کیا انگریزی عالمی زبان ہے؟
زبید خان
(انشا اردو گائڈ)
غلام کہتے ہیں کہ انگریزی بہت بڑی زبان ہے اور پھر وہ لوگ ایک لے پر جھومنا شروع کر دیتے ہیں ،مست ہو کر ناچنا گانا شروع کر دیتے ہیں ۔ پر ان کے اس گانے میں کوئی لے ،تال اور سر نہیں ہوتا ۔آپ لوگ شاعری یا موسیقی تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں کیوں کہ یہ غلاموں کا گانا ہے۔علامہ اقبالؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
"انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے،یہ علم کی زبان ہے "،یہ ایک ” انٹرنیشنل لینگویج ہے”۔ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن اکڑ جاتی ہے،سینہ پھول جاتا ہے۔گویا یہ ان کے والد صاحب کی زبان ہے جس کی شان بیان کرنا حق پدری ادا کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی اور انگریزی کی بات ہے اس پر میں کئی دفعہ بات کر چکا ہوں اور آپ سب کو یہ باور کروا چکا ہوں کہ ی عقل سے اتنی ہی دور بات ہے جتنا کہ لندن سے نیویارک دور ہے اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ تک نہیں ۔
کئی بار میں ان سائنسدانوں ،انجینئروں ،ڈاکٹروں اور عالموں کی بات کر چکا ہوں جن کا انگریزوں یا انگریزی سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے اپنے شعبے کے امام تھے،نابغہ روزگار تھے۔اس ضمن میں ارسطو،سقراط،ہومر،ارشمیدس
جالینوس،بوعلی ابن سینا،رازی،غزالی،ابن الہیثم اور بقراط سے لے کر پاسچر،آئن سٹائن،لیون ہک،سٹر اسبرگر،لیوازے،بوائل،ٹیگور،اقبال،کانٹ،گوئٹے،ٹالسٹائی،موپاساں،والٹیئر،گورکی،عبدالقدیر خان اور بے شمار دوسرے اشخاص کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اب آ جائیے اس بات کی طرف کہ انگریزی ایک ” انٹرنیشنل لینگویج”ہے۔
اچھا آئیں دیکھیں یہ انٹرنیشنل لینگویج کہاں کہاں بولی جاتی ہے،لکھی،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔برطانیہ،امریکہ ،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ،آدھا کینیڈا اور شاید جنوبی افریقہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یوروپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔برطانیہ کا ایک ہمسایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں آئرش زبان استعمال ہوتی ہے۔جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔
انگریزی پاکستان،ہندوستان ،فلپائن ،زنبابوے،کینیا ،نائیجیریااور یوگانڈا میں بھی ہے ،مگر کتنی ہے ؟یہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں۔اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ زبان ہے یہ بدعنوانی،بد انتظامی،نوسر بازی،دھوکادھڑی،فریب کاری،وطن فروشی اور کئی دیگر گھناؤنے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہے۔اس زبان کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔
اچھااب اگر آپ انگریزی زبان سیکھ کر فرانس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے،اگر روس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے اور یہی حال جرمنی ،سویڈن ڈنمارک ،ناروے،سپین،پرتگال،مالٹا،ترکی،ایران،سعودی عرب،چین،ملائیشیا،انڈونیشیا،کوریا،جاپان اور دنیا کے ۲۰۰ دیگر ممالک میں جانے والوں کابھی یہی حال ہوتا ہے۔ان ملکوں میں جتنے انگریزی زبان کے بولنے والے ملتے ہیں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی اردو زبان بولنے والے بھی مل جائیں اور اس پر طرہ یہ کہ فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انگریزی بولنے والوں سے باقاعدہ نفرت کی جاتی ہے اور ان کو سننے ،سمجھنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
اب جب ہندوستانی اپنے زعم میں انگریزی زبان سیکھ کر اپنے آپ کو چیمپئن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو دنیا کے ان چند ممالک تک محدود کر دیتے ہیں جن میں یہ انگریزی زبان بولی جاتی ہے۔ان کی تعلیم ،ان کی ملازمتیں ،ان کے کاروبار بھی اس حوالے سے محدود ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان انھیں ممالک کا غلام بن کر رہ گیا ہے حالانکہ دنیا ان ممالک کے دائرے سے بہت زیادہ ان ممالک کے دائرے سے باہر ہے مگر ہندوستانیوں کی بد قسمتی ملاحظہ کریں کہ ہمارے غلام حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہمیں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلقات بنانے سے،وہاں جاکر تعلیم حاصل کرنے سے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرنے سے روک دیا ہے۔
اب جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک عالمی گاؤں یا ایک عالمی کمرے میں بدل چکی ہے تو یہ خیال ان کا بالکل غلط
ہے ۔ دنیا سکڑ چکی ہے اور اب یہاں (ان کی دانست میں ) انگریزی کا چلن ہے وہ سوائے احمقوں کی جنت کے گٹر میں رہنے اور اس میں ڈبکی لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہے ہیں۔اب بھلا یہ تو بتائیں کہ وہ یورپی یونین جس کی کرنسی ایک ہے،جس کا جھنڈا (علم) ایک ہے ،جس کی ایک پارلیمنٹ ہے،جس کے رکن ممالک کی سر حدیں ختم ہو چکی ہیں کیا اس یورپی یونین نے کسی ایک زبان کو رابطے کی زبان مان لیا ہے؟ کیا اس یورپی یونین نے انگریزی کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔میں کوئی سائنس کا طالب علم نہیں پھر بھی میں یہ جانتا ہوں کہ اب سائنس کی دنیا میں یونانی،لاطینی اور فرنچ کو انگریزی سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات اور تشریحات میں انگریزی انگریزی کا کوئی مقام نہیں ہے)۔قانون اور طب میں یونانی اور لاطینی کو وہ اہمیت اور مرتبہ حاصل ہے جس کا انگریزی زبان تصور بھی نہیں کر سکتی۔
فٹبال کی بین الاقوامی تنظیم (فیفا) اور اولمپکس (آئی۔ او ۔سی)کی بین الاقوامی تنظیموں کے نام تک انگریزی میں نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں ہیں جن میں سے ایک انگریزی بھی ہے۔بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی واحد سرکاری زبان تک نہیں ہے۔اب جب یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے انگریزی زبان کو کسی قابل نہیں سمجھا تو ہندوستانی کیا یورپی یونین اور کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے زیادہ گلوبلیائی ہو گئے ہیں۔ان کو علم ہونا چایئے کہ دنیا کے اندر ہندوستانی غلاموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان تیار نہیں جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔
بات صرف غلامی کی ہے اور اس سے نہ نکلنے کی ہے اور غلامی ہی کو طرز حیات اور مقصد حیات سمجھنے کی ہے،ورنہ جب انگریز اس ملک سے دفع دور ہوئے تھے ان کے ساتھ ہی اس زبان کو بھی اس ملک سے دیس نکالا دے دینا چاہیے تھا۔
کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غلامی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے ،اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور غلامی سے نکلتے ہی غلامی اور اس کی تمام نشانیوں کو مٹا ڈالتا ہے مگر ہندوستانی قوم ہے کہ غلام رہنے پر اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے پر ،اس زنجیر کو پاؤں میں ڈالے رکھنے پر اور اس طوق کو گردن میں آویزاں کئے رکھنے پر بضد ہے۔
ہے خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے
جی انگریزی ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے