عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ
مصنف:ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی
09247191548
مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل
عصرحاضر میں اردو زبان و ادب سوشیل میڈیا اور ٹکنالوجی کے سہارے ترقی کے مراحل طئے کررہا ہے ۔ اردوصحافت بھی اب آہستہ آہستہ جدید ٹکنالوجی سے جڑ رہی ہے اور اخبارات اب ای پیپر کے عنوان سے آن لائن دستیاب ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب اور کتابی مواد بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
اردو کی مختلف لائبریریز اور لغات بھی انٹرنیٹ کے حوالے سے عام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ اردو درس وتدریس بھی سوشیل میڈیا کے حوالے سے فروغ پارہی ہیں۔ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹکنالوجی نے درس و تدریس کے میدان میں بہت زیادہ آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ اردوٹکنالوجی اور انٹرنیٹ پر درس وتدریس کے حوالے سے ریاست تلنگانہ میں جن شخصیات کے نام نمایاں دیکھے جاسکتے ہیں ان میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹرمحمداسلم فارقی کابھی ہے جو صدرشعبہ اردو اسسٹنٹ پروفیسر گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی اردو کو ٹکنالوجی سے جوڑنے کے سلسلہ میں آگے آگے نظرآتے ہیں اورہرآئے دن سوشیل میڈیا ‘اردورسائل اوراخبارات میں اردو ٹکنالوجی سے متعلق ان کے اہم مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ اردوٹکنالوجی کے حوالے سے ڈاکٹراسلم فاروقی ایک معتبر حوالہ ہے۔
حالیہ عرصہ میں ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی نئی تصنیف ’’ عزیز احمد کی ناول نگاری کاتنقیدی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے، ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی کی یہ چوتھی تصنیف ہے۔ جس کا انتساب انہوں نے’’ اردو کے ابھرتے ہوئے ادیبوں ‘قلمکاروں اور طالب علموں کے نام معنون کیا ہے‘‘۔ یہ کتاب چھ ابواب پرمشتمل ہے ۔پہلا باب اردو ناول کاآغاز وارتقاء1936 تک‘دوسرا باب عزیز احمد کی حالت زندگی شخصیت اورکارنامے ‘تیسراباب عزیز احمدکی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ‘ چوتھا باب عزیز احمد کے شاہکارناول گریز‘ آگ ‘ایسی بلندی ایسی پستی‘ شبم ‘پانچواں باب عزیز احمد کے دیگرناول اورناولٹ برے لوگ ‘تری دلبری کا بھرم خدنگ جستہ ‘‘مثلث‘چھٹا اورآخری باب عزیز احمدکی ناول نگاری کا اجمالی جائزہ کے عنوان سے شامل کتاب ہے۔
اس کتاب کا پیش لفظ مشہور و معروف ناول نگار پیغام آفاقی نے رقم کیا ہے ۔انہوں نے عزیز احمد کی ناول نگاری اور ڈاکٹر اسلم فاروقی سے متعلق لکھا ہے کہ ’’عزیز احمدہندوستان اورپاکستان میں یکساں مقبول رہے اوران کی ناول نگاری اورافسانہ نگاری پرتحقیق وتنقید کا کام ہوتا رہا۔اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ہونہار وابھرتے ہوئے محقق ونقاد ڈاکٹراسلم فاروقی نظام آباد اپنی تحقیقی وتنقیدی کتاب ’’عزیز احمد کی ناول نگاری کاتنقیدی مطالعہ‘‘ کے ساتھ پیش ہورہے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب کے متعلق مزید لکھا ہے کہ مجموعی طورپریہ کتاب عزیز احمد کے ناولوں پر ایک اچھا تعارفی اور تنقیدی تبصرہ ہے۔ عزیز احمدپرتحقیق کرنے والوں کیلئے اس کتاب میں اہم دستاویزات موجود ہیں‘‘۔
اس کتاب میں حرف آغاز کے عنوان سے ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے اپنی بات پیش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عزیز احمدکی ناول نگاری کا دور1931ء سے1966ء تک رہا۔اس درمیان میں انہوں نے8ناول ہوس‘ مرمر اور خون‘ آگ‘ گریز‘ ایسی بلندی ایسی پستی‘ شبنم‘ برے لوگ اور تیری دلبری کابھرم اور چند ناولٹ جیسے خدنگ جستہ ‘جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور مثلث وغیرہ لکھے۔ اردو ناول کی تنقیدی کتابوں اور بیشتر تاریخ ادب کے کتابوں میں عزیزاحمد کی ناول نگاری پرصرف تعارفی تبصرہ ملتا ہے ۔ ڈاکٹرسلیمان اطہر جاوید نے بھی اپنی کتاب عزیزاحمد کی ناول نگاری میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عزیزاحمدپرتفصیلی کام کی ضرورت ہے۔ لیکن عزیز احمد کی ناول نگاری پرکوئی مبسوط کام نہیں ہوپایا چنانچہ اس کتاب کے ذریعہ عزیزاحمد کی ناول نگاری کے بھرپورمطالعہ کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔
ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے کتاب کے پہلے باب میں قصہ گوئی کی قدیم تاریخ ‘حکایات ‘داستان‘ناول ‘افسانہ کے آغازوارتقاء پراجمالی جائزہ پیش کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ عصری رحجانات کوبھی اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔ کتاب کے پہلے باب ’’اردو ناول کے آغاز وارتقاء ‘‘میں ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے ناول کے فن سے متعلق لکھا ہے کہ’’ ناول افسانوی ادب کی وہ صنف سخن ہے جس میں بیانیہ انداز ہوتا ہے ۔قصہ اور واقعات کے ساتھ زندگی کے ایک یا کئی پہلوؤ ں کو ایک مقصد ‘ایک نکتہ نظر کے تحت پیش کیاجاتا ہے۔ اس لیے ناول کوزندگی کی روشن کتاب‘تہذیب کاعکاس ‘نقاد اورپاسبان کہاگیا ہے کیوں کہ اس میں انسانی زندگی کوصداقت کے ساتھ پیش کیاجاتا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب’’ عزیز احمد کی حالت زندگی ‘ شخصیت اورکارناموں ‘‘پرمشتمل ہے۔ اس باب میں ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے عزیزاحمد کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے ۔ان کی علمی اورادبی خدمات کا تذکرہ کیا ہے اورعزیزاحمد کی ناول اوردیگرکتابوں کابھی ذکر کیا ہے۔ عزیزاحمد کی شخصیت سے متعلق ڈاکٹر اسلم فاروقی لکھتے ہیں کہ’’عزیزاحمد ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے‘ ان کی ادبی شخصیت کا ایک زاویہ تنقید میں بھی سامنے آتا ہے‘ ان کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ کو اس تحریک کی تنقیدی تاریخ کادرجہ حاصل ہے اوراس کتاب میں جوغیرجانبدری برتی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ ان کی کتاب’’اقبال نئی تشکیل‘‘ شائع ہوئی تھی تواسے اقبالیات کے باب میں ایک اہم موضوعی کتاب تسلیم کیاگیا۔
کتاب کا تیسرا باب’ عزیزاحمد کی ناول نگاری کاتنقیدی مطالعہ ‘کے عنوان سے شامل ہے جس میں عزیزاحمد کے پہلے ناول ہوس اور مرمر اور خون کا جائزہ لیاگیا ہے۔ ناول ہوس کے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے لکھا ہے کہ ناول میں رومانی خیالات کی منظرنگاری دلفریب انداز میں کی گئی ہے جس میں جنسی تلذذ سے کام لیاگیا ہے۔ اس ناول کی اہم خوبی اس کااندازہ بیان واسلوب ہے۔ رومانی ناولوں میں اسلوب اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔
زیرتبصرہ کتاب کا چوتھا باب ’’عزیزاحمد کے شاہکار ناول گریز ‘آگ ‘ایسی بلندی ایسی پستی ‘شبنم ‘‘کے عنوان سے شامل کتاب ہے ۔ اس باب میں عزیزاحمد کی چار مشہور ومعروف ناولوں کا ذکرکیاگیا ہے اوران کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ہے۔ ناول گریز میں نعیم حسن نامی ایک ایسے ہندوستانی نوجوان کا قصہ پیش کیاگیا ہے جوشہرحیدرآباد کامتوطن ہے۔ ماں باپ کا سایہ سرسے اٹھ جانے کے سبب اپنی زندگی عسرت میں بسرکرتا ہے اورکسی طرح اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے اور ریئسہ خانم کی بیٹی بلقیس سے یکطرفہ عشق کرتا ہے جورشتے میں اس کی چچازاد بہن ہے‘‘۔ نعیم اعلیٰ تعلیم کے لیے یوروپ روانہ ہوتا ہے ۔جب تعلیم ختم کر کے وطن واپس ہوتا ہے توبلقیس کسی اورکی ہوچکی تھی ہوتی ہے اور نعیم شادی سے’’ گریز‘‘ کرتا ہے۔
کتاب کا پانچواں باب’’ عزیزاحمد کے دیگرناول اور ناولٹ برے لوگ ‘‘کے عنوان سے شامل کتاب ہے ۔ ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے اس باب میں ’برے لوگ ‘تیری دلبری کابھرم ‘قدنگ جستہ ‘جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘ مثلث کا جائزہ لیا ہے۔ ’برے لوگ‘سے متعلق ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی لکھتے ہیں کہ ’’برے لوگ میں عزیزاحمد نے زیادہ تر نفسیاتی کشمکشوں کو پیش کیا ہے ۔اس طرح یہ نفسیاتی ناول بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے تحلیل نفسی کے اصولوں کواپناتے ہوئے کرادر وں کی نفسیات کی گرہ کشی کی ہے‘‘
زیرنظرکتاب کا آخری باب’’ عزیزاحمد کی ناول نگاری کااجمالی جائزہ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس باب میں عزیزاحمد کے ناولوں کی فنی خصوصیات کا تنقیدی جائزہ لیاگیا ہے۔ ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے عزیزاحمد کے ناولوں کاجائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ عزیزاحمد کے ناولوں میں نوجوان طبقہ کواپنے عہد کے نمونے میں پیش کیاگیا ہے۔ یہ وہ عہد تھا جس میں مغرب سے آئی ہرنئی بات کوآنکھوں پربیٹھایاجارہاتھا۔ چناں چہ ناولوں میں بھی پرانے فرسودہ موضوعات کی جگہ ایسے موضوعات کوجگہ دی گئی جس میں نوجوانوں کے جذبات اوران کے نفسیاتی کشمکش کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔
بہرحال ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی نے عزیزاحمد کی ناول نگاری کابہت خوب تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ جس سے ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی کی تنقیدی صلاحیتوں کااندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے باریک بینی سے عزیزاحمد کی ناولوں کے موضوعات اور اس کی ہیئت کو تفصیلی طورپر بیان کیا ہے اور اس کے اثرات کوبھی نمایاں کیا ہے۔ ڈاکٹر محمداسلم فاروقی نے عزیزاحمد کی ناول نگاری کے تنقیدی جائزہ کے حوالے سے عزیزاحمد بحیثیت ایک ناول نگار اردودنیا میں دوبارہ روشناس کروایا ہے۔ اردو ناول کی تنقید اور تحقیق کے ضمن میں ان کا یہ تحقیقی و تنقیدی کام لائق ستائش ہے جس کے لیے ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی کو مبارک بادپیش کی جاتی ہے۔ یہ کتاب عصر حاضر میں ناول نگاری سے متعلق اور عزیز احمد پر تحقیقی کام کے لیے بہت مفید ہے ۔ جس کے پیش نظر ریسرچ اسکالرس اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تحقیقی کام کوانجام دے سکتے ہیں۔ اس کتاب کے ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی ہیں ۔ 168صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت300 روپئے رکھی گئی ہے جو ھدیٰ بک ڈپو یا ڈاکٹراسلم فاروقی سے فون نمبر :9247191548 سے ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔
—–