ڈاکٹر حامد اشرف
چیر مین ٗبورڈ آف اسٹڈیز ان اردو ٗ
سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی ٗ ناندیڑ
Email:
جدید اردو غزل
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے غزل کو ’’ اردو شاعری کی آبرو‘‘ کہا ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ اردو غزل واقعی آبروئے شعرِ اردو ہے ۔ صدیوں کے عبور و مرور کے باوجود یہ صنف آج بھی موجبِ دلکشی ہے ۔اس صنف پر اعتراضات بھی ہوئے ٗ لیکن اردو غزل کا جادو آج بھی قائم ہے۔تجرباتِ انسانی کی دنیا چوں کہ محدود نہیں ٗ اس لیے غزل کی قوتِ اظہار بھی کسی حد کو گوارا نہیں کرتی ۔ انسان کے متنوع خیالات کی رنگا رنگی سے صنٖف غزل رنگین ہو گئی ہے۔
غزل میں سوز و گداز کی دنیا بھی آباد ہوئی ہے اور محبوب کے حسن و جمال کی محفل بھی سجائی گئی ہے ۔لیکن ہر دور میں غزل نے اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے ۔غزل آپ بیتی بھی اور جگ بیتی بھی ۔غزل کی داخلیت اہلِ احساس کو متاثر کرتی ہے ۔اس کا دائرہ چوں کہ زندگی اور زمانے کو محیط ہے ٗ اس لیے اس کے اختصار میں ایک جہانِ معنی ٰ آباد ہوتا ہے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جدید اردو غزل کا آغاز ہندوستان کی پہلی جنگِ آزادی کے بعد ہوا ۔مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے جدید اردو غزل کی بنیاد ڈالی ۔اس روایت کو بعد کے زمانے میں علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی نے آگے بڑھایا اور نئی رو ش پیدا کی ۔اسی طرح علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک نے ادب ٗسماج اور سیاست کی تاریخ میں جو فعال کردار ادا کیا ٗ اس کی اہمیت سے کسی کو انکار ممکن نہیں۔
گزشتہ چھے دہائیوں کے دوران اردو غزل میں جو تبدیلیاں اور اضافے ہوئے ٗ اس میں ترقی پسند شعرائے اردو اور جدید غزل نگاروں کا بڑا حصہ ہے ۔یہ غزل کی ہمہ گیری اور گہرائی کا بین ثبوت ہے کہ اس نے دبستانِ دہلی کے زیرِ اثر آہ و فغاں اور نالہ و فریاد اور داخلیت کے تاثرات قارئین میں پیدا کیے تو دبستانِ لکھنو کے تحت عیش کوشی ٗ ظاہر داری اور عامیانہ جذبات کے علا وہ محبوب کے لب ورخسار اور ظاہری سراپے کے نقوش گہرے کیے اور بعد کے زمانے میں جدت پسندی کا دور دورہ ہوا تو جدید غزل نے تہذیب و اقدار کے انتشار ٗ ؤہوسِ اقتدار ٗ سیاسی مصلحت اندیشی ٗ فرد کی تنہائی ٗ مذہب کی بے قدری اور انسانی داخلی کرب و اضطراب کی آئینہ داری کی اور ترجمانئ ماحول سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔جدید اردو غزل کا معیار مقرر کرتے ہوئے نامی انصاری لکھتے ہیں :
’’جدید غزل با وجود نئی نئی علا متوں اور اسا لیبِ بیان کے نئے نئے سانچوں کے ٗسننے والوں کو متاثر بھی کرتی ہے اور ان کے ذہنوں کو مسرت و انبساط کا احساس بھی عطا کرتی ہے۔نئی شاعری کا محور عام طور سے تنہائی کا المیہ ٗ وجود کا بکھرنا ٗ چہرے کی غیریت ٗ ذات کا کرب ٗ لفظ کی نارسائی اور شکست خوردگی کی فضا ہے ٗ جسے جدید شعراٗ علامات و استعارات کے نئے نئے سانچوں میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔( 1)
آزادی کے بعدانگریز سامراج کی غلامی کا دور ختم ہوا ۔ بدلے ہوئے حالات میں جن شعراء نے غزل کو نیا موڑ دیا ٗ ان میں ابنِ انشا ٗ خلیل الرحمن اعظمی اور نا صر کاظمی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ان کے علا وہ جنہوں نے غزل کی جمالیات کو نئے تجربوں سے مالا مال کرتے ہوئے عصری زندگی کے مسائل اور تقا ضوں کے تحت جدید غزل کی آبیاری کی ٗ ان میں عبد الحمید عدم ٗ سیف الدین سیف ٗ باقی صدیقی ٗ نشور واحدی ٗ جمیل مظہری ٗ حبیب جالب ٗ حفیظ ہوشیارپوری ٗ صوفی غلام مصطفی تبسم ٗ عزیز حامد مدنی ٗ حمید الماس اور کئی دوسرے شعراء شامل ہیں۔
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ نا صر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے ( ناصر کاظمی)
عجیب سکون کا عالم ہے یاس کا عالم
یہ دلکشی تو غمِ انتظار میں بھی نہیں ( سیف)
ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے حمید الماس
دماغ چپ ہے ٗ تمیز حواس ختم ہوئی( الماس)
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں جدیدیت کی تحریک نے سر ابھارا ۔ جسے ترقی پسند تحریک کا رد عمل کہا جا سکتا ہے۔ اس تحریک کے زیرِ اثر عصری آگہی اور سیاسی مسائل کو جدید غزل نگاروں نے غزل کا موضوع بنایا۔کبھی انسان کے لیے زمین ہی سب کچھ تھی ٗ اُس کے مسائل زمین کے مسائل تھے ٗ اس کی فلاح و بہبودی زمین سے واابستہ تھی ۔پھر وہ زمانہ آیا کہ انساں کو فضا پر دسترس حاصل ہوئی ۔آج چاند اور مریخ انسانی رہ گزر میں ہیں۔جدید غزل نگار وں کے یہ اشعار ملا حظہ ہوں:
یہ مہر و ماہ ارض و سما مجھ میں کھو گئے
اک کائنات بن کے ابھرنے لگا ہوں میں ( جاں نثار اختر )
ہو اکرے گی تعاقب کہاں تلک میرا
کہ مجھ پہ ختم ہے لمحوں کا سلسلہ آخر ( عتیق اللہ)
جدید اردو غزل کے لیے الفاظ کا استعمال ٗ مصرعوں کا در و بست اور ان کی نشست و برخاست خاص اہمیت رکھتی ہے ۔اس میں جذبات اور احساسات کا اظہار بے تکلفی سے ہوتا ہے ۔زبان مروجہ انداز سے دور ٗ عام محاوروں سے پرے ٗ کاروباری زندگی کی زبان دکھائی دیتی ہے۔ غیر رومانی ٗ نا ہموار سی ! اس کو کیا کیا جائے کہ آج انسانی زندگی ہی ایسی ہے ۔غیر شاعرانہ ٗ کھردرا انداز بیان ٗ اکھڑا اکھڑا لب و لہجہ ٗ سخت مجرد الفاظ ٗ یہی جدید غزل کی پہچان ہے۔
جدید غزل نگار کے نزدیک جذبے کی اہمیت ہے ۔وہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کسی شعری اسلوب اور پر تکلف انداز میں کرنا بلکہ جدید شعرا ء کی عمیق فکر ٗ تہذیب سے گہرے تعلق اور ماحول کے مطالعے کا نتیجہ ہے ۔ جدید غزل کا ایک طرف کلاسکیت سے اس کا رشتہ محکم ہے تو دوسری طرف ساخت اور باخت سے نئے پن اور ندرت کا احساس ہوتا ہے۔جدید شعراء کے ہاں ما ضی کے ورثے کے طور پر میر کے لہجے کی غم ناکی اور درد مندی ہے تو غالب کا مفکرانہ اسلوب موج تہہ نشیں کی صورت میں ملتا ہے ۔یہ تقلید میر و غالب سہی ٗ مگر اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ جدید غزل اپنے شاندار اور قابلِ فخر ما ضی سے اٹوٹ اور گہرا رشتہ رکھتی ہے۔
میں سوچتا تھا کہ وطن جا کے پڑ رہوں گا کبھی
مگر فساد میں وہ گھر بھی جل گیا ہے میاں ( جاں نثار اختر)
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد معلوم
کہ تو نہیں تھا ٗ ترے ساتھ ایک دنیا تھی ( احمد فراز )
مرا یہ حشر ہونا تھا ایک دن
کبھی ایک چیخ تھا ٗ اب خموشی ہوں ( سلیمان اریب )
منزل تو خیر کب تھی ہمارے نصیب میں
ہاں یہ ہوا کہ گھر سے بہت دور آ گئے ( اصغر گو رکھپوری )
مختصر یہ کہ جدید غزل اپنے بے شمار اوصاف کے باعث جدید ہے ۔اس میں کچھ منفی رنگ بھی نمایاں ہیں اورکہیں کہیں سطحیت کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ان باتوں سے قطع نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٗ جن خوبیوں کی بنا پر غزل پائیدار ہوتی ہے ٗ وہی خوبیاں جدید غزل میں موجود ہیں ۔جس کے سبب وہ آج بھی سر خرو اور مہتمم بالشان ہے۔
—-
حوالہ جاتی کتب :
1۔ جدید شاعری ۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی
2۔ غزل کا نیا منظر نامہ۔ شمیم حنفی
3 ۔ غزل نمبر ’ فن اور شخصیت ‘ ۔ صابر دت
4۔ آزادی کے بعد غزل کا تنقیدی مطالعہ ۔ بشیر بدر
5۔ اردوغزل کا ارتقا ء۔ پروفیسر مغنی تبسم
—–
ڈاکٹر حامد اشرف
چیر مین ٗبورڈ آف اسٹڈیز ان اردو ٗ
سوامی رامانند تیرتھ مراٹھواڑہ یونیورسٹی ٗ ناندیڑ
Mob:9423351351
Email: