہ ۔سر سید کی توجہ سے حالی نقیبِ قوم اور علوم جدیدہ کے علم بردار بنے ۔اس طرح حالی کو مشیر مل گیا اور سر سید کو ’’سعدئ ہند ‘‘۔ (3)
محسنانِ قوم سے استفادہ اورمغرب سے واقفیت نے حالی کے فکری قرطاس پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔لاہور بک ڈپو میں ملازمت کے دوران مغربی افکار و ادب کی روشنی سے وہ بے حد متاثر ہوئے۔ حالی ٗ میتھیو آرنلڈ کی ادبی توازن کو پسند کرتے تھے۔آرنلڈ انگریزی ادب کو یورپ کی جملہ ثقافت سے ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا ۔اسی طرح حالی بھی اردو ادب کو ہندوستان کی ہمہ گیر ثقافت کا نمونہ بناناچاہتے تھے ٗ چناں چہ وہ اس ہمہ مقصدی کام میں جٹ گئے ۔کہا جاتا ہے کہ ماحول ادیب کو بناتا ،سنوارتا ہے لیکن جب ما حول میں بگاڑ آجائے تو ادیب ہی ماحول کی از سرِ نوتعمیر میں مدد کرتا ہے۔حالی کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماحول نے حالی کو پیدا کیا اور بدلے میں انہوں نے حسین ا رو صاف ستھرا ادب ورثہ میں چھوڑا۔
حالی پہلے نقاد ہیں جنہوں نے تجربات میں فرق کرنا سکھلایا، ادبی قدروں کااحساس دلایا ۔تاریخی و تنقیدی شعور ،بالیدگی ،تفکر ،احساس ،ماحول، سادگی اور تہذیبی افکار ان کی ترقی پسندی کے زوردار نعرے تھے۔ مسدس کے بعد انہوں نے بہت سی اور نظمیں لکھیں جن میں حقیقت کے دفتر پنہاں ہیں ۔1893 میں حالی نے ’’مقدمۂ شعر و شاعری ‘‘ کے ذریعے تنقید کی بنیاد ڈالی ۔معیارِ اصول و ضوابط ترتیب دیے ٗ مگر اہلَ قلم کاایک طویل سلسلۂ مضامین ’’مقدمہ‘‘ کے خلاف نکلتا رہا۔جو بے تکے مہمل اعتراضات سے بھرا پھکڑ پن ا ور بھپتیوں کا لگاتار سلسلہ تھا ۔
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
میدان پانی پت کی طرح پا ئمال ہے
اسی طرح ’’ دلّی دلّی کیسی دلّی ٗ پانی پت کی بھیگی بلّی ‘‘ حالی خاموشی سے یہ خرافات سنتے رہے لیکن ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا۔ان کا جواب ایک ہی تھا ۔
کیا پوچھتے ہو کیوں کر سب نکتہ چیں ہوئے چپ
سب کچھ کہا انہوں نے پر ہم نے دم نہ مارا
بالآخر ایک وقت آیا کہ نکتہ چینوں کی زبانیں بند ہو گئیں اور وہ جو ان کو شاعر نہیں مانتے تھے ٗ بتدریج ان کی تقلید کرنے لگے ۔بقولِ حالی
ع غل تو بہت یاروں نے مچایا پر گئے اکثر مان ہمیں
حسرت موہانی نے جب علی گڑھ سے ’’اردوئے معلی ‘‘ جاری کیا تو مولانا حالی کی شاعری پر اعتراضات کا سلسلہ شروع کردیا۔مولانا جب علی گڑھ گئے ٗ تب مولانا زین العابدین نے انکو کچھ پرچے اردوئے معلی کے عمداََ پڑھ کر سنائے جس میں حالی کو مخربِ زبان لکھا گیا تھا۔۔حالی ذرا مکدر نہ ہوئے اور مسکرا کہ فرمایا’’نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں ‘‘ان کی زبان سے کبھی کوئی سبک یا غیر مہذب لفظ نہ نکلا جو کسی فرد یا فرقے کی دل آزاری کا باعث ہو ۔حالی میں حد درجہ رواداری تھی۔تعصب نام کو نہ تھا۔غرض معترض لوگوں نے جلد ہی حالی کی تنقید نگاری کا لوہا مانا۔بقول آلِ احمد سرور :’ ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی ۔حالی نے مقدمہ شعر و شاعری کے ذریعے اسے ایک ذہن دیا۔عصرِحاضر کی تنقید اسی ذہنی قیادت کے ذریعے چل رہی ہے۔ آرنلڈ کے علاوہ وڈسورتھ کے نقشِ قدم پر چل کر حالی نے قومی ادب میں ہمہ گیر آفاقیت کے نقوشِ صالحہ ورثے میں چھوڑے ۔یہ ورثہ عظیم نہیں بلکہ عظیم تر ہے۔
حالی نے اصلاح و تنقید کے میدان کے علاوہ پر خلوص نگارشات کا ایسا دلکش مرقع چھوڑا ہے جس میں فطری،قومی اوراخلاقی شاعری کا شمار ہوتا ہے ۔جس کی عمدہ مثال انکی قومی و فلاحی نظمیں ہیں ۔جو بقول مولانا ابوالکلام ’’آزاد سورج کی چمکتی پیشانی ،چاند کا ہنستا ہوا چہرہ ،ستاروں کی چمک ،درختوں کا رقص ،پرندوں کا نغمہ ،آبِ رواں کا ترنم ،پھولوں کی رنگینی ،اور دلکش مناظر کی دلکش ادائیں اپنی اپنی جلوہ طرازیاں رکھتی ہیں‘‘۔(4)
حالی نے فطری شاعری پر زور دیااورخیال و جذبے کو شاعری کا معیار قرار دیا۔مبالغہ اور مضمون آفرینی کی روش سے ہٹ کر سادگی اور فکری وحدت کا نمونہ پیش کیا ۔فلسفیانہ استدلال ،ملی درد اور اصلیت کو حصولِ شاعری ٹہرایا۔جس وقت ادب روایت کے اندھیروں اور فکری افلاس کی تاریکیوں میں قید تھا ٗ حالی نے ندرتِ فکر اورجدتِ بیان کی مشعلیں روشن کیں۔
حالی قدرت کے نظاروں سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے لہذا فطرت کے نقیب بن کر بھی سامنے آئے۔بہار کا موسم ،پھاگن کا مہینہ ،آم کا بور ،کوئل کی کوک ،پپیہے کی صدائیں حالی کو یکساں عزیز تھیں ۔پانی پت میں قیام کے دوران حالی اکثر علی الصبح کھیتوں میں نکل جاتے ۔کاشتکاروں کو دیکھ کر متاثر ہوتے اور انکی سادگی اور جذبہ انسانیت کو سراہتے تھے۔حالی کا خیال تھا کہ ،جب صبح کو طباشیر اپنی رعنائیاں اور صباحتیں چھڑکتی ہوئی آتی ہے تو اس وقت تمام تخلیقی عشرت کدے اور غربت کدے یکساں لطف اندوز ہوتے ہیں ۔کیوں کہ فطرت کبھی کسی کو محروم اور کسی کو شاد کام دیکھ کر خوش نہیں ہوسکتی۔حالی کی مثنوی حب الوطن ،مناظرہ رحم و انصاف ،نظمیں برکھا رت ،نشاطِ امید ،مناجاتِ بیوہ اور چپ کی داد ،علم و ادب میں بڑا کارنامہ ہیں۔ان کی فطری سادگی ،الفاظ کی نشست ،صفائی ،اظہارِبیان اور خیال کا حسن قاری کو بے اختیار کھینچتا ہے۔نیز حالی کا خلوص دل پر اثر کرتا ہے۔ بقول منشی دیا شنکر نسیم:
’’اگر کسی ادیب کو اردو ادب میں خلوص کی تلاش مقصود ہو تو اس متاعِ گم شدہ کی نشان دہی حالی ہی کے ادب میں مل سکتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حالی کی تابناک حیات نئی نسل کے لئے مینارہء روشن کا حکم رکھتی ہے ۔‘‘(3)
مقصدی ادب کا عروج اور پیامی شاعری کی نشر واشاعت بھی حالی کے ذریعے سے ادب میں عام ہوئی۔’مناجاتِ بیوہ ‘ اور ’چپ کی داد ‘ اس کی عمدہ مثال ہیں ۔ان نظموں میں دل کے ٹکڑے ،خون کی بوندیں اور قلبِ زار کی دھڑکنیں ہیں۔آج بھی کوئی حساس قلب بغیر آنسووں کا خراجِ عقیدت نچھاور کیے بغیر نہیں پڑھ سکتا ۔زبان سادہ،سبک اور نرم ہے ۔عورت کی جلیل القدر شخصیت ،خدمت اور مصیبت کا پیش کرنا حالی ہی کا کمالِ فن ہے۔قرانِ مجید کے’ سورہ النساء‘ سے حالی نے استفادہ کیا اور عورت کی عظمت کو بیاں کرتے چلے گئے۔چند منتخب اشعار اس طرح ہیں :
اے ماؤ ،بہنو،بیٹیو دنیا کی عزت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمہیں ،قوموں کی عزت تم سے ہے
فطرت تمہاری ہے حیا طینت سے ہے مہر و وفا
گٹھی میں ہے صبر و رضا انسان عبارت تم سے ہے
حالی کی دوسری اصلاحی نظم ’’مناجاتِ بیوہ ‘‘ ہندوستان میں بیوہ عورت کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے ۔ حالی کے حساس قلب نے عورت پر ہونے والے بے جا استحصال کو محسوس کیا اور عورتوں کے حقوق دلوانے کی کوششیں کیں ۔دریں اثنامولوی نذیر احمد کی کتاب ’ایامی ‘ کے خلا ف عوامی غصہ تیز ہونے لگا ایسے نازک وقت میں حالی ہی نے لو گوں کو احکامِ قرآن سنا کر خاموش کروایا۔اور مناجات لکھ کر ایک کم سن بیوہ کے حالات کی منظر کشی کی۔وہ حقوقِ نسواں کے حامی تھے اور قرآن میں بیان کردہ حقوق کو بے کم و کاست نافذ کروانا چاہتے تھے۔
حالی کی قومی شاعری کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ’حالی محبِ وطن پیدا ہوئے تھے ‘ قدرت نے ان کے اندر اصلاح کی لازوال صلاحیت ودیعت کی تھی۔ان میں نیکی ،ہمدردی اور انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔نیز غدر کے دوران اہل ہند کی شکست و ریخت نے بھی ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا کی۔جس نے الطاف حسین خستہ کو الطاف حسین حالی بنادیا۔وطن کی صورتِ حا ل نے حالی کو بے چین کردیا۔ایسے میں انہوں نے اپنی زبان وقلم کو ہتھیار بنایا اور وطن کی تعمیر کے لئے آگے بڑھے۔ یہ بات نہایت یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حالی سے پہلے اردو شاعری میں وطن سے ویسی محبت کا اظہار جسے ہم حبِ وطن کہ سکتے ہیں نہیں ملتا۔دلی کی تباہی کا نقشہ اکثر شعرا کے یہانں ملتا ہے لیکن وطن سے محبت کی تڑپ پہلی بار حالی کے کلام میں ہی نظر آتی ہے ۔(5)
’حبِ وطن ،مناظرہ رحم و انصاف ،برکھا رت ،مسدس جیسی نظمیں حب الوطنی کا جذبہ رکھتی ہیں۔برکھا رت کی فضا خالص ہندوستانی ہے ۔اس نظم میں حالی نے اپنے وطن پانی پت کو یاد کیا ہے۔ غرض اس میں مقامی جذبہ غالب ہے ،جبکہ حبِ وطن میں یہی جذبہ وسیع تر ہو کر ملکی اور قومی ہوجاتا ہے۔ یہ اردو کی پہلی نظم ہے جس میں سادہ اور عام فہم انداز سے وطن کا راگ الاپا گیا ہے اور مل جل کر دکھ سکھ بانٹنے کی نصیحت کی گئی ہے۔اس کے ہر مصرعے میں محبت کی کسک پائی جاتی ہے مثلاََ
تیری اک مشتِ خاک کے بدلے لوں نہ ہر گز اگر بہشت ملے
ایک جگہ وطن کے لئے فکر مندی کا احساس دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو اٹھو اہلِ وطن کے دوست بنو
مرد ہو تو کسی کے کام آؤ ورنہ کھاؤ پیو چلے جاؤ
جب کوئی زندگی کا لطف اٹھاؤ دل کو دکھی بھائیوں کی یاد دلاؤ
بلا شبہ حبِ وطن سے حالی کی سیاسی،سماجی ،معاشی اور تعلیمی فکر و نظر کا پتہ چلتا ہے۔ مسدس حالی کا شمار قوم و ملت کی محبت اور اصلاح کے لئے ہوتا ہے ۔غرض حالی کی زندگی ملک و ملت کی تعمیر کے لئے وقف تھی۔اور وہ سچے محبِ وطن تھے ۔ رام بابو سکسینہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا کی سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ مشہور تصنیف ہے یہ ایک نیا دور پیدا کرنے والی کتاب ہے ۔۔۔یہ ایک نیا تارہ ہے جو اردو کے افقِ شاعری پر طلوع ہوا ۔اس سے ہندوستان میں قومی اور وطنی نظموں کی بنیاد پڑی اور اس نے ثابت کر دیا کہ ایسی پر اثر اور پر درد نظموں کے واسطے مسدس نہایت موزوں چیز ہے۔‘‘(4)
حالی کی شاعری کاایک حصہ بچوں کے لئے بھی ہے ۔ان کو صرف بڑوں کے اصلاح کی ہی فکر نہ تھی بلکہ بچوں کی تربیت کا خیال بھی بہت زیادہ تھا۔سچ تو یہ بھی ہے کہ وہ بچوں سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔انہوں نے بچوں کے لئے بھی نظمیں لکھی ہیں ٗ جس کی زبان میٹھی ،سرل اور آسان ہے۔اپنی کئی نظموں میں حالی نے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ بڑوں کا کہنا مانیں اور اچھے انسان بنیں ۔کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لئے لکھنا مشکل فن ہے ۔لیکن بقول صالحہ عابد حسین :
’’بڑا شاعر جب بچوں کے لئے بھی کہتا ہے تو ان کے دل میں شعر کا حسن اور دلکشی کا احساس جگاتا ہے۔‘‘(5)
شاعری کی عمدہ صفات سے متصف مو لاناحالی بہترین نثار بھی تھے۔ان کی نثر بھی اپنے رنگ میں دلکشی اور سادگی کی وہی شان رکھتی ہے ٗ جو انکی نظم میں ہے ۔عبارت کی سلاست ،روانی کے ساتھ معنی کی صحت اور لہجہ و متانت کا امتیاز مولانا نے یکساں رکھا ہے۔ یہی خوبیاں ان کی نثر کی رفعت ہیں۔اردو میں سوانح نگار کی حیثیت سے حالی ہی کو اولیت حاصل ہے۔اگر چہ مولانا حالی نے پانچ سوانح عمریاں لکھی ہیں ،تذکرہ رحمانیہ ، حیاتِ سعدی ، سوانح عمری حکیم ناصر خسرو ، یاد گارِ غالب اور حیاتِ جاوید ۔ان میں سر سید ،سعدی شیرازی اور غالب کی سوانح عمریوں نے واقعی حیاتِ جاوید حاصل کی۔’ ’’ حیاتِ سعدی ‘‘ مولانا سعدی شیرازی جیسے معمارِقوم و ملت کی سوانح ہے۔اسے اخلاقی اور روحانی عناصر کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے ۔حالی نے سعدی کے کلام کو معجزہ سے تعبیر کیا ہے اور ان کی زندگی کو عملی نمونہ بتایا ہے ۔’ ’حیاتِ جاوید ‘‘قوم کے مخدوم سر سید کی سوانح عمری ہے ۔اس کے لکھنے کا بڑا مقصد قوم کو مشعلِ راہ دکھانااورقوم کے عزائم میں بلندی پیدا کرنا ہے۔حیاتِ جاوید پر بھی سخت تبصرے ہوئے لیکن بقول اشتیاق احمد ظلی’’ ایک شریف انسان نے ایک شریف انسان کی داستان لکھی اورآشنائے فن ہو کر لکھی ۔‘‘جبکہ غالب کی سوانح ،غالب شناسی کا اہم وسیلہ ہے۔ہند کے اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ حالی نے غالب کی اعلی قدروں کو نمایاں کیا ہے۔ان کے افکار و خیالات کو ملک و قوم کے لئے بہترین سرمایہ کہا ہے۔حالی نے مقالات ،مضامین اور خطوط بھی تحریر کئے ،جو عمدہ نثر کی بہترین مثال ہیں ۔(6)
مولانا حالی نے پہلی بار متعفن معاشرے کی گندگیوں کو دور کر کے آنے والی نسلوں کو پاکیزہ اور صحت مند سماج کی تشکیلِ نو سے آشنا کیا۔انسانیت کو ملحدانہ سیاست کی پیچیدہ اور خاردار پگڈنڈیوں سے ہٹا کر اخلاق اور محبت کی بے خطر شاہراہ پر گامزن کیا۔عالم گیر فرقہ پرستی ،قوم پرستی اور وطن پرستی کے تنگ نظریوں سے آزاد ہو کر اصلاحی لائحہ عمل پیش کیا۔حالی کے کلام نے اردو ادب پر بہت خوشگوار اثرات مرتب کئے ۔اسی کا طفیل ہے کہ اردو شاعری نے سادگی ،اور اصلیت سے واقفیتِ کلی حاصل کی ۔مولانا جادو بیان یا خوش تقریر مقرر نہ تھے۔لیکن ان کی باتوں میں ایسا خلوص تھا کہ لوگ خود بخود ان کی طرف کھینچے چلے آتے تھے۔اغیار سے بھی تعلقات مخلصانہ تھے ،ہمدردی کا یہ حال تھا کہ دوسروں کا درد دیکھ کر تڑپ جاتے تھے۔اعلی پایہ کا شاعر و ادیب ہونے کے باوجود طبیعت میں حد درجہ عجز و انکسار تھا۔یہ وہ خوبیاں ہیں جو دلوں میں گھر کرلیتی ہیں اور محبت پیدا کرتی ہیں۔
حالی کا مقصدِحیات انسانیت کا عروج تھا۔ان کا عقیدہ تھا کہ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان اپنے ذاتی کردار،بلند اخلاق ،ایقان اور عمل سے تقدیرِامم بدل سکتا ہے ۔تمام عمر حالی اسی مقصدِحیات کی روشنی بکھیرتے رہے اور کامیاب ہوئے۔ والہانہ سپردگی،لطیف غنائیت ،مزاح میں توازن ،غیر معمولی گہرائی و گیرائی اور بے نظیر خلوص و انکسارحالی کی وہ عمدہ خوبیاں تھیں جو معاصرین کے کلام ،کردار یا گفتار میں شاذشاذنظر آتی ہیں۔حالی کی نگارشات کا اعتراف زمانے نے کیا اور کرتا رہے گا ۔علامہ اقبال نے مو لانا حالی کی رحلت پر بتایا ہے کہ شبلی نعمانی کی نا گہانی موت کا ماتم ابھی کم نہ ہوا تھا کہ حالی بھی دنیا ئے فانی کو خیر باد کہتے ہوئے سوئے فردوس روانہ ہو گئے ۔
خاموش ہوگئے چمنستاں کے رازدار
سرمایہ گداز تھی جن کی نوائے درد
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالی بھی ہو گیا سوئے فردوس ر ہِ نورد
—–
حوالہ جات:
1۔ مولانا الطاف حسین حالی: (مجموعہ مقالات و سمینار ) مرتبہ:اشتیاق احمد ظلی ص 57 دارالمصنفین علی گڑھ 2015
2۔ موجِ کو ثر : شیخ محمد اکرام ۔ص 126 ادبی دنیا ٗ مٹیا محل دہلی 1998
3 ۔ حالی کا نظریہ شاعری : ناظر کاکوروی ص 84 ادارہ انیس اردو ،الہ آباد 9 195
4۔ حالی فن اور شخصیت : شمیم فاروقی ص 104 ہریانہ ساہتیہ اکادمی 1986
5۔ بچوں کے حالی : ڈاکٹر صالحہ عابد حسین ترقی اردو بیورو ٗ نئی دہلی 1983ٍ ٍ
—–
جاگیردار عذرا شیریں
ایم۔اے۔نیٹ ٗ جے آر ایف (پی ایچ۔ڈی )
جز وقتی لکچرر ٗ شعبۂ اردو
مہاراشٹرا اودے گری کالج ٗ اودگیر
Mob:7721952754