اولیا اللہ:
نورِچشت
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
تارا گڑھ کے درمیان شہر اجمیر میں آفتاب چشت طلو ع ہوچکا تھا جس کے نورسے ہندوستان کی ناقابلِ شکست طاغوتی طاقتیں شکست پرشکست کھاتی جارہی تھیں‘رام دیواورجے پال کاشکست کے بعددرویش چشت کے قدموں سے لپٹنانورِاسلام کی بھیک مانگنا یہ منظرجس نے بھی دیکھاوہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھا اہل اجمیرکواپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھاکہ جادوگروں کے بادشاہ یہ دونوں ناقابلِ شکست جادوگر حلقہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں تو عام انسانوں کی کیا اوقات ہے-
ہندوؤں کے راجہ رائے پتھورا عرف پرتھوی راج جس کی شجاعت بہادری کے ترانے ہندوآج بھی گاتے ہیں اُس کو اپنی عظیم الشان سلطنت پرشکست کے سائے واضح نظر آرہے تھے ‘ہر گزرتے دن کے ساتھ درویش چشت ؒ کا حلقہ بڑھتا جا رہا تھا لوگ جوق درجوق اب حلقہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے ‘ خوا جہ خواجگان نے کلمہ حق کی اذان کیا دی کہ قوی الجثہ بت بھی ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے ہندوستان کے بڑے جادوگردرویش کی جنبش چشم کا مقا بلہ نہ کر سکے ‘راجہ پرتھوی راج کی نیندیں خراب اوردن کا قرارختم ہو چکاتھا‘مسلمان درویش کابڑھتاہوااثررسوخ اُس کی سلطنت کے لیے شکست کاپیغام بنتاجارہاتھا‘ پے در پے شکستوں نے پرتھوی راج کو پاگل پن میں مبتلاکردیاتھااُس کی عقل شعورفہم دھندلاچکاتھااُس کی ساری تدبیریں ناکامی سے دوچارہورہی تھیں لہٰذااب اُس نے مسلمانوں کی اِس چھوٹی سی جما عت کو لشکر کشی کے ذریعے پامال کر نے کا ارادہ کر لیاطاقتورفوج نے اِن نہتے مسلمانوں کو گاجر مو لی کی طرح کاٹنے کاارادہ کیا۔ راجہ کے سارے حواری اُس کے حملے کی تائیدکررہے تھے لیکن ایک بوڑھے مشیر نے راجہ کو اُس کی مرحومہ ماں کی نصیحت یاد کرائی جو اپنے وقت کی بہت بڑی کاہنہ علم نجوم کی ما ہرتھی جو ستاروں کی چال کو پڑھناجانتی تھی ایک رات اُسے ایک پراسرارخواب آیاتواُس نے اپنے بیٹے راجہ کو بلاکرکہافرزندآج ہندوستان کے طو ل و عرض میں تیرے مقابلے پر کوئی نہیں ‘ تیری جرات کے ڈنکے چاروں طرف بج رہے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد یہاں پرایک درویش باکمال آئے گاجوبہت زیادہ روحانی شکتیوں کامالک ہوگااُس کے اشارے پر ہندو صدیوں پرانا دھرم چھوڑکر اُس کے دھرم میں شامل ہو نگے تم اُس درویش سے چھیڑ خانی نہ کرناہوسکے تو اُس کا دھرم اپنا لیناورنہ خاموشی سے وقت گزارنالیکن اُس کی مخالفت اور جھگڑے سے مکمل پرہیزکرنا‘ راجہ نے وہم کہہ کر ماں کوٹالناچاہا تو ماں بولی تم جانتے ہومیں ستاروں کی چال اور علم نجوم میں بھی ماہر ہوں ‘ستاروں کی چال بتا رہی ہے کہ وہ عظیم بزرگ آنیوالا ہے میں نے بہت کو شش کی ہے کہ کسی طرح اُس کے آنے کا وقت معلوم ہو جائے لیکن قدرت نے آنے والے وقت پرپردہ ڈال رکھا ہے میں تمہیں سختی سے منع کر تی ہوں اُس درویش سے لڑائی کر نے کی حماقت کبھی نہ کرناپھر پرتھوی راج کی ماں گردشِ زمانہ کے ساتھ وفات پاگئی اب کئی سالوں کے بعدوہ درویش سر زمین ہندپرآچکاتھا‘ ماں کے مطابق لوگ دیوانہ واراُس کے پیغام پر لبیک کہہ رہے تھے پرتھوی راج اور مشیروں نے بہت بحث مباحثے کے بعدمسلمانوں پر فوجی چڑھائی کاارادہ ملتوی کر دیا اب طے پایاکہ درویش اور اُس کے ماننے والوں پر زندگی تنگ کردی جائے ‘ راجہ اور ہندووں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دئیے تعلقات لین دین ختم کر دیالیکن مسلمانوں نے جرات ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ۔ جب مسلمانوں پر ظلم و ستم کا شکنجہ تنگ ہو نے لگا تو قدرت اور درویش باکمال نے فیصلہ کن چال چلنے کا فیصلہ کیا ۔ ایک دن پرتھوی راج کے دربارمیں درباری اور بادشاہ خوا جہ چشت ؒ کی ذات پر دشنام طرازی کر رہے تھے آپ کو مذاق اور بدتمیزی کر رہے تھے ‘ درباری بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے کہ ان مٹھی بھرمسلمانوں کوہم جب چاہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دیں جب درباری اور راجہ خوا جہ چشت ؒ پر تنقید اور گالی گلوچ کر رہے تھے تو دربارمیں موجود ایک معذوردرباری جو دربارمیں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اندر ہی اندرخواجہ جی ؒ کا عقیدت مندتھا ‘ خا موشی سے درباریوں کی ناقابل برداشت باتیں سنتارہا کیونکہ وہ معذور درباری خواجہ جیؒ سے بے پنا ہ عقیدت رکھتاتھاجب گفتگو ناقابل برداشت حدوں کو کراس کر نے لگی تو وہ درباری شاہ چشت ؒ کی شان میں بو لنے لگا کہ تم سب بکواس کر رہے ہو‘ آنے والا درویش خداکاخاص بندہ ہے جن برائیوں کی تم سب لوگ بات کر رہے ہووہ ایسانہیں ہے وہ تو غریبوں مسکینوں کامسیحاہے وہ توسیدھاراستہ دکھا نیوالا ہے ‘ درباری نے خوب حضرت خواجہ ؒ کی تعریف کی ‘ بادشاہ اور درباری حیرت سے درباری کی باتیں سن رہے تھے ‘ راجہ غصے سے آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگاکہ تمہاری جرات کیسے ہو ئی تم نے ہما رے سامنے اُس درویش کی تعریف کی تم تو آستین میں چھپے سانپ نکلے جن کو میں نے اپنے ہی دربارمیں پال رکھا تھا ‘ راجہ نے حکم دیا کہ درباری سے تمام اعزازات چھین لیے جائیں ‘کنگال کر کے دربار سے نکال کر فاقہ کشوں میں شامل کردیا جائے ‘ خو اجہ جی کے دیوانے درباری نے ادائے بے نیازی سے راجہ اور درباریوں کو دیکھااور باوقاراندازمیں چلتا ہوادربارسے چلا گیا‘ راجہ حیرت سے دیکھ رہاتھا اُسے یقین تھا سب کچھ چھین لئے جانے کے بعد درباری بادشاہ سے معافی مانگے گا ‘ منتیں کر ے گا لیکن اُس نے بادشاہ اور کرسی کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا درباری حضرت خواجہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تودرویش نے شفیق لہجے میں کہا ہمیں تمہا رے ساتھ جو بھی ہوا اُس کاخوب علم ہے تم دل ہلکا نہ کر و ایک دن دوبارہ تم اُسی دربار میں زیادہ عزت سے جاؤ گے ‘ درباری نے کلمہ پڑھا اورمسلمان ہوا ۔ پھر حضرت خوا جہ جی نے درباری کو اسلام کی تعلیمات سکھائیں اور کہا اب تم دوبارہ دربار میں جاکر کلمہ حق کی اذان دو گے کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘کا ئنات کا مالک واحد خدا ہے خو د تراشیدہ بت جو اپنی مرضی سے حرکت نہیں کر سکتے وہ کسی کی مراد کیا پو ری کریں گے درباری نے جاکر بھرے دربار میں پرتھوی راجہ اور اُس کے درباریوں کو دعوت اسلام دینا شروع کی ‘دربارکے در و دیوار جو صدیوں سے جھوٹے خداؤں کی آوازوں سے مانوس تھے آج پہلی بار وہاں اذان حق بلند کی جا رہی تھی راجپوتوں کے کان کلمہ حق سے نا آشنا تھے آج اُن کی سماعتوں میں آواز حق اپنی شیرینی گھول رہی تھی آج پہلی بار راجہ اور درباریوں نے پیغام حق کو اتنا قریب اور واضح انداز میں سنا تھا‘ یہ بادشاہ کی شان میں گستاخی عظیم تھی اِس کی سزا بہت زیادہ تھی پہلے تو خوب مسلمان درباری کو گالیوں سے نوازا گیا پھر اُسے مار مارکر زخمی کر دیا کہ تمہیں جرات کیسے ہو ئی مسلمان درویش کا پیغام حق دینے کی ‘ درباری کو کہہ کر بھیجا اِس سے پہلے کہ میرا قہر مسلمانوں کو خاک میں ملا دے فوری طور پر مسلمان اور فقیر میری سلطنت سے نکل جائیں ورنہ مسلمانوں کو چن چن کر ہلاک کر دیا جا ئے گا ‘ مسلمان درباری خو ن آلودہ کپڑوں کے ساتھ شاہ چشت کے پاس پہنچا ‘ راجہ کا پیغام دیا با قی ظلم و ستم کی داستان درباری کے خون آلودہ کپڑوں سے پتہ چل گئی ۔ شہنشاہِ چشت ؒ جن کے چہرے پر ہر وقت شفیق دلنوازتبسم رہتا تھا اپنے دیوانے کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہو ئے کہ ظالموں نے کس بری طرح پیغام حق دینے والے کو مار مار کرزخمی کر دیا ہے اُس کا زخمی وجود دیکھ کر شہنشاہِ چشت ؒ کے چہرے پرآتش جلال نمودار ہوا آپ شدید غصے اور حالت جذب میں تھے اور بار بار یہی فقرہ کہہ رہے تھے میں نے پرتھوی راج کو زندہ پکڑ کر لشکر اسلام کے حوالے کیا اور پھر یہی واقعہ اہل ہندوستان نے دیکھا ۔